نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اچھا پڑھنے والے حافظ کو امام مقرر کیا جائے اور اختلاف کی صورت میں امامت کے لیے قرعہ اندازی درست ہے؛ لیکن قرعہ میں انہی کے نام شامل کئے جائیں کہ جو قرآن صحیح پڑھتے ہیں۔(۱)

(۱) ثم الأحسن تلاوۃ وتجوید أفاد بذلک أن معنی قولہم أقرأ أي أجود لا أکثرہم حفظاً ومعنی الحسن فيالتلاوۃ أن یکون عالماً بکیفیۃ الحروف والوقف وما یتعلق بہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص:۲۹۵)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص109

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:آفتاب نکل جانے کے بعد مطلع سے ایک نیزہ کی مقدار اوپر آجائے تو اشراق کا وقت شروع ہوجاتا ہے یعنی سورج طلوع ہونے کے تقریباً ۲۰؍ منٹ بعد  شروع ہو جاتا ہے، موسم کے اعتبار سے بدلتے سورج کے طلوع اور غروب کا وقت بدلتا رہتا ہے اس لیے اشراق کے اوقات بھی اسی اعتبار سے رہیں گے۔ وقت اشراق کے ایک گھنٹہ بعد تک اشراق پڑھی جاسکتی ہے ۔بعد میں چاشت کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔(۱)

(۱) {یُسَبِّحْنَ بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْرَاقِ} أي وقت الإشراق، قال ثعلب: یقال شرقت الشمس إذا طلعت وأشرقت إذا أضائت وصفت فوقت الإشراق وقت ارتفاعہا عن الأفق الشرعي وصفاء شعاعہا۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ ص‘‘: ج ۱۳، ص: ۱۶۷)
وعن أنس رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من صلی الفجر في جماعۃ ثم قعد یذکر اللّٰہ حتی تطلع الشمس ثم صلی رکعتین کانت لہ کأجر حجۃ وعمرۃ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب السفر: باب ما ذکر مما یستحب من الجلوس في المسجد بعد صلاۃ الصبح حتی تطلع الشمس‘‘ : ج ۱، ص: ۱۳۰، رقم: ۵۸۶، مکتبہ، دارالکتاب، دیوبند)
وقال الطیبی: أي ثم صلی بعد أن ترتفع الشمس قدر رمح حتی یخرج وقت الکراہۃ، وہذہ الصلاۃ تسمی صلاۃ الإشراق۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح: ’’کتاب الصلاۃ، باب الذکر بعد الصلاۃ، الفصل الثانی، ج۳، ص: ۴۵، رقم: ۹۷۱، مکتبہ فیصل، دیوبند)
ما دامت العین لا تحار فیہا فہي في حکم الشروق۔ (ابن عابدین،  رد المحتارعلی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، مطلب: یشترط العلم بدخول الوقت ‘‘: ج۲، ص: ۳۰)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص82

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا اللّٰہ التوفیق: پہلے بیٹھے گی اور اپنے دونوں پیر دائیں جانب نکال کر سجدہ میں جائے گی۔(۱)

(۱) عن یزید بن أبي حبیب أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مر علی إمرأتین تصلیان فقال: إذا سجدتما فضما بعض اللحم إلی الأرض فإن المرأۃ لیست في ذلک کالرجل۔ (مراسیل أبي داؤد: ص: ۱۰۳؛ ’’باب من الصلاۃ‘‘ السنن الکبریٰ للبیہقي: ج ۲، ص: ۲۲۳)(شاملہ)
عن عبد اللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم:  إذا جلست المرأۃ في الصلاۃ وضعت فخذہا علیٰ فخذہا الأخریٰ فإذا سجدت الصقت بطنہا في فخذہا کأستر ما یکون لہا فإن اللّٰہ ینظر إلیہا ویقول: یا ملائکتي أشہد کم أني قد غفرت لہا۔ (الکامل لإبن عدي: ج ۲، ص: ۵۰۱، رقم الترجمۃ: ۳۹۹، السنن الکبریٰ للبیہقي: ج ۲، ص: ۲۲۳، ’’باب ما یستحب للمرأۃ الخ، جامع الأحادیث للسیوطي: ج ۳، ص: ۴۳، رقم: ۱۷۵۹)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص359

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: دونوں طریقے درست ہیں بشرطے کہ ستر نہ کھلے بغیر سلی لنگی پہن کر نماز پڑھاتے وقت اگر ستر کھل گیا تو نماز نہیں ہوگی۔(۱)

(۱) والمستحب أن یصلي الرجل في ثلاثۃ أثواب: قمیص وإزار وعمامۃ۔ أما لوصلی في ثوب واحد متوشحاً بہ، تجوز صلاتہ من غیر کراہۃ، وإن صلی في إزار واحد، یجوز ویکرہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث في شروط الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۱۶، زکریا دیوبند)
والمستحب أن یصلي في ثلاثۃ ثیاب من أحسن ثیابہ قمیص وإزار وعمامۃ ویکرہ في إزار مع القدرۃ علیہا، قولہ من أحسن ثیابہ۔ مراعاۃ للفظ الزینۃ ویستحب أن تکون سالمۃ من الخروق۔
(حسن بن عمار ،  مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي: ص: ۲۱۱، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص166

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 831/41-000

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نماز میں قیام، رکوع، سجدہ فرض ہے۔ بلاکسی شدید عذر کے ان کا ترک ناجائز ہے اور نماز ادا نہیں ہوتی ہے۔ لیکن اگر قیام متعذر ہو اور بیٹھ کر رکوع ، سجدہ سے نماز پڑھ سکتا ہو تو زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھے، کرسی پر نماز ادا نہیں ہوگی۔ لیکن اگر رکوع ، سجدہ پر بھی قدرت نہ ہو تو کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے ۔ پوری نماز میں کرسی کے پچھلے پائے دیگر نمازیوں کی ایڑی کے برابر رکھے جائیں گے۔

  المشقۃ تجلب  التیسیر (الاشباہ والنظائر 1/75) ۔

علامہ شامی لکھتے ہیں : اراد بالتعذر التعذر الحقیقی بحیث لوقام سقط او الحکمی بان خاف زیادتہ او بطء برئہ بقیامہ او دوران راسہ او وجد لقیامہ الما شدیدا صلی قاعدا۔ (درمختار وردالمحتار 2/9)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: بشرطِ صحت سوال صورت مسئولہ میںامامت کے زیادہ حقدار وہ امام صاحب ہیں جو مسجد کے مستقل امام ہیں اور پنج وقتہ نمازیں پڑ ھاتے ہیں عیدین کی نماز میں وارث بن کر امامت کرنے کے لیے زور دینا درست نہیں ہے۔ امام صاحب اگر اپنی مرضی سے کسی کو دیدیں تو اس کی گنجائش ہے؛ لیکن اس کے لیے ان کو مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے۔(۱)

(۱) (والأحق بالإمامۃ) تقدیماً بل نصبا مجمع الأنہر، (الأعلم بأحکام الصلاۃ) فقط صحۃ وفسادًا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ، (حسن تلاوۃ) وتجویداً (للقراء ۃ ثم الأورع)    …أی الأکثر اتقاء للشبہات والتقوی: اتقاء المحرمات۔ الأولی بالإمامۃ أعلمہم بأحکام الصلوۃ ہکذا في المضمرات، ہذا إذا علم من القراء ۃ قدر ما تقوم بہ سنۃ القراء ۃ ہکذا في التبیین۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
ویجتنب الفواحش الظاہرۃ وإن کان غیرہ أورع منہ کذا في المحیط وإن کان متبحرا في علم الصلوۃ لکن لم یکن لہ حظ في غیرہ من العلوم فہو أولی۔  (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، الفصل الثاني في بیان من ہو أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص:۱۴۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص110

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:عید کی نماز کا وقت آفتاب کے اونچا ہو جانے کے بعد سے زوال سے پہلے تک ہے اور مذکورہ صورت میں عید کا وقت چوںکہ نکل چکا ہے اس لیے یہ نماز اگلے دن اسی نماز کے وقت میں ادا کی جائے گی دوپہر بعد ادا کرنا جائز نہیں ہوگا۔(۱)

(۱)خرج عبد اللّٰہ بن بسر صاحب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مع الناس في یوم عید فطر أو أضحی، فأنکر إبطاء الامام، فقال: إنا کنا قد فرغنا ساعتَنا ہذہ، وذلک حین التسبیح۔ (أخرجہ أبو داؤد، في سننہ: ’’کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ العیدین، باب وقت الخروج إلی العید‘‘، ج۱، ص: ۱۶۱، رقم: ۱۱۳۵)
یستحب تعجیل الإمام الصلاۃ في أول وقتہا في الأضحی وتأخیرہا قلیلا عن أول وقتہا في الفطر بذلک کتب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إلی عمرو بن حزم وہو بنجران عجل الأضحی وأخر الفطر قیل لیؤدی الفطر ویعجل إلی التضحیۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ:  باب الجمعۃ‘‘: ص: ۱۲۵)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص84

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بغیر ضرورت کے دروں ودروازوں کو چھوڑ کر پیچھے اصل صف میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ؛ بلکہ بلا ضرورت دروں میں نماز پڑھنا مکروہ ہے۔(۲)

(۲) عن معاویۃ بن قرۃ عن أبیہ، قال: کنا ننہی أن نصف بین السواري علی عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ونطرد عنہا طردا۔ …  وقال: وقد کرہ قوم من أہل العلم أن یصف بین السواري، وبہ یقول أحمد وإسحاق، وقد رخص قوم من أہل العلم فی ذلک، قال ابن العربي: ولا خلاف في جوازہ عند الضیق، وأما عند السعۃ فہو مکروہ للجماعۃ فأما الواحد، فلا بأس بہ، وقد صلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في الکعبۃ بین سواریہا۔‘‘(أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ’’إقامۃ الصلوات و السنۃ فیھا، باب الصلاۃ بین السواري في الصف،‘‘ ج۲، ص۷۰، رقم ۱۰۰۲ )
والأصح ما روي عن أبي حنیفۃ أنہ قال: أکرہ أن یقوم بین الساریتین أو في زاویۃ أو في ناحیۃ المسجد أو إلی ساریۃ؛ لأنہ خلاف عمل الائمۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب الإمامۃ، مطلب: ھل الإسائۃ دون الکراھۃ أو أفحش منھا‘‘: ج ۲، ص:۳۱۰)
والاصطفاف بین الأسطوانتین غیر مکروہ؛ لأنہ صف فی حق کل فریق، وإن لم یکن طویلا وتخلل الأسطوانۃ بین الصف کتخلل متاع موضع أو کفرجۃ بین رجلین وذٰلک لا یمنع صحۃ الاقتداء ولا یوجب الکراہۃ۔ (السرخسي، المبسوط:ج ۲، ص: ۳۵، (شاملہ)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص166

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: بشرط صحت سوال مقررقائم، مقام امام امامت کے مستحق ہیں، دوسرا آدمی جو مقرر امام نہیں ہے وہ مستحق امامت نہیں ہے نیز کسی شرعی وجہ کے نہ ہوتے ہوئے اس شخص کا جماعت چھوڑ کر چلے جانا قطعاً درست نہیں اور ان کا یہ کہنا کہ میں مقرر قائم مقام امام سے بڑا عالم ہوں یہ شرعی عذر نہیں ہے، مقرر امام خواہ مقتدی سے کم درجہ کا عالم ہو تب بھی جماعت چھوڑنی درست نہیں اور ترک جماعت کا گناہ اس کے دامن پر ہوگا۔(۱)

(۱) عن أبي مسعود، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لا یؤم الرجل في سلطانہ ولا یجلس علی تکرمتہ في بیتہ إلا بإذنہ۔ (أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ عن رسول اللّٰہ  صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب من أحق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۸، رقم: ۲۳۵)
ولا یؤمن الرجل الرجل في سلطانہ) أی: في مظہر سلطنتہ ومحل ولایتہ، أو فیما یملکہ، أو فی محل یکون في حکمہ) ویعضد ہذا التأویل الروایۃ الأخری في أہلہ، وروایۃ أبي داؤد في بیتہ ولا سلطانہ، ولذا کان ابن عمر یصلی خلف الحجاج، وصح عن ابن عمر أن إمام المسجد مقدم علی غیر السلطان، وتحریرہ أن الجماعۃ شرعت لاجتماع المؤمنین علی الطاعۃ وتآلفہم وتوادہم، فإذا أم الرجل الرجل في سلطانہ أفضی ذلک إلی توہین أمر السلطنۃ، وخلع ربقۃ الطاعۃ۔ (ملا علي قاري، المرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، الفصل الأول‘‘: ج۳، ص: ۱۷۵، رقم: ۱۱۱۷)
قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ولا یؤمن الرجل في سلطانہ معناہ ماذکرہ أصحابنا وغیرہم أن صاحب البیت والمجلس وإمام المسجد أحق من غیرہ وإن کان ذلک الغیر أفقہ وأقرأ وأورع وأفضل منہ وصاحب المکان أحق فإن شاء تقدم وإن شاء قدم من یریدہ وإن کان ذلک الذي یقدمہ مفضولاً بالنسبۃ إلی باقي الحاضرین لأنہ سلطانہ فیتصرف فیہ کیف شاء۔ (النووي، شرح النووی علی مسلم، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ: باب من أحق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۶، رقم: ۶۷۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص111

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: چاشت کی نماز کا وقت سورج طلوع ہونے سے زوال تک ہے؛ لیکن افضل یہ ہے کہ ایک چوتھائی دن گذرنے کے بعد پڑھے یعنی سورج طلوع ہونے اور زوال کے درمیان (ایک چوتھائی دن) سے شروع ہوکر زوال تک رہتا ہے؟ اس کی چار رکعتیں ہیں دو بھی پڑھ سکتے ہیں زیادہ پڑھنی چاہیں تو بارہ رکعت پڑھ سکتے ہیں۔ جیسا کہ در مختار میں ہے:
’’وندب أربع فصاعداً في الضحیٰ علی الصحیح من بعد الطلوع إلی الزوال ووقتہا المختار بعد ربع النہار وفي المنیۃ أقلہا رکعتان وأکثرہا اثنتا عشر وأوسطہا ثمان وہو أفضلہا کما في الذخائر الأشرفیۃ لثبوتہ بفعلہ الخ‘‘ (۱)

(۱) ابن عابدین،رد المحتارعلی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مطلب: سنۃ الضحی‘‘:  ج۲، ص: ۴۶۵۔
عن أنس رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من صلی الفجر في جماعۃ ثم قعد یذکر اللّٰہ حتی تطلع الشمس، ثم صلی رکعتین کانت لہ کأجر حجۃ وعمرۃ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: تامۃ تامۃ تامۃ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ: ’’أبواب الصلاۃ‘‘: باب ما ذکر مما مستحب من الجلوس في المسجد، ج ۱، ص: ۱۳۰، رقم: ۵۸۶)
(و) ندب (أربع فصاعدا في الضحی) علی الصحیح من بعد الطلوع إلی الزوال ووقتہا المختار بعد ربع النہار۔ وفي المنیۃ: أقلہا رکعتان وأکثرہا اثنتا عشر، وأوسطہا ثمان وہو أفضلہا کما في الذخائر الأشرفیۃ، لثبوتہ بفعلہ وقولہ علیہ الصلاۃ والسلام۔ (ابن عابدین، رد المحتارعلی الدر المختار، ’’کتاب الصلوۃ: باب الوتر والنوافل‘‘  مطلب: سنۃ الضحی، ج ۲، ص: ۴۶۵)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص84