نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: بشرطِ صحت سوال صورت مسئولہ میںامامت کے زیادہ حقدار وہ امام صاحب ہیں جو مسجد کے مستقل امام ہیں اور پنج وقتہ نمازیں پڑ ھاتے ہیں عیدین کی نماز میں وارث بن کر امامت کرنے کے لیے زور دینا درست نہیں ہے۔ امام صاحب اگر اپنی مرضی سے کسی کو دیدیں تو اس کی گنجائش ہے؛ لیکن اس کے لیے ان کو مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے۔(۱)

(۱) (والأحق بالإمامۃ) تقدیماً بل نصبا مجمع الأنہر، (الأعلم بأحکام الصلاۃ) فقط صحۃ وفسادًا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ، (حسن تلاوۃ) وتجویداً (للقراء ۃ ثم الأورع)    …أی الأکثر اتقاء للشبہات والتقوی: اتقاء المحرمات۔ الأولی بالإمامۃ أعلمہم بأحکام الصلوۃ ہکذا في المضمرات، ہذا إذا علم من القراء ۃ قدر ما تقوم بہ سنۃ القراء ۃ ہکذا في التبیین۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
ویجتنب الفواحش الظاہرۃ وإن کان غیرہ أورع منہ کذا في المحیط وإن کان متبحرا في علم الصلوۃ لکن لم یکن لہ حظ في غیرہ من العلوم فہو أولی۔  (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، الفصل الثاني في بیان من ہو أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص:۱۴۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص110

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:عید کی نماز کا وقت آفتاب کے اونچا ہو جانے کے بعد سے زوال سے پہلے تک ہے اور مذکورہ صورت میں عید کا وقت چوںکہ نکل چکا ہے اس لیے یہ نماز اگلے دن اسی نماز کے وقت میں ادا کی جائے گی دوپہر بعد ادا کرنا جائز نہیں ہوگا۔(۱)

(۱)خرج عبد اللّٰہ بن بسر صاحب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مع الناس في یوم عید فطر أو أضحی، فأنکر إبطاء الامام، فقال: إنا کنا قد فرغنا ساعتَنا ہذہ، وذلک حین التسبیح۔ (أخرجہ أبو داؤد، في سننہ: ’’کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ العیدین، باب وقت الخروج إلی العید‘‘، ج۱، ص: ۱۶۱، رقم: ۱۱۳۵)
یستحب تعجیل الإمام الصلاۃ في أول وقتہا في الأضحی وتأخیرہا قلیلا عن أول وقتہا في الفطر بذلک کتب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إلی عمرو بن حزم وہو بنجران عجل الأضحی وأخر الفطر قیل لیؤدی الفطر ویعجل إلی التضحیۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ:  باب الجمعۃ‘‘: ص: ۱۲۵)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص84

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بغیر ضرورت کے دروں ودروازوں کو چھوڑ کر پیچھے اصل صف میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ؛ بلکہ بلا ضرورت دروں میں نماز پڑھنا مکروہ ہے۔(۲)

(۲) عن معاویۃ بن قرۃ عن أبیہ، قال: کنا ننہی أن نصف بین السواري علی عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ونطرد عنہا طردا۔ …  وقال: وقد کرہ قوم من أہل العلم أن یصف بین السواري، وبہ یقول أحمد وإسحاق، وقد رخص قوم من أہل العلم فی ذلک، قال ابن العربي: ولا خلاف في جوازہ عند الضیق، وأما عند السعۃ فہو مکروہ للجماعۃ فأما الواحد، فلا بأس بہ، وقد صلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في الکعبۃ بین سواریہا۔‘‘(أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ’’إقامۃ الصلوات و السنۃ فیھا، باب الصلاۃ بین السواري في الصف،‘‘ ج۲، ص۷۰، رقم ۱۰۰۲ )
والأصح ما روي عن أبي حنیفۃ أنہ قال: أکرہ أن یقوم بین الساریتین أو في زاویۃ أو في ناحیۃ المسجد أو إلی ساریۃ؛ لأنہ خلاف عمل الائمۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب الإمامۃ، مطلب: ھل الإسائۃ دون الکراھۃ أو أفحش منھا‘‘: ج ۲، ص:۳۱۰)
والاصطفاف بین الأسطوانتین غیر مکروہ؛ لأنہ صف فی حق کل فریق، وإن لم یکن طویلا وتخلل الأسطوانۃ بین الصف کتخلل متاع موضع أو کفرجۃ بین رجلین وذٰلک لا یمنع صحۃ الاقتداء ولا یوجب الکراہۃ۔ (السرخسي، المبسوط:ج ۲، ص: ۳۵، (شاملہ)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص166

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: بشرط صحت سوال مقررقائم، مقام امام امامت کے مستحق ہیں، دوسرا آدمی جو مقرر امام نہیں ہے وہ مستحق امامت نہیں ہے نیز کسی شرعی وجہ کے نہ ہوتے ہوئے اس شخص کا جماعت چھوڑ کر چلے جانا قطعاً درست نہیں اور ان کا یہ کہنا کہ میں مقرر قائم مقام امام سے بڑا عالم ہوں یہ شرعی عذر نہیں ہے، مقرر امام خواہ مقتدی سے کم درجہ کا عالم ہو تب بھی جماعت چھوڑنی درست نہیں اور ترک جماعت کا گناہ اس کے دامن پر ہوگا۔(۱)

(۱) عن أبي مسعود، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لا یؤم الرجل في سلطانہ ولا یجلس علی تکرمتہ في بیتہ إلا بإذنہ۔ (أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ عن رسول اللّٰہ  صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب من أحق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۸، رقم: ۲۳۵)
ولا یؤمن الرجل الرجل في سلطانہ) أی: في مظہر سلطنتہ ومحل ولایتہ، أو فیما یملکہ، أو فی محل یکون في حکمہ) ویعضد ہذا التأویل الروایۃ الأخری في أہلہ، وروایۃ أبي داؤد في بیتہ ولا سلطانہ، ولذا کان ابن عمر یصلی خلف الحجاج، وصح عن ابن عمر أن إمام المسجد مقدم علی غیر السلطان، وتحریرہ أن الجماعۃ شرعت لاجتماع المؤمنین علی الطاعۃ وتآلفہم وتوادہم، فإذا أم الرجل الرجل في سلطانہ أفضی ذلک إلی توہین أمر السلطنۃ، وخلع ربقۃ الطاعۃ۔ (ملا علي قاري، المرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، الفصل الأول‘‘: ج۳، ص: ۱۷۵، رقم: ۱۱۱۷)
قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ولا یؤمن الرجل في سلطانہ معناہ ماذکرہ أصحابنا وغیرہم أن صاحب البیت والمجلس وإمام المسجد أحق من غیرہ وإن کان ذلک الغیر أفقہ وأقرأ وأورع وأفضل منہ وصاحب المکان أحق فإن شاء تقدم وإن شاء قدم من یریدہ وإن کان ذلک الذي یقدمہ مفضولاً بالنسبۃ إلی باقي الحاضرین لأنہ سلطانہ فیتصرف فیہ کیف شاء۔ (النووي، شرح النووی علی مسلم، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ: باب من أحق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۶، رقم: ۶۷۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص111

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: چاشت کی نماز کا وقت سورج طلوع ہونے سے زوال تک ہے؛ لیکن افضل یہ ہے کہ ایک چوتھائی دن گذرنے کے بعد پڑھے یعنی سورج طلوع ہونے اور زوال کے درمیان (ایک چوتھائی دن) سے شروع ہوکر زوال تک رہتا ہے؟ اس کی چار رکعتیں ہیں دو بھی پڑھ سکتے ہیں زیادہ پڑھنی چاہیں تو بارہ رکعت پڑھ سکتے ہیں۔ جیسا کہ در مختار میں ہے:
’’وندب أربع فصاعداً في الضحیٰ علی الصحیح من بعد الطلوع إلی الزوال ووقتہا المختار بعد ربع النہار وفي المنیۃ أقلہا رکعتان وأکثرہا اثنتا عشر وأوسطہا ثمان وہو أفضلہا کما في الذخائر الأشرفیۃ لثبوتہ بفعلہ الخ‘‘ (۱)

(۱) ابن عابدین،رد المحتارعلی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مطلب: سنۃ الضحی‘‘:  ج۲، ص: ۴۶۵۔
عن أنس رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من صلی الفجر في جماعۃ ثم قعد یذکر اللّٰہ حتی تطلع الشمس، ثم صلی رکعتین کانت لہ کأجر حجۃ وعمرۃ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: تامۃ تامۃ تامۃ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ: ’’أبواب الصلاۃ‘‘: باب ما ذکر مما مستحب من الجلوس في المسجد، ج ۱، ص: ۱۳۰، رقم: ۵۸۶)
(و) ندب (أربع فصاعدا في الضحی) علی الصحیح من بعد الطلوع إلی الزوال ووقتہا المختار بعد ربع النہار۔ وفي المنیۃ: أقلہا رکعتان وأکثرہا اثنتا عشر، وأوسطہا ثمان وہو أفضلہا کما في الذخائر الأشرفیۃ، لثبوتہ بفعلہ وقولہ علیہ الصلاۃ والسلام۔ (ابن عابدین، رد المحتارعلی الدر المختار، ’’کتاب الصلوۃ: باب الوتر والنوافل‘‘  مطلب: سنۃ الضحی، ج ۲، ص: ۴۶۵)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص84

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: اقامت کہنا شریعت میں سنت مؤکدہ ہے جب کہ جماعت کے ساتھ نماز ادا کی جا رہی ہو اور اگر کوئی انفرادی طور پر نماز پڑھ رہا ہے اس وقت اقامت کہنا مستحب ہے۔ اقامت پانچوں فرض نمازوں اور جمعہ کی نماز باجماعت میں مردوں پر سنت مؤکدہ ہے، سنن ونوافل وعیدین میں اقامت نہیں ہے اسی طرح نماز باجماعت میں اقامت ترک کرنا مکروہ ہے اور ترک کرنے والا گنہگار بھی ہوگا نیز انفرادی فرض نماز میں اگر اقامت چھوڑ دی گئی تو اس سے گناہ تو نہیں ہوگا، البتہ ایسا کرنا خلاف اولیٰ ہے۔ تاہم بغیر اقامت کے پڑھی جانے والی نماز ادا ہو جائے گی اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔
’’وکذا الإقامۃ سنۃ مؤکدۃ في قوۃ الواجب؛ لقول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا حضرت الصلاۃ فلیؤذن لکم أحدکم ولیؤمکم أکبرکم، وللمدوامۃ علیہا للفرائض، ومنہا الجمعۃ فلایؤذن لعید واستسقاء وجنازۃ ووتر‘‘(۱)
’’ویکرہ أداء المکتوبۃ بالجماعۃ في المسجد بغیر أذان وإقامۃ۔ کذا في فتاویٰ قاضي خان، ولا یکرہ ترکہما لمن یصلي في المصر إذا وجد في المحلۃ ولا فرق بین الواحد والجماعۃ۔ ہکذا في التبیین والأفضل أن یصلي بالأذان والإقامۃ کذا في التمرتاشي وإذا لم یؤذن في تلک المحلۃ یکرہ لہ ترکہما ولو ترک الأذان وحدہ لا یکرہ کذا في المحیط ولو ترک الإقامۃ یکرہ۔ کذا في التمرتاشي‘‘(۲)

(۱) حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۷۶۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الصلاۃ ’’الباب الثاني: في الأذان، الفصل الأول: في صفتہ وأحوال المؤذن‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۱۔

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص206

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: عورتوں کو ایسے کپڑے پہننے چاہئیں جو ڈھیلے ہوں اس طرح چست نہ ہوں کہ جسم کی ساخت واضح ہوجائے تاہم بیلٹ کی شلوار یا چوڑی دار پائجامہ سے اگر رکوع وسجود میں ان کے ٹائٹ ہونے کی وجہ سے دشواری ہو، تو نماز مکروہ ہے اور اگر دشواری نہ ہو، تو مکروہ نہیں ہے۔ کپڑے ایسے پہنے جائیں کہ جس سے جسم اچھی طرح چھپا رہے جسم کی ساخت نظر نہ آئے باہر جاتے وقت پردے کا پورے طور پر اہتمام کیا جائے صرف شوہر کے سامنے چست کپڑا پہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جب کہ وہاں کوئی دوسرا نہ ہو۔(۱)

(۱) ٰیبَنِیْ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِکُمْ وَرِیْشًاط (سورۃ الأعراف: ۲۶) ٰیبَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّکُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَاتُسْرِفُوْاج اِنَّہٗ لَایُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَہع ۳۱ (سورۃ الأعراف: ۳۱)
صنفان من أہل النار لم أرہما:… نساء کاسیات، عاریات، ممیلات، مائلات، رئوسہن کأسنمۃ البخت المائلۃ، لا یدخلن الجنۃ ولا یجدن ریحہا وإن ریحہا لیوجد من  مسیرۃ کذا وکذا۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب اللباس والزینۃ: باب النساء الکاسیات … الخ‘‘: ج۲، ص: ۲۰۵،رقم:۲۱۲۸)
یسترن بعض بدنہن ویکشفن بعضہ إظہارا لجمالہن وإبرازا لکمالہن وقیل: یلبسن ثوبا رقیقا یصف بدنہن وإن کن کاسیات للثیاب عاریات فی الحقیقۃ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح: ج۶، ص: ۲۳۰۲، مطبوعہ، دار الفکر بیروت)
(وللحرۃ) … (جمیع بدنھا) حتی شعرھا النازل في الأصح (خلا الوجہ والکفین) … (والقدمین … (وتمنع) المرأۃ الشابۃ (من کشف الوجہ بین الرجال) … لخوف الفتنۃ۔ (ابن عابدین، الدرالمختار، ’’باب شروط الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص:۷۷-۷۹)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص167

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اگر امام متعین ہے تو وہ نماز پڑھائے اور اگر مقرر نہیں ہے تو مقرر کرلیا جائے جو پابند شریعت اور امامت کے لائق ہو، امام کے مقرر نہ ہونے کی صورت میں زید سے امامت کرائیں، اس لیے کہ وہ اعلم بالسنۃ اور پابند شرع ہے۔ بکر تو ڈاڑھی بھی کٹاتا ہے اور ایک مشت سے کم رکھتا ہے اس لیے اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے، البتہ فرض ادا ہوجاتا ہے، اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔(۱)

(۱) والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلوۃ فقط صحۃ وفساداً بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ، وحظہ قدر فرض ثم۔ الأحسن تلاوۃ وتجویداً للقراء ۃ ثم الأورع ثم الأسن ثم الأحسن الخ۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
إن سرکم أن تقبل صلوٰتکم فلیؤمکم خیارکم۔ (المعجم الکبیر للطبراني، ’’باب أما أسند مرثد بن أبي مرثد الغنوي‘‘: رقم: ۷۷۷)
وأما الأخذ منہا وہي دون ذلک کما فعلہ بعض المغاربۃ ومخنثۃ الرجال فلم یبحہ أحد، وأخذ کلہا فعل یہود الہند ومجوس الأعاجم۔(ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصوم، باب مایفسد الصوم ومالایفسدہ، مطلب في الأخذ من اللحیۃ‘‘: ج ۳، ص: ۳۹۸)
صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ۔ قولہ: نال فضل الجماعۃ أفاد أن الصلاۃ خلفہما أولیٰ من الإنفراد، لکن لا ینال کما ینال خلف تقي ورع۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في إمامۃ الأمرد‘‘: ج۲، ص: ۳۰۱، ۳۰۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص112


 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: حنفی مسلک میں جمعہ کی نماز میں تعجیل کرنا افضل ہے البتہ نمازیوں کی تعداد اور سہولت کے پیش نظر باہم مشورہ سے کچھ تاخیر بھی ہو جائے تواس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، واضح رہے کہ ظہر کی نماز موسم گرما میں تاخیر سے ادا کرنا مستحب ہے، جمعہ میں  تاخیر کرنا مستحب نہیں ہے بلکہ جمعہ میں تعجیل افضل ہے جیسا کہ احادیث سے بھی ثابت ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے۔
’’عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، کان یصلي الجمعۃ حین تمیل الشمس‘‘(۱)
’’(وجمعۃ کظہر أصلا واستحبابا) في الزمانین؛ لأنہا خلفہ‘‘۔ وقال ابن عابدین رحمہ اللّٰہ: (واستحبابا في الزمانین) أي الشتاء والصیف، لکن جزم في الأشباہ من فن الأحکام أنہ لا یسن لہا الإبراد …… وقال الجمہور: لیس بمشروع؛ لأنہا تقام بجمع عظیم، فتأخیرہا مفض إلی الحرج ولا کذلک الظہر وموافقۃ الخلف لأصلہ من کل وجہ لیس بشرط‘‘(۲)

(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الجمعۃ: باب وقت الجمعۃ إذا زالت الشمس‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۳، رقم: ۹۰۴، مکتبہ فیصل، دیوبند۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتارعلی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب: في طلوع من مغربہا‘‘: ج ۲، ص: ۲۵،۲۶، مکتبہ زکریا، دیوبند۔

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص85

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام کے پیچھے محاذات میں کھڑے ہوکر تکبیر کہنے کا تعامل ہے اس لیے یہ ہی افضل ہے ؛البتہ حسب ضرورت وحسب موقع جس طرح اور جس موقع پر کھڑا ہوکر تکبیر کہے وہ درست ہے۔ شرعی ضرورت کے بغیر خوا مخواہ ادھر ادھر کھڑے ہوکر تکبیر کہنے کی عادت بنا لینا خلاف اولیٰ ہے۔ مگر تکبیر کا اعادہ نہیں ہوگا۔(۱)

(۱) ویقیم علی الأرض ہکذا في القنیۃ، وفي المسجد، ہکذا في البحر الرائق۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: الباب الثاني في الأذان، الفصل الثاني في کلمات الأذان والإقامۃ وکیفیتہما، ج۱ ،ص: ۱۱۲)
ویسن الأذان في موضع عال والإقامۃ علی الأرض۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۴۴۳)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص208