نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: اقامت کہنا شریعت میں سنت مؤکدہ ہے جب کہ جماعت کے ساتھ نماز ادا کی جا رہی ہو اور اگر کوئی انفرادی طور پر نماز پڑھ رہا ہے اس وقت اقامت کہنا مستحب ہے۔ اقامت پانچوں فرض نمازوں اور جمعہ کی نماز باجماعت میں مردوں پر سنت مؤکدہ ہے، سنن ونوافل وعیدین میں اقامت نہیں ہے اسی طرح نماز باجماعت میں اقامت ترک کرنا مکروہ ہے اور ترک کرنے والا گنہگار بھی ہوگا نیز انفرادی فرض نماز میں اگر اقامت چھوڑ دی گئی تو اس سے گناہ تو نہیں ہوگا، البتہ ایسا کرنا خلاف اولیٰ ہے۔ تاہم بغیر اقامت کے پڑھی جانے والی نماز ادا ہو جائے گی اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔
’’وکذا الإقامۃ سنۃ مؤکدۃ في قوۃ الواجب؛ لقول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا حضرت الصلاۃ فلیؤذن لکم أحدکم ولیؤمکم أکبرکم، وللمدوامۃ علیہا للفرائض، ومنہا الجمعۃ فلایؤذن لعید واستسقاء وجنازۃ ووتر‘‘(۱)
’’ویکرہ أداء المکتوبۃ بالجماعۃ في المسجد بغیر أذان وإقامۃ۔ کذا في فتاویٰ قاضي خان، ولا یکرہ ترکہما لمن یصلي في المصر إذا وجد في المحلۃ ولا فرق بین الواحد والجماعۃ۔ ہکذا في التبیین والأفضل أن یصلي بالأذان والإقامۃ کذا في التمرتاشي وإذا لم یؤذن في تلک المحلۃ یکرہ لہ ترکہما ولو ترک الأذان وحدہ لا یکرہ کذا في المحیط ولو ترک الإقامۃ یکرہ۔ کذا في التمرتاشي‘‘(۲)

(۱) حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۷۶۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الصلاۃ ’’الباب الثاني: في الأذان، الفصل الأول: في صفتہ وأحوال المؤذن‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۱۔

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص206

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: عورتوں کو ایسے کپڑے پہننے چاہئیں جو ڈھیلے ہوں اس طرح چست نہ ہوں کہ جسم کی ساخت واضح ہوجائے تاہم بیلٹ کی شلوار یا چوڑی دار پائجامہ سے اگر رکوع وسجود میں ان کے ٹائٹ ہونے کی وجہ سے دشواری ہو، تو نماز مکروہ ہے اور اگر دشواری نہ ہو، تو مکروہ نہیں ہے۔ کپڑے ایسے پہنے جائیں کہ جس سے جسم اچھی طرح چھپا رہے جسم کی ساخت نظر نہ آئے باہر جاتے وقت پردے کا پورے طور پر اہتمام کیا جائے صرف شوہر کے سامنے چست کپڑا پہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جب کہ وہاں کوئی دوسرا نہ ہو۔(۱)

(۱) ٰیبَنِیْ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِکُمْ وَرِیْشًاط (سورۃ الأعراف: ۲۶) ٰیبَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّکُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَاتُسْرِفُوْاج اِنَّہٗ لَایُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَہع ۳۱ (سورۃ الأعراف: ۳۱)
صنفان من أہل النار لم أرہما:… نساء کاسیات، عاریات، ممیلات، مائلات، رئوسہن کأسنمۃ البخت المائلۃ، لا یدخلن الجنۃ ولا یجدن ریحہا وإن ریحہا لیوجد من  مسیرۃ کذا وکذا۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب اللباس والزینۃ: باب النساء الکاسیات … الخ‘‘: ج۲، ص: ۲۰۵،رقم:۲۱۲۸)
یسترن بعض بدنہن ویکشفن بعضہ إظہارا لجمالہن وإبرازا لکمالہن وقیل: یلبسن ثوبا رقیقا یصف بدنہن وإن کن کاسیات للثیاب عاریات فی الحقیقۃ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح: ج۶، ص: ۲۳۰۲، مطبوعہ، دار الفکر بیروت)
(وللحرۃ) … (جمیع بدنھا) حتی شعرھا النازل في الأصح (خلا الوجہ والکفین) … (والقدمین … (وتمنع) المرأۃ الشابۃ (من کشف الوجہ بین الرجال) … لخوف الفتنۃ۔ (ابن عابدین، الدرالمختار، ’’باب شروط الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص:۷۷-۷۹)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص167

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اگر امام متعین ہے تو وہ نماز پڑھائے اور اگر مقرر نہیں ہے تو مقرر کرلیا جائے جو پابند شریعت اور امامت کے لائق ہو، امام کے مقرر نہ ہونے کی صورت میں زید سے امامت کرائیں، اس لیے کہ وہ اعلم بالسنۃ اور پابند شرع ہے۔ بکر تو ڈاڑھی بھی کٹاتا ہے اور ایک مشت سے کم رکھتا ہے اس لیے اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے، البتہ فرض ادا ہوجاتا ہے، اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔(۱)

(۱) والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلوۃ فقط صحۃ وفساداً بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ، وحظہ قدر فرض ثم۔ الأحسن تلاوۃ وتجویداً للقراء ۃ ثم الأورع ثم الأسن ثم الأحسن الخ۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
إن سرکم أن تقبل صلوٰتکم فلیؤمکم خیارکم۔ (المعجم الکبیر للطبراني، ’’باب أما أسند مرثد بن أبي مرثد الغنوي‘‘: رقم: ۷۷۷)
وأما الأخذ منہا وہي دون ذلک کما فعلہ بعض المغاربۃ ومخنثۃ الرجال فلم یبحہ أحد، وأخذ کلہا فعل یہود الہند ومجوس الأعاجم۔(ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصوم، باب مایفسد الصوم ومالایفسدہ، مطلب في الأخذ من اللحیۃ‘‘: ج ۳، ص: ۳۹۸)
صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ۔ قولہ: نال فضل الجماعۃ أفاد أن الصلاۃ خلفہما أولیٰ من الإنفراد، لکن لا ینال کما ینال خلف تقي ورع۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في إمامۃ الأمرد‘‘: ج۲، ص: ۳۰۱، ۳۰۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص112


 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: حنفی مسلک میں جمعہ کی نماز میں تعجیل کرنا افضل ہے البتہ نمازیوں کی تعداد اور سہولت کے پیش نظر باہم مشورہ سے کچھ تاخیر بھی ہو جائے تواس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، واضح رہے کہ ظہر کی نماز موسم گرما میں تاخیر سے ادا کرنا مستحب ہے، جمعہ میں  تاخیر کرنا مستحب نہیں ہے بلکہ جمعہ میں تعجیل افضل ہے جیسا کہ احادیث سے بھی ثابت ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے۔
’’عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، کان یصلي الجمعۃ حین تمیل الشمس‘‘(۱)
’’(وجمعۃ کظہر أصلا واستحبابا) في الزمانین؛ لأنہا خلفہ‘‘۔ وقال ابن عابدین رحمہ اللّٰہ: (واستحبابا في الزمانین) أي الشتاء والصیف، لکن جزم في الأشباہ من فن الأحکام أنہ لا یسن لہا الإبراد …… وقال الجمہور: لیس بمشروع؛ لأنہا تقام بجمع عظیم، فتأخیرہا مفض إلی الحرج ولا کذلک الظہر وموافقۃ الخلف لأصلہ من کل وجہ لیس بشرط‘‘(۲)

(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الجمعۃ: باب وقت الجمعۃ إذا زالت الشمس‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۳، رقم: ۹۰۴، مکتبہ فیصل، دیوبند۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتارعلی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب: في طلوع من مغربہا‘‘: ج ۲، ص: ۲۵،۲۶، مکتبہ زکریا، دیوبند۔

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص85

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام کے پیچھے محاذات میں کھڑے ہوکر تکبیر کہنے کا تعامل ہے اس لیے یہ ہی افضل ہے ؛البتہ حسب ضرورت وحسب موقع جس طرح اور جس موقع پر کھڑا ہوکر تکبیر کہے وہ درست ہے۔ شرعی ضرورت کے بغیر خوا مخواہ ادھر ادھر کھڑے ہوکر تکبیر کہنے کی عادت بنا لینا خلاف اولیٰ ہے۔ مگر تکبیر کا اعادہ نہیں ہوگا۔(۱)

(۱) ویقیم علی الأرض ہکذا في القنیۃ، وفي المسجد، ہکذا في البحر الرائق۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: الباب الثاني في الأذان، الفصل الثاني في کلمات الأذان والإقامۃ وکیفیتہما، ج۱ ،ص: ۱۱۲)
ویسن الأذان في موضع عال والإقامۃ علی الأرض۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۴۴۳)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص208

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: خلاف سنت ومکروہ ہے مگر نماز ادا ہوجائے گی۔(۲)
’’یکرہ اشتمال الصماء والاعتجار والتلثم، قال الشامي: قولہ: والتلثم وہو تغطیۃ الأنف والفم في الصلاۃ لأنہ یشبہ فعل المجوس حال عبادتہم النیران‘‘(۱)

(۲) قال صلی اللّٰہ علیہ وسلم أمرت أن أسجد علی سبعۃ أعظم وأن لا أکف شعرا ولا ثوبا متفق علیہ، ذکرہ في البرہان، وکذا یکرہ الاشتمالۃ الصماء في الصلاۃ وہو أن یلف بثوب واحد رأسہ وسائر بدنہ ولا یدع منفذا لیدہ وہل یشترط عدم الائتزار مع ذلک عن محمد یشترط وغیرہ لا یشترطہ ویکرہ الاعتجار وہو أن یلف العمامۃ حول رأسہ ویدع وسطہا کما یفعلہ الدعرۃ ومتوشحا لا یکرہ وفي ثوب واحد لیس علی عاتقہ بعضہ یکرہ إلا لضرورۃ کما في فتح القدیر۔ (ملا خسرو الحنفي، درر الحکام شرح غرر الاحکام، ’’مکروہات الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۰۶)
ویکرہ لبسۃ الصماء، وروی الحسن عن أبي حنیفۃ أنہا کالاضطباع،…وإنما کرہہا؛ لأنہا من لباس أہل الأثر والبطر، وفي البخاري أنہ علیہ السلام نہی عن لبسۃ الصماء فقال: إنما یکون الصماء إذا لم یکن علیک إزار۔ قیل: ہی اشتمال الیہود۔ وقال الجوہري عن أبي عبید: اشتمال الصماء أن تخلل جسدک بثوبک نحو سلمۃ الأعراب بأکیستہم وہي أن یرد الکساء من قبل یمینہ علی یدہ الیسری وعاتقہ الأیسر ثم یردہ ثانیۃ من خلفہ علی یدہ الیمنی أو عاتقہ الأیمن فیغطیہا۔ وقیل: أن یشتمل بثوبہ فیخلل جسدہ کلہ ولا یرفع جانبا یخرج یدہ منہ۔ وقیل: أن یشتمل ثوب واحد لیس علیہ إزار، وفي مشارق الأنوار ہو الالتفاف في ثوب واحد من رأسہ إلی قدمیہ یخلل بہ جسدہ کلہ وہو التلفف، قال سمیت بذلک واللّٰہ أعلم لاشتمالہا علی أعضائہ حتی لا یجد مستقرا کالصخرۃ الصماء أو یشدہا وضمہا جمیع الجسد، ومنہ صمام القارورۃ الذي تسد بہ فوہا۔ (العیني، البنایۃ شرح الھدایۃ، ’’باب ما فسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، فصل في العوارض‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۷)
(۱)ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ   وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۴۲۳۔


 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص168


 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1009

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: اگر چند  نمازیں  کسی وجہ سے چھوٹ جائیں  توان کی قضاء  کرتے وقت  ترتیب کا خیال رکھنا ضروری ہے۔خندق کے موقع پر  نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی چار نمازیں  رہ گئی تھیں تو آپ نے بالترتیب ان کی قضاء فرمائی تھی۔ نیز حضرت ابن عمر کی روایت ہے : ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال : من نسی صلاۃ فلم یذکرھا الا وھو مع الامام فلیصل مع الامام ولیجعلھا تطوعا ثم لیقض ماتذکر ثم لیعد ماکان صلاہ مع الامام۔مزید تفصیل کے لئے  دیکھئے بدائع ج1،ص339،338۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں جو امام مقرر ہے اگرچہ بقول آپ کے ولدالزنا ہے مگر باشرع، دیندار، عالم دین ہونے کی بناء پر اسی کو امامت پر باقی رکھنا چاہئے ورنہ امامت کھیل بن کر رہ جائے گی اور لوگوں کی نظروں میں امام کی عظمت و وقار گھٹ جائے گا۔(۱)

(۱) والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلوۃ فقط صحۃ وفساداً بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ، وحظہ قدر فرض ثم۔ الأحسن تلاوۃ وتجویداً للقراء ۃ ثم الأورع ثم الأسن ثم الأحسن الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
اجعلوا أئمتکم خیارکم فإنہم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم۔ (سنن الدار قطني، ’’باب تخفیف القرأۃ لحاجۃ‘‘: رقم: ۱۸۸۱)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص113

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: طلوع شمس کا وقت بہت کم اور معمولی ہوتا ہے احتیاطاً پانچ منٹ کافی ہیں اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں ہے۔ الا یہ کہ گھڑیوں کے اختلاف کی وجہ سے دو چار منٹ احتیاطاً مزید کردیے جائیں۔(۱)

(۱) وقت الفجر من الصبح الصادق ۔۔۔۔۔ إلی طلوع الشمس۔۔۔۔۔إذا طلعت الشمس حتی ترتفع۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الأول في المواقیت ومایتصل بہا: الفصل الأول و الفصل الثالث : ج ۱، ص: ۱۰۷، زکریا، دیوبند)
ما لم ترتفع الشمس قدر رمح فہي في حکم الطلوع۔ (ابن عابدین، رد المحتارعلی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، مطلب: یشترط العلم بدخول الوقت‘‘: ج ۲، ص: ۳۰، ۳۱، زکریا، دیوبند)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص86

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس میں لاؤڈ اسپیکر کی کوئی خصوصیت نہیں؛ امام خود ہی اقامت کہہ کر نماز شروع کر سکتا ہے، بسا اوقات مسجد میں ایک ہی شخص امام اور مؤذن دونوں ہوتا ہے اور وہی اقامت کہہ کر نماز شروع کر تا ہے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے نماز بلا کراہت درست ہے۔(۱)

(۱) وإن کان المؤذن والإمام واحد فإن أقام في المسجد، فالقوم لایقومون مالم یفرغ من الإقامۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني في الأذان الفصل الثاني في الأذان والإقامۃ وکیفیتہما‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۴)
عن عقبۃ بن عامر الجہني قال: کنت مع النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في سفر، فلما طلع الفجر أذن وأقام، ثم أقامني عن یمینہ۔ (أخرجہ ابن أبي شیبۃ في مصنفہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب من کان یخفف القراء ۃ في السفر ‘‘: ج ۳، ص: ۲۵۴، رقم: ۳۷۰۸)
وفي الضیاء: أنہ علیہ السلام أذن في سفرہ بنفسہ وأقام وصلی الظھر۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في کراہۃ تکرار الجماعۃ في النجد‘‘:ج ۲، ص: ۷۱)
إذا أنتما خرجتما فأذنا ثم أقیما ثم لیؤمکما أکبرکما۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، کتاب الأذان ’’باب الأذان للمسافر إذا کانوا جماعۃ والإقامۃ‘‘: ج۱، ص: ۲۲۳، رقم: ۶۳۰)
حدثنا ہارون بن معروف، حدثنا ابن وہب، عن عمرو بن الحارث أن أبا عشانۃ المعافري حدثہ، عن عقبۃ بن عامر، قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: یعجب ربکم من راعي غنم، في رأس شظیۃ بجبل، یؤذن بالصلاۃ ویصلي، فیقول اللّٰہُ عز وجلَ: انظروا إلی عبدي ہذا: یؤذن ویقیم الصلاۃ یخاف مني، قد غفرت لعبدي وأدخلتہ الجنۃ۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب صلاۃ السفر: باب الأذانِ في السفر‘‘: ج ۳، ص: ۱۲۵، رقم: ۱۲۰۳)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص208