Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:سورج کے غروب ہونے کے بعد آسمان کے کناروں پر جو سرخی رہتی ہے۔ اس کو شفق کہتے ہیں جب تک یہ سرخی موجود رہے جو تقریباً غروب سے ایک گھنٹہ تک رہتی ہے۔ اس وقت تک مغرب کی نماز ہوسکتی ہے۔(۲) بعض لوگوں میں یہ مشہور ہے کہ ذرا سا اندھیرا ہوا تو وقت مغرب ختم ہوگیا یہ غلط ہے البتہ قصداً نماز مغرب میں تاخیر کرنا مکروہ ہے۔(۱) تاہم اگر شفق سرخ کے غروب ہونے سے پہلے پڑھ لے تو مغرب کی نماز ادا ہو جائے گی۔
(۱) وأخر وقتہا ما لم یغب الشفق أي الجزء الکائن قبیل غیبوبۃ الشفق من الزمان وہو أي المراد بالشفق ہو البیاض الذي في الأفق الکائن بعد الحمرۃ التي تکون في الأفق عند أبي حنیفۃ وقالا أي أبو یوسف ومحمد رحمہما اللّٰہ وہو قول الأئمۃ الثلثۃ وروایۃ اسد بن عمرو عن أبي حنیفۃ أیضاً المراد بالشفق ہو الحمرۃ نفسہا لا البیاض الذي بعدہا۔ (إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري: ص: ۲۰۰، مکتبہ، دار الکتاب، دیوبند؛ ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، مطلب: في الصلاۃ الوسطی‘‘: ج ۲، ص: ۱۸، مکتبہ، زکریا، دیوبند)
(۲) أیضًا۔
(۱) ویستحب أیضاً تعجیل المغرب في کل الأزمنۃ إلا یوم الغیم کما في الصحیحین۔ (إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري: ص: ۲۰۵، دار الکتاب، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص76
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں ثنا کے بعد پہلی رکعت میں قرأت نہ کرنے کی وجہ سے فرض ترک ہوا ہے؛ اس لیے پہلی رکعت باطل ہوگئی اور پہلی رکعت باطل ہونے کی بنا پر پور ی نماز میں فساد آ گیا اس لیے نماز کا لوٹانا واجب ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: {فاقرء وا ما تیسر من القرآن} اس آیت میں بآسانی قرأت کرنے کا حکم ملتا ہے جب کہ احادیث مبارکہ میں سورۂ فاتحہ کے ساتھ سورت ملانے کا حکم دیا گیا ہے، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ’’عن أبي سعید الخدري رضي اللّٰہ عنہ قال: أمرنا أن نقرأ بفاتحۃ الکتاب وما تیسر‘‘(۱)
اس حدیث پاک میں حکم دیا گیا ہے کہ سورۃالفاتحہ کے ساتھ جو قرآن کریم میں آسان ہو اسے پڑھا کریں، امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے ’’لا صلاۃ إلا بقراء ۃ‘‘(۲)
فتاوی عالمگیری میں ہے: ’’ومنہا القرء ۃ وفرضہا عند أبي حنیفۃ رحمۃ اللّٰہ علیہ یتأدی بآیۃ واحدۃ وإن کانت قصیرۃ کذا في المحیط‘‘(۱)
مذکورہ عبارتوں سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ترک فرض (سورۂ فاتحہ اور قرأت) کی وجہ سے نماز کا اعادہ کرنا ضروری ہے سجدہ سہو کرنے سے بھی نماز درست نہیں ہوگی۔
(۱) أخرجہ أبوداود، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب من ترک القراء ۃ في صلاتہ بفاتحۃ‘‘: ج۱، ص: ۲۱۸، رقم:۸۱۸، ومسند أحمد، ’’مسند أبی ہریرۃؓ‘‘: ج ۱۲، ص: ۲۳۹، رقم: ۷۲۹۱۔
(۲) أخرجہ مسلم، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ في کل رکعۃ‘‘: ج۱ ، ص: ۱۷۰، رقم:۳۹۶۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول في فرائض الصلاۃ، ومنہا القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۶۔…
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص348
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ان دونوں میں سے جو شخص مسائل نماز سے واقف اور پانچوں وقت کی نماز پابندی سے پڑھنے والا ہے وہ ہی افضل ہے کہ اس کے پیچھے نماز ادا کی جائے اس صورت میں {إن أکرکم عند اللّٰہ أتقاکم} پر عمل کیا جائے اور جو نماز نہیں پڑھتا وہ فاسق ہے اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے جماعت میں نہ دیکھنے یا اس کے حاضر جماعت نہ ہونے کی وجہ کو معلوم کریں کوئی شرعی عذر تو نہیں ہے۔(۱)
(۱) فإن تساووا فأورعہم۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ،…الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثاني في بیان من ہو أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱)
الأعلم بالسنۃ أولی إلا أن یطعن علیہ في دینہ لأن الناس لایرغبون في الاقتداء بہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص103
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بلندی کی کم سے کم حد کے بارے میں فقہاء کا اختلاف ہے اس سے متعلق جو احادیث آئی ہیں ان میں اس بات کی تصریح نہیں ہے، ابو داؤد میں روایت ہے کہ عمار بن یاسر رضی اللہ نماز پڑھانے کے لیے آگے پڑھے، تو اونچی جگہ پر کھڑے ہوئے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے ہاتھ پکڑ کر کھینچ لیا اور فرمایا کہ آپ کو معلوم نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے امام کو اونچی جگہ کھڑے ہونے سے منع فرمایا ہے، چوں کہ اس کی کوئی مقدار مقررہ حدیث میں نہیں ہے؛ اس
لیے اختلاف ہونا بھی لازمی ہے اس میں دو قول معتبر سمجھے گئے ہیں۔
(۱) ایک ذراع یعنی ایک ہاتھ کی مقدار بلندی ممنوع ومکروہ ہے اس سے کم مکروہ نہیں دلیل یہ ہے کہ نمازی کے لیے سترہ کی بلندی کی مقدار کم از کم ایک ذراع ہے یعنی ایک ہاتھ کے برابر ہے اس پر قیاس کر کے امام کی جگہ کی بلندی کی مقدار بھی یہی ہوگی کہ ایک ذراع کے برابر مکروہ ہوگی اور اس سے کم میں کوئی کراہت نہیں ہوگی۔
(۲) اتنی بلندی پر کھڑا ہونا مکروہ ہے کہ نمایاں طور پر امام مقتدیوں سے ممتاز اور الگ معلوم ہوتا ہو، دلیل یہ ہے کہ احادیث میں مطلق بلندی ممنوع ہے؛ لہٰذا جتنی بلند جگہ پر امام مقتدیوں سے جدا اور نمایاں معلوم ہوتا ہو اتنی بلندی مکروہ ہونی چاہیے، اور جیسے یہ بلندی بڑھتی چلی جائے گی کراہت میں زیادتی ہوتی جائے گی۔
لیکن اس کی مقدار کتنی ہونی چاہیے کہ اس پر امام کھڑا ہوکر نمایاں اور ممتاز معلوم نہ ہو اور معمولی سی بلندی تو قریب قریب ہر جگہ ہی ہوتی ہے؛ اس لیے اس سے پرہیز ممکن نہیں ہے؛ اس لیے چھ سات انچ کی بلندی تو مکروہ ہوگی اور اس سے کم بلندی باعث کراہت نہ ہوگی یہ بظاہر معلوم ہوتا ہے۔(۱)
(۱) عن عدي بن ثابت الأنصاري، حدثني رجل، أنہ کان مع عمار بن یاسر بالمدائن فأقیمت الصلاۃ فتقدم عمار وقام علی دکان یصلي والناس أسفل منہ، فتقدم حذیفۃ فأخذ علی یدیہ فاتبعہ عمار، حتی أنزلہ حذیفۃ فلما فرغ عمار من صلاتہ قال لہ حذیفۃ: ألم تسمع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: إذا أم الرجل القوم فلا یقم في مکان أرفع من مقامہم أو نحو ذلک؟ قال عمار: لذلک اتبعتک حین أخذت علی یدي۔ (أخرجہ أبو داؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمام یقوم مکانا أرفع من مکان القوم‘‘: ج ۱، ص: ۹۸، رقم: ۵۹۸)
فالحاصل أن التصحیح قد اختلف والأولی العمل بظاہر الروایۃ وإطلاق الحدیث وأما عکسہ وہو انفراد القوم علی الدکان بأن یکون الإمام أسفل فہو مکروہ أیضا في ظاہر الروایۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، تغمیض عینہ في الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص438
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اذان عصر کے بعد فرائض کے ادا کرنے سے پہلے عصر کی سنت مستحبہ اور دیگر نوافل ادا کرسکتے ہیں۔(۲)
(۲) ویجوز التطوع قبل العصر۔ (فخر الدین حسن بن منصور، فتاویٰ قاضي خان: کتاب الصلاۃ، باب الأذان، ج ۱، ص: ۴۹، زکریا دیوبند)
ویستحب أیضاً عند نا تاخیر العصر في کل الأزمنۃ إلا یوم الغیم ما لم تتغیر الشمس، وذلک لیتوسع وقت النوافل، إذا التنفل بعد أداء ہا مکروہ۔ (إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري: ص: ۲۰۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص77
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز وہاں بھی فرض ہے اور بلا وجہ شرعی اس کو ترک کرنا گناہ ہے؛(۲) اس لیے پردہ کے اہتمام کے ساتھ کھیت میںہی نماز اداء کریں اور کھیت میں نماز کا کوئی علاحدہ طریقہ نہیں ہے جس طرح گھر میں نماز پڑھتی ہیں اسی طرح کھیت میں نماز پڑھیں گی بس پردہ کا خیال رکھنا چاہئے۔(۳)
(۲) {فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ ہلا۴ الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلَا تِہِمْ سَاھُوْنَہلا۵ } (سورۃ الماعون: ۴،۵)
من ترک الصلوٰۃ متعمداً فقد کفر جہاراً۔ (أخرجہ الطبراني في المعجم الأوسط، ’’من اسمہ جعفر‘‘: ج ۳، ص: ۳۴۳، رقم: ۳۳۴۸)(شاملہ)
(۳){وَحَیْثُ مَا کُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ شَطْرَہٗط} (سورۃ البقرہ: ۱۴۴)
عن جابر بن عبد اللّٰہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: جعلت لي الأرض مسجداً وطہوراً أینما أدرک رجل من أمتي الصلاۃ صلی۔ (أخرجہ النسائي، ’’کتاب المساجد: الرخصۃ في ذلک‘‘: ج۱، ص: ۸۵، رقم: ۷۳۶)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص349
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2445/45-3708
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جمعہ کی نماز میں ہر دو خطبے طوال مفصل یعنی سورۂ حجرات سے سورۂ بروج تک میں سے کسی سورہ کے برابر رہیں‘ اتنا طویل خطبہ دیناکہ طوال مفصل سے بڑھ جائے مکروہ ہے۔ حدیث میں خطبہ طویل کرنے کی ممانعت آئی ہے۔ اس لئے نماز جمعہ میں خطبہ مختصر ہونا چاہئے، نبی اکرم ﷺ کے اقوال ا فعال سے، اور صحابہ کرام کے آثار اور اجماع سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ طویل خطبہ دینا خلافِ سنت ہے۔ حدیث میں صراحت کے ساتھ نمازمیں تخفیف کا حکم ہے۔ لہذانماز پڑھانے والے پر لازم ہے کہ کمزوروں اور ضرورتمندوں کا خیال رکھ کر نماز پڑھائے خطبہ مختصر دے۔ اس قدر طویل خطبہ دینا جو تقلیل جماعت کا سبب بنے درست نہیں ہے۔
خطبنا عمار فاوجز وابلغ فلما نزل قلنا یا ابا الیقظان لقد بلغت واوجزت فلو کنت تنفست فقال انی سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول ان طول صلوٰة الرجل وقصر خطبتہ مئنة من فقہ فاطیلو الصلوٰة واقصروا الخطبة وان من البیان لسحرًا(مسلم شریف ج۱،ص۲۸۶،مکتبہ ملت دیوبند۔)
عن جابر بن سمرة قال کان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یخطب قائماً ثم یجلس ثم یقوم ویقرأ آیات ویذکر اللّٰہ عزوجل وکانت خطبة قصدا وصلاتہ قصدًا․ (نسائی شریف جلد۱، ص۱۵۹، ابن ماجہ ص ۷۷، مکتبہ فیصل دیوبند۔ ترمذی شریف ج۱، ص۱۱۴، فیصل دیوبند۔)
عن جابررضى الله تعالى عنہ قال : کان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوم الجمعة یخطبہ فیقول بعد ان یحمد اللّٰہ ویصلی علی انبیائہ ”ایہا الناس ان لکم معالم فانتہو الی معالمکم وان لکم نہایة فانتہوا الی نہایتکم ان العبد الموٴمن بین مخافتین بین اجل قد مضی لایدری ما اللّٰہ قاض فیہ وبین اجل قد بقی لا یدری ما اللّٰہ صانع فیہ فلیاخذ العبد من نفسہ لنفسہ ومن دیناہ لآخرتہ ومن الشبیبة قبل الکبر ومن الحیاة قبل الممات والذی نفسی بیدہ ما بعد الموت من مستعتب ما بعد الدنیا من دار الا الجنة او النار اقول قولی ہذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم وقد تقدم ما خطبہ بہ علیہ الصلوٰة والسلام اول جمعة عند قدومہ المدینة (اخرجہ ابوداؤد، مراسیل ص ۱۹۴۰۸، بیہقی ج۲، ص۲۱۵، باب کیف یستحب ان تکون الخطبة، بحوالہ الجامع الاحکام القرآن ص ۱۰۵،۱۰۶ ج۹، جز ۱۸ مکتبہ دارالفکر۔)
عن جابررضى الله تعالى عنہ قال : کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لایطیل الموعظة یوم الجمعة انما ہن کلمات یسیرات․( ابوداؤد شریف ج۱، ص۱۵۸، مکتبہ ملت دیوبند۔)
"قال أبوحنیفة رحمة الله عليه: إن اقتصر الخطیب علی مقدار یسمي ذکر اللّٰه کقوله: الحمد اللّٰه، سبحان اللّٰه جاز ... وقال الصاحبان: لابد من ذکر طویل یسمٰی خطبة".(بدائع الصنائع ج۱، ص۳۸۹، مکتبه دارالفکر)
"ومنها الخطبة"؛ لأن النبي صلى الله عليه وسلم ما صلاها بدون الخطبة في عمره، "وهي قبل الصلاة بعد الزوال"، به وردت السنة، "ويخطب خطبتين يفصل بينهما بقعدة"، به جرى التوارث"، ويخطب قائمًا على طهارة؛ "لأن القيام فيهما متوارث، ثم هي شرط الصلاة فيستحب فيها الطهارة كالأذان، "ولو خطب قاعدًا أو على غير طهارة جاز؛ "لحصول المقصود، إلا أنه يكره؛ لمخالفته التوارث؛ وللفصل بينهما وبين الصلاة، "فإن اقتصر على ذكر الله جاز عند أبي حنيفة رحمه الله، وقالا: لا بد من ذكر طويل يسمى خطبة، "لأن الخطبة هي الواجبة والتسبيحة أو التحميدة لاتسمى خطبةً، وقال الشافعي رحمه الله: لاتجوز حتى يخطب خطبتين اعتبارًا للمتعارف، وله قوله تعالى: {فَاسَعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ} [الجمعة: 9] من غير فصل، وعن عثمان رضي الله عنه أنه قال: الحمد لله فأرتج عليه، فنزل وصلى". (الهداية في شرح بداية المبتدي (1/ 82)
(والرابع عشر) تخفیف الخطبتین بقدرسورۃ من طوال المفصل ویکرہ التطویل۔ (فتاویٰ عالمگیری ج1ص 147)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: دکاندار اگر لائق امامت ہو تو اس کی امامت بالکل درست ہے، دکاندار ہونے کی وجہ سے اس کی امامت کے صحیح ہونے پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔(۱)
(۱) إذا لم یکن بین الحاضرین صاحب منزل ولا وظیفۃ ولا ذو سلطان فالأعلم أحق بالإمامۃ ثم الأقرأ ثم الأورع ثم الأسن ثم الأحسن خلقا ثم الأحسن وجہا ثم الأشرف نسبا ثم الأحسن صوتا ثم الأنظف ثوبا، فإن استووا یقرع أو الخیار إلی القوم فإن اختلفوا فالعبرۃ بما اختارہ الأکثر وإن قدموا غیر الأولی فقد أساء وا۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، فصل في الأحق بالإمامۃ وترتیب الصفوف‘‘: ص: ۱۱۱، ۱۱۲)
عن عبداللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: قال لنا علیہ السلام: یؤم القوم أقرأہم لکتاب اللّٰہ وأقدمہم قراء ۃ۔ (أخرجہ مسلم في صحیحہ: ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب من أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۲۳۶، رقم:۶۷۳)
الأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ ثم الأحسن تلاوۃ، وتجویداً للقراء ۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في الصلوۃ‘‘ : ج ۲، ص: ۲۹۵، ۲۹۴)؛
وثم الأحسن تلاوۃ وتجویداً، ومعنی الحسن في التلاوۃ أن یکون عالماً بکیفیۃ الحروف والوقف وما یتعلق بہا۔ (أیضًا:)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص104
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:زید کی یہ نماز ادا ہے، قضاء نہیں ہے؛ کیوںکہ عشاء کا وقت طلوع فجر تک رہتا ہے؛ البتہ آدھی رات سے زیادہ تاخیر کرنا مکروہ ہے؛(۱) اس لیے آدمی رات سے پہلے عشاء کی نماز پڑھ لیا کریں، تاکہ کراہت نہ ہو نیز عشاء اداء کرنے سے پہلے سونا مکروہ ہے۔
’’عن أبي برزۃ رضي اللّٰہ عنہ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یکرہ النوم قبل العشاء والحدیث بعدہا‘‘(۲)
نیز زید کا ترک جماعت کرنا سخت گناہ ہے زید کو چاہئے کہ عشاء کی نماز باجماعت ادا کرے اور پھر سوجائے ۔(۳)
(۱) وتاخیرہا إلی ما بعدہ أي بعد نصف اللیل إلی طلوع الفجر مکروہ إذا کان بغیر عذر۔ (إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري: ص: ۲۰۶)
(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، کتاب مواقیت الصلوۃ ’’باب ما یکرہ من النوم قبل العشاء‘‘: ج ۱، ص: ۸۰، رقم: ۵۶۸، مکتبہ فیصل، دیوبند۔
(۳) قال رسول اللّٰہ ﷺ : من سمع المنادی فلم یمنعہ من اتباعہ عذر قالوا: وماالعذر؟ قال: خوف أو مرض لم تقبل منہ الصلاۃ التی صلی۔(أخرجہ أبو داود ، في سننہ، کتاب الصلاۃ، في التشدید في ترک الجماعۃ، ج:۱،ص:۱۵۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص78
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر دل میں عشاء کی نمازہے اور غلطی سے زبان سے مغرب کا لفظ نکل گیا تو عشاء کی نماز ادا ہوگئی، لیکن اگر جلدی میں نیت کی تعیین نہیں کرسکا اور زبان سے مغرب بول دیا تو نماز نہیں ہوگی، دوبارہ نماز پڑھنی ہوگی۔(۱)
(۱) لا یصح اقتداء مصلي الظہر بمصلي العصر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ الباب الخامس: في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماما‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۳)
(والمعتبر فیہا عمل القلب اللازم للإرادۃ) فلا عبرۃ للذکر باللسان إن خالف القلب لأنہ کلام لا نیۃ إلا إذا عجز عن إحضارہ لہموم أصابتہ فیکفیہ اللسان مجتبی (وہو) أي عمل القلب (أن یعلم) عند الإرادۃ (بداہۃ) بلا تأمل (أي صلاۃ یصلي) فلو لم یعلم إلا بتأمل لم یجز۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ باب شروط الصلاۃ، بحث النیۃ‘‘: ج ۲، ص: ۹۲)
عزم علی الظہر وجری علی لسانہ العصر یجزیہ کذا في شرح مقدمۃ أبي اللیث وہکذا في القنیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث: في شروط الصلاۃ،… الفصل الرابع في النیۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۳)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا اقیمت الصلٰوۃ فلا صلٰوۃ إلا المکتوبۃ التي أقیمت۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ، ’’الجزء الرابع عشر‘‘: ج ۱۴، ص: ۲۷۱، رقم: ۸۶۲۳)
واستدل بقولہ: (التي أقیمت) بأن المأموم لا یصلي فرضا ولا نفلا خلف من یصلي فرضا آخر کالظہر مثلا خلف من یصلي العصر وإن جازت إعادۃ الفرض خلف من یصلي ذلک الفرض۔ (ابن حجر العسقلاني، فتح الباري شرح البخاري، ’’کتاب الأذان: باب إذا أقمت الصلاۃ فلا صلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۸۷)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص350