نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مکروہ وخلاف ادب ہے۔ ہاتھوں کو ناف کے نیچے باندھے رکھنا چاہئے۔(۲)

(۲) ووضع یمینہ علی یسارہ وکونہ تحت السرۃ للرجال، لقول علي رضي اللّٰہ عنہ من السنۃ: وضعہما تحت السرۃ۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، باب صفۃ الصلاۃ ’’مطلب في التبلیغ خلف الإمام‘‘: ج۲، ص: ۱۷۲، ۱۷۳)
عن أنس رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ قال ثلاث من اخلاق النبوۃ تعجیل الافطار، وتاخیر السحور ووضع الید الیمنی علی الیسری في الصلاۃ تحت السرۃ۔ (أخرجہ علاؤ الدین بن علي بن عثمان، في الجواھر النقي في الرد علی البیہقي، ج۲، ص: ۱۳۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص169

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر وہ دونوں واقعی طور پر علم، مسائل اور علم تجوید میں یکساں ہیں، تو ان میں جو شخص زیادہ پرہیز گار اور زیادہ عمر والا ہے اس کو امام بنایا جائے۔ اور اگر ان سب میں دونوں برابر ہوں، تو سید کو امام بنایا جائے۔ ’’ثم أکثرہم حسبا ثم الأشرف نسبا‘‘(۱)

(۱) الحصکفي، الدر المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص:۲۹۵۔
والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ ثم الأحسن تلاوۃ وتجویداً للقراء ۃ ثم الأورع أي الأکثر اتقاء للشبہات أي الأکثر اتقأ للشبہات، والتقوی اتقأ المحرمات ثم الأحسن أي الأقدم إسلاما فیقدم شاب علی شیخ أسلم، وقالوا یقدم الأقدم ورعا، وفي النہر عن الزاد وعلیہ یقاس سائر الخصال، فیقال یقدم أقدمہم علما ونحوہ وحینئذ فقلما یحتاج للقرعۃ ثم الأحسن خلقا بالضم ألفۃ بالناس ثم الأحسن وجہا۔ (أیضًا:  ص: ۲۹۴)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص114

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو تین اوقات میں نماز پڑھنے سے منع کیا ہے، ایک طلوع شمس کے وقت یہاں تک کہ سورج اچھی طرح نکل جائے دوسرے نصف النہار (زوال) اور تیسرا غروبِ آفتاب (سورج کے غروب) کے وقت، ان تینوں وقتوں کے علاوہ قضاء نمازوں کے لیے کوئی خاص وقت متعین نہیں ہے۔ آپ ان کے علاوہ باقی تمام اوقات میں جس وقت چاہیں قضاء نماز پڑھ سکتی ہیں، شریعت مطہرہ آپ کو اس کی اجازت دیتی ہے جیسا کہ علامہ کاسانی نے بدائع الصنائع میں تحریر فرمایا ہے۔
’’لیس للقضاء وقت معین بل جمیع الأوقات وقت لہ إلا ثلاثۃ: وقت طلوع الشمس ووقت الزوال ووقت الغروب، فإنہ لا یجوز القضاء في ہذہ الأوقات لما مر  أن من شأن القضاء أن یکون مثل الفائت والصلاۃ في ہذہ الأوقات تقع ناقصۃ والواجب في ذمتہ کامل، فلا ینوب الناقص عنہ‘‘(۱)
’’إن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نھی عن الصلاۃ في ثلاث ساعات: عند طلوع الشمس حتی تطلع ونصف النھار وعند غروب الشمس‘‘(۲)
مراقی الفلاح میں ہے:
’’ثلاثۃ أوقات لا یصح فیھا شيء من الفرائض والواجبات التي لزمت في الذمۃ قبل دخولھا، عند طلوع الشمس إلی أن ترتفع و عند استوائھا إلی أن تزول وعند إصفرارھا إلی أن تغرب‘‘(۳)
خلاصہ: مذکورہ عبارتوں کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ تین اوقات کے علاوہ دیگر اوقات میں سے آپ کسی وقت بھی قضاء نماز پڑھ سکتی ہیں، ان تینوں اوقات میں ایسے فرائض وواجبات ادا کرنا درست نہیں، جو ان اوقات کے داخل ہونے سے قبل لازم ہو گئے تھے، جیسا کہ در مختار میں لکھا ہے:
’’وجمیع أوقات العمر وقت القضاء إلا الثلاثۃ المنھیۃ‘‘(۴)
’’قولہ: ’’إلا الثلاثۃ المنھیۃ‘‘: وھي الطلوع والاستواء والغروب‘‘(۵)

(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، کیفیۃ قضاء الصلوات‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۲، دارالکتاب، دیوبند۔
(۲) سلیمان بن أحمد الطبراني، المعجم الأوسط، ’’ ‘‘: ج ۵، ص:۵۳۔(شاملہ)
(۳) حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الایضاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الأوقات المکروہۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۵-۱۸۶، دارالکتاب، دیوبند۔
(۴) ابن عابدین،  رد المحتارعلی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت، مطلب: في تعریف الإعادۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۲۴، زکریا، دیوبند۔    (۵) أیضًا۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص87

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس پر التزام واصرار مناسب نہیں ہے کیوں کہ احناف کے نزدیک افضل اور بہتر یہ ہے کہ شروع ہی تکبیر میں کھڑا ہوجائے تاکہ تکبیر ختم ہونے تک صفوف کی درستگی ہوجائے اور امام کے تکبیر کہنے کے ساتھ ساتھ مقتدی بھی تکبیر کہہ کر نماز شروع کردیں اور ان کوبھی تکبیر اولیٰ کا ثواب مل جائے۔(۱)

(۱) (قولہ: والقیام لإمام ومؤتم الخ) مسارعۃ لامتثال أمرہ، والظاہر أنہ احتراز عن التاخیر لا التقدیم، حتی لو قام أول الإقامۃ لا بأس اہـ، وکلمۃ ’’لا بأس‘‘ ہنا مستعملۃ في المندوب۔ (نص الطحطاوي في الحاشیۃ علی الدر ہکذا:
عن عبدالرحمن بن عوف سمع أبا ہریرۃ یقول أقیمت الصلوٰۃ فَقُمْنا فَعَدَّلنا الصفوف قبل أن یخرج إلینا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ‘‘: باب متی یقوم الناس للصلاۃ، ج ۱، ص: ۲۲۰، رقم: ۶۰۵)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص209

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مکروہ تنزیہی ہے۔(۱)

(۱) (وکرہ) افتراش الرجل ذراعیہ للنہي۔ (ابن عابدین، الدرالمختار، ’’باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۴۱۱، زکریا دیوبند)
(قولہ وافتراش ذراعیہ) لما في صحیح مسلم عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا وکان -یعني النبي- صلی اللّٰہ علیہ وسلم ینہی أن یفترش الرجل ذراعیہ افتراش السبع وافتراشہما إلقاؤہما علی الأرض کما في المغرب۔ قیل: وإنما نہی عن ذلک لأنہا صفۃ الکسلان والتہاون بحالہ مع ما فیہ من التشبہ بالسباع والکلاب، والظاہر أنہا تحریمیۃ للنہ؁ المذکور من غیر صارف۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا‘‘: ج ۲، ص:۴۰، ۴۱)…یعتمد علی راحتیہ ویبدي ضبعیہ عن جنبیہ، ولا یفترش ذراعیہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الھندیۃ،  کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ،’’الفصل الثالث في سنن الصلاۃ‘‘: ج۱، ص:۱۳۲، مکتبہ فیصل)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص170

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بیوی کا خوبصورت ہونا یا نہ ہوناامامت سے متعلق نہیں ہے اور اس قسم کی باتیں کرنا مذہب میں تحریف کے مترادف ہے جو باعث گناہ ہے، دونوں شخصوں میں جو خوش الحان بھی ہو اس کو ترجیح دی جائے۔
اور بعض فقہاء نے جو یہ لکھا ہے: ’’ثم الأحسن زوجۃ‘‘ اس کی علت یہ ہے کہ زوجہ کے خوبصورت ہونے کی وجہ سے دوسری عورتوں کی طرف التفات نہیں کرے گا۔ صالح اور نیک ہوگا علت اور سبب کا بھی لحاظ کیا جاتا ہے۔ اس کا عمومی مطلب یہ نہیں کہ جس کی بیوی خوبصورت ہو، تو وہ وجہ تقدیم امامت بن جائے ایسا نہیں ہے۔
اس لیے دیکھا جائے کہ خوش الحان ہو اور زیادہ صالح وعابد وزاہد ہو اور اس میں بھی دونوں برابر ہوں تو قرعہ اندازی کر لی جائے، جیسا کہ شامی نے وضاحت کی ہے۔(۱)

(۱) (قولہ ثم الأحسن زوجۃ) لأنہ غالباً یکون أحب لہا وأعف لعدم تعلقہ بغیرہا وہذا مما یعلم بین الأصحاب أو الأرحام أو الجیران إذ لیس المراد أن یذکر کل أو صاف زوجتہ حتی یعلم من ہو أحسن زوجۃ۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۵)
ولا شک أن ہذہ المعاني إذا اجتمعت في إنسان کان ہو أولی کما بینا أن بناء أمرالإمامۃ علی الفضیلۃ والکمال والمستجمع فیہ ہذہ الخصال من أکمل الناس: أما العلم والورع وقراء ۃ القرآن فظاہر۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلوٰۃ: بیان أحق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۸، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص115

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: فجر کی نماز کے لیے وہی وقت بہتر ہے جس وقت عموماً نماز ہوتی ہے یعنی تاخیر سے جماعت ہونا افضل ہے؛ لیکن رمضان المبارک میں سحری کے بعد عام طور پر نیند آتی ہے اس کے بعد نماز کے وقت پر اٹھنا مشکل ہوتا ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کی جماعت ہی نکل جاتی ہے؛ اس لیے اذان کے فوراً بعد نماز پڑھ لی جاتی ہے، اس صورت میں جماعت میں زیادہ لوگ شریک ہوجاتے ہیں اور یہ ہی مطلوب ہے، یہ صورت لوگوں کو سمجھا دی جائے کہ لوگوں کی جماعت میں زیادہ سے زیادہ شرکت ہونی چاہئے اس کے بعد باہمی مشورے سے جو صورت طے ہو اس پر عمل کیا جائے اگر پھر بھی اختلاف ہو تو جو رائے اکثر کی ہو اس پر عمل کیا جائے، رہا لوگوں کا برا کہنا تو اس کا خیال نہ کیا جائے ایسا کون ہے جس کو سبھی اچھا کہیں صبر سے کام لیا جائے یہ بھی باعث اجر ہے۔(۱)

(۱) عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ أن زید بن ثابت حدثہ أنہم تسحّروا مع النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ثم قاموا إلی الصلوٰۃ قلت کم بینہما، قال قدر خمسین أو ستین یعني آیۃ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب وقت الفجر‘‘: ج ۱، ص: ۸۱، رقم: ۵۷۵، مکتبہ: نعیمیہ، دیوبند)
فلو اجتمع الناس الیوم أیضاً في التغلیس لقلنا بہ أیضاً کما في مبسوط السرخسي في باب التیمم أنہ یستحب التغلیس في الفجر والتعجیل في الظہر إذا اجتمع الناس۔ (الکشمیري، فیض الباري شرح البخاري، ’’کتاب مواقیت الصلاۃ، باب وقت الفجر‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۷، رقم: ۵۷۶، مکتبہ شیخ الہند، دیوبند)
قولہ کنت اتسحر في أہلی ثم یکون سرعۃ بي أن أدرک صلاۃ الفجر مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولعل ہذا التغلیس کان في رمضان خاصۃ وہکذا ینبغي عندنا إذا اجتمع الناس وعلیہ العمل في دار العلوم بدیوبند من عہد الأکابر۔ (الکشمیري، فیض الباري شرح البخاري، ’’کتاب مواقیت الصلاۃ، باب وقت الفجر‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۸، رقم: ۵۷۷، مکتبہ: شیخ الہند، دیوبند)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص89

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:در مختار میں ہے کہ ’’الإقامۃ کالأذان فیما مر‘‘(۲)
اور اس کے تحت شامی میں ہے ’’وأراد بما مر أحکام الأذان العشرۃ المذکورۃ في المتن‘‘(۳)
تکبیر میں بھی ’’حي علی الصلوٰۃ، حي علی الفلاح‘‘ کہتے وقت چہرہ دائیں، بائیں گھمانا چاہئے یہ مستحب ہے۔
’’ویلتفت فیہ أي الأذان وکذا فیہا أي في الإقامۃ مطلقاً یمیناً ویساراً‘‘(۴)
’’قولہ ویلتفت: أي یحول وجہہ لا صدرہ، قہستاني، ولا قدمیہ، وکذا فیہا مطلقاً أي في الإقامۃ سواء کان المحل متسعا أولا … قولہ بصلاۃ وفلاح … یعنی یلتفت فیہما یمیناً بالصلاۃ ویساراً بالفلاح‘‘(۱)

(۲) ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في أول من بنی المنائر للأذان‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۔
(۳) أیضًا،ج ۲، ص: ۵۴۔    (۴) أیضًا،ج ۲، ص: ۵۳۔
(۱) أیضًا۔    

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص210

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بلا ضرورت مکروہ ہے البتہ نماز ادا ہوجاتی ہے۔(۱)

(۱) یکرہ للمصلي ان یعبث بثوبہ أو لحیتہ أو جسدہ، وإن یکف ثوبہ بأن یرفع ثوبہ من بین یدیہ أو من خلفہ إذا أراد السجود، کذا في معراج الدرایۃ ولا بأس بان ینفض ثوبہ کیلا یلتف بجسدہ في الرکوع۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ،کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، الفصل الثاني ج۱، ص: ۱۶۴)
قال في النہایۃ وحاصلہ أن کل عمل ہو مفید للمصلی فلابأس بہ، اصلہ ماروی ان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم عرق في صلاتہ فسلت العرق عن جبینہ إلی مسحہ، لأنہ کان یوذیہ فکان مفیداً وفي زمن الصیف کان إذا قام من السجود ونفض ثوبہ یمنۃ او یسرۃ لانہ کان مفیداً کیلا یتقي صورۃ، فاما مالیس بمفید فہو عبث۔ (ابن عابدین، رد المحتار: ج۲، ص: ۴۹۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص171

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر عالم ایسا قرآن پڑھتا ہے جس سے نماز ہوجائے، تو قاری محض کو امام نہ ہونا چاہئے اور جو عالم ایسا قرآن نہ پڑھے کہ نماز صحیح ہوجائے، تو قاری کو امام بنایا جائے۔(۱)

(۱) الأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلوٰۃ ثم الأحسن تلاوۃ للقراء ۃ ثم الأورع۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۴؛و ابن الہمام، وفتح القدیر، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۵۴، زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص116