نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: خلاف سنت ومکروہ ہے مگر نماز ادا ہوجائے گی۔(۲)
’’یکرہ اشتمال الصماء والاعتجار والتلثم، قال الشامي: قولہ: والتلثم وہو تغطیۃ الأنف والفم في الصلاۃ لأنہ یشبہ فعل المجوس حال عبادتہم النیران‘‘(۱)

(۲) قال صلی اللّٰہ علیہ وسلم أمرت أن أسجد علی سبعۃ أعظم وأن لا أکف شعرا ولا ثوبا متفق علیہ، ذکرہ في البرہان، وکذا یکرہ الاشتمالۃ الصماء في الصلاۃ وہو أن یلف بثوب واحد رأسہ وسائر بدنہ ولا یدع منفذا لیدہ وہل یشترط عدم الائتزار مع ذلک عن محمد یشترط وغیرہ لا یشترطہ ویکرہ الاعتجار وہو أن یلف العمامۃ حول رأسہ ویدع وسطہا کما یفعلہ الدعرۃ ومتوشحا لا یکرہ وفي ثوب واحد لیس علی عاتقہ بعضہ یکرہ إلا لضرورۃ کما في فتح القدیر۔ (ملا خسرو الحنفي، درر الحکام شرح غرر الاحکام، ’’مکروہات الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۰۶)
ویکرہ لبسۃ الصماء، وروی الحسن عن أبي حنیفۃ أنہا کالاضطباع،…وإنما کرہہا؛ لأنہا من لباس أہل الأثر والبطر، وفي البخاري أنہ علیہ السلام نہی عن لبسۃ الصماء فقال: إنما یکون الصماء إذا لم یکن علیک إزار۔ قیل: ہی اشتمال الیہود۔ وقال الجوہري عن أبي عبید: اشتمال الصماء أن تخلل جسدک بثوبک نحو سلمۃ الأعراب بأکیستہم وہي أن یرد الکساء من قبل یمینہ علی یدہ الیسری وعاتقہ الأیسر ثم یردہ ثانیۃ من خلفہ علی یدہ الیمنی أو عاتقہ الأیمن فیغطیہا۔ وقیل: أن یشتمل بثوبہ فیخلل جسدہ کلہ ولا یرفع جانبا یخرج یدہ منہ۔ وقیل: أن یشتمل ثوب واحد لیس علیہ إزار، وفي مشارق الأنوار ہو الالتفاف في ثوب واحد من رأسہ إلی قدمیہ یخلل بہ جسدہ کلہ وہو التلفف، قال سمیت بذلک واللّٰہ أعلم لاشتمالہا علی أعضائہ حتی لا یجد مستقرا کالصخرۃ الصماء أو یشدہا وضمہا جمیع الجسد، ومنہ صمام القارورۃ الذي تسد بہ فوہا۔ (العیني، البنایۃ شرح الھدایۃ، ’’باب ما فسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، فصل في العوارض‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۷)
(۱)ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ   وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۴۲۳۔


 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص168


 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1009

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: اگر چند  نمازیں  کسی وجہ سے چھوٹ جائیں  توان کی قضاء  کرتے وقت  ترتیب کا خیال رکھنا ضروری ہے۔خندق کے موقع پر  نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی چار نمازیں  رہ گئی تھیں تو آپ نے بالترتیب ان کی قضاء فرمائی تھی۔ نیز حضرت ابن عمر کی روایت ہے : ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال : من نسی صلاۃ فلم یذکرھا الا وھو مع الامام فلیصل مع الامام ولیجعلھا تطوعا ثم لیقض ماتذکر ثم لیعد ماکان صلاہ مع الامام۔مزید تفصیل کے لئے  دیکھئے بدائع ج1،ص339،338۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں جو امام مقرر ہے اگرچہ بقول آپ کے ولدالزنا ہے مگر باشرع، دیندار، عالم دین ہونے کی بناء پر اسی کو امامت پر باقی رکھنا چاہئے ورنہ امامت کھیل بن کر رہ جائے گی اور لوگوں کی نظروں میں امام کی عظمت و وقار گھٹ جائے گا۔(۱)

(۱) والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلوۃ فقط صحۃ وفساداً بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ، وحظہ قدر فرض ثم۔ الأحسن تلاوۃ وتجویداً للقراء ۃ ثم الأورع ثم الأسن ثم الأحسن الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
اجعلوا أئمتکم خیارکم فإنہم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم۔ (سنن الدار قطني، ’’باب تخفیف القرأۃ لحاجۃ‘‘: رقم: ۱۸۸۱)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص113

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: طلوع شمس کا وقت بہت کم اور معمولی ہوتا ہے احتیاطاً پانچ منٹ کافی ہیں اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں ہے۔ الا یہ کہ گھڑیوں کے اختلاف کی وجہ سے دو چار منٹ احتیاطاً مزید کردیے جائیں۔(۱)

(۱) وقت الفجر من الصبح الصادق ۔۔۔۔۔ إلی طلوع الشمس۔۔۔۔۔إذا طلعت الشمس حتی ترتفع۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الأول في المواقیت ومایتصل بہا: الفصل الأول و الفصل الثالث : ج ۱، ص: ۱۰۷، زکریا، دیوبند)
ما لم ترتفع الشمس قدر رمح فہي في حکم الطلوع۔ (ابن عابدین، رد المحتارعلی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، مطلب: یشترط العلم بدخول الوقت‘‘: ج ۲، ص: ۳۰، ۳۱، زکریا، دیوبند)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص86

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس میں لاؤڈ اسپیکر کی کوئی خصوصیت نہیں؛ امام خود ہی اقامت کہہ کر نماز شروع کر سکتا ہے، بسا اوقات مسجد میں ایک ہی شخص امام اور مؤذن دونوں ہوتا ہے اور وہی اقامت کہہ کر نماز شروع کر تا ہے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے نماز بلا کراہت درست ہے۔(۱)

(۱) وإن کان المؤذن والإمام واحد فإن أقام في المسجد، فالقوم لایقومون مالم یفرغ من الإقامۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني في الأذان الفصل الثاني في الأذان والإقامۃ وکیفیتہما‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۴)
عن عقبۃ بن عامر الجہني قال: کنت مع النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في سفر، فلما طلع الفجر أذن وأقام، ثم أقامني عن یمینہ۔ (أخرجہ ابن أبي شیبۃ في مصنفہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب من کان یخفف القراء ۃ في السفر ‘‘: ج ۳، ص: ۲۵۴، رقم: ۳۷۰۸)
وفي الضیاء: أنہ علیہ السلام أذن في سفرہ بنفسہ وأقام وصلی الظھر۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في کراہۃ تکرار الجماعۃ في النجد‘‘:ج ۲، ص: ۷۱)
إذا أنتما خرجتما فأذنا ثم أقیما ثم لیؤمکما أکبرکما۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، کتاب الأذان ’’باب الأذان للمسافر إذا کانوا جماعۃ والإقامۃ‘‘: ج۱، ص: ۲۲۳، رقم: ۶۳۰)
حدثنا ہارون بن معروف، حدثنا ابن وہب، عن عمرو بن الحارث أن أبا عشانۃ المعافري حدثہ، عن عقبۃ بن عامر، قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: یعجب ربکم من راعي غنم، في رأس شظیۃ بجبل، یؤذن بالصلاۃ ویصلي، فیقول اللّٰہُ عز وجلَ: انظروا إلی عبدي ہذا: یؤذن ویقیم الصلاۃ یخاف مني، قد غفرت لعبدي وأدخلتہ الجنۃ۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب صلاۃ السفر: باب الأذانِ في السفر‘‘: ج ۳، ص: ۱۲۵، رقم: ۱۲۰۳)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص208

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مکروہ وخلاف ادب ہے۔ ہاتھوں کو ناف کے نیچے باندھے رکھنا چاہئے۔(۲)

(۲) ووضع یمینہ علی یسارہ وکونہ تحت السرۃ للرجال، لقول علي رضي اللّٰہ عنہ من السنۃ: وضعہما تحت السرۃ۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، باب صفۃ الصلاۃ ’’مطلب في التبلیغ خلف الإمام‘‘: ج۲، ص: ۱۷۲، ۱۷۳)
عن أنس رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ قال ثلاث من اخلاق النبوۃ تعجیل الافطار، وتاخیر السحور ووضع الید الیمنی علی الیسری في الصلاۃ تحت السرۃ۔ (أخرجہ علاؤ الدین بن علي بن عثمان، في الجواھر النقي في الرد علی البیہقي، ج۲، ص: ۱۳۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص169

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر وہ دونوں واقعی طور پر علم، مسائل اور علم تجوید میں یکساں ہیں، تو ان میں جو شخص زیادہ پرہیز گار اور زیادہ عمر والا ہے اس کو امام بنایا جائے۔ اور اگر ان سب میں دونوں برابر ہوں، تو سید کو امام بنایا جائے۔ ’’ثم أکثرہم حسبا ثم الأشرف نسبا‘‘(۱)

(۱) الحصکفي، الدر المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص:۲۹۵۔
والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ ثم الأحسن تلاوۃ وتجویداً للقراء ۃ ثم الأورع أي الأکثر اتقاء للشبہات أي الأکثر اتقأ للشبہات، والتقوی اتقأ المحرمات ثم الأحسن أي الأقدم إسلاما فیقدم شاب علی شیخ أسلم، وقالوا یقدم الأقدم ورعا، وفي النہر عن الزاد وعلیہ یقاس سائر الخصال، فیقال یقدم أقدمہم علما ونحوہ وحینئذ فقلما یحتاج للقرعۃ ثم الأحسن خلقا بالضم ألفۃ بالناس ثم الأحسن وجہا۔ (أیضًا:  ص: ۲۹۴)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص114

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو تین اوقات میں نماز پڑھنے سے منع کیا ہے، ایک طلوع شمس کے وقت یہاں تک کہ سورج اچھی طرح نکل جائے دوسرے نصف النہار (زوال) اور تیسرا غروبِ آفتاب (سورج کے غروب) کے وقت، ان تینوں وقتوں کے علاوہ قضاء نمازوں کے لیے کوئی خاص وقت متعین نہیں ہے۔ آپ ان کے علاوہ باقی تمام اوقات میں جس وقت چاہیں قضاء نماز پڑھ سکتی ہیں، شریعت مطہرہ آپ کو اس کی اجازت دیتی ہے جیسا کہ علامہ کاسانی نے بدائع الصنائع میں تحریر فرمایا ہے۔
’’لیس للقضاء وقت معین بل جمیع الأوقات وقت لہ إلا ثلاثۃ: وقت طلوع الشمس ووقت الزوال ووقت الغروب، فإنہ لا یجوز القضاء في ہذہ الأوقات لما مر  أن من شأن القضاء أن یکون مثل الفائت والصلاۃ في ہذہ الأوقات تقع ناقصۃ والواجب في ذمتہ کامل، فلا ینوب الناقص عنہ‘‘(۱)
’’إن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نھی عن الصلاۃ في ثلاث ساعات: عند طلوع الشمس حتی تطلع ونصف النھار وعند غروب الشمس‘‘(۲)
مراقی الفلاح میں ہے:
’’ثلاثۃ أوقات لا یصح فیھا شيء من الفرائض والواجبات التي لزمت في الذمۃ قبل دخولھا، عند طلوع الشمس إلی أن ترتفع و عند استوائھا إلی أن تزول وعند إصفرارھا إلی أن تغرب‘‘(۳)
خلاصہ: مذکورہ عبارتوں کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ تین اوقات کے علاوہ دیگر اوقات میں سے آپ کسی وقت بھی قضاء نماز پڑھ سکتی ہیں، ان تینوں اوقات میں ایسے فرائض وواجبات ادا کرنا درست نہیں، جو ان اوقات کے داخل ہونے سے قبل لازم ہو گئے تھے، جیسا کہ در مختار میں لکھا ہے:
’’وجمیع أوقات العمر وقت القضاء إلا الثلاثۃ المنھیۃ‘‘(۴)
’’قولہ: ’’إلا الثلاثۃ المنھیۃ‘‘: وھي الطلوع والاستواء والغروب‘‘(۵)

(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، کیفیۃ قضاء الصلوات‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۲، دارالکتاب، دیوبند۔
(۲) سلیمان بن أحمد الطبراني، المعجم الأوسط، ’’ ‘‘: ج ۵، ص:۵۳۔(شاملہ)
(۳) حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الایضاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الأوقات المکروہۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۵-۱۸۶، دارالکتاب، دیوبند۔
(۴) ابن عابدین،  رد المحتارعلی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت، مطلب: في تعریف الإعادۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۲۴، زکریا، دیوبند۔    (۵) أیضًا۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص87

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس پر التزام واصرار مناسب نہیں ہے کیوں کہ احناف کے نزدیک افضل اور بہتر یہ ہے کہ شروع ہی تکبیر میں کھڑا ہوجائے تاکہ تکبیر ختم ہونے تک صفوف کی درستگی ہوجائے اور امام کے تکبیر کہنے کے ساتھ ساتھ مقتدی بھی تکبیر کہہ کر نماز شروع کردیں اور ان کوبھی تکبیر اولیٰ کا ثواب مل جائے۔(۱)

(۱) (قولہ: والقیام لإمام ومؤتم الخ) مسارعۃ لامتثال أمرہ، والظاہر أنہ احتراز عن التاخیر لا التقدیم، حتی لو قام أول الإقامۃ لا بأس اہـ، وکلمۃ ’’لا بأس‘‘ ہنا مستعملۃ في المندوب۔ (نص الطحطاوي في الحاشیۃ علی الدر ہکذا:
عن عبدالرحمن بن عوف سمع أبا ہریرۃ یقول أقیمت الصلوٰۃ فَقُمْنا فَعَدَّلنا الصفوف قبل أن یخرج إلینا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ‘‘: باب متی یقوم الناس للصلاۃ، ج ۱، ص: ۲۲۰، رقم: ۶۰۵)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص209

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مکروہ تنزیہی ہے۔(۱)

(۱) (وکرہ) افتراش الرجل ذراعیہ للنہي۔ (ابن عابدین، الدرالمختار، ’’باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۴۱۱، زکریا دیوبند)
(قولہ وافتراش ذراعیہ) لما في صحیح مسلم عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا وکان -یعني النبي- صلی اللّٰہ علیہ وسلم ینہی أن یفترش الرجل ذراعیہ افتراش السبع وافتراشہما إلقاؤہما علی الأرض کما في المغرب۔ قیل: وإنما نہی عن ذلک لأنہا صفۃ الکسلان والتہاون بحالہ مع ما فیہ من التشبہ بالسباع والکلاب، والظاہر أنہا تحریمیۃ للنہ؁ المذکور من غیر صارف۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا‘‘: ج ۲، ص:۴۰، ۴۱)…یعتمد علی راحتیہ ویبدي ضبعیہ عن جنبیہ، ولا یفترش ذراعیہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الھندیۃ،  کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ،’’الفصل الثالث في سنن الصلاۃ‘‘: ج۱، ص:۱۳۲، مکتبہ فیصل)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص170