نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: (۱،۲) قابل اکرام وہ ہے جو متقی اور پرہیز گار ہو فرمایا گیا إن أ کرمکم عند اللّٰہ أتقاکم۔ نیچی برادریوں کے افراد کو کمتر سمجھنا امام کی بہت بڑی غلطی اور حماقت ہے ۔ امام کو اپنے ان خیالات اور حرکات سے باز آنا چاہئے خصوصاً جو مسجد میں نماز پڑھنے آتے ہیں ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے۔ ہوسکتا ہے کہ ان میں امام سے زیادہ اچھے اخلاق والے اور عبادت گزار بھی ہوں۔(۱)
(۳) اگر مدرسہ کے خلاف لوگوں کو ورغلاتا ہے اور فتنہ پردازی کرتا ہے تو امامت اس کی مکروہ ہے۔(۲)
(۴) اگر امام احکام شرعی کی پابندی نہیںکرتا جس کی وجہ سے نمازی اس سے ناراض ہیں تو اس کو امامت سے علاحدہ کردیا جائے اس کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے۔(۳)

(۱) یأیہا الناس إنا خلقناکم من ذکر وأنثی وجعلناکم شعوبا وقبائل لتعارفوا۔ إن أکرکم عند اللّٰہ أتقاکم۔ إن اللّٰہ علیم خبیر۔ (الحجرات: آیۃ ۱۳)۔
عن ابن عمر -رضي اللّٰہ  عنہ- أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خطب الناس یوم فتح مکۃ فقال: یأیہا الناس إن اللّٰہ أذہب عنکم عبیۃ الجاہلیۃ وتعاظمہا بآبائہا فالناس رجلان، بر، تقي کریم علی اللّٰہ وفاجر شقي ہین علی اللّٰہ والناس بنو آدم وخلق اللّٰہ آدم من تراب: قال اللّٰہ تعالیٰ اِنَّا خَلَقْنٰکُم مِنْ ذَکَر واُنثیٰ، الخ۔ (أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب التفسیر عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ومن سورۃ الحجرات، ج۲، ص: ۱۸۰، رقم:۳۲۷۰)
(۲) ولذا کرہ إمامۃ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعاً فلا یعظم تقدیمہ للإمامۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۲، رقم:۱۶۲)، شیخ الہند دیوبند)
(۳) ولو امّ قوماً وہم لہ کارہون إن الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ کرہ لہ ذلک تحریماً، لحدیث أبي داؤد، لا یقبل اللّٰہ صلاۃ من تقدم قوماً وہم لہ کارہون۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۱، ص: ۲۹۷)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص316

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: فجر کی قضا نماز یا اشراق کی نماز اس وقت پڑھی جائے جب سورج پورے طور پر نکل جائے اور سورج کے پورے طور پر نکلنے میں ۱۵؍۲۰ منٹ لگتے ہیں اس لیے ۲۰ منٹ کے بعد ہی نماز پڑھی جائے طلوع آفتاب کے وقت نماز پڑھنا منع ہے، اس لیے یہ کہنا غلط ہے کہ طلوع آفتاب کے دو تین منٹ بعد نماز پڑھ سکتے ہیں۔(۱)

(۱)  قال الطیبي: المراد وقت الضحیٰ وہو صدر النہار حین ترتفع الشمس وتلقی شعاعہا۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح: ’’کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الضحی‘‘: ج ۳، ص: ۳۵۱، فیصل پبلیکیشنز)
وکرہ تحریماً صلاۃ … مع شروق، قولہ مع شروق وما دامت العین لا تحار فیہا فہي في حکم الشروق کما تقدم في الغروب أنہ الأصح کما في البحر، أقول: ینبغي تصحیح ما نقلوہ عن الأصل للإمام محمد من أنہ ما لم ترتفع الشمس قدر رمح فہي في حکم الطلوع۔ (الحصکفي، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، مطلب: یشترط العلم بدخول الوقت‘‘: ج ۲، ص: ۳۰، ۳۱، مکتبہ: زکریا، دیوبند)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص91

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: فقہ کی کتب میں فرمایا گیا ہے ’’الإقامۃ مثل الأذان‘‘ کہ اقامت بھی اذان کی طرح ہے۔ احناف کے یہاں اقامت میں بھی اذان کی طرح تمام کلمات دو دو بار کہے جائیں۔ فرق اتنا ہے کہ اذان خوب زور سے پکاری جائے تاکہ باہر کے لوگوں کو نماز کے لیے اطلاع ہوجائے اقامت آہستہ کہی جائے اس سے صرف حاضرین کو مطلع کرنا ہے۔(۲)

(۲)عن عبد اللّٰہ بن زید قال: کان أذان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم شفعاً شفعاً في الأذان والإقامۃ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ، باب ماجاء أن الإقامۃ مثنی مثنی‘‘: ج ۱، ص: ۴۸، رقم: ۱۹۴)
عن ابن محیریز أن أبا محذورۃ حدثہ: أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علمہ الأذان تسع عشرۃ کلمۃً، والإقامۃ سبع عشرۃ کلمۃ۔ (أخرجہ البیہقي، في سننہ، وفي ذیلہ الجوہر النقي: ج ۱، ص: ۴۱۶)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص211

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھنا چاہئے بلا ضرورت ایسا کرنا مکروہ ہے اور اگر عذر کی وجہ سے ہو تو حرج نہیں ہے۔(۲)

(۲) یکبر للنہوض علی صدور قدمیہ بلا اعتماد وقعود علی الارض…قال في الحلیۃ والأشبہ أنہ سنۃ أو مستحب عند عدم العذر فیکون فعلۃ تنزیہا لمن لیس بہ عذر۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’فروع قرأ بالفارسیۃ أو التوراۃ او الانجیل‘‘: ج۱، ص: ۵۰۶۰)
ثم إذا فرغ من السجدۃ ینہض علی صدور قدمیہ ولا یقعد، ولا یعتمد علی الأرض بیدیہ عند قیامہ، وإنما یعتمد علی رکبتیہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الرابع، الفصل الثالث في سنن الصلاۃ وآدابہا‘‘: ج۱، ص: ۱۳۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص171

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 38 / 1114

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   الجواب وباللہ التوفیق: (1) فرض نمازوں کے بعد دعاء کا قبول ہونا اسی طرح انفرادی واجتماعی دونوں طرح دعا کرنا ثابت ہے۔  حضرت معاذ بن جبل  سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت معاذ سے ارشاد فرمایا  کہ تم کسی بھی نماز کے بعد اس دعاء"اللہم انی اعنی علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک " کو نہ چھوڑو۔(احمد، ابوداؤد)۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ جو بندہ نماز کے بعد اپنے دونوں ہاتھوں کو پھیلاکر (حدیث میں مذکور) دعاء کرتا ہے تو اللہ پر یہ حق ہے کہ اس کے دونوں ہاتھوں کو ناکام اور خالی واپس نہ کرے (عمل الیوم واللیلۃ)۔ حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ جب صبح کی نماز پڑھ لیتے تو سلام پھیرکر یہ دعاء کرتے "اللہم انی سئلک علما نافعا ورزقا طیبا وعملا متقبلا (احمد ، ابن ماجہ)۔ اسود عامری اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صبح کی نماز ادا کی، جب آپ نے سلام پھیرا تو آپ مُڑ گئے اور آپ نے اپنے دست مبارک اٹھائے اور دعاء فرمائی(امداد الفتاوی)۔ ان تمام احادیث سے نماز کے بعد دعاء کرنا ثابت ہوا، اب ظاہر ہے جب آپ ﷺ نماز کے بعد دعاء میں مشغول ہوں تو کیا جانثار صحابہ نے دعاء میں شرکت نہیں کی ہوگی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپﷺ دعاء کریں اور صحابہ یوں ہی خاموش بیٹھے رہے ہوں اور اس سعادت سے محروم ہوجائیں، بلکہ یقیناً صحابہ نے موافقت کی ہوگی۔ نیز حدیث میں ہے کہ ایک موقع پر رسول اللہ ﷺ نے ہاتھ اٹھاکر دعاء فرمائی تو موجود صحابہ نے بھی آپﷺ کے ساتھ ہاتھ اٹھاکر دعاءمیں شرکت فرمائی (بخاری شریف)۔                       البتہ دعاؤں میں اخفاء افضل ہے اس لئے اجتماعی دعاء  بلند آواز سے کرنے کا التزام نہ کیاجائے۔  نماز کے بعد آپﷺ سے بے شمار دعائیں منقول ہیں جو احادیث کی کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہیں۔  (2) جو درود خلاف شرع نہ ہو اور صلاۃ وسلام کے الفاظ پر مشتمل ہو تو اس کے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، تاہم سب سے افضل درود ابراہیمی پڑھنا ہے۔ اور نبی علیہ السلام نے نماز جیسی اہم عبادت کے لئے اسی درود کا انتخاب فرمایا ہے۔ اور آپ ﷺ کے زمانے میں صحابہ سے یہ دعاء پڑھنا بھی ثابت ہے، اس لئے بہتر ہے درود ابراہیمی پڑھے۔ درود پڑھنے کے لئے اجتماع کرنا ثابت نہیں ہے،درود بلندآواز سے بھی پڑھ سکتے ہیں البتہ آہستہ پڑھنا بہتر ہے جیسا کہ دیگر دعاؤں کا حکم ہے۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: امامت کے لیے حافظ قرآن ہونا یا عالم ہونا شرط نہیں بلکہ ضرورت کے بقدر قرآن یاد ہو اور نماز کے ضروری مسائل سے واقف ہو یہ کافی ہے اس لیے مذکورہ صورت میں اگر زید شرعی طریقہ پر نماز پڑھاتا ہے تو بلا وجہ کسی کو اعتراض نہیں کرنا چاہئے اور نہ ہی امامت سے روکنا چاہئے۔

’’والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلوٰۃ فقط صحۃ وفسادا … وحفظہ قدر فرض وقیل واجب وقیل سنۃ‘‘ (۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۴۔
فالأعلم بأحکام الصلوۃ الحافظ مابہ سنۃ القراء ۃ ویجتنب الفواحش الظاہرۃ وإن کان غیر متبحر في بقیۃ العلوم۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ص: ۲۹۹، شیخ الہند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص116

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بغیر شرعی ثبوت کے محض لوگوں کے کہنے سننے پر کسی سے بدگمانی کرنا سخت گناہ ہے آج کل کے اکثر لوگ ایسی ہی بدگمانیوں کے شکار ہوکر گناہ گار بن جاتے ہیں جب کہ ایسی بدگمانی سے پرہیز لازم ہے تاہم اگر واقعی مقتدی مذکورہ امام کے خلاف ہیں کہ نماز اس کی امامت ادا کرنا نہیں چاہتے تو امام کو خود امامت سے الگ ہوجانا چاہئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی امامت سے منع فرمایا ہے۔(۱)

(۱) والفا فأۃ بتکرار الفاء والتمتمۃ بتکرار التاء فلا یتکلم إلا بہ واللثخ المثلتۃ التحریک وہو واللثغۃ بضم اللأم وسکون الثاء تحرک اللسان من السین الی الثاء ومن الراء إلی الغین ونحوہ لایکون إماماً، وإذا لم یجد في القرآن شیئاً خالیا عن لثغۃ وعجز عن إصلاح لسانہ آناء اللیل وأطراف النہار فصلاتہ جائزۃ لنفسہ وإذا ترک التصحیح والجہد فصلاتہ فاسدۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي …علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ص: ۲۸۹، شیخ الہند دیوبند)
وعن ابن عباس -رضي اللّٰہ عنہ- قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم: ثلثۃ لا ترفع لہم صلوتہم فوق رؤسہم شعیراً رجل أمّ قوماً وہم لہ کارہون، إن الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ، کرہ لہ ذلک تحریماً لحدیث أبي داؤد، لا یقبل اللّٰہ صلاۃ من تقدم قوماً وہم لہ کارہون۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۷)

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص317

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اگر صحنِ مسجد مسجد کے اندر داخل ہے تو اس میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اگر صحن کا حصہ مسجد شرعی سے باہر ہے تو اندر ہی پڑھنا اولیٰ ہے۔ تاہم بلا وجہ محراب چھوڑ کر ادھر ادھر جماعت مناسب نہیں ہے۔(۱)

(۱) وفناء المسجد لہ حکم المسجد۔ (البحرالرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ: ج۱، ص: ۶۳۵، مکتبہ دارالکتاب، دیوبند)
السنۃ أن یقوم في المحراب لیعتدل الطرفان، ولو قام في أحد جانبي الصف یکرہ، ولو کان المسجد الصیفي بجنب الشتوي وامتلأ المسجد یقوم الإمام في جانب الحائط لیستوي القوم من جانبیہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ:  باب الإمامۃ، مطلب: ہل الإساء ۃ دون الکراہۃ أو أفحش منہا؟‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۰؛ وہکذا فی البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۶۳۵، مکتبہ زکریا دیوبند)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص90

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:امام کو آگاہ کرنے کے مقصد سے کھنکھارنے کا ثبوت شرعاً نہیں تاہم کبھی اس طرح اور کبھی زبانی طور پر کہہ کر آگاہ کردیا جائے، بہتر تو یہ ہے کہ مؤذن اقامت شروع کردے امام صاحب اس طرح آگاہ ہوکر مصلٰے پر پہونچ جائیں گے اکثر وبیشتر ایسا ہی ہوتا ہے۔ تاہم جب تک امام کو نماز کے لیے آتا ہوا نہ دیکھیں اس وقت تک مقتدی حضرات کھڑے نہ ہوں۔(۱)

(۱) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ یقول: أقیمت الصلوۃ، فقمنا، فعد لنا الصفوف قبل أن یخرج إلینا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجدومواضع الصلاۃ، باب متی یقوم الناس للصلوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۰، رقم: ۶۰۵)
إن کان المؤذن غیرالإمام وکان القوم مع الإمام في المسجد فإنہ یقوم الإمام والقوم إذا قال المؤذن حي علی الصلوۃ  عند علمائنا الثلاثۃ وہوالصحیح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان، الفصل الثاني کلمات الأذان والإقامۃ وکیفیتہما‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۲)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص212

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں جس شخص کی نماز باجماعت امام کے پیچھے ایک، دو یا تین رکعات چھوٹ گئی ہوں اور قعدہ اخیرہ میں بھی امام کے ساتھ شریک رہا ہو تو اس کے لیے شریعت مطہرہ کا حکم یہ ہے کہ تشہد پڑھنے کے بعد وہ شخص امام کے سلام پھیرنے کا انتظار کرے، اس درمیان وہ شخص التحیات پڑھنے کے بعد درود شریف اور دعاء ماثورہ وغیرہ نہ پڑھے؛ بلکہ تشہد (التحیات) کو امام کے سلام پھیر نے تک آہستہ آہستہ اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا رہے، اور اگر التحیات پڑھ کر فارغ ہو جائے تو خاموش بیٹھا رہے۔
’’والصحیح أن المسبوق یترسل في التشھد حتی یفرغ من التشھد عند سلام الإمام‘‘(۱)
’’المسبوق إذا قعد مع الإمام کیف یفعل اختلفوافیہ والصحیح أنہ یترسل في التشھد حتی یفرغ من التشھد عند سلام الإمام‘‘(۲)
’’(ومنھا) أن المسبوق ببعض الرکعات یتابع الإمام في التشھد الأخیر وإذا أتم التشھد لا یشتغل بما بعدہ من الدعوات، ثم ماذا یفعل؟ تکلموا فیہ، وعن ابن شجاع: أنہ یکرر التشھد أي : قولہ أشھد أن لا إلہ إلا اللّٰہ وھو المختار کذا في الغیاثیۃ والصحیح : أن المسبوق یترسل في التشھد حتی یفرغ عند سلام الإمام، کذا في الوجیز للکردري وفتاوی قاضي خان وھکذا في الخلاصۃ وفتح القدیر‘‘(۳)
’’(ومنھا القعود الاخیر) مقدار التشھد‘‘(۱)
’’السادسۃ من الفرائض القعدۃ الآخرۃ التی تکون في آخر الصلاۃ سواء تقدمھا قعدۃ أولا کما في الثنائیۃ‘‘(۲)

(۱) محمد بن محمد البزازي، الفتاویٰ البزازیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في المسبوق‘‘: ج ۱، ص: ۶۶۔)
(۲) قاضي خان، فتاوی قاضي خان، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في المسبوق‘‘: ج۱، ص: ۶۶۔)
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ: ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل السابع، في المسبوق واللاحق‘‘: ج۱، ص: ۱۴۹۔)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیہ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول في فرائض الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۸۔
(۲) إبراہیم الحلبي، الحلبي الکبیري، ’’کتاب الصلاۃ: فرائض الصلاۃ السادسۃ‘‘: ص: ۶۹۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص49