نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بیوی کا خوبصورت ہونا یا نہ ہوناامامت سے متعلق نہیں ہے اور اس قسم کی باتیں کرنا مذہب میں تحریف کے مترادف ہے جو باعث گناہ ہے، دونوں شخصوں میں جو خوش الحان بھی ہو اس کو ترجیح دی جائے۔
اور بعض فقہاء نے جو یہ لکھا ہے: ’’ثم الأحسن زوجۃ‘‘ اس کی علت یہ ہے کہ زوجہ کے خوبصورت ہونے کی وجہ سے دوسری عورتوں کی طرف التفات نہیں کرے گا۔ صالح اور نیک ہوگا علت اور سبب کا بھی لحاظ کیا جاتا ہے۔ اس کا عمومی مطلب یہ نہیں کہ جس کی بیوی خوبصورت ہو، تو وہ وجہ تقدیم امامت بن جائے ایسا نہیں ہے۔
اس لیے دیکھا جائے کہ خوش الحان ہو اور زیادہ صالح وعابد وزاہد ہو اور اس میں بھی دونوں برابر ہوں تو قرعہ اندازی کر لی جائے، جیسا کہ شامی نے وضاحت کی ہے۔(۱)

(۱) (قولہ ثم الأحسن زوجۃ) لأنہ غالباً یکون أحب لہا وأعف لعدم تعلقہ بغیرہا وہذا مما یعلم بین الأصحاب أو الأرحام أو الجیران إذ لیس المراد أن یذکر کل أو صاف زوجتہ حتی یعلم من ہو أحسن زوجۃ۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۵)
ولا شک أن ہذہ المعاني إذا اجتمعت في إنسان کان ہو أولی کما بینا أن بناء أمرالإمامۃ علی الفضیلۃ والکمال والمستجمع فیہ ہذہ الخصال من أکمل الناس: أما العلم والورع وقراء ۃ القرآن فظاہر۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلوٰۃ: بیان أحق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۸، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص115

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: فجر کی نماز کے لیے وہی وقت بہتر ہے جس وقت عموماً نماز ہوتی ہے یعنی تاخیر سے جماعت ہونا افضل ہے؛ لیکن رمضان المبارک میں سحری کے بعد عام طور پر نیند آتی ہے اس کے بعد نماز کے وقت پر اٹھنا مشکل ہوتا ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کی جماعت ہی نکل جاتی ہے؛ اس لیے اذان کے فوراً بعد نماز پڑھ لی جاتی ہے، اس صورت میں جماعت میں زیادہ لوگ شریک ہوجاتے ہیں اور یہ ہی مطلوب ہے، یہ صورت لوگوں کو سمجھا دی جائے کہ لوگوں کی جماعت میں زیادہ سے زیادہ شرکت ہونی چاہئے اس کے بعد باہمی مشورے سے جو صورت طے ہو اس پر عمل کیا جائے اگر پھر بھی اختلاف ہو تو جو رائے اکثر کی ہو اس پر عمل کیا جائے، رہا لوگوں کا برا کہنا تو اس کا خیال نہ کیا جائے ایسا کون ہے جس کو سبھی اچھا کہیں صبر سے کام لیا جائے یہ بھی باعث اجر ہے۔(۱)

(۱) عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ أن زید بن ثابت حدثہ أنہم تسحّروا مع النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ثم قاموا إلی الصلوٰۃ قلت کم بینہما، قال قدر خمسین أو ستین یعني آیۃ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب وقت الفجر‘‘: ج ۱، ص: ۸۱، رقم: ۵۷۵، مکتبہ: نعیمیہ، دیوبند)
فلو اجتمع الناس الیوم أیضاً في التغلیس لقلنا بہ أیضاً کما في مبسوط السرخسي في باب التیمم أنہ یستحب التغلیس في الفجر والتعجیل في الظہر إذا اجتمع الناس۔ (الکشمیري، فیض الباري شرح البخاري، ’’کتاب مواقیت الصلاۃ، باب وقت الفجر‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۷، رقم: ۵۷۶، مکتبہ شیخ الہند، دیوبند)
قولہ کنت اتسحر في أہلی ثم یکون سرعۃ بي أن أدرک صلاۃ الفجر مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولعل ہذا التغلیس کان في رمضان خاصۃ وہکذا ینبغي عندنا إذا اجتمع الناس وعلیہ العمل في دار العلوم بدیوبند من عہد الأکابر۔ (الکشمیري، فیض الباري شرح البخاري، ’’کتاب مواقیت الصلاۃ، باب وقت الفجر‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۸، رقم: ۵۷۷، مکتبہ: شیخ الہند، دیوبند)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص89

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:در مختار میں ہے کہ ’’الإقامۃ کالأذان فیما مر‘‘(۲)
اور اس کے تحت شامی میں ہے ’’وأراد بما مر أحکام الأذان العشرۃ المذکورۃ في المتن‘‘(۳)
تکبیر میں بھی ’’حي علی الصلوٰۃ، حي علی الفلاح‘‘ کہتے وقت چہرہ دائیں، بائیں گھمانا چاہئے یہ مستحب ہے۔
’’ویلتفت فیہ أي الأذان وکذا فیہا أي في الإقامۃ مطلقاً یمیناً ویساراً‘‘(۴)
’’قولہ ویلتفت: أي یحول وجہہ لا صدرہ، قہستاني، ولا قدمیہ، وکذا فیہا مطلقاً أي في الإقامۃ سواء کان المحل متسعا أولا … قولہ بصلاۃ وفلاح … یعنی یلتفت فیہما یمیناً بالصلاۃ ویساراً بالفلاح‘‘(۱)

(۲) ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في أول من بنی المنائر للأذان‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۔
(۳) أیضًا،ج ۲، ص: ۵۴۔    (۴) أیضًا،ج ۲، ص: ۵۳۔
(۱) أیضًا۔    

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص210

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بلا ضرورت مکروہ ہے البتہ نماز ادا ہوجاتی ہے۔(۱)

(۱) یکرہ للمصلي ان یعبث بثوبہ أو لحیتہ أو جسدہ، وإن یکف ثوبہ بأن یرفع ثوبہ من بین یدیہ أو من خلفہ إذا أراد السجود، کذا في معراج الدرایۃ ولا بأس بان ینفض ثوبہ کیلا یلتف بجسدہ في الرکوع۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ،کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، الفصل الثاني ج۱، ص: ۱۶۴)
قال في النہایۃ وحاصلہ أن کل عمل ہو مفید للمصلی فلابأس بہ، اصلہ ماروی ان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم عرق في صلاتہ فسلت العرق عن جبینہ إلی مسحہ، لأنہ کان یوذیہ فکان مفیداً وفي زمن الصیف کان إذا قام من السجود ونفض ثوبہ یمنۃ او یسرۃ لانہ کان مفیداً کیلا یتقي صورۃ، فاما مالیس بمفید فہو عبث۔ (ابن عابدین، رد المحتار: ج۲، ص: ۴۹۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص171

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر عالم ایسا قرآن پڑھتا ہے جس سے نماز ہوجائے، تو قاری محض کو امام نہ ہونا چاہئے اور جو عالم ایسا قرآن نہ پڑھے کہ نماز صحیح ہوجائے، تو قاری کو امام بنایا جائے۔(۱)

(۱) الأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلوٰۃ ثم الأحسن تلاوۃ للقراء ۃ ثم الأورع۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۴؛و ابن الہمام، وفتح القدیر، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۵۴، زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص116

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: (۱،۲) قابل اکرام وہ ہے جو متقی اور پرہیز گار ہو فرمایا گیا إن أ کرمکم عند اللّٰہ أتقاکم۔ نیچی برادریوں کے افراد کو کمتر سمجھنا امام کی بہت بڑی غلطی اور حماقت ہے ۔ امام کو اپنے ان خیالات اور حرکات سے باز آنا چاہئے خصوصاً جو مسجد میں نماز پڑھنے آتے ہیں ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے۔ ہوسکتا ہے کہ ان میں امام سے زیادہ اچھے اخلاق والے اور عبادت گزار بھی ہوں۔(۱)
(۳) اگر مدرسہ کے خلاف لوگوں کو ورغلاتا ہے اور فتنہ پردازی کرتا ہے تو امامت اس کی مکروہ ہے۔(۲)
(۴) اگر امام احکام شرعی کی پابندی نہیںکرتا جس کی وجہ سے نمازی اس سے ناراض ہیں تو اس کو امامت سے علاحدہ کردیا جائے اس کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے۔(۳)

(۱) یأیہا الناس إنا خلقناکم من ذکر وأنثی وجعلناکم شعوبا وقبائل لتعارفوا۔ إن أکرکم عند اللّٰہ أتقاکم۔ إن اللّٰہ علیم خبیر۔ (الحجرات: آیۃ ۱۳)۔
عن ابن عمر -رضي اللّٰہ  عنہ- أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خطب الناس یوم فتح مکۃ فقال: یأیہا الناس إن اللّٰہ أذہب عنکم عبیۃ الجاہلیۃ وتعاظمہا بآبائہا فالناس رجلان، بر، تقي کریم علی اللّٰہ وفاجر شقي ہین علی اللّٰہ والناس بنو آدم وخلق اللّٰہ آدم من تراب: قال اللّٰہ تعالیٰ اِنَّا خَلَقْنٰکُم مِنْ ذَکَر واُنثیٰ، الخ۔ (أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب التفسیر عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ومن سورۃ الحجرات، ج۲، ص: ۱۸۰، رقم:۳۲۷۰)
(۲) ولذا کرہ إمامۃ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعاً فلا یعظم تقدیمہ للإمامۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۲، رقم:۱۶۲)، شیخ الہند دیوبند)
(۳) ولو امّ قوماً وہم لہ کارہون إن الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ کرہ لہ ذلک تحریماً، لحدیث أبي داؤد، لا یقبل اللّٰہ صلاۃ من تقدم قوماً وہم لہ کارہون۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۱، ص: ۲۹۷)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص316

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: فجر کی قضا نماز یا اشراق کی نماز اس وقت پڑھی جائے جب سورج پورے طور پر نکل جائے اور سورج کے پورے طور پر نکلنے میں ۱۵؍۲۰ منٹ لگتے ہیں اس لیے ۲۰ منٹ کے بعد ہی نماز پڑھی جائے طلوع آفتاب کے وقت نماز پڑھنا منع ہے، اس لیے یہ کہنا غلط ہے کہ طلوع آفتاب کے دو تین منٹ بعد نماز پڑھ سکتے ہیں۔(۱)

(۱)  قال الطیبي: المراد وقت الضحیٰ وہو صدر النہار حین ترتفع الشمس وتلقی شعاعہا۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح: ’’کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الضحی‘‘: ج ۳، ص: ۳۵۱، فیصل پبلیکیشنز)
وکرہ تحریماً صلاۃ … مع شروق، قولہ مع شروق وما دامت العین لا تحار فیہا فہي في حکم الشروق کما تقدم في الغروب أنہ الأصح کما في البحر، أقول: ینبغي تصحیح ما نقلوہ عن الأصل للإمام محمد من أنہ ما لم ترتفع الشمس قدر رمح فہي في حکم الطلوع۔ (الحصکفي، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، مطلب: یشترط العلم بدخول الوقت‘‘: ج ۲، ص: ۳۰، ۳۱، مکتبہ: زکریا، دیوبند)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص91

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: فقہ کی کتب میں فرمایا گیا ہے ’’الإقامۃ مثل الأذان‘‘ کہ اقامت بھی اذان کی طرح ہے۔ احناف کے یہاں اقامت میں بھی اذان کی طرح تمام کلمات دو دو بار کہے جائیں۔ فرق اتنا ہے کہ اذان خوب زور سے پکاری جائے تاکہ باہر کے لوگوں کو نماز کے لیے اطلاع ہوجائے اقامت آہستہ کہی جائے اس سے صرف حاضرین کو مطلع کرنا ہے۔(۲)

(۲)عن عبد اللّٰہ بن زید قال: کان أذان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم شفعاً شفعاً في الأذان والإقامۃ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ، باب ماجاء أن الإقامۃ مثنی مثنی‘‘: ج ۱، ص: ۴۸، رقم: ۱۹۴)
عن ابن محیریز أن أبا محذورۃ حدثہ: أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علمہ الأذان تسع عشرۃ کلمۃً، والإقامۃ سبع عشرۃ کلمۃ۔ (أخرجہ البیہقي، في سننہ، وفي ذیلہ الجوہر النقي: ج ۱، ص: ۴۱۶)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص211

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھنا چاہئے بلا ضرورت ایسا کرنا مکروہ ہے اور اگر عذر کی وجہ سے ہو تو حرج نہیں ہے۔(۲)

(۲) یکبر للنہوض علی صدور قدمیہ بلا اعتماد وقعود علی الارض…قال في الحلیۃ والأشبہ أنہ سنۃ أو مستحب عند عدم العذر فیکون فعلۃ تنزیہا لمن لیس بہ عذر۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’فروع قرأ بالفارسیۃ أو التوراۃ او الانجیل‘‘: ج۱، ص: ۵۰۶۰)
ثم إذا فرغ من السجدۃ ینہض علی صدور قدمیہ ولا یقعد، ولا یعتمد علی الأرض بیدیہ عند قیامہ، وإنما یعتمد علی رکبتیہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الرابع، الفصل الثالث في سنن الصلاۃ وآدابہا‘‘: ج۱، ص: ۱۳۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص171

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 38 / 1114

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   الجواب وباللہ التوفیق: (1) فرض نمازوں کے بعد دعاء کا قبول ہونا اسی طرح انفرادی واجتماعی دونوں طرح دعا کرنا ثابت ہے۔  حضرت معاذ بن جبل  سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت معاذ سے ارشاد فرمایا  کہ تم کسی بھی نماز کے بعد اس دعاء"اللہم انی اعنی علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک " کو نہ چھوڑو۔(احمد، ابوداؤد)۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ جو بندہ نماز کے بعد اپنے دونوں ہاتھوں کو پھیلاکر (حدیث میں مذکور) دعاء کرتا ہے تو اللہ پر یہ حق ہے کہ اس کے دونوں ہاتھوں کو ناکام اور خالی واپس نہ کرے (عمل الیوم واللیلۃ)۔ حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ جب صبح کی نماز پڑھ لیتے تو سلام پھیرکر یہ دعاء کرتے "اللہم انی سئلک علما نافعا ورزقا طیبا وعملا متقبلا (احمد ، ابن ماجہ)۔ اسود عامری اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صبح کی نماز ادا کی، جب آپ نے سلام پھیرا تو آپ مُڑ گئے اور آپ نے اپنے دست مبارک اٹھائے اور دعاء فرمائی(امداد الفتاوی)۔ ان تمام احادیث سے نماز کے بعد دعاء کرنا ثابت ہوا، اب ظاہر ہے جب آپ ﷺ نماز کے بعد دعاء میں مشغول ہوں تو کیا جانثار صحابہ نے دعاء میں شرکت نہیں کی ہوگی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپﷺ دعاء کریں اور صحابہ یوں ہی خاموش بیٹھے رہے ہوں اور اس سعادت سے محروم ہوجائیں، بلکہ یقیناً صحابہ نے موافقت کی ہوگی۔ نیز حدیث میں ہے کہ ایک موقع پر رسول اللہ ﷺ نے ہاتھ اٹھاکر دعاء فرمائی تو موجود صحابہ نے بھی آپﷺ کے ساتھ ہاتھ اٹھاکر دعاءمیں شرکت فرمائی (بخاری شریف)۔                       البتہ دعاؤں میں اخفاء افضل ہے اس لئے اجتماعی دعاء  بلند آواز سے کرنے کا التزام نہ کیاجائے۔  نماز کے بعد آپﷺ سے بے شمار دعائیں منقول ہیں جو احادیث کی کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہیں۔  (2) جو درود خلاف شرع نہ ہو اور صلاۃ وسلام کے الفاظ پر مشتمل ہو تو اس کے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، تاہم سب سے افضل درود ابراہیمی پڑھنا ہے۔ اور نبی علیہ السلام نے نماز جیسی اہم عبادت کے لئے اسی درود کا انتخاب فرمایا ہے۔ اور آپ ﷺ کے زمانے میں صحابہ سے یہ دعاء پڑھنا بھی ثابت ہے، اس لئے بہتر ہے درود ابراہیمی پڑھے۔ درود پڑھنے کے لئے اجتماع کرنا ثابت نہیں ہے،درود بلندآواز سے بھی پڑھ سکتے ہیں البتہ آہستہ پڑھنا بہتر ہے جیسا کہ دیگر دعاؤں کا حکم ہے۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند