نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مکروہ ہے۔ (خلاف اولیٰ ہے)(۱)

(۱) یکرہ للمصلی أن یعبث بثوبہ أو لحیتہ، وإن یکف ثوبہ بأن یرفع ثوبہ من بین یدیہ أو من خلفہ إذا أراد السجود۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ج ۱، ص:۱۶۴)
وکرہ کفہ أي رفعہ وعبثہ بہ أي بثوبہ قولہ أي رفعہ أي سواء کان من بین یدیہ أو من خلفہ عند الانحطاط للسجود۔ (الحصکفي،  الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ الخ، مطلب في الکراہۃ التحریمیۃ والتنزیہیۃ‘‘: ج ۲، ص:۴۰۶)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص172

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1900/43-1789

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  آپ ناسک میں مسافر ہیں، اس لئے آپ پر قصر لازم  ہے، اور آپ کایہ عمل درست ہے۔ مسافر کے کسی جگہ مقیم ہونے کے لئے کم از کم پندرہ دن اقامت کی نیت کرنا ضروری ہوتاہے جبکہ آپ ناسک میں پانچ دن کی نیت سے ہی اقامت کرتے ہیں، اس لئے  آپ برابر قصر کرتے رہیں گے چاہے پوری زندگی اسی طرح گزر جائے۔  جب تک آپ وہاں  پندرہ دن اقامت کی نیت نہ کرلیں   مسافر ہی رہیں گے۔

ووطن) الإقامة: وهو أن يقصد الإنسان أن يمكث في موضع صالح للإقامة خمسة عشر يومًا أو أكثر." (بدائع الصنائع 1 / 103)

"ويصير مقيماً بشيئين: أحدهما إذا عزم علي إقامة خمسة عشر يوماً أين ما كان ..." (النتف في الفتاوى للسغدي (1 / 76)

"و لو دخل مصرًا على عزم أن يخرج غدًا أو بعد غد ولم ينو مدة الإقامة حتى بقي على ذلك سنين قصر" لأن ابن عمر رضي الله عنه أقام بأذربيجان ستة أشهر وكان يقصر وعن جماعة من الصحابة رضي الله عنهم مثل ذلك". (الهداية في شرح بداية المبتدي (1 / 80)

ویبطل وطن الإقامة بمثلہ وبالوطن الأصلي وبإنشاء السفر، والأصل أن الشیء یبطل بمثلہ وبما فوقہ لا بما دونہ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صلاة المسافر ۲: ۶۱۴، ۶۱۵،ط: مکتبة زکریا دیوبند)، من خرج من عمارة موضع إقامتہ الخ (المصدر السابق، ص:۵۹۹)۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:  جو عالم ماہر ہو، مگربلا عذر تارک جماعت ہو، تو وہ فاسق ہے، اس کی امامت مکروہ ہے، ناظرہ خواں امامت کے لیے بہتر ہے، کیوں کہ فاسق اگرچہ کتنا ہی بڑا عالم ہو امامت اس کی مکروہ ہے ، تاہم بلا تحقیق کسی عالم پر الزام نہ لگایا جائے۔(۲)

(۲) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إن سرکم أن تقبل صلاتکم فلیؤمکم علماء کم فإنہم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم في روایۃ فلیؤمکم خیارکم۔۔۔۔۔۔ ولذا کرہ إمامۃ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعا فلا یعظم یتفرعہ للإمامۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۱، ۳۰۲، شیخ الہند دیوبند)
وأما الفاسق وقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لایہتم لأمر دینہ وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ وقد وجب علیہم إہانتہ شرعًا، ولا یخفی أنہ إذا کان أعلم من غیرہ لاتزول العلۃ۔ (الحصکفي، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۹، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص117

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ان بعض مقتدیوں کے قول پر توجہ نہ دیجئے مذکورہ امام کے پیچھے نماز صحیح ادا ہوجاتی ہے۔(۱)

(۱) وشروط صحۃ الإمامۃ للرجال الأصحاء ستۃ أشیاء: الإسلام، والبلوغ، والعقل، والذکورۃ، والقراء ۃ، والسلامۃ من الأعذار کالرعاف والفأفأۃ والتمتمۃ واللثغ، وفقد شرط کطہارۃ وستر عورۃ۔ (الشرنبلالي، نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۷۸، ۷۷، مکتبہ عکاظ دیوبند)
لقولہ علیہ السلام: صلوا خلف کل برو فاجر الخ۔ (أحمد بن محمد،  حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، شیخ الہند دیوبند)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص318

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:احتیاطاً پندرہ بیس منٹ پر عمل کرنا چاہئے؛ کیوں کہ طلوع آفتاب پورے طور ہو جانے کے بعد اشراق کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔
’’قال العلامۃ سراج أحمد في شرح الترمذي لہ إن المتعارف في أول النہار صلاتان الأولی بعد طلوع الشمس وارتفاعہا قدر رمح أو رمحین، ویقال لہا صلاۃ الإشراق، والثانیۃ عند ارتفاع الشمس قدر ربع النہار إلی ما قبل الزوال ویقال لہا صلاۃ الضحیٰ واسم الضحیٰ في کثیر من الأحادیث شامل لکلیہما و قد ورد في بعضہا لفظ الإشراق أیضاً‘‘(۱)
’’عن أنس رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من صلیٰ الفجر في جماعۃ ثم قعد یذکر اللّٰہ تعالیٰ حتی تطلع الشمس ثم صلی رکعتین کانت لہ کأجر حجۃ وعمرۃ قال: قال رسول للّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم تامۃ تامۃ تامۃ‘‘(۲)
’’عن أبي الدرداء وأبي ذر رضي اللّٰہ عنہما قالا: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: عن اللّٰہ تبارک وتعالیٰ أنہ قال یا ابن آدم لاتعجزنی في من أربع رکعات من أول النہار اکفک آخرہ‘‘(۳)

(۱) ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، کتاب الصلاۃ: ج ۷، ص: ۲۴۔
(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’باب ما ذکر مما یستحب من الجلوس في المسجد بعد صلاۃ الصبح حتی تطلع الشمس‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۰، رقم: ۵۸۶، مکتبہ: نعیمیہ، دیوبند۔
(۳) البغوی، مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الصلوۃ، باب صلوٰۃ الضحیٰ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۵، ۱۱۶، رقم: ۱۳۱۳۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص91

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت بھی قواعد کے لحاظ سے صحیح ہے، اس میں کوئی مضائقہ نہیںہے۔ اقامت کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ ایک سانس میں چار مرتبہ ’’اللّٰہ أکبر‘‘ کہا جائے اور ہر ’’اللّٰہ أکبر‘‘ کی راء پر سکون کیا جائے اور اگر ملا کرپڑھیں تو راء پر حرکت ظاہرکی جائے ’’حي علی الصلوٰۃ اور حي علی الفلاح‘‘ دونوں ایک سانس میں دو دو بار پڑھیں، آخر حرف کو ساکن پڑھیں۔
’’وحاصلہا أن السنۃ لیسکن الراء من اللّٰہ أکبر الأولیٰ أو یصلہا باللّٰہ أکبر الثانیۃ، فإن سکتہا کفی وإن وصلہا نوی السکون فحرک الراء بالفتحۃ‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘:  مطلب في الکلام علی حدیث الأذان جزم، ج ۲، ص: ۵۲، زکریا دیوبند۔
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص212

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: مسبوق کے لیے سجدہ سہو کے احکام بیان کرتے ہوئے علامہ کاسانیؒ نے بدائع الصنائع میں درج ذیل وضاحتیں کی ہیں:
مسبوق (جس مقتدی کی ایک، دو یا تین رکعت چھوٹ گئی ہو) سجدہ سہو میں امام کی متابعت یعنی پیروی کرے گا، سلام پھیرنے میں امام کی پیروی نہ کرے؛ بلکہ مسبوق امام کا انتظار کرے کہ وہ سلام پھیر کر سجدہ سہو کرے تو مسبوق بھی سجدہ سہو کرے۔ اور سجدہ سہو میں امام کی متابعت اور پیروی کرے۔ آخری سلام پھیرنے میں مسبوق امام کی متابعت ہرگز نہ کرے۔ اور اگر سلام پھیرنے میں جان بوجھ کر امام کی پیروی کی تو اس صورت میں مقتدی کی نماز فاسد ہو جائے گی یعنی ٹوٹ جائے گی؛ لیکن بھول کر پیروی کی تو نماز فاسد نہیں ہو گی اور مسبوق پر سجدہ سہو بھی نہیں ہوگا، کیوں کہ وہ مقتدی ہے اور مقتدی کا سہو باطل ہوتا ہے۔ اور جب امام آخری سلام پھیرے تو مسبوق امام کے ساتھ سلام نہ پھیرے؛ اس لیے کہ امام کا سلام نماز سے باہر آنے کے لیے ہے اور مسبوق پر ابھی ارکانِ نماز باقی ہیں۔
’’ثم المسبوق إنما یتابع الإمام في السہو دون السلام، بل ینتظر الإمام حتی یسلم فیسجد فیتابعہ في سجود السہو، لا في سلامہ، وإن سلم فإن کان عامدا تفسد صلاتہ، وإن کان ساہیا لا تفسد ولا سہو علیہ لأنہ مقتد، وسہو المقتدی باطل، فإذا سجد الإمام للسہو یتابعہ في السجود ویتابعہ في التشہد، ولا یسلم إذا سلم الإمام لأن السلام للخروج عن الصلاۃ وقد بقي علیہ أرکان الصلاۃ‘‘(۱)
خلاصہ: مذکورہ عبارتوں کی روشنی میں یہ واضح ہو جاتی ہے کہ مسبوق امام کے ساتھ سلام نہیں پھیرے گا، اور اگر مسبوق نے امام کے ساتھ جان بوجھ کر سلام پھیر لیا تو اس صورت میں مسبوق کی نماز ٹوٹ جائے گی؛ البتہ اگر مسبوق بھول کر امام کے ساتھ سلام پھیرا ہے، تو اس کی نماز درست ہو جائے گی اور مسبوق پر سجدہ سہو بھی لازم نہیں آئے گا، نیز مسبوق ہر حال میں امام کے ساتھ سجدہ سہو کرے گا خواہ امام کی وہ بھول مسبوق کے نماز میں شامل ہونے سے پہلے یا بعد میں ہوئی ہو، مسبوق پر امام کے ساتھ سجدہ سہو کرنا ضروری ہے، اگر مسبوق سجدہ سہو نہ کیا تو نماز فاسد ہو جائے گی اور اعادہ ضروری ہوگا۔

(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: بیان من یجب علیہ سجود السہو و من لا یجب علیہ‘‘: ج ۱، ص:۴۲۲( دارالکتاب، دیوبند)
 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص50

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس طرح محراب میں کھڑا ہونا کہ پیر بھی باہر نہ ہوں مکروہ ہے اور اگر ایڑیاں باہر ہوں تو کوئی کراہت نہیں نماز بہر صورت ادا ہوجاتی ہے۔(۱)

(۱) وقیام الإمام في المحراب لاسجودہ فیہ وقدماہ خارجہ لأن العبرۃ للقدم۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ج۲، ص: ۴۱۴)
ویکرہ قیام الإمام وحدہ في الطاق وہو المحراب، ولا یکرہ سجودہ فیہ إذا کان قائماً خارج المحراب۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب السابع، الفصل الثاني فیما یکرہ في الصلاۃ وما لایکرہ‘‘: ج ۱، ص:۱۶۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص173

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2665/45-4192

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  حنفی شخص کے لئے ضروری ہے کہ حتی الامکان مثل ثانی کے بعد ہی عصر کی نماز پڑھنے کی کوشش کرے، اگر کوئی دوسری مسجد ہو جہاں حنفی مذہب کے مطابق نماز ہوتی ہو تو وہاں جاکر نماز پڑھے۔ البتہ اگرکسی ایسی جگہ مقیم ہے کہ جہاں  دیگر فقہی مسالک رائج ہیں اور تمام مساجد میں نماز مثل اول کے بعد ہی ادا کی جاتی ہے، اور حنفی مسلک کے مطابق مثل ثانی کے بعد جماعت  کے ساتھ نماز کی ادائیگی  ممکن نہیں ہے، تو ایسی مساجد میں   مثل اول کے بعد نماز عصر ادا  کرنے گنجائش ہے۔  اپنی انفرادی نماز مثل ثانی کے بعد پڑھنے کے لئےمستقل طور پر جماعت کا ترک  کرنا جائز نہیں ہے۔  البتہ اگر اس دوران  کسی وجہ سے جماعت نہ مل سکے تو (انفرادی طور پر نماز پڑھتے ہوئے) مثلِ  ثانی کے بعد ہی عصر پڑھنا لازم ہوگا۔ 

"(ووقت الظهر من زواله) أي ميل ذكاء عن كبد السماء (إلى بلوغ الظل مثليه) وعنه مثله، وهو قولهما وزفر والأئمة الثلاثة. قال الإمام الطحاوي: وبه نأخذ. وفي غرر الأذكار: وهو المأخوذ به. وفي البرهان: وهو الأظهر. لبيان جبريل. وهو نص في الباب. وفي الفيض: وعليه عمل الناس اليوم وبه يفتى (سوى فيء) يكون للأشياء قبيل (الزوال) ويختلف باختلاف الزمان والمكان، ولو لم يجد ما يغرز اعتبر بقامته وهي ستة أقدام بقدمه من طرف إبهامه(ووقت العصر منه إلى) قبيل (الغروب)." (رد المحتار ، كتاب الصلاة، ج:1، ص:359، ط:سعيد)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام صاحب مسجد میں امامت کے فرائض انجام دیتے ہیں اور بسا اوقات پوری زندگی گزار دیتے ہیں اگر امام صاحب کے امامت سے علاحدگی کے وقت بطور اکرام ان کا تعاون کر دیا جائے تو اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔ عام طور پر فقہی کتابوں میں اس کی ممانعت جو لکھی گئی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے وقف کی جائداد سے امام کو تنخواہ دی جاتی تھی اور وقف کے پیسوں کو اس کے متعین مصرف کے علاوہ میں خرچ کرنا درست نہیں ہے؛ لیکن موجودہ صورت حال بدل چکی ہے اب عام طور پر وقف کی آمدنی سے امام کو تنخواہ نہیں دی جاتی ہے؛ بلکہ چندہ کی رقم سے یا مصالح مسجد کے لیے وقف کی جائداد دوں کی آمدنی سے دی جاتی ہے اور چندہ کی رقم میں اگر چندہ دہندگان کے علم میں لاکر امام کو بطور اکرام کے کچھ رقم دی جائے تو اس میں عدم جواز کی کوئی وجہ نہیں ہے؛ بلکہ یہ ایک مستحسن اور پسندیدہ عمل ہے۔ حدیث میں مومن کی ضرورتوں کی کفالت کرنے کی ترغیب دی گئی ہے:
’’من کان في حاجۃ أخیہ کان اللّٰہ في حاجتہ ومن فرج عن مسلم کربۃ فرج اللّٰہ عنہ بہا کربۃ من کرب یوم القیامۃ‘‘(۱)

(۱) أخرجہ أبو داود   في سننہ، ’’کتاب الأدب، باب المواخاۃ، والتواضع‘‘: ج ۲، ص: ۶۷۰، رقم: ۴۸۹۳۔

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص319