نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: امامت کے لیے حافظ قرآن ہونا یا عالم ہونا شرط نہیں بلکہ ضرورت کے بقدر قرآن یاد ہو اور نماز کے ضروری مسائل سے واقف ہو یہ کافی ہے اس لیے مذکورہ صورت میں اگر زید شرعی طریقہ پر نماز پڑھاتا ہے تو بلا وجہ کسی کو اعتراض نہیں کرنا چاہئے اور نہ ہی امامت سے روکنا چاہئے۔

’’والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلوٰۃ فقط صحۃ وفسادا … وحفظہ قدر فرض وقیل واجب وقیل سنۃ‘‘ (۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۴۔
فالأعلم بأحکام الصلوۃ الحافظ مابہ سنۃ القراء ۃ ویجتنب الفواحش الظاہرۃ وإن کان غیر متبحر في بقیۃ العلوم۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ص: ۲۹۹، شیخ الہند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص116

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بغیر شرعی ثبوت کے محض لوگوں کے کہنے سننے پر کسی سے بدگمانی کرنا سخت گناہ ہے آج کل کے اکثر لوگ ایسی ہی بدگمانیوں کے شکار ہوکر گناہ گار بن جاتے ہیں جب کہ ایسی بدگمانی سے پرہیز لازم ہے تاہم اگر واقعی مقتدی مذکورہ امام کے خلاف ہیں کہ نماز اس کی امامت ادا کرنا نہیں چاہتے تو امام کو خود امامت سے الگ ہوجانا چاہئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی امامت سے منع فرمایا ہے۔(۱)

(۱) والفا فأۃ بتکرار الفاء والتمتمۃ بتکرار التاء فلا یتکلم إلا بہ واللثخ المثلتۃ التحریک وہو واللثغۃ بضم اللأم وسکون الثاء تحرک اللسان من السین الی الثاء ومن الراء إلی الغین ونحوہ لایکون إماماً، وإذا لم یجد في القرآن شیئاً خالیا عن لثغۃ وعجز عن إصلاح لسانہ آناء اللیل وأطراف النہار فصلاتہ جائزۃ لنفسہ وإذا ترک التصحیح والجہد فصلاتہ فاسدۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي …علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ص: ۲۸۹، شیخ الہند دیوبند)
وعن ابن عباس -رضي اللّٰہ عنہ- قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم: ثلثۃ لا ترفع لہم صلوتہم فوق رؤسہم شعیراً رجل أمّ قوماً وہم لہ کارہون، إن الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ، کرہ لہ ذلک تحریماً لحدیث أبي داؤد، لا یقبل اللّٰہ صلاۃ من تقدم قوماً وہم لہ کارہون۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۷)

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص317

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اگر صحنِ مسجد مسجد کے اندر داخل ہے تو اس میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اگر صحن کا حصہ مسجد شرعی سے باہر ہے تو اندر ہی پڑھنا اولیٰ ہے۔ تاہم بلا وجہ محراب چھوڑ کر ادھر ادھر جماعت مناسب نہیں ہے۔(۱)

(۱) وفناء المسجد لہ حکم المسجد۔ (البحرالرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ: ج۱، ص: ۶۳۵، مکتبہ دارالکتاب، دیوبند)
السنۃ أن یقوم في المحراب لیعتدل الطرفان، ولو قام في أحد جانبي الصف یکرہ، ولو کان المسجد الصیفي بجنب الشتوي وامتلأ المسجد یقوم الإمام في جانب الحائط لیستوي القوم من جانبیہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ:  باب الإمامۃ، مطلب: ہل الإساء ۃ دون الکراہۃ أو أفحش منہا؟‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۰؛ وہکذا فی البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۶۳۵، مکتبہ زکریا دیوبند)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص90

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:امام کو آگاہ کرنے کے مقصد سے کھنکھارنے کا ثبوت شرعاً نہیں تاہم کبھی اس طرح اور کبھی زبانی طور پر کہہ کر آگاہ کردیا جائے، بہتر تو یہ ہے کہ مؤذن اقامت شروع کردے امام صاحب اس طرح آگاہ ہوکر مصلٰے پر پہونچ جائیں گے اکثر وبیشتر ایسا ہی ہوتا ہے۔ تاہم جب تک امام کو نماز کے لیے آتا ہوا نہ دیکھیں اس وقت تک مقتدی حضرات کھڑے نہ ہوں۔(۱)

(۱) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ یقول: أقیمت الصلوۃ، فقمنا، فعد لنا الصفوف قبل أن یخرج إلینا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجدومواضع الصلاۃ، باب متی یقوم الناس للصلوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۰، رقم: ۶۰۵)
إن کان المؤذن غیرالإمام وکان القوم مع الإمام في المسجد فإنہ یقوم الإمام والقوم إذا قال المؤذن حي علی الصلوۃ  عند علمائنا الثلاثۃ وہوالصحیح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان، الفصل الثاني کلمات الأذان والإقامۃ وکیفیتہما‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۲)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص212

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں جس شخص کی نماز باجماعت امام کے پیچھے ایک، دو یا تین رکعات چھوٹ گئی ہوں اور قعدہ اخیرہ میں بھی امام کے ساتھ شریک رہا ہو تو اس کے لیے شریعت مطہرہ کا حکم یہ ہے کہ تشہد پڑھنے کے بعد وہ شخص امام کے سلام پھیرنے کا انتظار کرے، اس درمیان وہ شخص التحیات پڑھنے کے بعد درود شریف اور دعاء ماثورہ وغیرہ نہ پڑھے؛ بلکہ تشہد (التحیات) کو امام کے سلام پھیر نے تک آہستہ آہستہ اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا رہے، اور اگر التحیات پڑھ کر فارغ ہو جائے تو خاموش بیٹھا رہے۔
’’والصحیح أن المسبوق یترسل في التشھد حتی یفرغ من التشھد عند سلام الإمام‘‘(۱)
’’المسبوق إذا قعد مع الإمام کیف یفعل اختلفوافیہ والصحیح أنہ یترسل في التشھد حتی یفرغ من التشھد عند سلام الإمام‘‘(۲)
’’(ومنھا) أن المسبوق ببعض الرکعات یتابع الإمام في التشھد الأخیر وإذا أتم التشھد لا یشتغل بما بعدہ من الدعوات، ثم ماذا یفعل؟ تکلموا فیہ، وعن ابن شجاع: أنہ یکرر التشھد أي : قولہ أشھد أن لا إلہ إلا اللّٰہ وھو المختار کذا في الغیاثیۃ والصحیح : أن المسبوق یترسل في التشھد حتی یفرغ عند سلام الإمام، کذا في الوجیز للکردري وفتاوی قاضي خان وھکذا في الخلاصۃ وفتح القدیر‘‘(۳)
’’(ومنھا القعود الاخیر) مقدار التشھد‘‘(۱)
’’السادسۃ من الفرائض القعدۃ الآخرۃ التی تکون في آخر الصلاۃ سواء تقدمھا قعدۃ أولا کما في الثنائیۃ‘‘(۲)

(۱) محمد بن محمد البزازي، الفتاویٰ البزازیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في المسبوق‘‘: ج ۱، ص: ۶۶۔)
(۲) قاضي خان، فتاوی قاضي خان، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في المسبوق‘‘: ج۱، ص: ۶۶۔)
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ: ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل السابع، في المسبوق واللاحق‘‘: ج۱، ص: ۱۴۹۔)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیہ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول في فرائض الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۸۔
(۲) إبراہیم الحلبي، الحلبي الکبیري، ’’کتاب الصلاۃ: فرائض الصلاۃ السادسۃ‘‘: ص: ۶۹۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص49

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مکروہ ہے۔ (خلاف اولیٰ ہے)(۱)

(۱) یکرہ للمصلی أن یعبث بثوبہ أو لحیتہ، وإن یکف ثوبہ بأن یرفع ثوبہ من بین یدیہ أو من خلفہ إذا أراد السجود۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ج ۱، ص:۱۶۴)
وکرہ کفہ أي رفعہ وعبثہ بہ أي بثوبہ قولہ أي رفعہ أي سواء کان من بین یدیہ أو من خلفہ عند الانحطاط للسجود۔ (الحصکفي،  الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ الخ، مطلب في الکراہۃ التحریمیۃ والتنزیہیۃ‘‘: ج ۲، ص:۴۰۶)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص172

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1900/43-1789

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  آپ ناسک میں مسافر ہیں، اس لئے آپ پر قصر لازم  ہے، اور آپ کایہ عمل درست ہے۔ مسافر کے کسی جگہ مقیم ہونے کے لئے کم از کم پندرہ دن اقامت کی نیت کرنا ضروری ہوتاہے جبکہ آپ ناسک میں پانچ دن کی نیت سے ہی اقامت کرتے ہیں، اس لئے  آپ برابر قصر کرتے رہیں گے چاہے پوری زندگی اسی طرح گزر جائے۔  جب تک آپ وہاں  پندرہ دن اقامت کی نیت نہ کرلیں   مسافر ہی رہیں گے۔

ووطن) الإقامة: وهو أن يقصد الإنسان أن يمكث في موضع صالح للإقامة خمسة عشر يومًا أو أكثر." (بدائع الصنائع 1 / 103)

"ويصير مقيماً بشيئين: أحدهما إذا عزم علي إقامة خمسة عشر يوماً أين ما كان ..." (النتف في الفتاوى للسغدي (1 / 76)

"و لو دخل مصرًا على عزم أن يخرج غدًا أو بعد غد ولم ينو مدة الإقامة حتى بقي على ذلك سنين قصر" لأن ابن عمر رضي الله عنه أقام بأذربيجان ستة أشهر وكان يقصر وعن جماعة من الصحابة رضي الله عنهم مثل ذلك". (الهداية في شرح بداية المبتدي (1 / 80)

ویبطل وطن الإقامة بمثلہ وبالوطن الأصلي وبإنشاء السفر، والأصل أن الشیء یبطل بمثلہ وبما فوقہ لا بما دونہ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صلاة المسافر ۲: ۶۱۴، ۶۱۵،ط: مکتبة زکریا دیوبند)، من خرج من عمارة موضع إقامتہ الخ (المصدر السابق، ص:۵۹۹)۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:  جو عالم ماہر ہو، مگربلا عذر تارک جماعت ہو، تو وہ فاسق ہے، اس کی امامت مکروہ ہے، ناظرہ خواں امامت کے لیے بہتر ہے، کیوں کہ فاسق اگرچہ کتنا ہی بڑا عالم ہو امامت اس کی مکروہ ہے ، تاہم بلا تحقیق کسی عالم پر الزام نہ لگایا جائے۔(۲)

(۲) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إن سرکم أن تقبل صلاتکم فلیؤمکم علماء کم فإنہم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم في روایۃ فلیؤمکم خیارکم۔۔۔۔۔۔ ولذا کرہ إمامۃ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعا فلا یعظم یتفرعہ للإمامۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۱، ۳۰۲، شیخ الہند دیوبند)
وأما الفاسق وقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لایہتم لأمر دینہ وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ وقد وجب علیہم إہانتہ شرعًا، ولا یخفی أنہ إذا کان أعلم من غیرہ لاتزول العلۃ۔ (الحصکفي، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۹، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص117

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ان بعض مقتدیوں کے قول پر توجہ نہ دیجئے مذکورہ امام کے پیچھے نماز صحیح ادا ہوجاتی ہے۔(۱)

(۱) وشروط صحۃ الإمامۃ للرجال الأصحاء ستۃ أشیاء: الإسلام، والبلوغ، والعقل، والذکورۃ، والقراء ۃ، والسلامۃ من الأعذار کالرعاف والفأفأۃ والتمتمۃ واللثغ، وفقد شرط کطہارۃ وستر عورۃ۔ (الشرنبلالي، نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۷۸، ۷۷، مکتبہ عکاظ دیوبند)
لقولہ علیہ السلام: صلوا خلف کل برو فاجر الخ۔ (أحمد بن محمد،  حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، شیخ الہند دیوبند)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص318

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:احتیاطاً پندرہ بیس منٹ پر عمل کرنا چاہئے؛ کیوں کہ طلوع آفتاب پورے طور ہو جانے کے بعد اشراق کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔
’’قال العلامۃ سراج أحمد في شرح الترمذي لہ إن المتعارف في أول النہار صلاتان الأولی بعد طلوع الشمس وارتفاعہا قدر رمح أو رمحین، ویقال لہا صلاۃ الإشراق، والثانیۃ عند ارتفاع الشمس قدر ربع النہار إلی ما قبل الزوال ویقال لہا صلاۃ الضحیٰ واسم الضحیٰ في کثیر من الأحادیث شامل لکلیہما و قد ورد في بعضہا لفظ الإشراق أیضاً‘‘(۱)
’’عن أنس رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من صلیٰ الفجر في جماعۃ ثم قعد یذکر اللّٰہ تعالیٰ حتی تطلع الشمس ثم صلی رکعتین کانت لہ کأجر حجۃ وعمرۃ قال: قال رسول للّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم تامۃ تامۃ تامۃ‘‘(۲)
’’عن أبي الدرداء وأبي ذر رضي اللّٰہ عنہما قالا: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: عن اللّٰہ تبارک وتعالیٰ أنہ قال یا ابن آدم لاتعجزنی في من أربع رکعات من أول النہار اکفک آخرہ‘‘(۳)

(۱) ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، کتاب الصلاۃ: ج ۷، ص: ۲۴۔
(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’باب ما ذکر مما یستحب من الجلوس في المسجد بعد صلاۃ الصبح حتی تطلع الشمس‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۰، رقم: ۵۸۶، مکتبہ: نعیمیہ، دیوبند۔
(۳) البغوی، مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الصلوۃ، باب صلوٰۃ الضحیٰ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۵، ۱۱۶، رقم: ۱۳۱۳۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص91