نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت بھی قواعد کے لحاظ سے صحیح ہے، اس میں کوئی مضائقہ نہیںہے۔ اقامت کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ ایک سانس میں چار مرتبہ ’’اللّٰہ أکبر‘‘ کہا جائے اور ہر ’’اللّٰہ أکبر‘‘ کی راء پر سکون کیا جائے اور اگر ملا کرپڑھیں تو راء پر حرکت ظاہرکی جائے ’’حي علی الصلوٰۃ اور حي علی الفلاح‘‘ دونوں ایک سانس میں دو دو بار پڑھیں، آخر حرف کو ساکن پڑھیں۔
’’وحاصلہا أن السنۃ لیسکن الراء من اللّٰہ أکبر الأولیٰ أو یصلہا باللّٰہ أکبر الثانیۃ، فإن سکتہا کفی وإن وصلہا نوی السکون فحرک الراء بالفتحۃ‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘:  مطلب في الکلام علی حدیث الأذان جزم، ج ۲، ص: ۵۲، زکریا دیوبند۔
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص212

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: مسبوق کے لیے سجدہ سہو کے احکام بیان کرتے ہوئے علامہ کاسانیؒ نے بدائع الصنائع میں درج ذیل وضاحتیں کی ہیں:
مسبوق (جس مقتدی کی ایک، دو یا تین رکعت چھوٹ گئی ہو) سجدہ سہو میں امام کی متابعت یعنی پیروی کرے گا، سلام پھیرنے میں امام کی پیروی نہ کرے؛ بلکہ مسبوق امام کا انتظار کرے کہ وہ سلام پھیر کر سجدہ سہو کرے تو مسبوق بھی سجدہ سہو کرے۔ اور سجدہ سہو میں امام کی متابعت اور پیروی کرے۔ آخری سلام پھیرنے میں مسبوق امام کی متابعت ہرگز نہ کرے۔ اور اگر سلام پھیرنے میں جان بوجھ کر امام کی پیروی کی تو اس صورت میں مقتدی کی نماز فاسد ہو جائے گی یعنی ٹوٹ جائے گی؛ لیکن بھول کر پیروی کی تو نماز فاسد نہیں ہو گی اور مسبوق پر سجدہ سہو بھی نہیں ہوگا، کیوں کہ وہ مقتدی ہے اور مقتدی کا سہو باطل ہوتا ہے۔ اور جب امام آخری سلام پھیرے تو مسبوق امام کے ساتھ سلام نہ پھیرے؛ اس لیے کہ امام کا سلام نماز سے باہر آنے کے لیے ہے اور مسبوق پر ابھی ارکانِ نماز باقی ہیں۔
’’ثم المسبوق إنما یتابع الإمام في السہو دون السلام، بل ینتظر الإمام حتی یسلم فیسجد فیتابعہ في سجود السہو، لا في سلامہ، وإن سلم فإن کان عامدا تفسد صلاتہ، وإن کان ساہیا لا تفسد ولا سہو علیہ لأنہ مقتد، وسہو المقتدی باطل، فإذا سجد الإمام للسہو یتابعہ في السجود ویتابعہ في التشہد، ولا یسلم إذا سلم الإمام لأن السلام للخروج عن الصلاۃ وقد بقي علیہ أرکان الصلاۃ‘‘(۱)
خلاصہ: مذکورہ عبارتوں کی روشنی میں یہ واضح ہو جاتی ہے کہ مسبوق امام کے ساتھ سلام نہیں پھیرے گا، اور اگر مسبوق نے امام کے ساتھ جان بوجھ کر سلام پھیر لیا تو اس صورت میں مسبوق کی نماز ٹوٹ جائے گی؛ البتہ اگر مسبوق بھول کر امام کے ساتھ سلام پھیرا ہے، تو اس کی نماز درست ہو جائے گی اور مسبوق پر سجدہ سہو بھی لازم نہیں آئے گا، نیز مسبوق ہر حال میں امام کے ساتھ سجدہ سہو کرے گا خواہ امام کی وہ بھول مسبوق کے نماز میں شامل ہونے سے پہلے یا بعد میں ہوئی ہو، مسبوق پر امام کے ساتھ سجدہ سہو کرنا ضروری ہے، اگر مسبوق سجدہ سہو نہ کیا تو نماز فاسد ہو جائے گی اور اعادہ ضروری ہوگا۔

(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: بیان من یجب علیہ سجود السہو و من لا یجب علیہ‘‘: ج ۱، ص:۴۲۲( دارالکتاب، دیوبند)
 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص50

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس طرح محراب میں کھڑا ہونا کہ پیر بھی باہر نہ ہوں مکروہ ہے اور اگر ایڑیاں باہر ہوں تو کوئی کراہت نہیں نماز بہر صورت ادا ہوجاتی ہے۔(۱)

(۱) وقیام الإمام في المحراب لاسجودہ فیہ وقدماہ خارجہ لأن العبرۃ للقدم۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ج۲، ص: ۴۱۴)
ویکرہ قیام الإمام وحدہ في الطاق وہو المحراب، ولا یکرہ سجودہ فیہ إذا کان قائماً خارج المحراب۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب السابع، الفصل الثاني فیما یکرہ في الصلاۃ وما لایکرہ‘‘: ج ۱، ص:۱۶۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص173

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2665/45-4192

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  حنفی شخص کے لئے ضروری ہے کہ حتی الامکان مثل ثانی کے بعد ہی عصر کی نماز پڑھنے کی کوشش کرے، اگر کوئی دوسری مسجد ہو جہاں حنفی مذہب کے مطابق نماز ہوتی ہو تو وہاں جاکر نماز پڑھے۔ البتہ اگرکسی ایسی جگہ مقیم ہے کہ جہاں  دیگر فقہی مسالک رائج ہیں اور تمام مساجد میں نماز مثل اول کے بعد ہی ادا کی جاتی ہے، اور حنفی مسلک کے مطابق مثل ثانی کے بعد جماعت  کے ساتھ نماز کی ادائیگی  ممکن نہیں ہے، تو ایسی مساجد میں   مثل اول کے بعد نماز عصر ادا  کرنے گنجائش ہے۔  اپنی انفرادی نماز مثل ثانی کے بعد پڑھنے کے لئےمستقل طور پر جماعت کا ترک  کرنا جائز نہیں ہے۔  البتہ اگر اس دوران  کسی وجہ سے جماعت نہ مل سکے تو (انفرادی طور پر نماز پڑھتے ہوئے) مثلِ  ثانی کے بعد ہی عصر پڑھنا لازم ہوگا۔ 

"(ووقت الظهر من زواله) أي ميل ذكاء عن كبد السماء (إلى بلوغ الظل مثليه) وعنه مثله، وهو قولهما وزفر والأئمة الثلاثة. قال الإمام الطحاوي: وبه نأخذ. وفي غرر الأذكار: وهو المأخوذ به. وفي البرهان: وهو الأظهر. لبيان جبريل. وهو نص في الباب. وفي الفيض: وعليه عمل الناس اليوم وبه يفتى (سوى فيء) يكون للأشياء قبيل (الزوال) ويختلف باختلاف الزمان والمكان، ولو لم يجد ما يغرز اعتبر بقامته وهي ستة أقدام بقدمه من طرف إبهامه(ووقت العصر منه إلى) قبيل (الغروب)." (رد المحتار ، كتاب الصلاة، ج:1، ص:359، ط:سعيد)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام صاحب مسجد میں امامت کے فرائض انجام دیتے ہیں اور بسا اوقات پوری زندگی گزار دیتے ہیں اگر امام صاحب کے امامت سے علاحدگی کے وقت بطور اکرام ان کا تعاون کر دیا جائے تو اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔ عام طور پر فقہی کتابوں میں اس کی ممانعت جو لکھی گئی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے وقف کی جائداد سے امام کو تنخواہ دی جاتی تھی اور وقف کے پیسوں کو اس کے متعین مصرف کے علاوہ میں خرچ کرنا درست نہیں ہے؛ لیکن موجودہ صورت حال بدل چکی ہے اب عام طور پر وقف کی آمدنی سے امام کو تنخواہ نہیں دی جاتی ہے؛ بلکہ چندہ کی رقم سے یا مصالح مسجد کے لیے وقف کی جائداد دوں کی آمدنی سے دی جاتی ہے اور چندہ کی رقم میں اگر چندہ دہندگان کے علم میں لاکر امام کو بطور اکرام کے کچھ رقم دی جائے تو اس میں عدم جواز کی کوئی وجہ نہیں ہے؛ بلکہ یہ ایک مستحسن اور پسندیدہ عمل ہے۔ حدیث میں مومن کی ضرورتوں کی کفالت کرنے کی ترغیب دی گئی ہے:
’’من کان في حاجۃ أخیہ کان اللّٰہ في حاجتہ ومن فرج عن مسلم کربۃ فرج اللّٰہ عنہ بہا کربۃ من کرب یوم القیامۃ‘‘(۱)

(۱) أخرجہ أبو داود   في سننہ، ’’کتاب الأدب، باب المواخاۃ، والتواضع‘‘: ج ۲، ص: ۶۷۰، رقم: ۴۸۹۳۔

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص319

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:تہجد کی نماز کا وقت عشاء کی نماز کے بعد سے صبح صادق تک ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے صحاح میں روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ وسلم نے تہجد ابتدائی شب میں بھی، نصف شب میں بھی اور آخری شب میں بھی پڑھی ہے۔ زندگی میں زیادہ تر نصف شب میں اور آخری شب میں پڑھی ہے مگر آخر زندگی میں زیادہ تر آخری شب میں پڑھنا ہوتا تھا، رات میں جتنی تاخیر سے تہجد پڑھی جاتی ہے اتنی ہی رحمتیں اور برکتیں زیادہ ہوتی ہیں اور سدس آخر یعنی رات کا آخری چھٹا حصہ تمام حصوں سے زیادہ افضل ہے۔(۱)

(۱) وروي الطبراني مرفوعا: ۔۔۔۔ وما کان بعد صلاۃ العشاء فہو من اللیل۔۔۔۔  قلت:۔۔۔۔ غیر خاف أن صلاۃ اللیل المحثوث علیہا ہي التہجد۔۔۔۔، وأید بما في معجم الطبراني من حدیث الحجاج بن عمرو رضي اللّٰہ تعالی عنہ قال:  بحسب أحدکم إذا قام من اللیل یصلی حتی یصبح أنہ قد تہجد، إنما التہجد المرء یصلی الصلاۃ بعد رقدۃ۔۔۔۔ أقول: الظاہر أن حدیث الطبراني الأول بیان لکون وقتہ بعد صلاۃ العشاء، حتی لو نام ثم تطوع قبلہا لا یحصل السنۃ، فیکون حدیث الطبراني الثاني مفسرا للأول۔۔۔۔  ولأن التہجد إزالۃ النوم بتکلف مثل؛  تأثم: أي تحفظ عن الإثم؛  نعم صلاۃ اللیل وقیام اللیل أعم من التہجد۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر و النوافل، مطلب في صلاۃ اللیل‘‘: ج ۲، ص: ۴۶۷، زکریا بکڈپو، دیوبند)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص93

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس بارے میں امام شافعیؒ کا مسلک تو یہ ہے کہ اقامت ختم ہونے کے بعد امام و مقتدی کھڑے ہوں۔ یہ ہی مستحب ہے۔ امام مالکؒ کے نزدیک، حسب روایت قاضی عیاض شروع اقامت ہی سے کھڑا ہونا مستحب ہے۔ امام احمد ابن حنبلؒ کے نزدیک جب مؤذن قد قامت الصلوٰۃ کہے اس وقت کھڑا ہونا چاہئے۔ امام ابوحنیفہ ؒ کے قول میں ذرا تفصیل ہے کہ امام اور مقتدی اگر اقامت سے پہلے ہی مسجد میں موجود ہوں تو صحیح روایت کے مطابق حي علی الفلاح پر اٹھ جانا چاہئے۔ اور اگر امام باہر سے آرہا ہو تو اگر وہ محراب کے کسی دروازے سے یا اگلی صف کے سامنے سے آئے تو جس وقت مقتدی امام کو دیکھیں اسی وقت کھڑے ہو جائیں اور اگر پچھلی صف سے آرہا ہے تو جس صف سے امام گذرے وہ صف کھڑی ہوجائے۔ امام نوویؒ نے شرح مسلم میں تحریر فرمایا ہے:
’’مذہب الشافعی وطائفۃ أنہ یستحب أن لا یقوم أحد حتی یفرغ المؤذن من الإقامۃ، ونقل القاضي عیاض عن مالک وعامۃ العلماء أنہ یستحب أن یقوموا إذا أخذ المؤذن في الإقامۃ، وکان أنس یقوم إذا قال المؤذن قد قامت الصلوٰۃ، وبہ قال أحمد وقال أبوحنیفۃ والکوفیون یقومون في الصف إذا قال حي علی الصلوٰۃ‘‘(۱)
امام اعظمؒ کے مسلک کی پوری تفصیل بدائع الصنائع اور فتاویٰ ہندیہ نے اس طرح بیان فرمائی ہے ’’إن کان المؤذن غیر الإمام وکان القوم مع الإمام في المسجد فإنہ یقوم الإمام والقوم إذا قال المؤذن حي علی الفلاح عند علمائنا الثلاثہ وہو الصحیح فأما إذا کان الإمام خارج المسجد فإن دخل من قبل الصفوف فکلما جاوز صفا قام ذلک الصف وإلیہ مال شمش الأئمہ الحلوانی والسرخسي وشیخ الإسلام ’’خواہر زادہ‘‘ وإن کان الإمام دخل المسجد من قدامہم یقومون کما رأی الإمام الخ‘‘(۲)
البحر الرائق میں حنفیہ کے مسلک کی تفصیل لکھتے ہوئے جہاں یہ بیان کیا ہے کہ جب امام اقامت سے پہلے ہی مسجد میں موجود ہو تو ’’حي علی الفلاح‘‘ پر کھڑا ہونا چاہئے اس کی علت یہ بیان کی ہے ’’والقیام حین قیل حي علی الفلاح لأنہ أمر یستحب المسارعۃ إلیہ‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جن حضرات نے ’’حي علی الفلاح‘‘ یا ’’قدقامت الصلوٰۃ‘‘پر کھڑے ہونے کو مستحب قرار دیا ہے ان کا مطلب یہ ہے کہ ’’حي علی الفلاح‘‘ یا ’’قد قامت الصلوٰۃ‘‘ کے بعد بیٹھنا خلاف ادب ہے یہ مطلب نہیں کہ اس سے پہلے کھڑا ہونا خلاف ادب ہے، اس لیے کہ پہلے کھڑے ہونے میں تو اور بھی زیادہ مسارعت پائی جاتی ہے اور جہاں مسجد میں کھڑے ہوکر جماعت کا انتظار کرنے سے منع کیا گیا ہے وہاں مراد یہ ہے کہ اگر امام مسجد میں آیا ہی نہیں تو کھڑے رہنا اور انتظار کرنا درست نہیں جیسا کہ اس حدیث میں ہے جس کو بخاری شریف نے ’’باب متی یقوم الناس إذا رأوا الإمام‘‘ میں بیان کیا گیا ہے۔ ’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا أقیمت الصلوٰۃ فلا تقوموا حتی تروني‘‘(۱)
نیز صفوں کا سیدھا کرنا بھی عند الشرع مطلوب ہے اور یہ حکم بڑی قوت کا حامل ہے جس پر بدرجہ اتم عمل اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب کہ پہلے ہی سے لوگ کھڑے ہو جائیں نیز یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ سے ثابت ہے ’’قال کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یسوی صفوفنا إذا قمنا إلی الصلاۃ فإذا استوینا کبر (۲) وأیضا روی عن عمرؓ أنہ کان یؤکّل رجلاً بإقامۃ الصفوف ولا یکبر حتی یخبر أن الصفوف قد استوت أخرجہ الترمذي وقال: وروي عن علي وعثمان أنہما کانا یتعاہدان ذلک‘‘(۳)
سوال میں آپ نے جو عبارتیں نقل کی ہیں ان کا مطلب یہ ہے کہ امام کے مسجد میں آنے سے پہلے کھڑے ہوکر جماعت کا انتظار کرنا درست نہیں ہے اور اگر پہلے کھڑے ہوکر صفیں سیدھی کرلی جائیں تو درست ہے اور ’’قد قامت الصلوٰۃ‘‘ کے بعد بیٹھے رہنا مناسب نہیں ہے۔
نوٹ: فقہاء کا اس سلسلہ میں اختلاف افضلیت و استحباب میں ہے جواز و عدم جواز میں نہیں ہے؛ اس لیے مسئلہ ہذا میں شدت اختیار نہ کی جائے۔

(۱)  أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ‘‘: باب متی یقوم الناس للصلاۃ، ج۱، ص:۲۲، رقم: ۶۰۵۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان، الفصل الثاني في کلمات الأذان والإقامۃ وکیفیتہما‘‘:باب صفۃ الصلاۃ،
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان، باب حتی یقوم الناس إذا رأؤا الإمام عند الإقامۃ ‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۸، رقم: ۶۳۷۔
(۲) أخرجہ أبوداود في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، تفریع أبواب الصفوف، باب تسویۃ الصفوف، ج۱، ص: ۹۷، رقم: ۶۶۵
(۳) أخرجہ الترمذي، في سننہ، أبواب الصلاۃ، باب ماجاء في إقامۃ الصفوف، ج۱، ص: ۵۳، رقم: ۲۲۷۔

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص213

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: مسبوق وہ شخص کہلاتا ہے کہ جو ایک رکعت یا اس سے زیادہ ہوجانے کے بعد امام کے ساتھ جماعت میں تاخیر سے آکر شریک ہوا ہو۔
’’المسبوق من لم یدرک الرکعۃ الأولی مع الإمامۃ‘‘(۱)
’’المسبوق من سبقہ الإمام بھا أو ببعضھا‘‘(۲)
’’کالمسبوق وھو الذي لم یدرک أول الصلاۃ مع الإمام‘‘(۳)
’’وحقیقۃ المسبوق ھو من لم یدرک أول صلاۃ الإمام والمراد بالأول الرکعۃ الأولی‘‘(۴)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیہ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل السابع في المسبوق واللاحق‘‘: ج۱، ص: ۱۴۸۔
(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب الإمامۃ، مطلب: فیما لو أتی بالرکوع و السجود أو بھما مع الإمام أو قبلہ أو بعدہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۶،( زکریا، دیوبند)
(۳) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ:  بیان کیفیۃ القضاء‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۳۔
(۴) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الحدث في الصلاۃ، (وصح استخلاف المسبوق)‘‘: ج۱، ص: ۶۶۱؛ و جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیہ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل السابع في المسبوق واللاحق‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۹۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص52

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بلا ضرورت پیروں کو حرکت دینا مکروہ ہے ہاں اگر تھوڑا سا پیر ادھر اُدھر ہو جائے تو نماز میں کوئی نقص نہیں آئے گا۔ نماز بہر صورت ہوجاتی ہے۔(۲)

(۲) فإن کان أجنبیا من الصلاۃ لیس فیہ تتمیم لہا، ولا فیہ دفع ضرر فہو مکروہ أیضا کالعبث بالثوب أو البدن وکل مایحصل بسبہ شغل القلب وکذا ماہو من عادۃ أہل التکبیر أو صنیع أہل الکتاب۔ (غنیۃ المتملی شرح منیۃ المصلی ’’مطلب في حکم تغطیۃ المصلی فمہ في الصلاۃ‘‘ ج۱، ص: ۲۱۶)
یکرہ للمصلي أن یعبث بثوبہ أو لحیتہ أو جسدہ، و إن یکف ثوبہ بأن یرفع ثوبہ من بین یدیہ أو من خلفہ إذا أراد السجود۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب السابع، الفصل الثاني فیما یکرہ في الصلاۃ وما لایکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص173

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1247 Alif

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                           

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:جیسی چھوٹی ہے اسی طرح ادا کریں گے، لہذا  صورت مسئولہ میں چھوٹی ہوئی رکعت میں دعاء قنوت دوبارہ  نہیں  پڑھی جائے گی۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند