Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ امام مسجد و خطیب کو نوکر یا ملازم کہنا اگر اس کی اہانت کے پیش نظر ہے تو یہ گناہ کبیرہ ہے اس سے توبہ و استغفار ضروری ہے۔ ایسے الفاظ سے پرہیز کرنا ہی بہتر ہے تاکہ لوگوں کو شبہات پیدا نہ ہوں اس کی ممانعت حدیث میں بھی ہے۔
’’دع ما یریبک إلی ما یریبک‘‘(۱)
’’عن عبد اللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: سباب المسلم فسوق وقتالہ کفر‘‘(۲)
{وَلَا تَلْمِزُوْٓا أَنْفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْأَلْقَابِط بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْإِیْمَانِج وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَأُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَہ۱۱}(۳)
(۱) أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب‘‘: ج۲، ص:۸۳، رقم: ۲۴۴۲۔
(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب خوف المؤمن من أن یحیط عملہ وہو لا یشعر‘‘: ج۱، ص: ۱۲، رقم: ۴۸؛ وأخرجہ المسلم في سننہ، ’’کتاب الإیمان، باب ما جاء سباب المسلم فسوق الخ‘‘: ج۱، ص: ۲۰، رقم: ۶۴۔
(۳) سورۃ الحجرات: ۱۱۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص320
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:’’حی علی الصلوٰۃ الصلوٰۃ‘‘ پر اور ’’حی علی الفلاح‘‘ میں الفلاح پر اگر وقف نہ کیا جائے تو عربی کے قاعدے کے لحاظ سے الصلوٰۃ اور الفلاح پر کسرہ پڑھا جائے۔اور اذان واقامت کا مروجہ طریقہ درست ہے۔(۱)
(۱)حدثنا الحسن بن علي حدثنا عفان وسعید بن عامر وحجاج والمعنی واحد قالوا حدثنا ہمام حدثنا عامر الأحول حدثني مکحول أن ابن محیریز حدثہ أن أبا محذورۃ حدثہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علمہ الأذان تسع عشرۃ کلمۃ والإقامۃ سبع عشرۃ کلمۃ الأذان اللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ أشہد أن محمدا رسول اللّٰہ أشہد أن محمدا رسول اللّٰہ أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ أشہد أن محمدا رسول اللّٰہ أشہد أن محمدا رسول اللّٰہ حي علی الصلاۃ حي علی الصلاۃ حي علی الفلاح حي علی الفلاح اللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر لا إلہ إلا اللّٰہ والإقامۃ اللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ أشہد أن محمدا رسول اللّٰہ أشہد أن محمدا رسول اللّٰہ حي علی الصلاۃ حي علی الصلاۃ حي علی الفلاح حي علی الفلاح قد قامت الصلاۃ قد قامت الصلاۃ اللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر لا إلہ إلا اللّٰہ، کذا في کتابہ في حدیث أبي محذورۃ۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب کیف الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۷۳ رقم:۴۳۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص216
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر وہ شخص مدرک تھا اور غلطی سے اس نے اپنے آپ کو مسبوق سمجھ کر امام کے سلام پھیرنے کے بعد کھڑا ہوگیا تو جب تک اس نے رکعت پوری نہیں کی ہے اس کو چاہیے کہ واپس تشہد میں بیٹھ کر سجدہ سہو کرکے اپنی نماز پوری کرے اور اگر کھڑے ہونے کے بعد ایک رکعت پوری کر چکا ہے تو اسے چاہیے کہ دوسری رکعت بھی مکمل کرلے اور سجدہ سہو کرکے نماز کو پوری کرے؛ لیکن اگر ایک رکعت پر ہی بیٹھ کر سجدہ سہو کرکے نماز کو مکمل کرلیا تو بھی نماز ہوجائے گی۔
’’(وإن قعد في الرابعۃ) مثلاً قدر التشھد (ثم قام عاد وسلم) …، (وإن سجد للخامسۃ سلموا) … (وضم إلیھا سادسۃ) لو في العصر، وخامسۃ في المغرب، ورابعۃ في الفجر، بہ یفتی (لتصیر الرکعتان لہ نفلاً) والضم ھنا آکد، ولا عھدۃ لو قطع، ولا بأس بإتمامہ في وقت کراھۃ علی المعتمد (وسجد للسھو) في الصورتین، لنقصان فرضہ بتأخیر السلام في الأولی وترکہ في الثانیۃ‘‘(۱)
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السھو‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۳، ۵۵۴۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص53
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس طرح کے فرش پر جو تصویر دیکھائی دیتی ہے اس کا حکم عکس کا ہے تصویر کا نہیں ،اس طرح کے فرش پر بلاکراہت نماز درست ہے ہاں اگر تصوریر اس طرح نمایاں ہوتی ہوں کہ نماز ی کا خشوع و خضو ع متاثر ہوتاہوتو خشوع و خضوع کے متاثر ہونے کی وجہ سے نماز میں کراہت پیدا ہوگی۔ بہتر ہے کہ اس طرح کے فرش پر کوئی چادر یا قالین بچھالیں تاکہ نمازیوں کا خشوع متاثر نہ ہو۔
’’ولو صلی علی زجاج یصف ماتحتہ قالوا جمیعا یجوز‘‘(۱)
’’(قولہ لأنہ یلہي المصلی) أي فیخل بخشوعہ من النظر إلی موضع سجودہ ونحوہ، وقد صرح في البدائع في مستحبات الصلاۃ أنہ ینبغي الخشوع فیہا، ویکون منتہی بصرہ إلی موضع سجودہ إلخ وکذا صرح في الأشباہ أن الخشوع فی الصلاۃ مستحب۔ والظاہر من ہذا أن الکراہۃ ہنا تنزیہیۃ فافہم‘‘(۱)
’’قید الزیلعي أیضا الإباحۃ بأن لا یتکلف لدقائق النقش في المحراب فإنہ مکروہ؛ لأنہ یلہی المصلی۔ اہـ۔ قلت فعلی ہذا لا یختص بالمحراب بل في أي محل یکون أمام من یصلی بل أعم منہ وبہ صرح الکمال فقال بکراہۃ التکلف بدقائق النقوش ونحوہا خصوصا فی المحراب‘‘(۲)
(۱) الحصکفي، ردالمحتار مع الدر المختار، ج۲، ص: ۷۳۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، فروع أفضل المساجد، ج۱، ص: ۶۵۸۔
(۲) علي حیدر خواجہ أمین آفتندي، درر الحکام، ’’مکروہات الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۱۱۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص174
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بشرط صحت سوال مذکورہ امام ظہر کی نماز پڑھا سکتا ہے کوئی وجہ ممانعت نہیں۔(۱)
(۱) وشروط صحۃ الإمامۃ للرجال الأصحاء ستۃ أشیاء: الإسلام، والبلوغ، والعقل، والذکورۃ، والقراء ۃ، والسلامۃ من الأعذار کالرعاف والفأفأۃ والتمتمۃ واللثغ، وفقد شرط کطہارۃ وستر عورۃ۔ (الشرنبلالي، نورالإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۷۸، ۷۷، مکتبہ عکاظ دیوبند)
لقولہ علیہ السلام: صلوا خلف کل برو فاجر، الخ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح،’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، شیخ الہند دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص321
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق:ایک مشت داڑھی رکھنا واجب ہے اور اس سے کم کرانا یا کاٹنا ناجائز ہے، ایسا کرنے والاشریعت کی نگاہ میں فاسق ہے اور فاسق کی اذان واقامت مکروہ ہے۔
(وکرہ أذان الفاسق) لعدم الاعتماد ولکن لا یعاد‘‘(۱)
’’کذا أي: کما کرہ أذان السبعۃ المذکورین ومنھم الفاسق کرہ إقامتھم وإقامۃ المحدث لکن لا تعاد إقامتھم لعدم شرعیۃ تکرار الإقامۃ‘‘(۲)
(۱) عبدالرحمن بن محمد، مجمع الأنہر، ’’کتاب الصلاۃ، صفۃ الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۸۔
(۲) محمد بن فرامرز، درر الحکام شرح غرر الأحکام: ج ۱، ص: ۵۶، (شاملہ)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص217
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس کی امام کے ساتھ کوئی رکعت چھوٹ جائے اس کو مسبوق کہتے ہیں، مسبوق اپنی چھوٹی ہوئی رکعت اسی طرح پوری کرتا ہے جس طرح کے منفرد اپنی نماز پوری کرتا ہے، یعنی قرأت وغیرہ امور انجام دیتا ہے، اس میں کبھی سجدہ سہو کی بھی ضرورت پیش آجاتی ہے، پس مسبوق کے لیے سجدہ سہو ضروری نہیں ہے، لیکن اگر چھوٹی رکعت کے پوری کرنے کے دوران ایسی غلطی ہوگئی جس پر سجدہ سہو واجب ہوتا ہے، تو مسبوق کو بھی سجدہ سہو کرنا پڑتا ہے۔
’’والمسبوق من سبقہ الإمام بہا أو ببعضہا وہو منفرد) حتی یثنی ویتعوذ ویقرأ، وإن قرأ مع الإمام لعدم الاعتداد بہا لکراہتہا۔ مفتاح السعادۃ (فیما یقضیہ) أي: بعد متابعتہ لإمامہ، فلو قبلہا فالأظہر الفساد، ویقضي أول صلاتہ في حق قراء ۃ، وآخرہا في حق تشہد؛ (في الشامیہ)، ویلزمہ السجود إذا سہا فیما یقضیہ کما یأتي، وغیر ذلک مما یأتي متنا وشرحا‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب فیما لو أتی بالرکوع والسجود الخ ‘‘: ج ۲، ص:۳۴۶، ۳۴۷۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص54
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: گلا کے بٹن کھلا رکھنا یا بند رکھنا نہ شعائر اسلام میں سے ہے اور نہ ضروریات دین میں سے؛ بلکہ ضروریات زندگی جس امر کی متقاضی ہوں ویسے ہی کیا جاسکتا ہے گرمی کی وجہ سے اگر کھولنے کی ضرورت پڑے تو اس میں کوئی حرج نہیں، سردی و ہوا وغیرہ کی وجہ سے بند کرنے کی ضرورت ہو تو بند کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں پس بلا قصد بھی کسی کے بٹن کھلے رہیں تب بھی کوئی حرج نہیں امام کا مذکورہ عمل نہ نماز کے شرائط میں سے ہے نہ مستحبات میں، نظر صرف ان چیزوں پر رہنی چاہئے کہ جن اعمال سے نماز میں کراہت آتی ہو کہ وہ نہ ہونے پائیں۔(۱)
(۱) فما رأیت معاویۃ‘‘ إلی آخرہ، وھذا وإن کان اختیاراً لما ھو خلاف الأولی خصوصاً فی الصلوات؛ لکنھما أحبا أن یکونا علی ما رأیا النبی صلی اللہ علیہ وسلم وإن کان إطلاقہ أزرارہ إذ ذاک لعارض، ولم یکن ھذا من عامۃ أحوالہ صلی اللہ علیہ وسلم، وذلک لما فیہ من قلۃ المبالاۃ بأمر الصلاۃ، إلا أن الکراھۃ لعلھا لا تبقی فی حق معاویۃ وابنہ لکون الباعث لھما حب النبی صلی اللہ علیہ وسلم واتباعہ فیما رأیاہ من الکیفیۃ۔ (خلیل أحمد سہارنفوري، بذل المجھود، ’’کتاب اللباس: باب في حل الإزار‘‘: ج۱۲، ص: ۱۰۹،(شاملہ)
وتشمیرکمیہ عنہما للنہي عنہ لما فیہ من الجفاء المنافي للخشوع۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ، فصل في المکروہات‘‘: ص: ۳۴۹، دارالکتاب دیوبند )
(۱)ٰیبَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُوْ ازِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ (سورۃ الأعراف: ۳۱)
وصلاتہ في ثیاب بذلۃ یلبسہا في بیتہ ومہنۃ أي خدمۃ إن لہ غیرہا وإلا لا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا‘‘: ج۲، ص: ۴۰۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص175
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2672/45-4132
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر دیوار پر لکھی آیات پر نظر پڑی مگر وہ آیات اس کو یاد تھیں اور اس نے اپنی یادداشت سے وہ آیات پڑھیں تو نماز درست ہوجائے گی، اور اگر وہ آیات یاد نہیں تھیں اور دیوار پر دیکھ کر ہی پڑھی گئیں تو نماز فاسد ہوجائے گی۔ اور اگر نظر پڑی اور مطلب سمجھ گیا لیکن زبان سے کچھ نہیں پڑھا تو نماز درست ہوجائے گی۔ نماز میں قیام کی حالت میں نگاہ سجدہ کی جگہ ہونی چاہئے ، نماز میں ادھر ادھر دیکھنا مناسب نہیں ہے۔
"(وقراءته من مصحف) أي ما فيه قرآن (مطلقا) لأنه تعلم.
و في الرد : (قوله أي ما فيه قرآن) عممه ليشمل المحراب، فإنه إذا قرأ ما فيه فسدت في الصحيح بحر (قوله مطلقا) أي قليلا أو كثيرا، إماما أو منفردا، أميا لا يمكنه القراءة إلا منه أو لا".
(کتاب الصلاۃ، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، ج:1، ص:623، ط: ایچ ایم سعید)
فتاویٰ عالمگیری (الفتاوى الهندية ) میں ہے:
"ولو نظر إلى مكتوب هو قرآن وفهمه لا خلاف لأحد أنه يجوز. كذا في النهاية
وفي الجامع الصغير الحسامي لو نظر في كتاب من الفقه في صلاته وفهم لا تفسد صلاته بالإجماع. كذا في التتارخانية
إذا كان المكتوب على المحراب غير القرآن فنظر المصلي إلى ذلك وتأمل وفهم فعلى قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - لا تفسد وبه أخذ مشايخنا وعلى قياس قول محمد - رحمه الله تعالى - تفسد. كذا في الذخيرة والصحيح أنها لا تفسد صلاته بالإجماع. كذا في الهداية ولا فرق بين المستفهم وغيره على الصحيح. كذا في التبيين".
(کتاب الصلوۃ، الباب السابع فيما يفسد الصلاة وما يكره فيها، الفصل الأول فيما يفسدها، ج:1، ص:101، ط:مکتبہ رشیدیہ)
لو نظر المصلي إلى مكتوب وفهمه، سواء كان قرآنا أو غيره، قصد الاستفهام أو لا، أساء الأدب ولم تفسد صلاته لعدم النطق بالكلام“
وجه عدم الفساد أنہ إنما يتحقق بالقراءة،وبالنظروالفهم لم تحصل وإليه أشار المؤلف بقوله لعدم النطق۔۔۔۔قوله:(أساء الأدب)لأن فيہ إشتغالاعن الصلاةوظاهره ان الكراهة تنزيهية وهذا إنما يكون بالقصد وأمالو وقع نظره عليه من غير قصده وفهمه فلا يكره
(حاشیۃالطحطاوی علی مراقی الفلاح ،جلد01،صفحہ460)
ولم يذكروا كراهة النظر إلى المكتوب متعمدا وفي منية المصلي ما يقتضيها فإنه قال ولو أنشأ شعرا أو خطبة ولم يتكلم بلسانه لا تفسد وقد أساء وعلل الإساءة شارحها باشتغاله بما ليس من أعمال الصلاة من غير ضرورة “ (بحر الرائق ،جلد02،صفحہ25)
منہا نظر المصلی سواء کان رجلاً أو إمرأۃً إلی موضع سجودہ قائماً حفظاً لہ عن النظر إلی ما یشغلہ عن الخشوع، ونظرہ إلی ظاہر القدم راکعاً وإلی أرنبۃ أنفہ ساجداً وإلی حجرہ جالساً۔ (المراقي) ویفعل ہذا ولو کان مشاہداً للکعبۃ علی المذہب۔ (طحطاوی علی المراقی، ۱۵۱)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرض ایک امام پڑھائے اوروتر کوئی دوسرے صاحب پڑھائیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے نمازبلا شبہ درست ہے۔(۲)
(۲) الأفضل أن یصلوا التراویح بإمام واحد فإن صلوہا بإمامین فالمستحب أن یکون انصراف کل واحد علی کمال الترویحۃ … وإذا جازت التراویح بإمامین علی ہذا الوجہ جاز أن یصلي الفریضۃ أحدہما ویصلي التراویح الآخر وقد کان عمر رضی اللّٰہ عنہ یؤمہم في الفریضۃ والوتر، وکان أبي یؤمہم في التراویح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل‘‘: ج۱، ص: ۱۷۶)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص321