نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق:ایک مشت داڑھی رکھنا واجب ہے اور اس سے کم کرانا یا کاٹنا ناجائز ہے، ایسا کرنے والاشریعت کی نگاہ میں فاسق ہے اور فاسق کی اذان واقامت مکروہ ہے۔
(وکرہ أذان الفاسق) لعدم الاعتماد ولکن لا یعاد‘‘(۱)
’’کذا أي: کما کرہ أذان السبعۃ المذکورین ومنھم الفاسق کرہ إقامتھم وإقامۃ المحدث لکن لا تعاد إقامتھم لعدم شرعیۃ تکرار الإقامۃ‘‘(۲)

(۱) عبدالرحمن بن محمد، مجمع الأنہر، ’’کتاب الصلاۃ، صفۃ الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۸۔
(۲) محمد بن فرامرز، درر الحکام شرح غرر الأحکام: ج ۱، ص: ۵۶، (شاملہ)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص217

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس کی امام کے ساتھ کوئی رکعت چھوٹ جائے اس کو مسبوق کہتے ہیں، مسبوق اپنی چھوٹی ہوئی رکعت اسی طرح پوری کرتا ہے جس طرح کے منفرد اپنی نماز پوری کرتا ہے، یعنی قرأت وغیرہ امور انجام دیتا ہے، اس میں کبھی سجدہ سہو کی بھی ضرورت پیش آجاتی ہے، پس مسبوق کے لیے سجدہ سہو ضروری نہیں ہے، لیکن اگر چھوٹی رکعت کے پوری کرنے کے دوران ایسی غلطی ہوگئی جس پر سجدہ سہو واجب ہوتا ہے، تو مسبوق کو بھی سجدہ سہو کرنا پڑتا ہے۔
’’والمسبوق من سبقہ الإمام بہا أو ببعضہا وہو منفرد) حتی یثنی ویتعوذ ویقرأ، وإن قرأ مع الإمام لعدم الاعتداد بہا لکراہتہا۔ مفتاح السعادۃ (فیما یقضیہ) أي: بعد متابعتہ لإمامہ، فلو قبلہا فالأظہر الفساد، ویقضي أول صلاتہ في حق قراء ۃ، وآخرہا في حق تشہد؛ (في الشامیہ)، ویلزمہ السجود إذا سہا فیما یقضیہ کما یأتي، وغیر ذلک مما یأتي متنا وشرحا‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب فیما لو أتی بالرکوع والسجود الخ ‘‘: ج ۲، ص:۳۴۶، ۳۴۷۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص54

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: گلا کے بٹن کھلا رکھنا یا بند رکھنا نہ شعائر اسلام میں سے ہے اور نہ ضروریات دین میں سے؛ بلکہ ضروریات زندگی جس امر کی متقاضی ہوں ویسے ہی کیا جاسکتا ہے گرمی کی وجہ سے اگر کھولنے کی ضرورت پڑے تو اس میں کوئی حرج نہیں، سردی و ہوا وغیرہ کی وجہ سے بند کرنے کی ضرورت ہو تو بند کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں پس بلا قصد بھی کسی کے بٹن کھلے رہیں تب بھی کوئی حرج نہیں امام کا مذکورہ عمل نہ نماز کے شرائط میں سے ہے نہ مستحبات میں، نظر صرف ان چیزوں پر رہنی چاہئے کہ جن اعمال سے نماز میں کراہت آتی ہو کہ وہ نہ ہونے پائیں۔(۱)

(۱) فما رأیت معاویۃ‘‘ إلی آخرہ، وھذا وإن کان اختیاراً لما ھو خلاف الأولی خصوصاً فی الصلوات؛ لکنھما أحبا أن یکونا علی ما رأیا النبی صلی اللہ علیہ وسلم وإن کان إطلاقہ أزرارہ إذ ذاک لعارض، ولم یکن ھذا من عامۃ أحوالہ صلی اللہ علیہ وسلم، وذلک لما فیہ من قلۃ المبالاۃ بأمر الصلاۃ، إلا أن الکراھۃ لعلھا لا تبقی فی حق معاویۃ وابنہ لکون الباعث لھما حب النبی صلی اللہ علیہ وسلم واتباعہ فیما رأیاہ من الکیفیۃ۔ (خلیل أحمد سہارنفوري، بذل المجھود، ’’کتاب اللباس: باب في حل الإزار‘‘: ج۱۲، ص: ۱۰۹،(شاملہ)
وتشمیرکمیہ عنہما للنہي عنہ لما فیہ من الجفاء المنافي للخشوع۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ، فصل في المکروہات‘‘:  ص: ۳۴۹، دارالکتاب دیوبند )
(۱)ٰیبَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُوْ ازِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ (سورۃ الأعراف: ۳۱)
وصلاتہ في ثیاب بذلۃ یلبسہا في بیتہ ومہنۃ أي خدمۃ إن لہ غیرہا وإلا لا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا‘‘: ج۲، ص: ۴۰۷)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص175

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2672/45-4132

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر دیوار پر لکھی آیات پر نظر پڑی مگر وہ آیات اس کو یاد تھیں اور اس نے اپنی یادداشت سے وہ آیات  پڑھیں  تو نماز درست ہوجائے گی، اور اگر وہ آیات یاد نہیں  تھیں  اور دیوار پر دیکھ کر ہی پڑھی گئیں  تو نماز فاسد ہوجائے گی۔  اور اگر نظر پڑی اور مطلب سمجھ گیا لیکن زبان سے کچھ نہیں پڑھا تو نماز درست ہوجائے گی۔ نماز میں قیام کی حالت میں نگاہ سجدہ کی جگہ ہونی چاہئے ، نماز میں ادھر ادھر دیکھنا مناسب نہیں ہے۔

"(وقراءته من مصحف) أي ما فيه قرآن (مطلقا) لأنه تعلم.

و في الرد : (قوله أي ما فيه قرآن) عممه ليشمل المحراب، فإنه إذا قرأ ما فيه فسدت في الصحيح بحر (قوله مطلقا) أي قليلا أو كثيرا، إماما أو منفردا، أميا لا يمكنه القراءة إلا منه أو لا".

(کتاب الصلاۃ، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، ج:1، ص:623، ط: ایچ ایم سعید)

فتاویٰ عالمگیری (الفتاوى الهندية ) میں ہے:

"ولو نظر إلى مكتوب هو قرآن وفهمه لا خلاف لأحد أنه يجوز. كذا في النهاية

وفي الجامع الصغير الحسامي لو نظر في كتاب من الفقه في صلاته وفهم لا تفسد صلاته بالإجماع. كذا في التتارخانية

إذا كان المكتوب على المحراب غير القرآن فنظر المصلي إلى ذلك وتأمل وفهم فعلى قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - لا تفسد وبه أخذ مشايخنا وعلى قياس قول محمد - رحمه الله تعالى - تفسد. كذا في الذخيرة والصحيح أنها لا تفسد صلاته بالإجماع. كذا في الهداية ولا فرق بين المستفهم وغيره على الصحيح. كذا في التبيين".

(کتاب الصلوۃ، الباب السابع فيما يفسد الصلاة وما يكره فيها، الفصل الأول فيما يفسدها، ج:1، ص:101، ط:مکتبہ رشیدیہ)

 لو نظر المصلي إلى مكتوب وفهمه، سواء كان قرآنا أو غيره، قصد الاستفهام أو لا، أساء الأدب ولم تفسد صلاته لعدم النطق بالكلام

وجه عدم الفساد أنہ إنما يتحقق بالقراءة،وبالنظروالفهم لم تحصل وإليه أشار المؤلف بقوله لعدم النطق۔۔۔۔قوله:(أساء الأدب)لأن فيہ إشتغالاعن الصلاةوظاهره ان الكراهة تنزيهية وهذا إنما يكون بالقصد وأمالو وقع نظره عليه من غير قصده وفهمه فلا يكره   

(حاشیۃالطحطاوی علی مراقی الفلاح ،جلد01،صفحہ460)

ولم يذكروا كراهة النظر إلى المكتوب متعمدا وفي منية المصلي ما يقتضيها فإنه قال ولو أنشأ شعرا أو خطبة ولم يتكلم بلسانه لا تفسد وقد أساء وعلل الإساءة شارحها باشتغاله بما ليس من أعمال الصلاة من غير ضرورة (بحر الرائق ،جلد02،صفحہ25)

منہا نظر المصلی سواء کان رجلاً أو إمرأۃً إلی موضع سجودہ قائماً حفظاً لہ عن النظر إلی ما یشغلہ عن الخشوع، ونظرہ إلی ظاہر القدم راکعاً وإلی أرنبۃ أنفہ ساجداً وإلی حجرہ جالساً۔ (المراقي) ویفعل ہذا ولو کان مشاہداً للکعبۃ علی المذہب۔ (طحطاوی علی المراقی، ۱۵۱)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرض ایک امام پڑھائے اوروتر کوئی دوسرے صاحب پڑھائیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے نمازبلا شبہ درست ہے۔(۲)

(۲) الأفضل أن یصلوا التراویح بإمام واحد فإن صلوہا بإمامین فالمستحب أن یکون انصراف کل واحد علی کمال الترویحۃ … وإذا جازت التراویح بإمامین علی ہذا الوجہ جاز أن یصلي الفریضۃ أحدہما ویصلي التراویح الآخر وقد کان عمر رضی اللّٰہ عنہ یؤمہم في الفریضۃ والوتر، وکان أبي یؤمہم في التراویح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل‘‘: ج۱، ص: ۱۷۶)

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص321

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق:عذر کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے تو اقامت بھی بیٹھ کر پڑھنا درست ہے اور کوئی دوسرا پڑھے تو اولیٰ اور بہتر ہے۔(۱)

(۱) ویکرہ الأذان قاعداً وإن أذن لنفسہ قاعداً فلا بأس بہ، والمسافر إذا أذن راکباً لایکرہ وینزل للإقامۃ، کذا في فتاویٰ قاضي خان، والخلاصۃ وإن لم ینزل وأقام أجزأہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان، الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۱)
(والإقامۃ کالأذان) فیما مر (لکن ہي) أي الإقامۃ، وکذا الإمامۃ (أفضل منہ)، فتح۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في أول من بنی المنائر للأذان‘‘: ج ۲، ص: ۵۵)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص218

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: پلاسٹک کی ٹوپیاں عام طور پر اچھی نہیں سمجھی جاتیں، لوگ ایسی ٹوپیاں پہن کر شریف اور معزز لوگوں کی مجلس میں جانا پسند نہیں کرتے اور عام حالات میں بھی یہ ٹوپیاں نہیں پہنتے، اس لیے ایسی ٹوپیاں پہن کر نماز پڑھنا مکروہ تنزیہی ہے۔(۲)

’’قال في البحر: وفسرہا في شرح الوقایہ بما یلبسہ في بیتہ ولا یذہب بہ إلی الأکابر، والظاہر أن الکراہۃ تنزیہیۃ‘‘(۱)
’’ورأي عمر رضي اللّٰہ عنہ رجلا فعل ذلک، فقال: أرأیت لو کنت أرسلتک إلیٰ بعض الناس أکنت تمر في ثیابک ہذہ؟  فقال: لا … فقال عمر رضي اللّٰہ عنہ: اللّٰہ أحق أن تتزین لہ‘‘(۲)

(۱)ٰیبَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُوْ ازِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ (سورۃ الأعراف: ۳۱)
وصلاتہ في ثیاب بذلۃ یلبسہا في بیتہ ومہنۃ أي خدمۃ إن لہ غیرہا وإلا لا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا‘‘: ج۲، ص: ۴۰۷)

(۱) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب في الکراھۃ التحریمیۃ و التنزیھیۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۷، زکریا دیوبند۔
(۲) حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي: ص: ۳۵۹، مکتبہ الاشرفیہ دیوبند۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص176

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اوابین کی نماز بعد نمازِ مغرب فرض وسنت مؤکدہ کے بعد ادا کی جاتی ہے اس کو ’’صلاۃ الاوّابین‘‘ کہا جاتا ہے اس نماز کی فضیلت کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ: جو شخص مغرب کی نماز کے بعد بغیر کسی سے بات کئے ہوئے صلاۃ الاوابین کی چھ رکعت نماز ادا کرے اس کے حق میں بارہ سال کی عبادت کے بقدر ثواب لکھا جائے گا، ایسے ہی ایک اور روایت ہے کہ جو شخص اوابین کی بیس رکعت پڑھتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا، نیز اوابین کے معنی ہیں: اللہ کے وہ نیک بندے جو اس کی طرف کثرت سے رجوع کرنے والے ہیںاور اوابین کی رکعتوں کے بارے میں کتب فقہ میں لکھا ہے کہ کم از کم چھ رکعتیں اور زیادہ سے زیادہ بیس رکعتیں ہیں۔ جیسا کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے:
’’عن أبي ہریرۃ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم: من صلی بعد المغرب ست رکعات لم یتکلم فیما بینہن بسوء، عدلن لہ بعبادۃ ثنتی عشرۃ سنۃ‘‘
’’قال أبو عیسی: و قد روي عن عائشۃ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ و سلم قال: من صلی بعد المغرب عشرین رکعۃً بنی اللّٰہ لہ بیتًا في الجنۃ‘‘
’’قال أبو عیسی: حدیث أبي ہریرۃ حدیث غریب، لانعرفہ إلا من حدیث زید بن الحباب عن عمر بن أبي خثعم‘‘
’’قال: وسمعت محمد بن إسماعیل یقول: عمر بن عبد اللّٰہ بن أبي خثعم منکر الحدیث، وضعفہ جدًّا‘‘(۱)

(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم، باب ما جاء في فضل التطوع وست رکعات بعد المغرب‘‘: ج ۱، ص: ۹۸، رقم: ۴۳۵۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص397

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1008

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: جماعت میں شریک ہونے کی فضیلت   بھی ہے اور فجر کی سنتوں کی بھی تاکید شدید ہے۔ اس لئے  اگر جماعت بالکلیہ فوت ہونے کا اندیشہ  نہ ہو بلکہ ایک رکعت یا تشہد میں شریک ہونے کی توقع  ہو تو سنت پڑھ لی جائے۔ اگر  اندیشہ ہو کہ جماعت نکل جائے گی تو امام کے ساتھ جماعت میں شریک ہوجائے اور سنت کی قضاء طلوع آفتاب کے بعد کرے ، اور اگر سنت  شروع کردی  اور حال یہ ہے کہ اگر سنت پوری کرے گا تو جماعت نکل جائے گی اور اگر جماعت میں شریک ہونا ہے تو سنت توڑنی پڑیگی، تو ایسی صورت میں سنت پوری کرے اور فجر کی فرض  نماز تنہا پڑھ لے۔فجر کی سنت پڑھنے میں اس کا خیال رکھنا بھی اشدضروری ہے کہ اگر جماعت کھڑی ہوچکی ہے تو جماعت کے ساتھ صف میں شریک ہوکر سنت نہ پڑھے بلکہ وضوخانہ ، یا مسجد کے دروازے کے قریب مناسب جگہ پر یا صحن میں جہاں لوگ سامنے سے نہ گزریں وہاں پڑھے۔اور افضل تو یہ ہے کہ سنت گھر پر ہی پڑھ کر آئے۔ کذا فی الفقہ۔ واللہ اعلم بالصواب 

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر مذکورہ عورت کی مکمل آمدنی ناجائز پیشہ کی ہی ہے اس کے علاوہ کوئی جائز آمدنی نہیں ہے تو اس کا ہدیہ قبول کرنا اور کھانا لینا جائز نہیں ہے اور اگر اس کی کوئی جائز آمدنی بھی ہو تو اس کا ہدیہ قبول کرنا اور کھانا لینا اگرچہ جائز ہے، مگر امام مقتدیٰ و پیشوا ہوتا ہے؛ اس لیے انہیں قبول نہ کرناچاہئے۔(۱)
(۱) أہدی إلی رجل شیئا أو أضافہ إن کان غالب مالہ من الحلال فلا بأس إلا أن یعلم بأنہ حرام فإن کان الغالب ہو الحرام ینبغي أن لا یقبل الہدیۃ ولا یأکل الطعام إلا أن یخبرہ أنہ حلال ورثہ أو استقرضہ من رجل۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الثاني عشر في الہدیا والضیافات‘‘: ج۵، ص: ۳۹۶، زکریا دیوبند)
{ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَاکَسَبْتُمْ وَمِمَّآاَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِص وَلَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ وَ لَسْتُمْ بِاٰخِذِیْہِ اِلَّآ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْہِط وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌہ۲۶۷} (البقرۃ: ۲۶۷)

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص322