نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق:عذر کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے تو اقامت بھی بیٹھ کر پڑھنا درست ہے اور کوئی دوسرا پڑھے تو اولیٰ اور بہتر ہے۔(۱)

(۱) ویکرہ الأذان قاعداً وإن أذن لنفسہ قاعداً فلا بأس بہ، والمسافر إذا أذن راکباً لایکرہ وینزل للإقامۃ، کذا في فتاویٰ قاضي خان، والخلاصۃ وإن لم ینزل وأقام أجزأہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان، الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۱)
(والإقامۃ کالأذان) فیما مر (لکن ہي) أي الإقامۃ، وکذا الإمامۃ (أفضل منہ)، فتح۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في أول من بنی المنائر للأذان‘‘: ج ۲، ص: ۵۵)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص218

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: پلاسٹک کی ٹوپیاں عام طور پر اچھی نہیں سمجھی جاتیں، لوگ ایسی ٹوپیاں پہن کر شریف اور معزز لوگوں کی مجلس میں جانا پسند نہیں کرتے اور عام حالات میں بھی یہ ٹوپیاں نہیں پہنتے، اس لیے ایسی ٹوپیاں پہن کر نماز پڑھنا مکروہ تنزیہی ہے۔(۲)

’’قال في البحر: وفسرہا في شرح الوقایہ بما یلبسہ في بیتہ ولا یذہب بہ إلی الأکابر، والظاہر أن الکراہۃ تنزیہیۃ‘‘(۱)
’’ورأي عمر رضي اللّٰہ عنہ رجلا فعل ذلک، فقال: أرأیت لو کنت أرسلتک إلیٰ بعض الناس أکنت تمر في ثیابک ہذہ؟  فقال: لا … فقال عمر رضي اللّٰہ عنہ: اللّٰہ أحق أن تتزین لہ‘‘(۲)

(۱)ٰیبَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُوْ ازِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ (سورۃ الأعراف: ۳۱)
وصلاتہ في ثیاب بذلۃ یلبسہا في بیتہ ومہنۃ أي خدمۃ إن لہ غیرہا وإلا لا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا‘‘: ج۲، ص: ۴۰۷)

(۱) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب في الکراھۃ التحریمیۃ و التنزیھیۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۷، زکریا دیوبند۔
(۲) حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي: ص: ۳۵۹، مکتبہ الاشرفیہ دیوبند۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص176

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اوابین کی نماز بعد نمازِ مغرب فرض وسنت مؤکدہ کے بعد ادا کی جاتی ہے اس کو ’’صلاۃ الاوّابین‘‘ کہا جاتا ہے اس نماز کی فضیلت کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ: جو شخص مغرب کی نماز کے بعد بغیر کسی سے بات کئے ہوئے صلاۃ الاوابین کی چھ رکعت نماز ادا کرے اس کے حق میں بارہ سال کی عبادت کے بقدر ثواب لکھا جائے گا، ایسے ہی ایک اور روایت ہے کہ جو شخص اوابین کی بیس رکعت پڑھتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا، نیز اوابین کے معنی ہیں: اللہ کے وہ نیک بندے جو اس کی طرف کثرت سے رجوع کرنے والے ہیںاور اوابین کی رکعتوں کے بارے میں کتب فقہ میں لکھا ہے کہ کم از کم چھ رکعتیں اور زیادہ سے زیادہ بیس رکعتیں ہیں۔ جیسا کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے:
’’عن أبي ہریرۃ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم: من صلی بعد المغرب ست رکعات لم یتکلم فیما بینہن بسوء، عدلن لہ بعبادۃ ثنتی عشرۃ سنۃ‘‘
’’قال أبو عیسی: و قد روي عن عائشۃ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ و سلم قال: من صلی بعد المغرب عشرین رکعۃً بنی اللّٰہ لہ بیتًا في الجنۃ‘‘
’’قال أبو عیسی: حدیث أبي ہریرۃ حدیث غریب، لانعرفہ إلا من حدیث زید بن الحباب عن عمر بن أبي خثعم‘‘
’’قال: وسمعت محمد بن إسماعیل یقول: عمر بن عبد اللّٰہ بن أبي خثعم منکر الحدیث، وضعفہ جدًّا‘‘(۱)

(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم، باب ما جاء في فضل التطوع وست رکعات بعد المغرب‘‘: ج ۱، ص: ۹۸، رقم: ۴۳۵۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص397

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1008

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: جماعت میں شریک ہونے کی فضیلت   بھی ہے اور فجر کی سنتوں کی بھی تاکید شدید ہے۔ اس لئے  اگر جماعت بالکلیہ فوت ہونے کا اندیشہ  نہ ہو بلکہ ایک رکعت یا تشہد میں شریک ہونے کی توقع  ہو تو سنت پڑھ لی جائے۔ اگر  اندیشہ ہو کہ جماعت نکل جائے گی تو امام کے ساتھ جماعت میں شریک ہوجائے اور سنت کی قضاء طلوع آفتاب کے بعد کرے ، اور اگر سنت  شروع کردی  اور حال یہ ہے کہ اگر سنت پوری کرے گا تو جماعت نکل جائے گی اور اگر جماعت میں شریک ہونا ہے تو سنت توڑنی پڑیگی، تو ایسی صورت میں سنت پوری کرے اور فجر کی فرض  نماز تنہا پڑھ لے۔فجر کی سنت پڑھنے میں اس کا خیال رکھنا بھی اشدضروری ہے کہ اگر جماعت کھڑی ہوچکی ہے تو جماعت کے ساتھ صف میں شریک ہوکر سنت نہ پڑھے بلکہ وضوخانہ ، یا مسجد کے دروازے کے قریب مناسب جگہ پر یا صحن میں جہاں لوگ سامنے سے نہ گزریں وہاں پڑھے۔اور افضل تو یہ ہے کہ سنت گھر پر ہی پڑھ کر آئے۔ کذا فی الفقہ۔ واللہ اعلم بالصواب 

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر مذکورہ عورت کی مکمل آمدنی ناجائز پیشہ کی ہی ہے اس کے علاوہ کوئی جائز آمدنی نہیں ہے تو اس کا ہدیہ قبول کرنا اور کھانا لینا جائز نہیں ہے اور اگر اس کی کوئی جائز آمدنی بھی ہو تو اس کا ہدیہ قبول کرنا اور کھانا لینا اگرچہ جائز ہے، مگر امام مقتدیٰ و پیشوا ہوتا ہے؛ اس لیے انہیں قبول نہ کرناچاہئے۔(۱)
(۱) أہدی إلی رجل شیئا أو أضافہ إن کان غالب مالہ من الحلال فلا بأس إلا أن یعلم بأنہ حرام فإن کان الغالب ہو الحرام ینبغي أن لا یقبل الہدیۃ ولا یأکل الطعام إلا أن یخبرہ أنہ حلال ورثہ أو استقرضہ من رجل۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الثاني عشر في الہدیا والضیافات‘‘: ج۵، ص: ۳۹۶، زکریا دیوبند)
{ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَاکَسَبْتُمْ وَمِمَّآاَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِص وَلَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ وَ لَسْتُمْ بِاٰخِذِیْہِ اِلَّآ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْہِط وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌہ۲۶۷} (البقرۃ: ۲۶۷)

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص322

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:امام صاحب کو مقتدیوں کا انتظار کرنا چاہئے تاکہ جماعت ہو جائے اور ترک واجب کا مرتکب ہوکر گنہگار نہ ہو۔ اور اگر کبھی ایسا اتفاق ہو جائے کہ تکبیر نہ ہو اورجماعت کرلی جائے تو نمازادا ہوجائے گی ایسی عادت نہ بنائی جائے اس لیے کہ ترک سنت سے نماز کے اجر و ثواب میں کمی ہوجائے گی۔(۲)

(۲) ویکرہ أداء المکتوبۃ بالجماعۃ في المسجد بغیر أذان وإقامۃ، کذا في فتاویٰ قاضي خان  ولا یکرہ ترکہما لمن یصلي في المصر، إذا وجد في المحلۃ، ولا فرق بین الواحد والجماعۃ، ہکذا في التبیین، والأفضل أن یصلي بالأذان والإقامۃ، کذا في التمرتاشي، وإذا لم یؤذن في تلک المحلۃ یکرہ لہ ترکہما ولو ترک الأذان وحدہ لا یکرہ، کذا في المحیط ولو ترک الإقامۃ یکرہ، کذا في التمرتاشي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان، الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۱)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص218

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: چوں کہ جارجٹ کا کپڑا باریک ہوتا ہے، اس کے پہننے کے باوجود بدن جھلکتا ہے، جب تک اس کے نیچے کپڑا نہ ہو؛ اس لیے اس کا پہننا درست نہیں جب کہ گھر میں ایسے بھی رشتہ دار آتے ہوں جو غیر محرم ہوں، مثلاً: چچا، ماموں، پھوپھا کے لڑکے، سوائے شوہر کے ان کے سامنے ایسے کپڑے پہن کر آنا درست نہیں اگر جارجٹ کی ساڑھی کے نیچے لہنگا اور بالائی حصہ پر بطور بنیان کپڑا ہو جس سے بدن کا کوئی حصہ نظر نہ آئے تو ایسی ساڑھی پہن کر نماز پڑھی جاسکتی ہے۔(۱)

(۱) والثوب الرقیق الذي یصف ماتحتہ لاتجوز الصلاۃ فیہ کذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثالث في  شروط الصلاۃ‘‘: ج۱، ص:۱۱۵؛ وابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۸۴، زکریا دیوبند)
وحد الستر أن لایری ماتحتہ حتی لوسترہا بثوب رقیق یصف ماتحتہ لایجوز۔ (ابن نجیم، البحر الرائق: ج۱، ص: ۴۶۷، دارالکتاب دیوبند)
والثوب الرقیق الذي یصف ماتحتہ لاتجوز الصلاۃ فیہ لانہ مکشوف العورۃ معنی۔ (فخر الدین عثمان بن علي، تبیین الحقائق، ’’باب شروط الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۳، شاملہ)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص177

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جی ہاں دونوں نمازوں میں فرق ہے، یعنی شکرانہ کی نماز اللہ تعالیٰ کا شکرا دا کرنے کے لیے پڑھی جاتی ہے(۲) اور حاجت کی نماز کسی ضرورت پر اللہ تعالیٰ سے ضرورت پوری کرانے کے لیے پڑھی جاتی ہے (۳) مگر ان دونوں نمازوں کے پڑھنے میں کوئی فرق نہیں ہے، جس نیت سے پڑھیں گے اس کے ثمرات مرتب ہوں گے ’’إن شاء اللّٰہ‘‘۔ بغیر نیت کے کوئی نماز نہیں ہوتی ہے۔(۴)

(۲) من توضأ فأسبغ الوضوء ثم صلی رکعتین یتمہا أعطاہ اللّٰہ ما سأل معجلاً أو مؤخراً۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ،’’مؤسسۃ الرسالۃ‘‘: ج ۴۵، ص: ۴۸۹، رقم: ۲۷۴۹۷)  
(۳) وعن عبد اللّٰہ بن أبي أوفیٰ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من کانت لہ حاجۃ إلی اللّٰہ أو إلی أحد من بنی آدم فلیتوضأ فلیحسن الوضوء ثم لیصل رکعتین الخ۔ (محمد بن عبداللہ الخطیب العمري، مشکاۃ المصابیح، ’’باب التطوع‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۷، مکتبہ: یاسر ندیم، اینڈ کمپنی دیوبند)
(۴) ثم إنہ إن جمع بین عبادات الوسائل في النیۃ صح … ونال ثواب الکل … وکذا یصح لو نوی نافلتین أو أکثر کما لو نویٰ تحیۃ مسجد، وسنۃ وضوء، ضحی، وکسوف، والمعتمد أن العبادات ذات الأفعال یکتفي بالنیۃ في أولہا۔ (أحمد بن محمد الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ وأرکانہا‘‘: ص: ۲۱۶، مکتبہ: شیخ الہند دیوبند)
ویکفیہ مطلق النیۃ للنفل والسنۃ والتراویح ، ہو الصحیح، کذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، الفصل الرابع: في النیۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۳، مکتبہ: زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص398

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امامت کی اجرت وہ ہے جو ذمہ دار مقتدی اور امام کے درمیان طے ہو جائے جب باہم رضامندی سے کچھ طے ہوگیا تو پھر مقتدیوں سے کوئی مواخذہ نہیں ہے تاہم مقتدیوں کو امام کی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر بہتر سے بہتر مشاہرہ دینا چاہئے؛ نیز طالب علم کے لئے امامت کا وظیفہ لینا جائز ہے۔(۱)
(۱) قد یقال: إن کان قصدہ وجہ اللّٰہ تعالٰی لکنہ بمراعاتہ للأوقات والاشتغال بہ یقل اکتسابہ عما یکفیہ لنفسہ وعیالہ، فیأخذ الأجرۃ لئلا لیمنعہ الاکتساب عن إقامۃ ہذہ الوظیفۃ الشریفۃ، ولولا ذلک لم یأخذ أجرا فلہ الثواب المذکور بل یکون جمع بین عبادتین وہما الأذان والسعي علی العیال وإنما الأعمال بالنیات۔۔۔۔ وبعض مشایخنا استحسنوا الاستیجار علی تعلیم القرآن الیوم لأنہ ظہر التواني في الأمور الدینیۃ ففي الامتناع تضییع حفظ القرآن وعلیہ الفتوی۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ‘‘: ج۲، ص: ۶۰)

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص322

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صحن میں مصلیٰ ایسے طریقہ پر بچھایا جائے کہ صف کے درمیان آ جائے، اندر کے مصلیٰ کی سیدھ ضروری نہیں۔(۱)

(۱) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: وسطوا الإمام وسدوا الخلل۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الصلوۃ: باب مقام الإمام من الصف‘‘: ج۱، ص:۹۶، رقم: ۶۸۱)
ویقف وسطاً، قال في المعراج: وفي مبسوط بکر السنۃ أن یقوم في المحراب لیعتدل الطرفان ولو قام في أحد جانبي الصف یکرہ … إلی قولہ: قال علیہ الصلوٰۃ والسلام توسطوا الإمام وسدا الخلل۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب ہل الإساء ۃ دون الکراہۃ أو أفحش منہا‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص439