نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:امام صاحب کو مقتدیوں کا انتظار کرنا چاہئے تاکہ جماعت ہو جائے اور ترک واجب کا مرتکب ہوکر گنہگار نہ ہو۔ اور اگر کبھی ایسا اتفاق ہو جائے کہ تکبیر نہ ہو اورجماعت کرلی جائے تو نمازادا ہوجائے گی ایسی عادت نہ بنائی جائے اس لیے کہ ترک سنت سے نماز کے اجر و ثواب میں کمی ہوجائے گی۔(۲)

(۲) ویکرہ أداء المکتوبۃ بالجماعۃ في المسجد بغیر أذان وإقامۃ، کذا في فتاویٰ قاضي خان  ولا یکرہ ترکہما لمن یصلي في المصر، إذا وجد في المحلۃ، ولا فرق بین الواحد والجماعۃ، ہکذا في التبیین، والأفضل أن یصلي بالأذان والإقامۃ، کذا في التمرتاشي، وإذا لم یؤذن في تلک المحلۃ یکرہ لہ ترکہما ولو ترک الأذان وحدہ لا یکرہ، کذا في المحیط ولو ترک الإقامۃ یکرہ، کذا في التمرتاشي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان، الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۱)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص218

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: چوں کہ جارجٹ کا کپڑا باریک ہوتا ہے، اس کے پہننے کے باوجود بدن جھلکتا ہے، جب تک اس کے نیچے کپڑا نہ ہو؛ اس لیے اس کا پہننا درست نہیں جب کہ گھر میں ایسے بھی رشتہ دار آتے ہوں جو غیر محرم ہوں، مثلاً: چچا، ماموں، پھوپھا کے لڑکے، سوائے شوہر کے ان کے سامنے ایسے کپڑے پہن کر آنا درست نہیں اگر جارجٹ کی ساڑھی کے نیچے لہنگا اور بالائی حصہ پر بطور بنیان کپڑا ہو جس سے بدن کا کوئی حصہ نظر نہ آئے تو ایسی ساڑھی پہن کر نماز پڑھی جاسکتی ہے۔(۱)

(۱) والثوب الرقیق الذي یصف ماتحتہ لاتجوز الصلاۃ فیہ کذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثالث في  شروط الصلاۃ‘‘: ج۱، ص:۱۱۵؛ وابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۸۴، زکریا دیوبند)
وحد الستر أن لایری ماتحتہ حتی لوسترہا بثوب رقیق یصف ماتحتہ لایجوز۔ (ابن نجیم، البحر الرائق: ج۱، ص: ۴۶۷، دارالکتاب دیوبند)
والثوب الرقیق الذي یصف ماتحتہ لاتجوز الصلاۃ فیہ لانہ مکشوف العورۃ معنی۔ (فخر الدین عثمان بن علي، تبیین الحقائق، ’’باب شروط الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۳، شاملہ)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص177

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جی ہاں دونوں نمازوں میں فرق ہے، یعنی شکرانہ کی نماز اللہ تعالیٰ کا شکرا دا کرنے کے لیے پڑھی جاتی ہے(۲) اور حاجت کی نماز کسی ضرورت پر اللہ تعالیٰ سے ضرورت پوری کرانے کے لیے پڑھی جاتی ہے (۳) مگر ان دونوں نمازوں کے پڑھنے میں کوئی فرق نہیں ہے، جس نیت سے پڑھیں گے اس کے ثمرات مرتب ہوں گے ’’إن شاء اللّٰہ‘‘۔ بغیر نیت کے کوئی نماز نہیں ہوتی ہے۔(۴)

(۲) من توضأ فأسبغ الوضوء ثم صلی رکعتین یتمہا أعطاہ اللّٰہ ما سأل معجلاً أو مؤخراً۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ،’’مؤسسۃ الرسالۃ‘‘: ج ۴۵، ص: ۴۸۹، رقم: ۲۷۴۹۷)  
(۳) وعن عبد اللّٰہ بن أبي أوفیٰ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من کانت لہ حاجۃ إلی اللّٰہ أو إلی أحد من بنی آدم فلیتوضأ فلیحسن الوضوء ثم لیصل رکعتین الخ۔ (محمد بن عبداللہ الخطیب العمري، مشکاۃ المصابیح، ’’باب التطوع‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۷، مکتبہ: یاسر ندیم، اینڈ کمپنی دیوبند)
(۴) ثم إنہ إن جمع بین عبادات الوسائل في النیۃ صح … ونال ثواب الکل … وکذا یصح لو نوی نافلتین أو أکثر کما لو نویٰ تحیۃ مسجد، وسنۃ وضوء، ضحی، وکسوف، والمعتمد أن العبادات ذات الأفعال یکتفي بالنیۃ في أولہا۔ (أحمد بن محمد الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ وأرکانہا‘‘: ص: ۲۱۶، مکتبہ: شیخ الہند دیوبند)
ویکفیہ مطلق النیۃ للنفل والسنۃ والتراویح ، ہو الصحیح، کذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، الفصل الرابع: في النیۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۳، مکتبہ: زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص398

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امامت کی اجرت وہ ہے جو ذمہ دار مقتدی اور امام کے درمیان طے ہو جائے جب باہم رضامندی سے کچھ طے ہوگیا تو پھر مقتدیوں سے کوئی مواخذہ نہیں ہے تاہم مقتدیوں کو امام کی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر بہتر سے بہتر مشاہرہ دینا چاہئے؛ نیز طالب علم کے لئے امامت کا وظیفہ لینا جائز ہے۔(۱)
(۱) قد یقال: إن کان قصدہ وجہ اللّٰہ تعالٰی لکنہ بمراعاتہ للأوقات والاشتغال بہ یقل اکتسابہ عما یکفیہ لنفسہ وعیالہ، فیأخذ الأجرۃ لئلا لیمنعہ الاکتساب عن إقامۃ ہذہ الوظیفۃ الشریفۃ، ولولا ذلک لم یأخذ أجرا فلہ الثواب المذکور بل یکون جمع بین عبادتین وہما الأذان والسعي علی العیال وإنما الأعمال بالنیات۔۔۔۔ وبعض مشایخنا استحسنوا الاستیجار علی تعلیم القرآن الیوم لأنہ ظہر التواني في الأمور الدینیۃ ففي الامتناع تضییع حفظ القرآن وعلیہ الفتوی۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ‘‘: ج۲، ص: ۶۰)

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص322

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صحن میں مصلیٰ ایسے طریقہ پر بچھایا جائے کہ صف کے درمیان آ جائے، اندر کے مصلیٰ کی سیدھ ضروری نہیں۔(۱)

(۱) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: وسطوا الإمام وسدوا الخلل۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الصلوۃ: باب مقام الإمام من الصف‘‘: ج۱، ص:۹۶، رقم: ۶۸۱)
ویقف وسطاً، قال في المعراج: وفي مبسوط بکر السنۃ أن یقوم في المحراب لیعتدل الطرفان ولو قام في أحد جانبي الصف یکرہ … إلی قولہ: قال علیہ الصلوٰۃ والسلام توسطوا الإمام وسدا الخلل۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب ہل الإساء ۃ دون الکراہۃ أو أفحش منہا‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص439

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:صفوں کی درستگی کا مسئلہ بہت اہم ہے، حدیث شریف میں صفوں کی درستگی پر بہت زور دیا گیا ہے اور اس میں کوتاہی پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ مسجد میں مقتدی حضرات صف میں کب کھڑے ہوں، اس سلسلہ میں مختلف طریقے ثابت ہیں:
(۱) امام جب اپنے کمرے سے باہر آئے تو امام کو دیکھتے ہی مقتدی حضرات کھڑے ہوجائیں اور صفیں درست کرلیں۔ (۲) امام جس صف سے گزرے اس صف کے مقتدی حضرات کھڑے ہوتے جائیں اور صفیں درست کرتے رہیں۔ (۳) مؤذن اقامت شروع کرے اور مقتدی حضرات اپنی صفیں درست کرلیں اور پھر نماز شروع کریں۔ اول الذکر دونوں طریقے اسی وقت قابل عمل ہیں جب کہ امام اپنے کمرے سے نکلے اور مسجد میں پہلے سے موجود نہ ہو؛ لیکن اگر امام پہلے سے مسجد میں موجود ہو جیسا کہ آج کل عموماً ہوتا ہے تو پھر تیسرا طریقہ اختیار کریں کہ اقامت کے شروع سے ہی لوگ صفیں درست کرنا شروع کردیں تاکہ اقامت ختم ہوتے ہی جب امام نماز شروع کرے تو تکبیر اولی کے ساتھ مقتدی نماز شروع کرسکیں۔ اگر لوگ حی علی الصلوۃ تک اپنی جگہ بیٹھے رہیں گے تو امام کی نماز شروع کرنے سے پہلے صفیں درست نہیں کرسکیں گے۔ جن کتابوں میں ’’حي علی الصلوۃ‘‘ پر کھڑے ہونے کی بات لکھی ہے اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ ’’حي علی الصلوۃ‘‘ کے بعد بیٹھے رہنا درست نہیں ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہحی علی الصلوۃ  سے پہلے کھڑا ہونا درست نہیں ہے۔(۱)
’’وقال الطحطاوي تحت قولہ: والقیام لامام ومؤتم والظاہر أنہ احتراز عن التاخیر لا التقدیم حتی لو قام أول الإقامۃ لاباس بہ‘‘(۲)
’’حدثني ابن جریج، أن ابن شہاب، أخبرہ أن الناس، کانوا ساعۃ یقول المؤذن: اللّٰہ أکبر یقیم الصلاۃ، ویقوم الناس للصلاۃ، ولا یأتي رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مقامہ حتی تعتدل الصفوف‘‘(۳)

(۱) کفایۃ المفتي، ’’باب مایتعلق بالإقامۃ‘‘: ج ۳، ص: ۵۲۶، زکریا دیوبند۔
(۲) حاشیۃ الطحطاوي علی الدر، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۵؛ ابن عابدین،رد المحتار، ’’آداب الصلوۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۷، زکریا دیوبند۔
(۳) المراسیل لأبي داؤد، ’’جامع الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۹، مصنف عبدالرزاق، ’’کتاب الصلاۃ، باب قیام الناس عندالإقامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۰۷؛ فتح الباري، ’’کتاب الصلاۃ، باب لایقوم إلی الصلاۃ مستعجلا‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۰۔

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص219

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز ادا ہوگئی، تاہم مسجد میں شور وغل سے اجتناب کیا جائے؛ کیوں کہ اس سے خشوع وخضوع فوت ہو جاتا ہے۔(۲)

(۲) وعند حضور مایشغل البال عن استحضار عظمۃ اللّٰہ تعالیٰ، والقیام بحق خدمتہ ویخل بالخشوع في الصلاۃ بلاضرورۃ لإدخال النقص في المؤدی۔ (حسن بن عمار، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’فصل في الاوقات المکروہۃ‘‘: ص: ۱۹۱؛ وجماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الأول، الفصل الثالث في بیان الأوقات التي الخ‘‘: ج۱، ص:۱۰۹، مکتبہ فیصل دیوبند)
ویخل بالخشوع کزینۃ ولہو ولعب الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’مطلب في بیان السنۃ، والمستحب والمندوب الخ‘‘: ج۲، ص:۴۲۵)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص178

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق:  صورت مذکورہ میں ممکن ہے کہ وہ حروف ادا ہوتے ہوں؛ لیکن مقتدی تک آواز نہ پہونچتی ہوجس کی وجہ سے مقتدی کو لگتاہو کہ وہ حروف کٹ جاتے ہیں۔ اگر نماز میں کھانسی آجائے جس کی وجہ سے حروف مکمل ادا نہ ہوتے ہوں توان حروف کو دوبارہ ادا کرنا چاہیے تاکہ مقتدی حضرات کو کسی قسم کا اعتراض نہ ہواورنماز میں کسی قسم کے فساد کا اندیشہ نہ رہے۔ اگر امام نے اعادہ نہیں کیا اور حروف کے چھوٹنے کی وجہ سے معنی میں کوئی تغیر نہیں ہوا تو نماز درست ہوجاتی ہے؛ لیکن بسا اوقات بعض حروف کے چھوٹنے کی وجہ سے معنی میں ایسا تغیر آتاہے کہ نماز فاسد ہوجاتی ہے اس لیے امام صاحب کو چاہیے کہ کھانسی کا علاج کرائیں تاکہ نماز میں بار بار کھانسی کی وجہ سے لوگوں کو دشواری نہ ہو اور جب تک ٹھیک نہیں ہوتے ہیں۔ کھانسنے پر جو آیات چھوٹ رہی ہیں ان کا اعادہ کرلیا جائے۔ بہتر ہے کہ مقامی کسی مفتی کو امام کے پیچھے نماز پڑھا کر ان کی رائے معلوم کرلی جائے۔
’’قال في الہندیۃ: ومنہا حذف حرف … إن لم یکن علی وجہ الایجاز والترخیم۔ فإن کان لا یغیر المعنی لا تفسد صلاتہ، نحو أن یقرأ: وَلَقَدْ جَآئَتْہُمْ رُسُلُنَا بِالبَیِّنَاتِ بترک التاء من جاء ت وإن غیر المعنی تفسد صلاتہ عند عامۃ المشایخ نحو أن یقرأ: فما لہم لا یؤمنون في لا یؤمنون بترک لا‘‘(۱)
’’وفي الشامي: لو انتقل في الرکعۃ الواحدۃ من آیۃ الی آیۃ یکرہ وإن کان بینہما آیات بلا ضرورۃ فإن سہا ثم تذکر یعود مراعاۃ لترتیب الآیات‘‘(۲)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع، في صفۃ الصلاۃ، الصلاۃ، الفصل الخامس، في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷، زکریا دیوبند۔)
(۲) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب الإستماع للقرآن فرض کفایۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۹،زکریا۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص281

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: بیٹھ کر نفل پڑھنے میں جب رکوع کیا جائے تو سرین کو پیروں سے جدا نہ کیا جائے یعنی اٹھایا نہ جائے؛ بلکہ رکوع کے لیے کمر کو جھکایا جائے یہ مسنون ہے۔(۱)

(۱) ویجعل السجود أخفص من الرکوع، کذا في فتاویٰ قاضي خان حتی لو سوی لم یصح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ج ۱، ص: ۱۹۶)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص399

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 921/41-52B

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سنت مؤکدہ کو کھڑے ہوکر پڑھنا افضل اور مستحب ہے اور بلاعذر بیٹھ کر پڑھنا بھی جائز ہے۔ البتہ بعض فقہاء نے سنت فجر کو مستثنی کیا ہے ، یعنی فجر کی سنت بلاعذر کے بیٹھ کر پڑھنا درست نہیں ہے۔

"يجوز النفل" إنما عبر به ليشمل السنن المؤكدة وغيرها فتصح إذا صلاها "قاعدا مع القدرة على القيام" وقد حكي فيه إجماع العلماء وعلى غير المعتمد يقال إلا سنة الفجر لما قيل بوجوبها وقوة تأكدها إلا التراويح على غير الصحيح لأن الأصح جوازه قاعدا من غير عذر فلا يستثنى من جواز النفل جالسا بلا عذر شيء على الصحيح (مراقی الفلاح 1/403)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند