Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:صفوں کی درستگی کا مسئلہ بہت اہم ہے، حدیث شریف میں صفوں کی درستگی پر بہت زور دیا گیا ہے اور اس میں کوتاہی پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ مسجد میں مقتدی حضرات صف میں کب کھڑے ہوں، اس سلسلہ میں مختلف طریقے ثابت ہیں:
(۱) امام جب اپنے کمرے سے باہر آئے تو امام کو دیکھتے ہی مقتدی حضرات کھڑے ہوجائیں اور صفیں درست کرلیں۔ (۲) امام جس صف سے گزرے اس صف کے مقتدی حضرات کھڑے ہوتے جائیں اور صفیں درست کرتے رہیں۔ (۳) مؤذن اقامت شروع کرے اور مقتدی حضرات اپنی صفیں درست کرلیں اور پھر نماز شروع کریں۔ اول الذکر دونوں طریقے اسی وقت قابل عمل ہیں جب کہ امام اپنے کمرے سے نکلے اور مسجد میں پہلے سے موجود نہ ہو؛ لیکن اگر امام پہلے سے مسجد میں موجود ہو جیسا کہ آج کل عموماً ہوتا ہے تو پھر تیسرا طریقہ اختیار کریں کہ اقامت کے شروع سے ہی لوگ صفیں درست کرنا شروع کردیں تاکہ اقامت ختم ہوتے ہی جب امام نماز شروع کرے تو تکبیر اولی کے ساتھ مقتدی نماز شروع کرسکیں۔ اگر لوگ حی علی الصلوۃ تک اپنی جگہ بیٹھے رہیں گے تو امام کی نماز شروع کرنے سے پہلے صفیں درست نہیں کرسکیں گے۔ جن کتابوں میں ’’حي علی الصلوۃ‘‘ پر کھڑے ہونے کی بات لکھی ہے اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ ’’حي علی الصلوۃ‘‘ کے بعد بیٹھے رہنا درست نہیں ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہحی علی الصلوۃ سے پہلے کھڑا ہونا درست نہیں ہے۔(۱)
’’وقال الطحطاوي تحت قولہ: والقیام لامام ومؤتم والظاہر أنہ احتراز عن التاخیر لا التقدیم حتی لو قام أول الإقامۃ لاباس بہ‘‘(۲)
’’حدثني ابن جریج، أن ابن شہاب، أخبرہ أن الناس، کانوا ساعۃ یقول المؤذن: اللّٰہ أکبر یقیم الصلاۃ، ویقوم الناس للصلاۃ، ولا یأتي رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مقامہ حتی تعتدل الصفوف‘‘(۳)
(۱) کفایۃ المفتي، ’’باب مایتعلق بالإقامۃ‘‘: ج ۳، ص: ۵۲۶، زکریا دیوبند۔
(۲) حاشیۃ الطحطاوي علی الدر، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۵؛ ابن عابدین،رد المحتار، ’’آداب الصلوۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۷، زکریا دیوبند۔
(۳) المراسیل لأبي داؤد، ’’جامع الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۹، مصنف عبدالرزاق، ’’کتاب الصلاۃ، باب قیام الناس عندالإقامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۰۷؛ فتح الباري، ’’کتاب الصلاۃ، باب لایقوم إلی الصلاۃ مستعجلا‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۰۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص219
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز ادا ہوگئی، تاہم مسجد میں شور وغل سے اجتناب کیا جائے؛ کیوں کہ اس سے خشوع وخضوع فوت ہو جاتا ہے۔(۲)
(۲) وعند حضور مایشغل البال عن استحضار عظمۃ اللّٰہ تعالیٰ، والقیام بحق خدمتہ ویخل بالخشوع في الصلاۃ بلاضرورۃ لإدخال النقص في المؤدی۔ (حسن بن عمار، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’فصل في الاوقات المکروہۃ‘‘: ص: ۱۹۱؛ وجماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الأول، الفصل الثالث في بیان الأوقات التي الخ‘‘: ج۱، ص:۱۰۹، مکتبہ فیصل دیوبند)
ویخل بالخشوع کزینۃ ولہو ولعب الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’مطلب في بیان السنۃ، والمستحب والمندوب الخ‘‘: ج۲، ص:۴۲۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص178
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: صورت مذکورہ میں ممکن ہے کہ وہ حروف ادا ہوتے ہوں؛ لیکن مقتدی تک آواز نہ پہونچتی ہوجس کی وجہ سے مقتدی کو لگتاہو کہ وہ حروف کٹ جاتے ہیں۔ اگر نماز میں کھانسی آجائے جس کی وجہ سے حروف مکمل ادا نہ ہوتے ہوں توان حروف کو دوبارہ ادا کرنا چاہیے تاکہ مقتدی حضرات کو کسی قسم کا اعتراض نہ ہواورنماز میں کسی قسم کے فساد کا اندیشہ نہ رہے۔ اگر امام نے اعادہ نہیں کیا اور حروف کے چھوٹنے کی وجہ سے معنی میں کوئی تغیر نہیں ہوا تو نماز درست ہوجاتی ہے؛ لیکن بسا اوقات بعض حروف کے چھوٹنے کی وجہ سے معنی میں ایسا تغیر آتاہے کہ نماز فاسد ہوجاتی ہے اس لیے امام صاحب کو چاہیے کہ کھانسی کا علاج کرائیں تاکہ نماز میں بار بار کھانسی کی وجہ سے لوگوں کو دشواری نہ ہو اور جب تک ٹھیک نہیں ہوتے ہیں۔ کھانسنے پر جو آیات چھوٹ رہی ہیں ان کا اعادہ کرلیا جائے۔ بہتر ہے کہ مقامی کسی مفتی کو امام کے پیچھے نماز پڑھا کر ان کی رائے معلوم کرلی جائے۔
’’قال في الہندیۃ: ومنہا حذف حرف … إن لم یکن علی وجہ الایجاز والترخیم۔ فإن کان لا یغیر المعنی لا تفسد صلاتہ، نحو أن یقرأ: وَلَقَدْ جَآئَتْہُمْ رُسُلُنَا بِالبَیِّنَاتِ بترک التاء من جاء ت وإن غیر المعنی تفسد صلاتہ عند عامۃ المشایخ نحو أن یقرأ: فما لہم لا یؤمنون في لا یؤمنون بترک لا‘‘(۱)
’’وفي الشامي: لو انتقل في الرکعۃ الواحدۃ من آیۃ الی آیۃ یکرہ وإن کان بینہما آیات بلا ضرورۃ فإن سہا ثم تذکر یعود مراعاۃ لترتیب الآیات‘‘(۲)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع، في صفۃ الصلاۃ، الصلاۃ، الفصل الخامس، في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷، زکریا دیوبند۔)
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب الإستماع للقرآن فرض کفایۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۹،زکریا۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص281
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: بیٹھ کر نفل پڑھنے میں جب رکوع کیا جائے تو سرین کو پیروں سے جدا نہ کیا جائے یعنی اٹھایا نہ جائے؛ بلکہ رکوع کے لیے کمر کو جھکایا جائے یہ مسنون ہے۔(۱)
(۱) ویجعل السجود أخفص من الرکوع، کذا في فتاویٰ قاضي خان حتی لو سوی لم یصح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ج ۱، ص: ۱۹۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص399
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 921/41-52B
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سنت مؤکدہ کو کھڑے ہوکر پڑھنا افضل اور مستحب ہے اور بلاعذر بیٹھ کر پڑھنا بھی جائز ہے۔ البتہ بعض فقہاء نے سنت فجر کو مستثنی کیا ہے ، یعنی فجر کی سنت بلاعذر کے بیٹھ کر پڑھنا درست نہیں ہے۔
"يجوز النفل" إنما عبر به ليشمل السنن المؤكدة وغيرها فتصح إذا صلاها "قاعدا مع القدرة على القيام" وقد حكي فيه إجماع العلماء وعلى غير المعتمد يقال إلا سنة الفجر لما قيل بوجوبها وقوة تأكدها إلا التراويح على غير الصحيح لأن الأصح جوازه قاعدا من غير عذر فلا يستثنى من جواز النفل جالسا بلا عذر شيء على الصحيح (مراقی الفلاح 1/403)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2709/45-4197
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کوئی شخص بے ہوشی کی حالت میں چلاجائے اور چھ سے زیادہ نمازیں چھوٹ جائیں تو جو نماز یں بے ہوشی کی حالت میں چھوٹ جائیں وہ معاف ہیں، ان کی قضاء ذمہ میں لازم نہیں ہے، لہذا وہ ایام جن میں آپ کو بالکل ہوش نہیں تھا ان دنوں کی نماز قضاء کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اور ہوش کے زمانے میں جو نمازیں آپ نے بستر پر یا وہیل چیئر پر پڑھیں وہ ادا ہوگئیں ان کو دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے، پیشاب کی تھیلی مجبوری میں لگنے سے آپ معذور کے حکم میں ہوں گے اور معذور کا حکم یہ ہے کہ نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد وضو کرکے نماز ادا کرلے تو اس کی نماز عذر کے باوجود ادا ہوجاتی ہے۔
"و من أغمي عليه خمس صلوات قضى، و لو أكثر لايقضي، و الجنون كالإغماء و هو الصحيح، ثم الكثرة تعتبر من حيث الأوقات عند محمد -رحمه الله تعالى- وهو الأصح، هذا إذا دام الإغماء و لم يفق في المدة أما إذا كان يفيق ينظر فإن كان لإفاقته وقت معلوم مثل أن يخف عنه المرض عند الصبح مثلًا فيفيق قليلًا ثم يعاوده فيغمى عليه تعتبر هذه الإفاقة فيبطل ما قبلها من حكم الإغماء إذا كان أقل من يوم وليلة، وإن لم يكن لإفاقته وقت معلوم لكنه يفيق بغتةً فيتكلم بكلام الأصحاء، ثمّ يغمى عليه فلا عبرة بهذه الإفاقة، كذا في التبيين. ولو أغمي عليه بفزع من سبع أو آدمي أكثر من يوم وليلة يسقط عنه القضاء بالإجماع." (الھندیۃ ، کتاب الصلاۃ، الباب الرابع عشر في صلاة المريض، ج: 1، صفحہ:137، ط: دار الفکر)
وصاحب عذر من به سلس) بول لا يمكنه إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة)
بأن لا يجد في جميع وقتها زمنا يتوضأ ويصلي فيه خاليا عن الحدث (ولو حكما) لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم (وهذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرة (وفي) (استيعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقيقة) لأنه الانقطاع الكامل. (شامی، ج: 1/ص: 305، مطلب في أحكام المعذور،ط:دار الفكر-بيروت)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام مسجد کو حتی الوسع تمام تر سہولیات فراہم کرنی چاہئیں امام مسجد کو اگر فیملی روم کی ضرورت ہے اور مسجد میں وسعت بھی ہے اس کے باوجود کمرہ نہ دینا خلاف مروّت معلوم ہوتا ہے اس لیے اہل مسجد کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔(۱)
(۱) قد یقال: إن کان قصدہ وجہ اللّٰہ تعالٰی لکنہ بمراعاتہ للأوقات والاشتغال بہ یقل اکتسابہ عما یکفیہ لنفسہ وعیالہ، فیأخذ الأجرۃ لئلا لیمنعہ الاکتساب عن إقامۃ ہذہ الوظیفۃ الشریفۃ، ولولا ذلک لم یأخذ أجرا فلہ الثواب المذکور بل یکون جمع بین عبادتین وہما الأذان والسعي علی العیال وإنما الأعمال بالنیات۔۔۔۔ وبعض مشایخنا استحسنوا الاستیجار علی تعلیم القرآن الیوم لأنہ ظہر التواني في الأمور الدینیۃ ففي الامتناع تضییع حفظ القرآن وعلیہ الفتوی۔ (ابن عابدین، (الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ‘‘: ج۲، ص: ۶۰)، مطبوعہ کوئٹہ۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص323
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: واضح رہے کہ احادیث اور فقہ کی کتابوں میں صف بندی کی ترتیب یہ بیان کی گئی ہے کہ پہلا مقتدی امام کے پیچھے کھڑا ہو، اس کے بعد آنے والا شخص پہلے مقتدی کی دائیں جانب سے، پھر بائیں جانب، پھر دائیں جانب پھر بائیں جانب، اس طرح جب پہلی صف مکمل ہوجائے تو دوسری صف بنائی جائے، اس میں بھی پہلا مقتدی امام کے بالمقابل کھڑا ہو دوسرا پہلے کی دائیں جانب، تیسرا پہلے کی بائیں جانب، اس طرح دوسری صف مکمل ہونے کے بعد تیسری صف بنائی جائے۔ امام ابو داود رحمۃ اللہ علیہ نے ایک حدیث نقل کی ہے:
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’پہلی صف مکمل کرو پھر اس کے بعد والی صف پس اگر صفوں میں کوئی کمی رہ جائے تو وہ آخر والی صف میں ہو۔‘‘
’’أتموا الصف المقدّم ثم الذي یلیہ فما کان من نقص فلیکن في الصف المؤخر‘‘(۱)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر میں نماز پڑھی اور ہمارے پیچھے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا تھیں وہ بھی ہمارے ہم راہ نماز میں شریک تھیں، جیسا کہ امام نسائیؒ نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی ہے۔
’’إن قزعۃ مولی لعبد القیس أخبرہ أنہ سمع عکرمۃ قال: قال ابن عباس: صلیت إلی جنب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وعائشۃ خلفنا تصلی معنا، وأنا إلی جنب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أصلی معہ‘‘(۱)
’’عن ابن عمر قال: قیل للنبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن میسرۃ المسجد تعطلت فقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من عمر میسرۃ المسجد کتب لہ کفلان من الأجر‘‘(۲)
’’قولہ: ’’من عمر میسرۃ المسجد الخ لما بین النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فضیلۃ ترک الناس قیامھم بالمیسرۃ فتعطلت المیسرۃ فأعلمھم أن فضیلۃ المیمنۃ إذا کان القوم سواء في جانبی الإمام، وأما إذا کان الناس فی المیمنۃ أکثر لکان لصاحب المیسرۃ کفلان من الأجر، والحاصل أنہ یستحب توسط الإمام‘‘(۳)
’’وفي القھستاني: وکیفیتہ أن یقف أحدھما بحذائہ والآخر بیمینہ إذا کان الزائد إثنین، ولو جاء ثالث وقف عن یسار الأول والرابع عن یمین الثاني والخامس عن یسار الثالث وھکذا‘‘(۴)
’’ومتی استوی جانباہ یقوم عن یمین الإمام إن أمکنہ‘‘(۵)
قولہ: ’’وخیر صفوف الرجال أولھا‘‘: لأنہ روی فی الأخبار ’’أن اللہ تعالی إذا أنزل الرحمۃ علی الجماعۃ ینزلھا أولاً علی الإمام، ثم تتجاوز عنہ إلی من بحذائہ في الصف الأول، ثم إلی المیامن، ثم إلی المیاسر، ثم إلی الصف الثاني‘‘، وتمامہ في البحر‘‘(۶)
خلاصہ: باجماعت نمازوں کے لیے صف کی ترتیب اس طرح ہو گی کہ امام پہلی صف کے آگے درمیان میں کھڑا ہو گا اس کے بعد پہلی صف مکمل کی جائے پھر دوسری پھر تیسری علی ہذا القیاس پچھلی صفیں بنائی جائیں گی، اگر مردوں، بچوں، مخنثوں اور عورتوں کا مجمع ہو تو ان کی صف بندی میں درج ذیل ترتیب کو ملحوظ رکھا جائے۔ آگے مرد کھڑے ہوں، پیچھے بچے، پھر مخنث اور اس کے بعد عورتیں۔
(۱) أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب تسویۃ الصفوف‘‘: ۱، ص: ۲۵۸، ۲۵۹، رقم: ۱۷۱۔
(۱) أخرجہ النسائي، في سننہ، ’’کتاب الإمامۃ: موقف الإمام إذا کان معہ صبي وامرأۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۰۴، رقم: ۸۰۴۔
(۲) أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ’’ ‘‘: ص: ۷۱، مطبوعہ: مکتبہ اشرفیہ دیوبند۔
(۳) انجاح الحاجہ حاشیہ سنن ابن ماجہ: ص: ۱۷۔
(۴) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’ ‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۹، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند۔
(۵) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’ ‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۰۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص440
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: خصیوں میں پانی کی وجہ سے لنگوٹ کس کر نماز پڑھانے والے امام کی نماز درست ہے۔ بلکہ اگر لنگوٹ نہ پہننے سے خلل ہونے کا اندیشہ ہو تو پہن لینا بہتر ہے۔(۱)
(۱) وعند حضور ما یشغل البال عن استحضار عظمۃ اللّٰہ تعالیٰ والقیام بحق خدمتہ ویخل بالخشوع في الصلاۃ۔ (حسن بن عمار، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’فصل في الأوقات المکروہۃ‘‘: ص: ۱۹۱؛ وجماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الأول، الفصل الثالث في بیان الأوقات التي الخ‘‘: ج۱، ص: ۱۰۹)
ویخل بالخشوع کزینۃ ولہو ولعب۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’مطلب في بیان السنۃ والمستحب والمندوب الخ‘‘: ج۲، ص:۴۲۵، زکریا)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص179
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: اس صورت میں نماز صحیح ہوگئی(۳) اگرچہ سجدہ سہو واجب نہ تھا مگر سجدہ سہو کرنے سے نماز میں خلل نہیں ہوا۔(۴)
(۳) ویکرہ الفصل بسورۃ قصیرۃ، أما بسورۃ طویلۃ بحیث یلزم منہ اطالۃ الرکعۃ الثانیۃ إطالۃ کثیرۃ فلا یکرہ۔ شرح المنیۃ: کما إذا کانت سورتان قصیرتان۔ (ابن عابدین، رد المحتار،…’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب الاستماع للقرآن فرض کفایۃ‘‘: ج ۱، ص:۲۶۹، زکریا دیوبند)
ویکرہ فصلہ بسورۃ بین سورتین قرأہما في رکعتین لما فیہ من شبہۃ التفضیل والہجر۔ (الطحطاوي، الطحطاوي علی المراقي، ’’فصل في مکروہات الصلاۃ‘‘: ص: ۳۵۲، شیخ الہند دیوبند)
(۴) ولو ظن الإمام السہو فسجد لہ فتابعہ فبان أن لاسہو، فالأشبہ الفساد لاقتداء ہ في موضع الإنفراد۔ قولہ فالاشبہ الفساد، وفي الفیض: وقیل لاتفسد و بہ یفتی۔ وفي البحر عن الظہیریۃ: قال الفقیہ ابو اللیث في زماننا لاتفسد، لأن الجہل في القراء غالب۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’قبیل باب الاستخلاف‘‘: ج۲، ص:۳۵۰، زکریا)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص282