نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2709/45-4197

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کوئی شخص بے ہوشی کی حالت میں چلاجائے اور چھ سے زیادہ نمازیں چھوٹ جائیں تو جو نماز یں بے ہوشی کی حالت میں چھوٹ  جائیں وہ  معاف ہیں، ان کی قضاء ذمہ میں لازم نہیں ہے، لہذا وہ  ایام جن میں آپ کو بالکل ہوش نہیں تھا ان دنوں کی نماز قضاء کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اور ہوش کے زمانے میں جو نمازیں آپ نے بستر پر یا وہیل چیئر پر پڑھیں وہ ادا ہوگئیں ان کو دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے، پیشاب کی تھیلی مجبوری میں لگنے سے آپ معذور کے حکم میں ہوں گے اور معذور کا حکم یہ ہے کہ نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد وضو کرکے نماز ادا کرلے تو اس کی نماز عذر کے باوجود ادا ہوجاتی ہے۔

"و من أغمي عليه خمس صلوات قضى، و لو أكثر لايقضي، و الجنون كالإغماء و هو الصحيح، ثم الكثرة تعتبر من حيث الأوقات عند محمد -رحمه الله تعالى- وهو الأصح، هذا إذا دام الإغماء و لم يفق في المدة أما إذا كان يفيق ينظر فإن كان لإفاقته وقت معلوم مثل أن يخف عنه المرض عند الصبح مثلًا فيفيق قليلًا ثم يعاوده فيغمى عليه تعتبر هذه الإفاقة فيبطل ما قبلها من حكم الإغماء إذا كان أقل من يوم وليلة، وإن لم يكن لإفاقته وقت معلوم لكنه يفيق بغتةً فيتكلم بكلام الأصحاء، ثمّ يغمى عليه فلا عبرة بهذه الإفاقة، كذا في التبيين. ولو أغمي عليه بفزع من سبع أو آدمي أكثر من يوم وليلة يسقط عنه القضاء بالإجماع." (الھندیۃ ، کتاب الصلاۃ، الباب الرابع عشر في صلاة المريض، ج: 1، صفحہ:137، ط: دار الفکر)

وصاحب عذر من به سلس) بول لا يمكنه إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة)

بأن لا يجد في جميع وقتها زمنا يتوضأ ويصلي فيه خاليا عن الحدث (ولو حكما) لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم (وهذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرة (وفي)   (استيعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقيقة) لأنه الانقطاع الكامل. (شامی، ج: 1/ص: 305، مطلب في أحكام المعذور،ط:دار الفكر-بيروت)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام مسجد کو حتی الوسع تمام تر سہولیات فراہم کرنی چاہئیں امام مسجد کو اگر فیملی روم کی ضرورت ہے اور مسجد میں وسعت بھی ہے اس کے باوجود کمرہ نہ دینا خلاف مروّت معلوم ہوتا ہے اس لیے اہل مسجد کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔(۱)
(۱) قد یقال: إن کان قصدہ وجہ اللّٰہ تعالٰی لکنہ بمراعاتہ للأوقات والاشتغال بہ یقل اکتسابہ عما یکفیہ لنفسہ وعیالہ، فیأخذ الأجرۃ لئلا لیمنعہ الاکتساب عن إقامۃ ہذہ الوظیفۃ الشریفۃ، ولولا ذلک لم یأخذ أجرا فلہ الثواب المذکور بل یکون جمع بین عبادتین وہما الأذان والسعي علی العیال وإنما الأعمال بالنیات۔۔۔۔ وبعض مشایخنا استحسنوا الاستیجار علی تعلیم القرآن الیوم لأنہ ظہر التواني في الأمور الدینیۃ ففي الامتناع تضییع حفظ القرآن وعلیہ الفتوی۔ (ابن عابدین، (الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ‘‘: ج۲، ص: ۶۰)، مطبوعہ کوئٹہ۔

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص323

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: واضح رہے کہ احادیث اور فقہ کی کتابوں میں صف بندی کی ترتیب یہ بیان کی گئی ہے کہ پہلا مقتدی امام کے پیچھے کھڑا ہو، اس کے بعد آنے والا شخص پہلے مقتدی کی دائیں جانب سے، پھر بائیں جانب، پھر دائیں جانب پھر بائیں جانب، اس طرح جب پہلی صف مکمل ہوجائے تو دوسری صف بنائی جائے، اس میں بھی پہلا مقتدی امام کے بالمقابل کھڑا ہو دوسرا پہلے کی دائیں جانب، تیسرا پہلے کی بائیں جانب، اس طرح دوسری صف مکمل ہونے کے بعد تیسری صف بنائی جائے۔ امام ابو داود رحمۃ اللہ علیہ نے ایک حدیث نقل کی ہے:
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’پہلی صف مکمل کرو پھر اس کے بعد والی صف پس اگر صفوں میں کوئی کمی رہ جائے تو وہ آخر والی صف میں ہو۔‘‘
’’أتموا الصف المقدّم ثم الذي یلیہ فما کان من نقص فلیکن في الصف المؤخر‘‘(۱)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر میں نماز پڑھی اور ہمارے پیچھے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا تھیں وہ بھی ہمارے ہم راہ نماز میں شریک تھیں، جیسا کہ امام نسائیؒ نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی ہے۔
’’إن قزعۃ مولی لعبد القیس أخبرہ أنہ سمع عکرمۃ قال: قال ابن عباس: صلیت إلی جنب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وعائشۃ خلفنا تصلی معنا، وأنا إلی  جنب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أصلی معہ‘‘(۱)
’’عن ابن عمر قال: قیل للنبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن میسرۃ المسجد تعطلت فقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من عمر میسرۃ المسجد کتب لہ کفلان من الأجر‘‘(۲)
’’قولہ: ’’من عمر میسرۃ المسجد الخ لما بین النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فضیلۃ  ترک الناس قیامھم بالمیسرۃ فتعطلت المیسرۃ فأعلمھم أن فضیلۃ المیمنۃ إذا کان القوم سواء في جانبی الإمام، وأما إذا کان الناس فی المیمنۃ أکثر لکان لصاحب المیسرۃ کفلان من الأجر، والحاصل أنہ یستحب توسط الإمام‘‘(۳)
’’وفي القھستاني: وکیفیتہ أن یقف أحدھما بحذائہ والآخر بیمینہ إذا کان الزائد إثنین، ولو جاء ثالث وقف عن یسار الأول والرابع عن یمین الثاني والخامس عن یسار الثالث وھکذا‘‘(۴)
’’ومتی استوی جانباہ یقوم عن یمین الإمام إن أمکنہ‘‘(۵)
قولہ: ’’وخیر صفوف الرجال أولھا‘‘: لأنہ روی فی الأخبار ’’أن اللہ تعالی إذا أنزل الرحمۃ علی الجماعۃ ینزلھا أولاً علی الإمام، ثم تتجاوز عنہ إلی من بحذائہ في الصف الأول، ثم إلی المیامن، ثم إلی المیاسر، ثم إلی الصف الثاني‘‘، وتمامہ في البحر‘‘(۶)

خلاصہ: باجماعت نمازوں کے لیے صف کی ترتیب اس طرح ہو گی کہ امام پہلی صف کے آگے درمیان میں کھڑا ہو گا اس کے بعد پہلی صف مکمل کی جائے پھر دوسری پھر تیسری علی ہذا القیاس پچھلی صفیں بنائی جائیں گی، اگر مردوں، بچوں، مخنثوں اور عورتوں کا مجمع ہو تو ان کی صف بندی میں درج ذیل ترتیب کو ملحوظ رکھا جائے۔ آگے مرد کھڑے ہوں، پیچھے بچے، پھر مخنث اور اس کے بعد عورتیں۔
 

(۱) أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب تسویۃ الصفوف‘‘: ۱، ص: ۲۵۸، ۲۵۹، رقم: ۱۷۱۔
(۱) أخرجہ النسائي، في سننہ، ’’کتاب الإمامۃ: موقف الإمام إذا کان معہ صبي وامرأۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۰۴، رقم: ۸۰۴۔
(۲) أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ’’ ‘‘: ص: ۷۱، مطبوعہ: مکتبہ اشرفیہ دیوبند۔
(۳) انجاح الحاجہ حاشیہ سنن ابن ماجہ: ص: ۱۷۔
(۴) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’ ‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۹، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند۔
(۵) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’ ‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۰۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص440

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: خصیوں میں پانی کی وجہ سے لنگوٹ کس کر نماز پڑھانے والے امام کی نماز درست ہے۔ بلکہ اگر لنگوٹ نہ پہننے سے خلل ہونے کا اندیشہ ہو تو پہن لینا بہتر ہے۔(۱)

(۱) وعند حضور ما یشغل البال عن استحضار عظمۃ اللّٰہ تعالیٰ والقیام بحق خدمتہ ویخل بالخشوع في الصلاۃ۔ (حسن بن عمار، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’فصل في الأوقات المکروہۃ‘‘:  ص: ۱۹۱؛ وجماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الأول، الفصل الثالث في بیان الأوقات التي الخ‘‘: ج۱، ص: ۱۰۹)
ویخل بالخشوع کزینۃ ولہو ولعب۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’مطلب في بیان السنۃ والمستحب والمندوب الخ‘‘: ج۲، ص:۴۲۵، زکریا)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص179

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق:  اس صورت میں نماز صحیح ہوگئی(۳) اگرچہ سجدہ سہو واجب نہ تھا مگر سجدہ سہو کرنے سے نماز میں خلل نہیں ہوا۔(۴)

(۳) ویکرہ الفصل بسورۃ قصیرۃ، أما بسورۃ طویلۃ بحیث یلزم منہ اطالۃ الرکعۃ الثانیۃ إطالۃ کثیرۃ فلا یکرہ۔ شرح المنیۃ: کما إذا کانت سورتان قصیرتان۔ (ابن عابدین، رد المحتار،…’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب الاستماع للقرآن فرض کفایۃ‘‘: ج ۱، ص:۲۶۹، زکریا دیوبند)
ویکرہ فصلہ بسورۃ بین سورتین قرأہما في رکعتین لما فیہ من شبہۃ التفضیل والہجر۔ (الطحطاوي، الطحطاوي علی المراقي، ’’فصل في مکروہات الصلاۃ‘‘: ص: ۳۵۲، شیخ الہند دیوبند)
(۴)  ولو ظن الإمام السہو فسجد لہ فتابعہ فبان أن لاسہو، فالأشبہ الفساد لاقتداء ہ في موضع الإنفراد۔ قولہ فالاشبہ الفساد، وفي الفیض: وقیل لاتفسد و بہ یفتی۔ وفي البحر عن الظہیریۃ: قال الفقیہ ابو اللیث في زماننا لاتفسد، لأن الجہل في القراء غالب۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’قبیل باب الاستخلاف‘‘: ج۲، ص:۳۵۰، زکریا)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص282

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ فی السوال طریقۂ نماز شرعاً جائز نہیں ہے؛ اس لیے امام ومقتدیوں کا مذکورہ طریقہ پر نماز پڑھنا درست نہیں تاہم کسی بھی مقصد وضرورت کے لیے انفرادی طور پر صلاۃ الحاجۃ پڑھنا درست اور احادیث سے ثابت ہے۔(۱)

(۱) ولایصلي الوتر ولا التطوع بجماعۃ خارج رمضان أي یکرہ ذلک لو علی سبیل التداعي بأن یقتدي أربعۃ بواحد کما في الدرر۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار،باب الوتر والنوافل ج ۲، ص: ۵۰۰)
من أحدث في أمرنا ہذا مالیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور فھو مردود، ج۱، ص۳۷۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص400

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1704/43-1359

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ غروب آفتاب کا وقت ، مکروہ وقت ہے، لیکن اسی دن کی نماز  عصر پڑھنے کی گنجائش ہے۔  اگرعصر کی نماز پڑھتے ہوئے آفتاب غروب ہوگیا ،  تو مکروہ وقت ختم ہوکر اب صحیح وقت شروع ہوگیا ، اس لئے نماز درست ہوجائے گی۔ فجر کے وقت کا مسئلہ اس سے مختلف ہے، یعنی اگر  کسی نے فجر کی نماز شروع کی اور دوران نماز آفتاب طلوع ہوگیا تو نماز فاسد ہوجائے گی۔ کیونکہ صحیح وقت میں اس نے نماز شروع کی اور اب مکروہ وقت شروع ہوگیا، اس لئے نماز درست ہوجائے گی۔  

''و کرہ صلوۃ الی قولہ الا عصر یومہ وفی الشرح: فلایکرہ فعلہ لادائہ کماوجب بخلاف الفجر (شامی، کتاب الصلوۃ 1/373)

والصلاة منهي عنها في هذا الوقت وفي عصر يومه يتضيق الوجوب في هذا الوقت وقد وجبت عليه ناقصة وأداها كما وجبت بخلاف الفجر إذا طلعت فيها الشمس؛ لأن الوجوب يتضيق بآخر وقتها ولا نهي في آخر وقت الفجر وإنما النهي يتوجه بعد خروج وقتها فقد وجبت عليه الصلاة كاملة فلا تتأدى بالناقصة فهو الفرق والله أعلم (بدائع الصنائع، فصل حکم صلوات الخوف اذا فسدت 1/247)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: زکوۃ ایک فریضہ ہے جس کا تقاضا ہے کہ خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے زکوٰۃ دی جائے جس طرح خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے نمازپڑھتے اور روزہ رکھتے ہیں۔ زکوۃ کسی فقیر غیر صاحب نصاب کو مالک بنانے کا نام ہے اس میں ضروری ہے کہ کسی خدمت کے عوض میں زکوٰۃ کی رقم نہ دی جائے، گھر کے تنخواہ دار ملازم کو بھی اجرت میں زکوٰۃ کی رقم نہیں دی جا سکتی ہے، اس سے زکوٰۃ دینے والے کی زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی، اس لیے امام صاحب کو امامت کی تنخواہ میں زکوٰۃ کی رقم دینا درست نہیں ہے، اس سے زکوٰۃ ادا نہیں۔ ہاں! اگر تنخواہ کے علاوہ زکوٰۃ کی مد سے امام صاحب کی مدد کی جائے اور امام صاحب مستحق زکوٰۃ ہوں تو یہ دینا درست ہے اس سے زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔
’’ولو نوی الزکاۃ بما یدفع المعلم إلی الخلیفۃ ولم یستأجرہ إن کان الخلیفۃ بحال لو لم یدفعہ یعلم الصبیان أیضاً أجزأہ وإلا فلا‘‘(۱)
’’الصدقۃ ہي ما یخرجہ الإنسان من مالہ علی وجہ القربۃ واجباً کان أو تطوعاً‘‘(۲)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الزکوٰۃ، الباب السابع في المصارف‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۲۔
(۲) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الزکاۃ، باب فضل الصدقۃ‘‘: ج ۴، ص: ۳۳۸، رقم: ۱۸۸۸۔

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص324

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: کوئی بھی کام ایسا نہیں کرنا چاہئے جس سے نمازی کے خشوع وخضوع میں فرق آئے اس لیے جب کوئی نماز پڑھ رہا ہو تو زور سے سلام نہیں کرنا چاہئے ایسا کرنا مکروہ ہے۔
’’کراہۃ ابتداء السلام علی المصلي  لکونہ ربما شغل بذلک فکرہ واستدعی منہ الرد وہو ممنوع منہ‘‘(۱)
’’فسرہ بعضہم بالواعظ لأنہ یذکر اللّٰہ تعالیٰ ویذکر الناس بہ؛ والظاہر أنہ أعم فیکرہ السلام علیٰ مشتغل بذکر اللّٰہ تعالیٰ بأي وجہ کان‘‘(۲)

(۱) ابن حجر العسقلاني، فتح الباري شرح البخاري، ’’کتاب العمل في الصلاۃ،  باب لا یرد السلام في الصلاۃ‘‘: ج ۳، ص: ۱۱۳، دارالسلام ، الریاض۔
(۲) الحصکفي، رد المحتار مع الدر المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، مطلب: المواضع التي یکرہ فیھا السلام ‘‘: ج۲، ص: ۳۷۳، ۳۷۴، ط:زکریا، دیوبند۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص179

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں ’’لا یسئل‘‘ کی جگہ ’’لا یعذب‘‘ پڑھا گیا اس سے اگرچہ معنی بدل گئے لیکن اتنے نہیں بدلے کہ نماز فاسد ہوجائے اس لیے نماز درست ہوگئی۔
’’ومنہا ذکر کلمۃ مکان کلمۃ علی وجہ البدل۔ إن کانت الکلمۃ التی قرأہا مکان کلمۃ یقرب معناہا وہي فی القرآن لا تفسد صلاتہ‘‘(۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷، زکریا دیوبند۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص283