نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: فقہاء نے فرائض میں تکرار سورت کو مکروہ لکھا ہے؛ لیکن نوافل میں تکرار سورت درست ہے؛ اس لیے سورۂ اخلاص کا مکرر پڑھنا شرعاً درست ہے، لیکن اس کی عادت نہیں بنانی چاہیے۔(۱)

(۱) یکرہ تکرار السورۃ في رکعۃ واحدۃ من الفرض…… وقید بالفرض لأنہ لایکرہ التکرار في النفل۔ (أحمد بن محمد الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، کتاب الصلاۃ، فصل في المکروھات،ص: ۳۵۲)
(۲) ویکرہ تکرار السورۃ في رکعۃ واحدۃ في الفرائض ولابأس في التطوع۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا ج۱، ص:۱۶۶، مکتبہ فیصل دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص400

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 40/1069

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حرمین شریفین میں حنفی حضرات کے لئے حنبلی طریقہ کے مطابق جماعت کے ساتھ وتر کی نماز درست ہے؟  یہ مسئلہ اجتہادی ہے اور بعض ائمہ ء احناف نے اس کی اجازت دی ہے، اس لئے حرمین میں اس پر عمل کرنے کی گنجائش ہے۔ لواقتدی حنفی بشافعی فی الوتر وسلم ذلک الشافعی الامام علی الشفع الاول علی وفق مذھبہ ثم اتم الوتر صح وتر الحنفی عند ابی بکر الرازی وابن وھبان (معارف السنن 4/170) حضرت علامہ انورشاہ کشمیری ؒ نے حضرت شیخ الہندؒ کی یہی رائے نقل کی ہے  کہ ان کے پیچھے اقتداء کرنا جائز ہے۔ ولاعبرۃ بحال المقتدی والیہ ذھب الجصاص وھو الذی اختارہ لتوارث السلف اقتداء احدھم بالآخر بلانکیر مع کونہم مختلفین  فی الفروع ، وکان مولانا شیخ الھند محمودالحسن ایضا یذھب الی مذھب الجصاص (فیض الباری 1/352)۔  حرمین میں جو قیام اللیل کی نماز باجماعت ادا کیجاتی ہے حنفی کے لئے اس میں شامل ہونا درست ہے اس لئے کہ جو ائمہ امامت کرتے ہیں ان کے مذہب میں وہ نماز مشروع ہے مکروہ نہیں ہے۔ الحنابلۃ قالوا اما لنوافل فمنھا لا تسن فیہ الجماعۃ وذلک کصلوۃ الاستسقاء والتراویح والعیدین ومنھا ما تباح فیہ الجماعۃ کصلوۃ التہجد (الفقہ علی المذاہب الاربعۃ)۔

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2450/45-3713

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ظہیر اور نکیر کے معنی میں تفاوت فاحش ہے، اس لئے مذکورہ صورت میں نماز درست نہیں ہوئی۔ نماز کا اعادہ واجب ہے۔  اگلے روز نماز کے بعد اعلان کردیا جائے تاکہ لوگ اپنی اپنی نماز دوہرالیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا اللّٰہ التوفیق: اگر چندہ دینے پر لوگوں کو مجبور نہ کیا جائے تو باہمی رضامندی سے اس طرح تعاون دینا درست ہے۔(۳)
(۳) لا یحل مال إمرأ إلا عن طب نفس۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ‘‘: ج۱، ص: ۷۵، رقم: ۱۶۳)

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص325

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اسی رکعت کو امام کے سلام پھیرنے کے بعد پڑھے شرط یہ ہے کہ کوئی مانع نہ پایا گیا ہو اور اگر وضو کرنے جاتے وقت بات وغیرہ کرلی تو از سر نو نماز پڑھے۔(۱)

(۱) من سبقہ حدث توضأ وبنی … حتی إذا سبقہ الحدث ثم تکلم، أو أحدث متعمداً، أو قہقہ، أو أکل، أو شرب، أو نحو ذلک، لا یجوز لہ البناء۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السادس في الحدث في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۲، ۱۵۳، مکتبہ فیصل دیوبند)۔
 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص55

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: پرفیوم میں الکحل ہوتا ہے جو پہلے صرف شراب سے تیار ہوتا تھا اس لیے اس کا استعمال درست نہیں تھا اب الکحل شراب کے علاوہ متعدد چیزوں سے تیار ہوتا ہے، نیز الکحل تھوڑی دیر میں اڑ جاتا ہے اس لیے پرفیوم کے استعمال کے کچھ دیر بعد نماز پڑھی گئی تو بلا شبہ نماز درست ہے تاہم احتیاط اسی میں ہے کہ پرفیوم لگاکر نماز نہ پڑھی جائے۔(۳)

(۳) وأما غیر الأشربۃ الأربعۃ، فلیست نجسۃ عند الإمام أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ، وبہذا یتبین حکم التی عمت بہا البلوی الیوم، فإنہا تستعمل في کثیر من الأدویۃ و الکحول (alcohals) المسکرۃ العطور والمرکبات الأخری، فغنہا إن اتخذت من العنب أو التمر فلا سبیل إلی حلتہا أو طہارتہا، وإن اتخذت من غیرہما فالأمر فیہا سہل علی مذہب أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ، ولا یحرم استعمالہا للتداوي أو لأغراض مباحۃ أخری مالم تبلغ حد الإسکار، لأنہا إنما تستعمل مرکبۃ مع المواد الأخری، ولایحکم بنجاستہا أخذاً بقول أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ، وإن معظم الحکول التي تستعمل الیوم في الأودیۃ والعطور وغیرہما لاتتخذ من العنب أوالتمر، إنما تتخذ من الحبوب أو القشور أو البترول وغیرہ، کما ذکرنا في باب بیوع الخمر من کتاب البیوع۔ (المفتي تقي العثماني، تکملیہ فتح الملہم، ’’کتاب الأشربۃ: حکم الکحول المسکرۃ‘‘: ج ۳، ص: ۶۰۸، ط: مکتبہ دارالعلوم دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص180

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق:  اگر متولی صاحب مخارج سے واقفیت رکھتے ہوں یا کسی واقف شخص نے متولی صاحب کو اس طرف توجہ دلائی ہو تو امام صاحب کے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کو اس طرف توجہ دلانا بلاشبہ درست ہے، البتہ امام صاحب اگر درست ہیں تو بلا وجہ امام کی خامیاں نکالنے سے پرہیز کرنا ضروری ہے، امام قابل احترام ہوتا ہے۔(۱)

(۱) ومن ابغض عالمًا من غیر سبب ظاہر خیف علیہ الکفر ولو صغر الفقیہ او العلوي قاصداً الاستخفاف بالدین کفر، لا ان لم یقصدہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’ ‘‘: ج ۵، ص: ۱۳۴)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص284

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صلاۃ التسبیح اوقات مکروہ ثلاثہ کے علاوہ تمام اوقات میں پڑھنا جائز اور درست ہے البتہ اکابرین و اسلاف کا معمول قبل نماز جمعہ صلاۃ التسبیح پڑھنے کا ہے۔(۲)

(۳) وأربع صلاۃ التسبیح الخ یفعلہا في کل وقت لاکراہۃ فیہ۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الصلاۃ، باب الوتر و النوافل، مطلب في صلاۃ التسبیح، ج ۲، ص: ۴۷۱)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص401

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2012/44-2007

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ رکوع نماز کا رکن ہے اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی ہے۔ جن لوگوں سے رکوع  فوت ہوگیا ان کی نماز نہیں ہوئی۔ البتہ اگر کچھ لوگوں نے اپنے اندازے سے تاخیر سے رکوع کرلیا تھا اور نماز پوری کی تھی تو ان کی نماز درست ہوگئی گوکہ امام کے ساتھ رکوع کی ادائیگی میں تاخیر ہوئی ہو۔ لیکن جن کا رکوع بالکلیہ فوت ہوگیا ان کی نماز نہیں ہوئی۔ ان کو چاہئے کہ کسی دوسری جگہ جاکر عید کی نماز اداکرلیں۔اور اگر کسی دوسری جگہ عید کا وقت بھی نکل چکا ہے تو اب توبہ واستغفار کریں ، نماز  عید کی قضا نہیں ہے۔

ولا یصلیھا وحدھ إن فاتت مع الإمام ولو بالإفساد اتفاقاًفی الأصح کما في تیمم البحر، وفیھا یلغز: أي رجل أفسد صلاة واجبة علیہ ولا قضاء (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب العیدین، ۳:۵۸، ۵۹)۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2330/44-3492

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حرم شریف سے باہر سڑکوں، راستوں، دوکانوں اور ہوٹلوں میں اقتداء کے صحیح ہونے کے لئے ضروری ہے کہ صفیں متصل ہوں، اگر صفیں متصل نہ ہوں بلکہ درمیان میں کوئی عام راستہ ہو یا دو صفوں کے بقدر خلاء ہو تو انقطاع کی وجہ سے اقتداء درست نہ ہوگی، ہاں اگر صرف دیوار حائل ہواور وہاں امام کے انتقالات کا علم ہو رہاہو تو اقتداء درست ہے۔

ویجوز اقتداء جار المسجد بامام المسجد وھو فی بیتہ اذا لم یکن بینہ و بین المسجد طریق عام (الھندیۃ 1/88)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند