نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: پرفیوم میں الکحل ہوتا ہے جو پہلے صرف شراب سے تیار ہوتا تھا اس لیے اس کا استعمال درست نہیں تھا اب الکحل شراب کے علاوہ متعدد چیزوں سے تیار ہوتا ہے، نیز الکحل تھوڑی دیر میں اڑ جاتا ہے اس لیے پرفیوم کے استعمال کے کچھ دیر بعد نماز پڑھی گئی تو بلا شبہ نماز درست ہے تاہم احتیاط اسی میں ہے کہ پرفیوم لگاکر نماز نہ پڑھی جائے۔(۳)

(۳) وأما غیر الأشربۃ الأربعۃ، فلیست نجسۃ عند الإمام أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ، وبہذا یتبین حکم التی عمت بہا البلوی الیوم، فإنہا تستعمل في کثیر من الأدویۃ و الکحول (alcohals) المسکرۃ العطور والمرکبات الأخری، فغنہا إن اتخذت من العنب أو التمر فلا سبیل إلی حلتہا أو طہارتہا، وإن اتخذت من غیرہما فالأمر فیہا سہل علی مذہب أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ، ولا یحرم استعمالہا للتداوي أو لأغراض مباحۃ أخری مالم تبلغ حد الإسکار، لأنہا إنما تستعمل مرکبۃ مع المواد الأخری، ولایحکم بنجاستہا أخذاً بقول أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ، وإن معظم الحکول التي تستعمل الیوم في الأودیۃ والعطور وغیرہما لاتتخذ من العنب أوالتمر، إنما تتخذ من الحبوب أو القشور أو البترول وغیرہ، کما ذکرنا في باب بیوع الخمر من کتاب البیوع۔ (المفتي تقي العثماني، تکملیہ فتح الملہم، ’’کتاب الأشربۃ: حکم الکحول المسکرۃ‘‘: ج ۳، ص: ۶۰۸، ط: مکتبہ دارالعلوم دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص180

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق:  اگر متولی صاحب مخارج سے واقفیت رکھتے ہوں یا کسی واقف شخص نے متولی صاحب کو اس طرف توجہ دلائی ہو تو امام صاحب کے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کو اس طرف توجہ دلانا بلاشبہ درست ہے، البتہ امام صاحب اگر درست ہیں تو بلا وجہ امام کی خامیاں نکالنے سے پرہیز کرنا ضروری ہے، امام قابل احترام ہوتا ہے۔(۱)

(۱) ومن ابغض عالمًا من غیر سبب ظاہر خیف علیہ الکفر ولو صغر الفقیہ او العلوي قاصداً الاستخفاف بالدین کفر، لا ان لم یقصدہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’ ‘‘: ج ۵، ص: ۱۳۴)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص284

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صلاۃ التسبیح اوقات مکروہ ثلاثہ کے علاوہ تمام اوقات میں پڑھنا جائز اور درست ہے البتہ اکابرین و اسلاف کا معمول قبل نماز جمعہ صلاۃ التسبیح پڑھنے کا ہے۔(۲)

(۳) وأربع صلاۃ التسبیح الخ یفعلہا في کل وقت لاکراہۃ فیہ۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الصلاۃ، باب الوتر و النوافل، مطلب في صلاۃ التسبیح، ج ۲، ص: ۴۷۱)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص401

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2012/44-2007

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ رکوع نماز کا رکن ہے اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی ہے۔ جن لوگوں سے رکوع  فوت ہوگیا ان کی نماز نہیں ہوئی۔ البتہ اگر کچھ لوگوں نے اپنے اندازے سے تاخیر سے رکوع کرلیا تھا اور نماز پوری کی تھی تو ان کی نماز درست ہوگئی گوکہ امام کے ساتھ رکوع کی ادائیگی میں تاخیر ہوئی ہو۔ لیکن جن کا رکوع بالکلیہ فوت ہوگیا ان کی نماز نہیں ہوئی۔ ان کو چاہئے کہ کسی دوسری جگہ جاکر عید کی نماز اداکرلیں۔اور اگر کسی دوسری جگہ عید کا وقت بھی نکل چکا ہے تو اب توبہ واستغفار کریں ، نماز  عید کی قضا نہیں ہے۔

ولا یصلیھا وحدھ إن فاتت مع الإمام ولو بالإفساد اتفاقاًفی الأصح کما في تیمم البحر، وفیھا یلغز: أي رجل أفسد صلاة واجبة علیہ ولا قضاء (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب العیدین، ۳:۵۸، ۵۹)۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2330/44-3492

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حرم شریف سے باہر سڑکوں، راستوں، دوکانوں اور ہوٹلوں میں اقتداء کے صحیح ہونے کے لئے ضروری ہے کہ صفیں متصل ہوں، اگر صفیں متصل نہ ہوں بلکہ درمیان میں کوئی عام راستہ ہو یا دو صفوں کے بقدر خلاء ہو تو انقطاع کی وجہ سے اقتداء درست نہ ہوگی، ہاں اگر صرف دیوار حائل ہواور وہاں امام کے انتقالات کا علم ہو رہاہو تو اقتداء درست ہے۔

ویجوز اقتداء جار المسجد بامام المسجد وھو فی بیتہ اذا لم یکن بینہ و بین المسجد طریق عام (الھندیۃ 1/88)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر مسجد کی انتظامیہ یا اہل محلہ کی جانب سے امام صاحب کو مسجد میں مکتب چلانے کی صراحتاً یا دلالۃ اجازت ہے، تو امام صاحب کا اجرت لے کر قرآن کریم حفظ وناظرہ پڑھانا درست ہے اور اگر اجازت نہ ہو تو پھر پڑھانا درست نہیں، بصورت اجازت ملحوظ رہے کہ مسجد کی بے ادبی نہ ہو اور احتیاطاً مسجد کی صفوں اور لائٹ وغیرہ کے استعمال سے پرہیز کرے۔(۱)
(۱) لا لأجل الطاعات مئل الأذان والحج والإمامۃ وتعلیم القرآن والفقہ ویفتی الیوم بصحتہا لتعلیم القرآن والفقہ والإمامۃ والأذان۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب في الاستئجار علی الطاعات‘‘: ج۹، ص:۷۶)
فلا یجوز لأحد مطلقا أن یمنع مؤمناً من عبادۃ یأتی بہا في المسجد لأن المساجد مابني إلا لہا في صلاۃ واعتکاف وذکر شرعي وتعلیم علم وتعلمہ۔ (ابن نجیم، البحرالرائق، ’’کتاب الصلاۃ، فضل استقبال القبلۃ بالفرج في الخلاء‘‘:ج۱، ص:۶۵۰، بیروت)

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص326

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:  قعدہ اخیرہ میں سلام سے پہلے عمداً حدث لاحق کردیا یعنی حدث کرکے نماز سے باہر نکلا تو فرض ساقط ہو جائے گا لیکن نماز واجب الاعادہ ہوگی اور اگر غیر اختیاری طور پر حدث لاحق ہوگیا تو بنا درست ہے۔(۱)

(۱) منہا الخروج بصنعہ کفعلہ المنافي لہا بعد تمامہا وإن کرہ تحریماً والصحیح أنہ لیس بفرض اتفاقاً قالہ الزیلعي وغیرہ وآثرہ المصنف وفي المجتبیٰ وعلیہ المتون۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مطلب في القنوت للنازلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۴۸)۔
 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص56

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام کے در میں کھڑے ہونے کو شامی نے مکروہ لکھا ہے اگر ضرورت ہی ہو تو امام کو چاہئے کہ قدم در سے باہر رکھے اور سجدہ در میں ہو جائے تو درست ہے۔ ورنہ بضرورت در میں کھڑے ہوکر نماز پڑھانے سے بھی نماز ہوجاتی ہے مگر اس سے بچنا ہی بہتر ہے۔
’’ویکرہ قیام الإمام وحدہ في الطاق وہو المحراب، ولا یکرہ سجودہ فیہ إذا کان قائماً خارج المحراب، ہکذا في التبیین‘‘(۱)
’’وکرہ … قیام الإمام في المحراب لا سجودہ فیہ وقدماہ خارجہ لإن العبرۃ للقدم۔ في معراج الدرایۃ من باب الإمامۃ: الأصح ما روي عن أبي حنیفۃ أنہ قال: أکرہ للإمام أن یقوم بین الساریتین أو زاویۃ أو ناحیۃ المسجد أو إلیٰ ساریۃ … لأنہ بخلاف عمل الأمۃ‘‘(۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب السابع، الفصل الثاني فیما یکرہ في الصلاۃ و ما لا یکرہ‘‘: ج ۲، ص: ۱۶۷۔
(۱) الحکصفي،  الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۲، ص:۴۱۴، زکریا دیوبند۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص181

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: ض بھی اور حروف کی طرح ایک مستقل حرف ہے یہ نہ ظاء ہے اور نہ طاء ہے۔ نہ دال ہے نہ دُواء ہے۔ نہ دُواد ہے اور نہ زواد ہے اس کو اس کی تمام صفات کے ساتھ ادا کرنا چاہئے اور جب اس کو اس کی پوری قواعد کی رعایت کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے تو اس کی آواز کسی قدر ظاء کے مشابہ ہوتی ہے؛ کیوںکہ ض اور ظ کا مخرج قریب قریب ہے فن قراء ت علمی ہونے کے ساتھ فنی، مشقی اور تمرینی ہے جو صرف کتابوں میں پڑھنے سے نہیں آتا؛ بلکہ اس کی ادائیگی کو باقاعدہ ماہر استاذ فن سے سیکھنا چاہئے تمام حروف میں ض کا مخرج سب سے مشکل ہے اس لیے کسی ماہر سے اس کی ادائیگی کو سیکھنا چاہئے۔ جو لوگ ض کو پُر دال یا باریک دال کے مشابہ پڑھتے ہیں یہ تو بالکل غلط ہے؛ کیوںکہ ض اور دال کے مخرجوں میں کئی صفات کا فرق ہے اور دونوں کے مخرج الگ الگ ہیں فن تجوید کی کتابوں میں ایسا ہی ہے۔ مکہ معظمہ اور مدینہ طیبہ کے قراء بھی قواعد کے تابع ہیں وہ قواعد سے اور قانون شریعت سے اور پر نہیں ہیں ان کا لحن اور ادائیگی زبان موٹی ہونے یا اہل زبان ہونے کی وجہ سے ایسی سمجھی جاتی ہے کہ دال پڑھ رہے ہیں حالاں کہ وہ ض کو اس کے مخرج سے ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ویسے جہاں کا یہ واقعہ ہے وہاں کے قاری صاحب کا قرآن میں نے سنا ہے وہ فن اور لحن کے لحاظ سے قرآن حکیم قراء ت کے قواعد سے پڑھتے ہیں نمازیوں کو مطمئن رہنا چاہئے ویسے کوشش کے باوجود اگر ادائیگی ہو رہی ہے اس سے نماز پر کوئی اثرنہیں پڑتا۔(۱)

(۱) وإن ذکر حرفاً مکان حرف وغیر المعنی، فإن أمکن الفصل بین الحرفین من غیر مشقۃ کالطاء مع الصاد، فقرأ الطالحات مکان الصالحات تفسد صلاتہ عند الکل۔  وإن کان لا یمکن الفصل بین الحرفین إلا بمشقۃ، کالظاء مع الضاد، والصاد مع السین والطاء مع التاء، اختلف المشایخ فیہ، قال أکثرہم: لا تفسد صلاتہ … ولو قرأ الدالین بالدال تفسد صلاتہ۔ (قاضي خان،  فتاویٰ قاضی خان، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في قراء ۃ القرآن الخ‘‘: ج ۱، ص:۸۸، فیصل دیوبند)
وإن کان لا یمکن الفصل بین الحرفین إلا بمشقۃ کالظاء مع الضاد والصاد مع السین والطاء مع التاء اختلف المشایخ قال أکثرہم لا تفسد صلاتہ۔ ہکذا في فتاوی قاضي خان۔ وکثیر من المشایخ أفتوا بہ۔ (جماعۃ من علماء الہندیۃ، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’ ‘‘: ج ۱، ص:۱۳۷، زکریا)
أعلی حافۃ اللسان وما یحاذیہا من الضراس العلیا، یخرج منہ الضاد المعجمۃ بشرط اعتماد رأس اللسان العلیین الخ۔ (زبدۃ ترتیل القرآن: ص: ۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص284

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس شخص کو رمضان میں وتر کی نماز جماعت کے ساتھ ہی پڑھنی چاہئے کہ اس میں جماعت کا ثواب ملتا ہے یہ ہی بہتر ہے۔(۱)

(۱) ولا یصلي الوتر ولا التطوع بجماعۃ خارج رمضان، إن الجماعۃ في التطوع لیست بسنۃ یفید عدمہ۔ (الحصکفي ، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ:باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۰)
ویؤتر بجماعۃ في رمضان فقط، علیہ إجماع المسلمین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثامن في صلاۃ الوتر‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۶، ط: المکتبۃ الفیصل دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص402