Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2220/44-2347
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عورتوں کا نماز تراویح پڑھنے کے لئے مسجد جانا مناسب نہیں ہے۔ نمازیں ثواب کے لئے ہیں، اور عورتوں کو ثواب گھر پر نماز پڑھنے میں زیادہ ملتاہے، تو ان کو مسجد جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم اگر کسی جگہ تمام احتیاطی تدابیر کے ساتھ نماز تراویح کا نظم ہے اور عورتیں جاتی ہیں تو صحت اقتداء کے لئے صفوں کے درمیان اتصال ضروری ہے، اورمردوعورت کے درمیان دو صف یا اس سے کم کا فاصلہ ہونا چاہئے اگرتین صف یازیادہ کا فاصلہ ہوا تو اقتداء درست نہیں ہوگی ۔
" عن عبد الله ، عن النبي صلى الله عليه وسلم ، قال : صلاة المرأة في بيتها أفضل من صلاتها في حجرتها ، وصلاتها في مخدعها أفضل من صلاتها في بيتها". (المستدرك 405 - (1 / 209)
"عن عائشة ، رضي الله عنها ، قالت: لو أدرك رسول الله صلى الله عليه وسلم ما أحدث النساء لمنعهن كما منعت نساء بني إسرائيل، قلت لعمرة: أو منعن؟ قالت: نعم". (صحيح البخاري (1 / 219) ط: سعید)
"(ويكره حضورهن الجماعة) ولو لجمعة وعيد ووعظ (مطلقاً) ولو عجوزاً ليلاً (على المذهب) المفتى به؛ لفساد الزمان، واستثنى الكمال بحثاً العجائز والمتفانية". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (1 / 566) ط: سعید)
"(ويمنع من الاقتداء) صف من النساء بلا حائل قدر ذراع أو ارتفاعهن قدر قامة الرجل، مفتاح السعادة أو (طريق تجري فيه عجلة) آلة يجرها الثور (أو نهر تجري فيه السفن) ولو زورقًا ولو في المسجد (أو خلاء) أي فضاء (في الصحراء) أو في مسجد كبير جدًّا كمسجد القدس (يسع صفين) فأكثر إلا إذا اتصلت الصفوف فيصح مطلقًا. (قوله: تجري فيه عجلة) أي تمر، وبه عبر في بعض النسخ. والعجلة بفتحتين. وفي الدرر: هو الذي تجري فيه العجلة والأوقار اھ وهو جمع وقر بالقاف. قال في المغرب: وأكثر استعماله في حمل البغل أو الحمار كالوسق في حمل البعير (قوله: أو نهر تجري فيه السفن) أي يمكن ذلك، ومثله يقال في قوله: تمر فيه عجلة ط. وأما البركة أو الحوض، فإن كان بحال لو وقعت النجاسة في جانب تنجس الجانب الآخر، لايمنع وإلا منع، كذا ذكره الصفار إسماعيل عن المحيط. وحاصله: أن الحوض الكبير المذكور في كتاب الطهارة يمنع أي ما لم تتصل الصفوف حوله كما يأتي (قوله ولو (زورقًا)) بتقديم الزاي: السفينة الصغيرة، كما في القاموس. وفي الملتقط: إذا كان كأضيق الطريق يمنع، وإن بحيث لايكون طريق مثله لايمنع سواء كان فيه ماء أو لا ... (قوله: ولو في المسجد) صرح به في الدرر والخانية وغيرهما (قوله: أو خلاء) بالمد: المكان الذي لا شيء به قاموس". (1/584، 585، باب الإمامة، کتاب الصلاة، ط: سعید)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں مذکورہ مسجد کے متولی اور ذمہ داران حضرات اپنے سابقہ امام کی دیرینہ خدمات اور آئندہ کی متوقع خدمات کے پیش نظر خدمت کرنا چاہیں تو مسجد کے فنڈ سے ان کی خدمت وظیفہ، تنخواہ یا پینشن کی صورت میں کرسکتے ہیں اور جب تک مناسب سمجھیں یہ خدمات جائز ہوں گی۔(۱)
(۱) ویفتی الیوم بصحتہا لتعلیم القرآن والفقہ والإمامۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الإجارۃ باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب في الاستئجار علی الطاعات‘‘: ج۹، ص: ۷۶)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص327
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اگر مسجد صغیر ہے تو تین چار صف کے آگے سے بھی گزرنا گناہ ہے اور اگر مسجد کبیر ہے تو گناہ نہیں۔(۱)
’’أو مرورہ بین یدیہ إلیٰ حائط القبلۃ في بیت ومسجد صغیر فإنہ کبقعۃ واحدۃ مطلقاً‘‘(۲)
(۱) (ومرور مار في الصحراء أو في مسجد کبیر بموضع سجودہ) في الأصح (أو) مرورہ (بین یدیہ) إلی حائط القبلۃ (في) بیت و (مسجد) صغیر، فإنہ کبقعۃ واحدۃ (مطلقا) (قولہ ومسجد صغیر) ہو أقل من ستین ذراعا، وقیل من أربعین، وہو المختار کما أشار إلیہ في الجواہر قہستاني (قولہ فإنہ کبقعۃ واحدۃ) أي من حیث أنہ لم یجعل الفاصل فیہ بقدر صفین مانعا من الاقتداء تنزیلا لہ منزلۃ مکان واحد، بخلاف المسجد الکبیر فإنہ جعل فیہ مانعا فکذا ہنا یجعل ما بین یدي المصلي إلی حائط القبلۃ مکانا واحدا، بخلاف المسجد الکبیر والصحراء فإنہ لو جعل کذلک لزم الحرج علی المارۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب مایفسد الصلاۃ، ومایکرہ فیہا،مطلب إذا قرأ قولہ -تعالٰی- جدک بدون ألف لاتفسد‘‘: ج۲، ص: ۳۹۸)
وکذا مرور المار في أي موضع یکون من المسجد بمنزلۃ مرورہ بین یدیہ وفي موضع سجودہ وإن کان المسجد کبیرا بمنزلۃ الجامع قال بعضہم: ہو بمنزلۃ المسجد الصغیر فیکرہ المرور في جمیع الأماکن، وقال بعضہم: ہو بمنزلۃ الصحراء (قولہ إن کان المسجد صغیرا) وہو أقل من ستین ذراعا وقیل من أربعین وہو المختار قہستاني عن الجواہر، کذا في حاشیۃ شرح مسکین للسید محمد أبي السعود قلت: وفي القہستاني أیضا، وینبغي أن یدخل فیہ الدار والبیت۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب مایفسد الصلاۃ، ومایکرہ فیہا، الأکل والشرب فی الصلاۃ‘‘: ج۲، ص: ۱۷)
(۲) أیضًا:
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص443
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: وقت ضرورت اس کی گنجائش ہے باقی تمام شرائط کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔(۲)
(۲) یستفاد مما في الفتاوی الہندیۃ: صورۃ الاستخلاف أن یتأخر مُحدَوْدِبًا … ویقدم من الصف الذي یلیہ … ولہ أن یستخلف ما لم یجاوز الصفوف في الصحراء وفي المسجد ما لم یخرج عنہ کذا في التبیین۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲،ص: ۵۵۴)۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص56
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: سردی کی وجہ سے مسجد کے اندرونی حصہ کے کواڑ بند کرکے نماز جائز ہے اور درست ہے اس میں کوئی کراہت نہیں ہے۔(۲)
(۲) فلا یضر غلق باب القلعۃ لعدو أو لعادۃ قدیمۃ، لأن الإذن العام مقرر …لأہلہ وغلقہ لمنع العدو لا المصلي؛ نعم لو لم یغلق لکان أحسن کما في مجمع الأنہر۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب الجمعۃ‘‘: ج۳، ص: ۲۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص182
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: اس صورت میں نماز صحیح ہوگئی ہے اور سجدہ سہو واجب نہیں ہے اور اگر یہ سمجھ کر سجدہ سہو کر لیا کہ اگر سہو کا سجدہ لازم ہوا ہو تو وہ ادا ہوجائے تب بھی نماز صحیح ہوگئی۔(۱)
(۱) و إن ذکر آیۃ مکان آیۃ ان وقف علی الأولی وقفاً تاماً وابتدأ بالثانیۃ لا تفسد صلاتہ۔ کما لو قرأ {والتین والزیتون} ووقف ثم ابتدأ {لقد خلقنا الانسان في کبد} لا تفسد صلاتہ، وکذا لو قرأ {إن الذین آمنوا وعملوا الصٰلحٰت} ووقف ثم قرأ {اولئک ہم شر البریۃ} وإن لم یقف وقرأ موصولاً إن لم تتغیر الأولیٰ بالثانیۃ، کما لو قرأ {إن الذین آمنوا وعملوا الصالحات فلہم جزاء الحسنی} أو قرأ {وجوہ یومئذ علیہا غبرۃ أولئک ہم الکافرون حقاً} لا تفسد (، قاضی خان، فتاویٰ قاضي خان، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في قرائۃ القرآن الخ‘‘: ج ۱، ص:۹۷، فیصل دیوبند)
(ومنہا ذکر آیۃ مکان آیۃ) لو ذکر آیۃ مکان آیۃ إن وقف وقفا تاماً ثم ابتدأ بآیۃ أخری أو ببعض آیۃ، لا تفسد کما لو قرأ {والعصر إن الإنسان} (سورۃ العصر: ۱، ۲) ثم قال {إن الأبرار لفي نعیم} (سورۃ الانفطار: ۱۳) أو قرأ: {والتین} (سورۃ التین: ۱) إلی قولہ: {وہذا البلد الأمین} (سورۃ التین: ۳) ووقف ثم قرأ: {لقد خلقنا الإنسان في کبد} (سورۃ البلد: ۴) أو قرأ: {إن الذین آمنوا وعملوا الصالحات} (سورۃ البینۃ: ۷) ووقف ثم قال {أولئک ہم شر البریۃ} (سورۃ البینۃ: ۶) لا تفسد۔ (جماعۃ من علماء الہندیۃ، ’’الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۸،زکریا)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص286
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: تہجد کی نماز سنت ہے اور سنت کی قضاء نہیں ہوتی، ہاں اگر کوئی شخص پورے سال سنت کا عادی ہو اور کسی دن آنکھ نہ کھلنے کی وجہ سے اس کی تہجد کی نماز فوت ہو جائے تو طلوع آفتاب کے بعد اشراق کے وقت سے دوپہر سے پہلے پہلے اتنی ہی رکعات پڑھ لے تو امید ہے کہ تہجد کے ثواب سے محروم نہیں ہوگا۔(۲)
’’وکان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا صلی صلاۃ أحب أن یداوم علیہا وکان إذا غلبہ نوم أو وجع عن قیام اللیل صلی من النہار اثنتي عشرۃ رکعۃ‘‘(۳)
(۲) من قام عن حزبہ أو نام عن شيء فقرأہ بین صلاۃ الفجر وصلاۃ الظہر کتب لہ کأنہا قرأہ من اللیل۔ (أخرجہ مسلم في صحیحہ، ج۲، ص۳۱۵،رقم: ۷۴۷)
(۳) أخرجہ مسلم، في صحیحہ: ج ۱، ص: ۵۱۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص402
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 40/1081
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قرآن پاک مکمل تراویح میں سننا سنت ہے ضروری نہیں ہے۔ اگر اس کے لئے اچھے قاری ملیں تو اس سنت پر عمل کرنا چاہئے۔ جن جگہوں پر حافظ نہ ملیں یا اچھے پڑھنے والے نہ ہوں وہاں اچھے پڑھنے والے امام سے الم تر کیف سے تراویح پڑھ لینی چاہئے۔ اتنا تیز پڑھنا، کہ الفاظ مکمل طور پر ادا نہ ہوتے ہوں یا پیچھے کھڑے حافظ و عالم کو بھی سمجھ میں نہ آتاہو، درست نہیں ہے بلکہ نماز کے فاسد ہونے کا بھی خطرہ ہے۔ غلطیاں اور بھول ہوجایا کرتی ہیں ، اس کے لئے ایک سامع بھی رکھنا چاہئے۔ اور اگر حافظ صاحب سے غلطیاں اور بھول بکثرت صادر ہوتی ہوں ، لوگوں کو دشواری ہو اور تقلیل جماعت کا اندیشہ ہو تو کسی دوسرے حافظ صاحب کا انتظام کرلیا جائے اور وہ بھی نہ ہوسکے تو پھرالم ترکیف سے تراویح پڑھ لی جائے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: (۱) نجدیوں کے بارے میں جو بات آپ نے لکھی ہے اگر واقعی ایسا ہے تو ان کو عاصی اور گنہگار تو کہا جاسکتا ہے، لیکن کافر کہنا گناہ ہوگا، اس لیے کہ جو کافر نہ ہو اس کو کافر کہنا بہت بڑا گناہ ہے احادیث میں اس پر سخت وعید وارد ہوئی ہے۔(۱) نجدی عبدالوہاب نجدی کے پیروکار ہیں اور اس کے عقائد غیر مقلدوں سے ملتے جلتے ہیں اگرچہ وہ اپنے کو حنبلی یعنی امام احمد بن حنبل کے پیرو کار کہتے ہیں۔ بہر حال ان پر کفر کا فتویٰ لگانا حماقت ہے ان کے پیچھے نماز ہوجاتی ہے۔
(۲) مفتی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اچھا عالم ہو فقہ اور قانون اسلامی کی کتابیں اس نے پڑھی ہوں حالات زمانہ اور عرف سے واقفیت رکھتا ہو۔ جو صرف حافظ ہو اس کو فتویٰ دینے کا حق نہیں ہے اور اس سے فتویٰ لینا بھی درست نہیں ہے جو مسلمانوں کے عقائد خراب کرتا ہے اور ان میں فساد کراتا ہے یا اختلاف پیدا کرتا ہے یا اس کی کوشش کرتا ہے وہ اس بات کا اہل نہیں کہ اس کو امام رکھا جائے اس کو الگ کردینا ہی مناسب ہے۔(۲)
(۱) لایرمی رجل رجلا بالفسوق ولایرمیہ بالکفر إلا ارتدت علیہ إن لم یکن صاحبہ کذلک، (أخرجہ البخاری في صحیحہ، ’’کتاب الأدب، باب ماینہی عن السباب واللعن‘‘:ج۲، ص: ۸۹۳، رقم ۶۰۴۵)
(۲) وقد رأیت في فتاویٰ العلامۃ ابن حجر سئل في شخص یقرأ ویطالع في الکتب الفقہیۃ بنفسہ ولم یکن لہ شیخ ویفتی ویعتمد علی مطالعتہ في الکتب فہل یجوز لہ ذلک ام لا، فأجاب بقولہ: لایجوز لہ الافتاء بوجہ من الوجوہ، (شرح عقود رسم المفتی، ص: ۴۴، المکتبۃ العبدیۃ)
عن ابن مسعود قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ثلاثۃ لایقبل اللّٰہ منہم صلاۃ، من تقدم قوما وہم لہ کارہون۔ (أخرجہ أبوداؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب الرجل یؤم القوم وہم لہ کارہون‘‘:ج۱، ص: ۸۲، رقم: ۵۹۳)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص327
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: خطبہ شروع ہونے کے بعد اگر کوئی آئے تو اس کو جہاں جگہ بآسانی ملے وہیں بیٹھ جائے لوگوں کی گردنوں کو پھلانگتے ہوئے اور صفوں کو چیرتے ہوئے آگے پہنچنا مکروہ ہے، اس سے احتراز کرنا چاہئے۔(۱)
(۱) عن سہل بن معاذ بن انس الجھني، عن أبیہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: '' من تخطی رقاب الناس یوم الجمعۃ اتخذ جسرا إلی جہنم۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الجمعۃ، کتاب الجمعۃ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، باب ما جاء في کراہیۃ التخطي یوم الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۹۷، رقم: ۵۱۳)
ولا یتخطی رقاب الناس للدنو من الإمام وذکر الفقیہ أبو جعفر عن أصحابنا رحمہم اللہ تعالٰی أنہ لا بأس بالتخطی ما لم یأخذ الإمام في الخطبۃ ویکرہ إذا أخذ؛ لأن للمسلم أن یتقدم ویدنوا من المحراب إذا لم یکن الإمام في الخطبۃ لیتسع المکان علی من یجيء بعدہ وینال ……فضل القرب من الإمام فإذا لم یفعل الأول فقد ضیع ذلک المکان من غیر عذر فکان للذي جاء بعدہ أن یأخذ ذلک المکان، وأما من جاء والإمام یخطب فعلیہ أن یستقر في موضعہ من المسجد؛ لأن مشیہ وتقدمہ عمل في حالۃ الخطبۃ، کذا في فتاوی قاضي خان۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب السادس عشر في صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۲۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص444