نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نمازی کے سامنے سے گزرنا سخت منع ہے(۱) لیکن اگر کوئی شخص عین پیچھے نماز کی نیت باندھ کر کھڑا ہوجائے تو اگلا شخص وہاں سے اپنی ضرورت کے لیے ہٹ جائے تو یہ ممنوع نہیں ہے(۲) حضرت عائشہؓ کی روایت میں ہے کہ میرے پیچھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا فرماتے اور میں کھسک جایا کرتی تھی۔(۳)

(۱) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لویعلم الماربین یدي المصلي ماذا علیہ لکان أن یقف أربعین خیرالہ من أن یمربین یدیہ، قال أبوالنضرلاأدري، قال أربعین یوما أوشہرا أوسنۃ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب إثم الماربین یدي المصلي‘‘: ج۱، ص: ۷۴،رقم: ۵۱۰)
إن کعب الأحبارقال لویعلم الماربین یدي المصلي ماذا علیہ لکان أن یخسف بہ خیرالہ من أن یمربین یدیہ (موطا إمام مالک،کتاب الصلاۃ،التشدید في أن یمر أحدبین یدي المصلي، ص: ۱۵۳، مطبوعہ کراچی)۔
(۲) أراد المرور بین یدی المصلی فإن کان معہ شییٔ یضعہ بین یدیہ ثم یمر ویأخذہ، ولو مر إثنان یقوم أحدہما أمامہ ویمر الآخر ویفعل الآخر، ہکذا یمران۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج۲، ص: ۴۰۱)
(۳) عن عائشۃ، قالت: أعدلتمونا بالکلب والحمار لقد رأیتني مضطجعۃ علی السریر، فیجيء النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فیتوسط السریر، فیصلي، فأکرہ أن أسنحہ، فأنسل من قبل رجلي السریر حتی أنسل من لحافي۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب إلی السریر‘‘: ج۱، ص: ۱۰۷، رقم: ۵۰۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص445

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: ذکر کردہ سوال میں آنے والا شخص جب دیکھے کہ امام صاحب ایک سلام پھیر چکے ہیں تو اس کے لیے اقتدا کرنا درست نہیں ہے، اس لیے کہ لفظ سلام کہنے سے نماز ختم ہوگئی اب آنے والا شخص تکبیر تحریمہ کہہ کر اپنی نماز کو علیحدہ شروع کرے اور اس شخص کو اپنے آپ کو مقتدی سمجھنا صحیح نہیں ہے۔ جیسا کہ علامہ ابن عابدین نے رد المحتار میں لکھا ہے:
’’(قولہ: وتنقضي قدوۃ بالأول) أي بالسلام الأول۔ قال في التجنیس: الإمام إذا فرغ من صلاتہ۔۔۔ فلما قال: السلام جاء رجل و اقتدی بہ قبل أن یقول: علیکم لایصیر داخلًا في صلاتہ؛ لأنّ ہذا سلام؛ ألا تری أنہ لو أراد أن یسلم علی أحد في صلاتہ ساہیًا، فقال: السلام ثم علم فسکت تفسد صلاتہ‘‘(۱)
’’وتنقطع بہ التحریمۃ بتسلیمۃ واحدۃ … وتنقضی قدوۃ بالأول قبل علیکم علی المشہور۔ قال في التجنیس: الإمام إذا فرغ من صلاتہ، فلما قال السلام جاء رجل واقتدی بہ قبل أن یقول : علیکم لا یصیر داخلا في صلاتہ‘‘(۲)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب لا ینبغي أن یعدل عن الدرایۃ إذا وافقتہا روایۃ‘‘: ج۲، ص:۱۶۲، ط:زکریا، دیوبند۔
(۲) الحصکفي و ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۶۲، ۲۳۹، ط: زکریا دیوبند۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص58

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسا کرنا مکروہ تحریمی ہے اور عمل کثیر پایا جائے تو نماز ہی ٹوٹ جاتی ہے اور عمل کثیر یہ ہے کہ دیکھنے والے کو محسوس ہو کہ نماز نہیں پڑھ رہا ہے اس لیے اس عمل سے امام کو بچنا چاہئے۔
’’إن اللّٰہ کرہ ثلاثاً: العبث في الصلاۃ والرفث في الصیام والضحک في المقابر‘‘(۲)
’’ویکرہ أیضاً أي یکف ثوبہ وہو في الصلاۃ بعمل قلیل بأن یرفع بین یدیہ أو من خلفہ عند السجود … ویکرہ للمصلي أن یعبث بثوبہ أو بجسدہ لقولہ علیہ السلام : ان اللّٰہ تعالیٰ کرہ لکم ثلاثاً وذکر منہا العبث في الصلاۃ ولا العبث خارج الصلاۃ حرام فما ظنک في الصلاۃ‘‘(۱)
’’یکرہ للمصلي أن یعبث بثوبہ أو لحیتہ أو جسدہ، وإن یکف ثوبہ بأن یرفع ثوبہ من بین یدیہ أو من خلفہ إذا أراد السجود‘‘(۲)
’’وکرہ عبثہ بثوبہ وبدنہ‘‘(۳)

(۲) أخرجہ ابن خزیمۃ، في الصحیح: ص: ۲۰۹۔
(۱) المرغیناني، الہدایۃ، ’’باب ما یفسدالصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۹؛ وابن الہمام، فتح القدیر: ج ۱، ص: ۳۵۹۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب السابع، الفصل الثاني فیما یکرہ في الصلاۃ وما لا یکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۴۔
(۳) ابن نجیم، البحر الرائق: ج ۲، ص: ۱۶-۳۳، زکریا۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص183

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: صورت بالا میں آیت{ولا نساء من نساء عسیٰ أن یکن خیر منھن} میں عسی کی جگہ حتی پڑھنے سے معنی میں کوئی بڑی خرابی پیدا نہیں ہوئی، اس لیے نماز درست ہوجائے گی۔ لوٹانے کی ضرورت نہیں۔
’’(ومنہا) ذکر کلمۃ مکان کلمۃ علی وجہ البدل۔ إن کانت الکلمۃ التي قرأہا مکان کلمۃ یقرب معناہا وہي في القرآن، لا تفسد صلاتہ نحو: إن قرأ مکان العلیم الحکیم وإن لم تکن تلک الکلمۃ في القرآن لکن یقرب معناہا، عن أبي حنیفۃ ومحمد رحمہما اللّٰہ تعالی: لا تفسد وعن أبي یوسف رحمہ اللّٰہ تعالی: تفسد نحو إن قرأ التیابین مکان التوابین وإن لم تکن تلک الکلمۃ في القرآن ولا تتقاربان في المعنی۔ تفسد صلاتہ بلا خلاف إذا لم تکن تلک الکلمۃ تسبیحا ولا تحمیدا ولا ذکرا، وإن کان في القرآن ولکن لا تتقاربان في المعنی نحو إن قرأ: وعدا علینا إنا کنا غافلین مکان فاعلین ونحوہ مما لو اعتقدہ یکفر تفسد عند عامۃ مشایخنا، وہو الصحیح من مذہب أبي یوسف رحمہ اللّٰہ تعالی۔ ہکذا في الخلاصۃ‘‘(۱)
’’’’فالأصل فیہا عند الإمام ومحمد رحمہما اللّٰہ تعالی تغیر المعنی تغیرا فاحشا، وعدمہ للفساد، وعدمہ مطلقا سواء کان اللفظ موجودا في القرآن، أو لم یکن وعند أبي یوسف رحمہ اللّٰہ : إن کان اللفظ نظیرہ  موجودا في القرآن لا تفسد مطلقا تغیر المعنی تغیرا فاحشا أو لا وإن لم یکن موجودا في القرآن تفسد مطلقا‘‘(۲)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الھندیۃ، ’’الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷، زکریا دیوبند۔
(۲) حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی، ’’باب ما یفسد الصلاۃ‘‘: ص: ۳۳۹۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص288

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ فی السوال وقت میں نوافل پڑھنا بلا شبہ درست ہے۔(۱)

(۱) التطوع المطلق یستحب أداء ہ في کل وقت، کذا في محیط السرخسي۔ (جماعۃ من علماء الھند، الفتاوی الھندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۲، زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص404

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام کی عزت اور احترام کے پیش نظر تو یہ ہونا چاہئے کہ اگر بغیر شرعی ثبوت کے کوئی بھی الزام تراشی کرے تو حتی الامکان اس کے دفعیہ کی پوری کوشش کریں چہ جائیکہ خود متولی بھی اپنے امام پر الزام لگائیں اور بلا ثبوت شرعی الزام تراشی کریں جب کہ ایسا کرنے والے خود بھی گناہگار ہیں اور ان کے ساتھ لگنے والے بھی گناہگار ہوں گے، حالاں کہ ایسی الزام تراشیوں سے پرہیز ہر مسلمان کا فرض ہے برآں مزید کہ امام صاحب معافی بھی مانگ رہے ہیں پھر بھی کس قدر سخت دل ہیں وہ حضرات کہ غلطی (اگر بالفرض ہو گئی ہو) کو معاف نہیں کرتے اور (۱) مذکورہ صورت میں امام صاحب کی بات کو صحیح مانا جائے گا ان کی امامت درست اور جائز ہوگی اس میں شک نہ کیا جائے، قانون شریعت کے تسلیم کرنے میں ہی ہماری نجات ہے۔
(۱) {وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِط وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَہج ۱۳۴} (سورۃ آل عمران: ۱۳۴)
متولی المسجد لیس لہ أن یحمل سراج المسجد إلی بیتہ ولہ أن یحملہ من البیت إلی المسجد، کذا في فتاویٰ
 قاضي خان۔  (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الوقف، الباب الحادي عشر: في المسجد ومایتعلق بہ، الفصل الثاني في الوقف وتصرف القیم وغیرہ‘‘: ج۲، ص: ۴۱۲)
ولا تجوز إعارۃ أدواتہ لمسجد آخر ۱ھـ۔ (ابن نجیم، الأشباہ والنظائر، ص: ۴۷۱) (أیضًا:)

ولا تجوز إعارۃ الوقف والإسکان فیہ کذا في المحیط السرخسي، ۱ہـ ، (أیضًا:)
متولي المسجد لیس لہ أن یحمل سراج المسجد إلی بیتہ ولہ أن یحملہ من البیت إلی المسجد، کذا في فتاویٰ قاضي خان ۱ہـ، (أیضًا:)
ولا تجوز إجارۃ الوقف إلا بأجر المثل، کذا في المحیط السرخسي، (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الوقف، الفصل الثاني في الوقف وتصرف القیم، وغیرہ في مال الوقف علیہ‘‘: ج۲، ص: ۴۱۲)۔

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص330

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: کوئی حرج نہیں شروع کرسکتا ہے۔ تاہم اگر جگہ کی تنگی نہ ہو یا جماعت میں شرکت کی مجبوری نہ ہو تو نمازی کے سامنے سے گزرنے کی وعید کی وجہ سے اس سے بھی بچنا بہتر ہے۔(۱)

(۱) ولو من إثنان یقوم أحدہما أمامہ، ویمر الآخر، ویفعل الآخر بکذا، ویمران، کذا في القنیۃ۔ (ابن عابدین،  ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج۲، ص: ۴۰۱)
(اتفق الفقہاء علی أنہ أن یستتر المصلي بکل ما انتصب من الأشیاء کالجدار والشجر والأسطوانۃ والعمود، أو بما غرز کالعصا والرمح والسہم وما یصبح شاکلہا، وینبغي أن یکون ثابتا غیر شاغل للمصلي عن الخشوع - (الموسوعۃ الفقہیہ، ج۲۴، ص: ۱۷۸، ما یجعل سترۃ)
وشمل کل ما انتصب کإنسان قائم أو قاعد أو دابۃ کما في القہستاني والحلبي، وجوز في القنیۃ بظہر الرجل، ومنع بوجہہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوی علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في اتخاذ السترۃ‘‘: ج۱، ص: ۲۰۰، ۲۰۱، ط: مصطفی الحلبي)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص446

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جو تشہد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے نماز میں وہی پڑھا جائے، کوئی نماز کی کتاب دیکھ لیں وہی معروف ہے اپنی طرف سے کوئی زیادتی یا کمی نہ کی جائے اور شرک کا جو احتمال سوال میں لکھا ہے وہ خالی وسوسہ ہے، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔(۱)

(۱) إذا جلس أحدکم فلیقل التحیات للّٰہ والصلوات والطیبات السلام علیک أیہا النبي ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ، السلام علینا وعلی عباد اللّٰہ الصالحین۔ فإنکم إذا قلتم ذلک أصاب کل عبد صالح في السماء والأرض أو بین السماء والأرض، أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ وأشہد أن محمداً عبدہ ورسولہ۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب التشہد‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۶، رقم: ۹۶۸، مکتبہ: نعیمیہ دیوبند)
 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص360

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: مسبوق کی ایک رکعت چھوٹی تھی جو وہ امام کی نماز کے مکمل ہونے کے بعد ادا کرے گا، اور درمیان میں حدث لاحق ہونے سے چونکہ وہ لاحق ہو گیا تو یہ شخص وضو کر کے نماز کی بناء کرے گا اور پھر امام کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی چھوٹی ہوئی ایک رکعت ادا کرے گا اور امام کی غلطی کی وجہ سے اس پر الگ سے کوئی سجدہ سہو لازم نہیں ہوگا اس لئے اپنی نماز کے دوران جو واجب ترک ہوا اس کی بناء پر ایک سجدۂ سہو ہی کافی ہوگا دو سجدۂ سہو کی ضرورت نہیں ہے۔
’’والمسبوق یسجد مع إمامہ مطلقاً ثم یقضي ما فاتہ، ولو سہا فیہ سجد ثانیا۔ قولہ: ولو سہا فیہ، أي فیما یقضیہ بعد فراغ الإمام یسجد ثانیا لأنہ منفرد فیہ، والمنفرد یسجد لسہوہ، وإن کان لم یسجد مع الإمام لسہوہ ثم سہا ہو أیضاً کفتہ سجدتان عن السہوین، لأن السجود لا یتکرر‘‘(۱)

(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۷، زکریا؛ وفتاویٰ محمودیہ: ج ۶، ص: ۵۷۰۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص59

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: عمامہ کا پیچ اگر ماتھے پر اس طرح ہو کہ سجدہ کرتے وقت زمین کی سختی محسوس نہ ہو تو اس صورت میں سجدہ ادا نہ ہوگا تاہم اگر زمین کی سختی محسوس ہو رہی ہے تو
عمامہ کے ماتھے پر ہوتے ہوئے سجدہ تو ادا ہو جائے گا؛ لیکن بلا عذر ایسا کرنا مکروہ تنزیہی ہے۔ ملحوظ رہے کہ اگر عمامہ سر پر ہو اورسجدہ کی حالت میں زمین سے اس طرح لگا ہو کہ اس کی وجہ سے ماتھا زمین سے نہ لگے، اوپر کو اٹھا رہے تو ایسی صورت میں سجدہ ادا نہیں ہوگا۔(۱)

(۱) ویکرہ السجود علی کور عمامتہ من غیر ضرورۃ حر أو برد أو خشونۃ أرض والکور دور من أدوارہا بفتح الکاف إذا کان علی الجبہۃ لأنہ حائل لایمنع السجود، أما إذا کان علی الرأس وسجد علیہ ولم تصب جبہتہ الأرض لاتصح صلاتہ وکثیر من العوام یفعلہ … الظاہر أن الکراہۃ تنزیہیۃ۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في المکروہات‘‘: ص: ۳۵۵، شیخ الہند دیوبند)
کما یکرہ تنزیہا بکور عمامتہ۔ إلا بعذر وان صح عندنا بشرط کونہ علی جبہتہ۔ کلہا أو بعضہا کما مرو أما إذا کان الکور علی رأسہ فقط وسجد علیہ مقتصراً أي ولم تصب الأرض جبہتہ ولا أنفہ علی القول بہ لایصح لعدم السجود علی محلہ وبشرط طہارۃ المکان وأن یجد حجم الأرض والناس عنہ غافلون۔ (الحصکفي، در المختار مع رد المحتار، ’’باب صفۃ الصلاۃ‘‘: سعید کراچی)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص184