نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: حدیث کی روایتوں میں محض وہی الفاظ ہیں جن کو صلاۃ التسبیح میں لوگ پڑھتے ہیں۔ سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الااللہ واللہ اکبر۔ مگر بعض روایات میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں اس لیے اگر کوئی شخص ’’ولا حول ولا قوۃ إلا باللّٰہ العلي العظیم‘‘ بھی پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے۔(۱)

(۱) قولہ وأربع صلاۃ التسبیح الخ … وہي أربع بتسلیمۃ أو تسلیمتین، یقول فیہا ثلاثمأۃ مرۃ سبحان اللّٰہ والحمد للّٰہ ولا إلہ إلا اللّٰہ واللّٰہ أکبر وفي روایۃ زیادۃ : ولا حول ولا قوۃ إلا باللّٰہ، الخ۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص:۴۷۱، مکتبہ سعید کراچی)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم قال للعباس بن عبد المطلب: یا عباس یا عماہ ألا أعطیک ألا أمنحک ألا أحبوک ألا أفعل بک عشر خصال … أن تصلي أربع رکعات الخ۔ (أخرجہ أبوداؤد في سننہ، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ التسبیح،ج۱، ص۱۸۳، ۱۸۴ )

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص404

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 920/41-57

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  صفوں کے درمیان اتصال ایک مسنون عمل ہے، اور اتصال صفوف کی احادیث میں بڑی تاکید آئی ہے۔ تاہم اندرونِ مسجد اگر صفوں میں انقطاع ہوجائے یا دو مصلی کے درمیان فاصلہ ہوجائے تو بھی نماز درست ہوجاتی ہے، گرچہ ایسا کرنا مکروہ ہے۔ لیکن موجودہ صورت حال کی بناء پر 'اھون البلیتین' کے طور پر مسجد کو بند کرنے سے بہتر ہے کہ محکمہ صحت کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے مطلوبہ فاصلہ باقی رکھا جائے۔ 

فناء المسجد کالمسجد فیصح الاقتداء وان لم تتصل الصفوف (الاشباہ ص 197) ( فتاوی دارالعلوم 3/135)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: ہر مقررہ امام کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ محراب سنائے اور اگر امام صاحب اپنی کسی ذاتی مجبوری کی وجہ سے تراویح میں قرآن پاک نہیں پڑھ سکتے تھے تو ان کو مطعون کرنے والے یا ان کے خلاف اس سلسلہ میں آواز اٹھانے والے اور فتنہ برپا کرنے والے سخت غلطی پر ہیں اور فتنہ پردازی کی وجہ سے گنہگار بھی ہوتے ہیں اور ضروری ہے کہ ایسی حرکت سے باز آئیں۔ اور صورت مسئول عنہا میں امام مذکور کی امامت بلا شبہ بلا کراہت جائز و درست ہے۔(۱)
(۱) ولو أم قوما وہم لہ کارہون، إن) الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ یکرہ لہ ذلک تحریما؛ لحدیث أبي داؤد: لا یقبل اللّٰہ صلاۃ من تقدم قوما وہم لہ کارہون، (وإن ہو أحق لا)، والکراہۃ علیہم۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۷)
رجل أم قوما وہم لہ کارہون إن کانت الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ یکرہ لہ ذلک، وإن کان ہو أحق بالإمامۃ لا یکرہ، ہکذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘:ج۱، ص: ۸۷)

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص331

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اگر شدید عذر وتقاضا ہو تو جا سکتا ہے جیسے مسافر کی ٹرین چھوٹ جانے کا اندیشہ، یا پیشاب وپاخانہ کا شدید تقاضا ہو، آگ لگ گئی وغیرہ، بلا عذر ایسا کرنا جائز نہیں، نمازی کے آگے سے گزرنے پر سخت وعید ہے۔(۱)

(۱) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لویعلم الماربین یدي المصلي ماذا علیہ لکان أن یقف أربعین خیرالہ من أن یمربین یدیہ، قال أبوالنضرلاأدري، قال أربعین یوما أوشہرا أوسنۃ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب إثم الماربین یدی المصلي‘‘: ج۱، ص: ۷۴، رقم: ۵۱۰)
إن کعب الأحبارقال: لویعلم الماربین یدي المصلي ماذا علیہ لکان أن یخسف بہ خبرالہ من أن یمربین یدیہ۔ (أخرجہ مالک، في الموطأ، ’’کتاب الصلاۃ: التشدید في أن یمر أحد بین یدي المصلي‘‘: ص: ۱۵۳، مطبوعہ کراچی)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص447

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر مقتدی امام کے ساتھ رکوع میں اتنی دیر تک شامل ہوگیا کہ کم از کم ایک بار ’’سبحان ربي العظیم‘‘ کہا جا سکے، تو اس مقتدی کو رکوع مل گیا اور رکعت بھی مل گئی؛ بلکہ اگر نفس شرکت بھی پائی گئی کہ مقتدی رکوع میں گیا اور امام رکوع میں تھا پھر فوراً امام اٹھ گیا، تو بھی رکعت پانے والا کہلائے گا اور اگر رکوع میں شرکت بالکل نہیں پائی گئی تو رکعت نہیں ملی۔(۱)

(۱) ومن انتہی إلی الإمام في رکوعہ فکبر ووقف حتی رفع الإمام رأسہ لا یصیر مدرکاً لتلک الرکعۃ خلافاً لزفر ہو یقول أدرک الإمام فیما لہ حکم القیام فصار کما لو أدرکہ في حقیقۃ القیام ولنا۔ أن الشرط ہو المشارکۃ في أفعال الصلاۃ ولم یوجد لا في القیام ولا في الرکوع۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب إدراک الفریضۃ‘‘:ج۱، ص: ۱۵۳، مکتبہ: دار الکتاب دیوبند)
قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إنما جعل الإمام لیؤتم بہ فإذا کبر فکبروا وإذا رکع فارکعوا وإذا رفع فارفعوا۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ، باب ما جاء إذا صلی الإمام قاعدًا فصلوا قعودًا‘‘: ج ۱، ص: ۸۳)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص361

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئلہ میں نیز محدث شخص وضو کرنے بعد جب دیکھے کہ امام صاحب نماز سے فارغ ہوچکے ہیں تو بنا کرنے والا اپنی اصل جگہ واپس آکر یا کسی جگہ اس طرح چھوٹی ہوئی رکعت یا رکعتیں پڑھے گا جس طرح امام کے پیچھے پڑھتا ہے، یعنی: قرأت نہیں کرے گا، صرف اندازے سے امام صاحب کے قیام کے بہ قدر قیام کرے گا اور رکوع اور سجدہ وغیرہ حسب معمول کرے گا اور اس طرح چھوٹی رکعت یا رکعتیں ادا کرکے نماز مکمل کرے گا۔ جیسا کہ کتب فقہ میں اس کی تفصیل مذکور ہے۔
فتاویٰ ہندیہ میں مذکور ہے: جو شخص پہلی رکعت میں امام کے ساتھ شریک ہو، لیکن بعد میں کسی رکعت میں مثلاً سوتے رہ جانے، یا وضو ٹوٹ جانے وغیرہ کی وجہ سے شریک نہ ہو سکے، اسے لَاحِق کہا جاتا ہے۔
’’اللاحق وہو الذي أدرک أولہا وفاتہ الباقي لنوم أو حدث أو بقي قائما للزحام‘‘(۱)
’’واللاحق من فاتتہ الرکعات کلھا أو بعضھا لکن بعد اقتدائہ بعذر کغفلۃ وزحمۃ وسبق حدث الخ‘‘(۲)
’’فلو نام في الثالثۃ واستیقظ في الرابعۃ فإنہ یأتي بالثالثۃ بلا قراء ۃ۔ فإذا فرغ منھا صلی مع الإمام الرابعۃ، وإن فرغ منھا الإمام صلاھا وحدہ بلا قراء ۃ أیضاً‘‘(۳)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس ……في الإمامۃ، الفصل السابع في المسبوق واللاحق‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۰، مکتبہ فیصل دیوبند۔
(۲) الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: آخر باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۳، ۳۴۴، ط: مکتبہ زکریا دیوبند۔
(۳) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: آخر باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۵، ط: مکتبہ زکریا دیوبند نقلاً عن البحر۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص60

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: چین لگی ہوئی گھڑی باندھ کر نماز پڑھنا درست ہے؛ اس لیے کہ گھڑی عام طور پر زینت کے لیے نبض پر پہنی جاتی۔(۲)

(۲) ولا یتختم الا بالفضۃ لحصول الاستغناء بہا فیحرم لغیرہا کجہر وصحح السرخسي جواز الیشب والعقیق وعمم منلا خسرو وذہب وحدید وصفر ورصاص وزجاج وغیرہا لما مر۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’ ‘‘: ج ۶، ص: ۳۵۹، سعید کراچی)… التختم بالحدید والصفر والنحاس والرصاص مکروہ للرجال والنساء جمیعاً، وأما العقیق ففي التختم بہ اختلاف المشایخ، وصحیح في الذخیرۃ أنہ لایجوز وقال قاضي خان: الأصح أنہ یجوز۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ‘‘: ج ۵، ص: ۳۸۸، زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص185

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: وقت مکروہ نہ ہو اور جماعت شروع ہونے میں اتنا وقت ہو کہ تحیۃ المسجد پڑھی جا سکتی ہو تو پڑھ سکتا ہے ورنہ نہیں۔(۲)

(۲) (وأداء الفرض أو غیرہ الخ:) قال في النہر: وینوب عنہا کل صلاۃ صلاہا عند الدخول فرضاً کانت أو سنۃ۔ وفي البنایۃ معزیا أي مختصر المحیط أن دخولہ بنیۃ الفرض أو الاقتداء ینوب عنہا، وإنما یؤمر بہا إذا دخلہ لغیر الصلاۃ، والحاصل أن المطلوب من داخل المسجد أن یصلي فیہ لیکون ذلک تحیۃ لربہ تعالی: والظاہر أن دخولہ بنیۃ صلاۃ الفرض لإمام أو منفرد أو بنیۃ الاقتداء ینوب عنہا إذا صلی عقب دخولہ، وإلا لزم فعلہا بعد الجلوس وہو خلاف الأولی کما یأتي، (ینوب عنہا بلانیۃ) قال في الحلیۃ: لو اشتغل داخل المسجد بالفریضۃ غیرنا وللتحیۃ قامت تلک الفریضۃ مقام تحیۃ المسجد لحصول تعظیم المسجد، کما في البدائع وغیرہ۔ فلو نوی التحیۃ مع الفرض فظاہر ما في المحیط وغیرہ أنہ یصح عندہما۔ وعند محمد لایکون داخلا في الصلاۃ۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدرالمختار، کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، مطلب في تحیۃ المسجد: ج ۲، ص: ۴۵۹، زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص405

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں مکان دیا یا رقم دے کر مکان بنوایا اس کی دو صورتیں ہیں امام کو مذکورہ مکان امام ہونے کی حیثیت سے صرف رہائش کے لیے دیا مالک بناکر نہیں دیا یہ ہی صورت سوال سے معلوم ہوتی ہے تو مذکورہ مکان امام صاحب کی ملکیت نہیں ہوا اور امام صاحب کو اس کے فروخت کرنے کا کوئی حق حاصل نہ تھاامام صاحب نے ناحق مکان فروخت کیا  اس صورت میں امامت مکروہ ہوگی، اوردوسری صورت یہ کہ امام صاحب کو مکان کا مالک بنادیا گیا تھا اس صورت میںامام نے مکان فروخت کرلیا تو کوئی حرج نہیں اب مسجد کمیٹی یا متولی و مصلیان جو فیصلہ کریں اسی کے مطابق عمل ضروری ہے اگر ضرورت محسوس کریں تو فیصلہ کرکے اور صورتحال لکھ کر دارالافتاء سے رابطہ کرلیں اس کے بعد فیصلہ سنائیں۔ (۱)
(۱) قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لاتظلموا ألا لایحل مال إمرء إلا بطیب نفس منہ ولایجوز لأحد من المسلمین :أخذ مال أحد لغیر سبب شرعي۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، کتاب البیوع، باب الغصب والعاریۃ، ج۶، ص: ۵۲۰، رقم: ۲۹۶۴)
 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص332

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: (۱) اگر امام کے سامنے سترہ نہ ہو تو مقتدی کے سامنے سے گزرنا درست نہیں ہے، ہاں اگر پہلی صف میں جگہ خالی ہو تو صف پُر کرنے کے لیے مقتدی کے لیے  آگے سے گزرنے کی اجازت ہے۔
’’ولو وجد فرجۃ في الأول لا الثاني لہ خرق، الثاني لتقصیرہم وقال العلامۃ ابن عابدین: یفید أن الکلام فیما إذا شرعوا وفي القنیۃ: قال في آخر صف وبین الصفوف مواضع خالیۃ فللداخل أن یمر بین یدیہ لیصل الصفوف‘‘(۱)
(۲) اگر امام کے سامنے سترہ ہو تو وہ مقتدیوں کا بھی سترہ شمار ہوگا، لہٰذا اگر کوئی شخص نماز کے دوران مقتدیوں کی صف کے آگے سے گزرنا چاہے تو گزر سکتا ہے اس سے وہ گنہگار نہیں ہوگا۔
’’وکفت سترۃ الإمام للکل قولہ للکل أي المقتدین بہ کلہم وعلیہ فلو مر مار في قبلۃ الصف في المسجد الصغیر لم یکرہ إذا کان للإمام سترۃ‘‘(۲)
(۳، ۴) امام کا اگر سترہ ہو تو مقتدی کے سامنے سے گزرنا جائز ہے اور امام کے سامنے دیوار  بھی سترہ کے حکم میں ہے۔
’’یجوز أن یکون السترۃ ستارۃ معلقۃ إذا رجع أو سجد یحرکہا رأس المصلي ویزیلہا من موضع سجودہ ثم تعود إذا قام أو قعد‘‘(۳)
’’کان بین مصلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وبین الجدار ممر الشاۃ‘‘(۴)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في الکلام…علی الصف الأوّل‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۲۔
(۲) أیضًا:۔
(۳) أیضًا: ’’باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۰۔
(۴) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب قدرکم ینبغي أن یکون بین مصلي والسترۃ ‘‘: ج ۱، ص: ۵۱، رقم: ۴۹۶۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص448