نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: سنتوں میں چاروں رکعتوں میں ضم سورت واجب ہے،(۱) اگر کسی بھی رکعت میں چھوٹ جائے، تو ترک واجب کی وجہ سے سجدہ سہو لازم ہوگا، سجدہ سہو آخر میں کرلیا جائے، تو نماز صحیح اور درست ہوجائے گی اعادہ نہیں کرنا ہوگا(۲) اور اگر سجدہ سہو نہیں کیا تو اعادہ نماز کا واجب ہوگا۔

(۱) تفسیر قولہ علیہ السلام: لا یصلي بعد صلاۃ مثلہا یعني رکعتین بقرأۃ ورکعتین بغیر قراء ۃ فیکون بیان فرضیۃ القراء ۃ في رکعات النفل کلہا۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب النوافل‘‘: ج۱، ص: ۱۴۹، مکتبہ: دار الکتاب دیوبند)
والقراء ۃ واجبۃ في جمیع رکعات النفل وفي جمیع رکعات الوتر۔ (أیضًا: ص: ۱۴۸، مکتبہ: دار الکتاب دیوبند)
وہذا الضم واجب في الأولیین من الفرض وفي جمیع رکعات النفل والوتر۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۱۶، مکتبہ: زکریا دیوبند)
(۲) ویلزمہ (أي السہو) إذا ترک فعلا مسنونا کأنہ أراد بہ فعلا واجبا إلا أنہ أراد بتسمیتہ سنۃ أن وجوبہا بالسنۃ۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ، باب سجود السہو‘‘: ج۱، ص: ۱۵۷، مکتبہ: دار الکتاب دیوبند)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص361

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: مسافر امام کے دو رکعت پر سلام پھیرنے کے بعد باقی مقیم مقتدی اپنی دو رکعت اس طرح پوری کریں کہ اس میں قرأت نہ کریں؛ بلکہ تھوڑی دیر کھڑے رہ کر رکوع کریں، کیونکہ حکماً وہ مقتدی ہیں اور مقتدی کا قرأت کرنا مکروہ ہے، بہر حال نماز کے فاسد ہونے کا حکم نہیں ہوگا۔
’’إذا صلی المسافر بالمقیم رکعتین سلم وأتم المقیمون صلاتہم، لأن المقتدی التزم الموافقۃ في الرکعتین فینفرد في الباقي کالمسبوق، إلا أنہ لا یقرأ في الأصح لأنہ مقتد تحریمۃ لا فعلا والفرض صار مؤدي‘‘(۱)
’’وصح اقتداء المقیم بالمسافر في الوقت وبعدہ فإذا قام المقیم إلی الاتمام لا یقرأ ولا یسجد للسہو في الأصح لأنہ کاللاحق‘‘(۲)

(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۲۳۸، رشیدیہ۔…
(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ:  باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۶۱۰، ۶۱۱( زکریا؛ وفتاویٰ محمودیہ: ج ۶، ص: ۵۷۱)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص61

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں امام کو نو انچ کی اونچائی پر کھڑے ہونے سے کسی خاص امتیاز کا اظہار نہیں ہوتا ہے، لہٰذا مذکورہ صورت میں امام کا نماز پڑھانا بلا کراہت درست ہے، البتہ بلا ضرورتِ شرعی ایک ذراع جو شرعی گز کے اعتبار سے ۱۸ انچ کا ہوتا ہے، یا اس سے زیادہ اونچائی پر کھڑے ہوکر نماز پڑھانا مکروہ ہے۔ ہاں اگر کچھ مقتدی بھی ساتھ ہوں تو درست ہے۔(۱)

(۱) وانفراد الإمام علی الدکان للنہي وقدر الارتفاع بذراع ولا بأس بما دونہ وقیل ما یقع بہ الامتیاز وہو الأوجہ۔ ذکرہ الکمال وغیرہ وکرہ عکسہ في الأصح وہذا کلہ عند عدم العذر کجمعۃ وعید فلو قاموا علی الرفوف والإمام علی الأرض أو في المحراب لضیق المکان لم یکرہ۔ لو کان معہ بعض القوم في الأصح و بہ جرت العادۃ في جوامع المسلمین۔ (الحصکفي،  الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب مایفسد الصلاۃ،  وما یکرہ فیہا‘‘: ج۲، ص: ۴۱۵، زکریا دیوبند)
ویکرہ أن یکون الإمام وحدہ علی الدکان وکذا القلب في ظاہر الروایۃ، وکذا في الہدایۃ۔ وإن کان بعض القوم معہ قالا صح :أنہ لا یکرہ، کذا في محیط السرخسي۔ ثم قدر الارتفاع قامۃ، ولا بأس بما دونہا، ذکرہ الطحاوي وقیل : إنہ مقدر بما یقع بہ الامتیاز وقیل : بمقدار الذراع اعتبار بالسترۃ وعلیہ الاعتماد، کذا في التبیین۔ وفي غایۃ البیان ہو الصحیح، کذا في البحر الرائق۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع، الفصل الثاني فیما یکرہ في الصلاۃ، ومالایکرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۶۷، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص186

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرض نماز کے بعد سنن ونوافل پڑھنے کے لیے اپنی جگہ سے ہٹ کر حسب گنجائش جگہ بدلنا مستحب ہے۔(۱)

(۱) عن أبي ہریرۃ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: أیعجز أحدکم إذا صلی أن یتقدم أو یتأخر أو عن یمینہ أو عن شمالہ یعني في السبحۃ۔ (أخرجہ أبوداؤد، في سننہ :ص: ۸۵۴؛ واخرجہ ابن ماجہ، في سنہ: ص: ۱۴۱۷)
عن المغیرۃ بن شعبۃ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لایصلي الامام في الموضع الذی صلی فیہ حتی یتحول۔ (أخرجہ أبوداؤد، في سننہ: ص: ۶۱۶)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص406

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ مسجد مدرسہ کی ہے، اس کا نظم مدرسہ سے متعلق ہے لہٰذا اس مسجد میں جو بھی آمدنی ہوگی وہ مدرسہ میں جمع ہوگی اور مدرسہ والے اس کو جس طرح مناسب سمجھیں ضروریات مسجد پر صرف کریں۔ ذمہ داروں کو چاہے کہ امامت و اذان کہنے کے لیے اشخاص مقرر کرکے تنخواہ دی جائے تاکہ جماعت و اذان کے نظم میں خلل نہ پڑے۔(۲)
(۲) لا یجوز الاستیجار علی الأذان والحج وکذا الإمامۃ وتعلیم القرآن والفقہ والأصل أن کل طاعۃ یختص بہا المسلم لا یجوز الاستیجار علیہ عندنا۔ (المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ‘‘: ج ۳، ص: ۲۳۸)

قال ابن المنذر: ثبت أن رسول اللّٰہ قال لعثمان بن أبي العاص واتخذوا مؤذناً لا یأخذ علی أذانہ أجرأ وأخرج ابن حبان عن یحیی البکالی قال سمعت رجلا قال لإبن عمر إني لأحبک في اللّٰہ قال لہ ابن عمر إني لأبغضک فی اللّٰہ فقال سبحان اللّٰہ أحبک فی اللّٰہ وتبغضی فی اللّٰہ قال نعم إنک تسئل علی أذانک أجرا وروي عن ابن مسعود انہ قال أربع لا یوخذ علیہن أجر الأذان و قرأۃ القرآن والمقاسم والقضاء۔ (نیل الأوطار، ’’باب النہي عن أخذ الأجرۃ علی الأذان‘‘: ج۱، ص: ۳۷۵)
(إن أحق ما أخذتم علیہ أجرا کتاب اللّٰہ) (أخرجہ البخاري في صحیحہ، کتاب الإجارۃ، باب ما یعطي في الرقیۃ‘‘: ج۱، ص: ۳۰۴)

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص333

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: عورتوں کے سامنے آنے جانے سے نماز میں کوئی خلل نہیں ہوتا، نماز فاسد نہیں ہوتی؛ لیکن خشوع باقی نہیں رہتا اس لیے ایسی جگہ نماز پڑھے جہاں کسی کا گزر نہ ہو۔(۱)

(۱) والدلیل علی أن مرور المرأۃ لا یقطع الصلاۃ ما روي أن النبي کان یصلي في بیت أم مسلمۃ فأراد عمر بن أبي سلمۃ أن یمر بین یدیہ فأشار فوقف ثم أراد زینب أن تمر بین یدیہ فأشار علیہا فلم تقف فلما فرغ من صلاتہ، قال ہن أغلب صاحبات یوسف یغلبن الکرام ویغلبھن اللئام۔ (السرخسي، المبسوط: ج ۱، ص: ۳۵۰)
وتکرہ بحضرۃ کل ما یشغل البال کزینۃ وبحضرۃ ما یخل بالخشوع کلہو ولعب۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، فصل في المکروہات‘‘: ج ۱، ص: ۳۶۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص449

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ترک ضم سورت سے ترک واجب ہونے کی بنا پر سجدہ سہو لازم ہوگا بعد والی رکعت میں اس کی تلاوت کرنے سے سجدۂ سہو ساقط نہیں ہوگا؛ بلکہ سجدہ سہو بہر حال کرنا پڑے گا۔ (۳)

والقراء ۃ واجبۃ في جمیع رکعات النفل وفي جمیع رکعات الوتر۔ (أیضًا: ص: ۱۴۸، مکتبہ: دار الکتاب دیوبند)
وہذا الضم واجب في الأولیین من الفرض وفي جمیع رکعات النفل والوتر۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۱۶، مکتبہ: زکریا دیوبند)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص362

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: واضح رہے کہ حنفی مسلک میں مقتدی امام کے پیچھے قرأت نہیں کرتا ہے، اس لیے کہ امام کا قرأت کرنا ہی مقتدی کے لیے کافی ہے، جیسا کہ ابن ماجہ شریف میں ایک حدیث ہے:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: جو شخص امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہو تو امام کا قرأت کرنا مقتدی کا قرأت کرنا ہے۔
’’من کان لہ إمام فقراء ۃ الإمام لہ قراء ۃ‘‘(۱)
 مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ امام کی اقتداء میں جو مقتدی ہیں وہ قرأت نہیں کرے گا اور لاحق بھی تقدیراً امام کے پیچھے ہی سمجھا جاتا ہے اور وہ امام کی اقتدا کر رہا ہوتا ہے، اس لیے وہ لاحق بھی قرأت نہیں کرے گا؛ بلکہ سکوت اختیار کئے رہے گا۔
نیز لاحق کی نماز کا شرعی حکم کے بارے میں فقہاء نے لکھا ہے کہ: اگر جماعت کی نماز باقی ہو تو لاحق اس جماعت میں شریک ہو جا ئے ورنہ باقی چھوٹی ہوئی نماز تنہا پڑھ لے۔
لاحق اپنی چھوٹی ہوئی رکعتوں میں بھی مقتدی سمجھا جائے گا یعنی جیسے مقتدی قرأت نہیں کرتا ویسے ہی لاحق بھی قرأت نہ کرے گا، بلکہ سکوت کیے ہوئے کھڑا رہے گا۔ اور جیسے مقتدی کو اگر سہو ہو جائے تو سجدہ سہو کی ضرورت نہیں ہوتی ویسے ہی لاحق کو بھی ضرورت نہیں، جیسا کہ تبیین الحقائق میں ہے:
’’فصار اللاحق فیما یقضي کأنہ خلف الإمام تقدیراً۔  ولہذا لا یقرأ و لایلزمہ السجود بسہوہ الخ‘‘(۱)

(۱) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب: إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا، باب إذا قرأ الإمام فأنصتوا‘‘: ص: ۶۱، رقم: ۸۵۰۔
(۱) فخر الدین عثمان بن علي، تبیین الحقائق’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۵۳(زکریا دیوبند)۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص62

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جب حاکم نے منع کر رکھا ہے کہ ورکشاپ میں کوئی نماز نہ پڑھے؛ بلکہ رخصت لے کر باہر جا کر نماز پڑھے تو باہر ہی جاکر نماز پڑھنی چاہئے؛ کیوں کہ ورکشاپ ان کی مملوک ہے تو ممانعت کے بعد اس میں نماز پڑھنا ایسا ہے جیسا کہ زمین مغصوبہ میں نماز پڑھنا اور وہ مکروہ ہے؛ لہٰذا کیوں اپنی نماز کو مکروہ کیا جائے پھر شکایت ہوجانے پر اندیشہ سزا علاوہ ازیں ہے۔(۱)

(۱) الصلاۃ في أرض معضوبۃ جائزۃ، ولکن یعاقب بظلمہ، فما کان بینہ وبین اللّٰہ تعالیٰ یثاب، وما کان بینہ وبین العباد یعاقب۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع، فیما یفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، الفصل الثاني‘‘: ج۱، ص: ۱۶۸، زکریا دیوبند)
وتکرہ في أرض الغیر بلا رضاہ۔ (أحمد بن محمد،  حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في المکروہات‘‘: ص: ۳۵۸، شیخ الہند دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص187

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چوں کہ اکثر تہجد میں آٹھ رکعت پڑھی ہیں،اور تین رکعت وتر پڑھی ہیں؛ اس لیے فقہائے احناف نے آٹھ رکعت پر مواظبت کو مستحب قرار دیا ہے اور گنجائش نہ ہو، تو چار رکعت بھی کافی ہیں اس سے تہجد کا ثواب مل جائے گا۔(۱)

(۱) وصلاۃ اللیل وأقلہا … قال ویصلی ما سہل علیہ ولو رکعتین، والسنۃ فیہا ثمان رکعات بأربع تسلیمات۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مطلب في صلاۃ اللیل‘‘: ج ۲، ص:۶۸، ۶۶۷،زکریا دیوبند)
فینبغي القول بأن أقل التہجد رکعتان، و أوسطہ أربع وأکثرہ ثمان۔ (ابن عابدین، رد المحتار ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۶۸، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص406