Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئلہ میں نیز محدث شخص وضو کرنے بعد جب دیکھے کہ امام صاحب نماز سے فارغ ہوچکے ہیں تو بنا کرنے والا اپنی اصل جگہ واپس آکر یا کسی جگہ اس طرح چھوٹی ہوئی رکعت یا رکعتیں پڑھے گا جس طرح امام کے پیچھے پڑھتا ہے، یعنی: قرأت نہیں کرے گا، صرف اندازے سے امام صاحب کے قیام کے بہ قدر قیام کرے گا اور رکوع اور سجدہ وغیرہ حسب معمول کرے گا اور اس طرح چھوٹی رکعت یا رکعتیں ادا کرکے نماز مکمل کرے گا۔ جیسا کہ کتب فقہ میں اس کی تفصیل مذکور ہے۔
فتاویٰ ہندیہ میں مذکور ہے: جو شخص پہلی رکعت میں امام کے ساتھ شریک ہو، لیکن بعد میں کسی رکعت میں مثلاً سوتے رہ جانے، یا وضو ٹوٹ جانے وغیرہ کی وجہ سے شریک نہ ہو سکے، اسے لَاحِق کہا جاتا ہے۔
’’اللاحق وہو الذي أدرک أولہا وفاتہ الباقي لنوم أو حدث أو بقي قائما للزحام‘‘(۱)
’’واللاحق من فاتتہ الرکعات کلھا أو بعضھا لکن بعد اقتدائہ بعذر کغفلۃ وزحمۃ وسبق حدث الخ‘‘(۲)
’’فلو نام في الثالثۃ واستیقظ في الرابعۃ فإنہ یأتي بالثالثۃ بلا قراء ۃ۔ فإذا فرغ منھا صلی مع الإمام الرابعۃ، وإن فرغ منھا الإمام صلاھا وحدہ بلا قراء ۃ أیضاً‘‘(۳)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس ……في الإمامۃ، الفصل السابع في المسبوق واللاحق‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۰، مکتبہ فیصل دیوبند۔
(۲) الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: آخر باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۳، ۳۴۴، ط: مکتبہ زکریا دیوبند۔
(۳) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: آخر باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۵، ط: مکتبہ زکریا دیوبند نقلاً عن البحر۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص60
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: چین لگی ہوئی گھڑی باندھ کر نماز پڑھنا درست ہے؛ اس لیے کہ گھڑی عام طور پر زینت کے لیے نبض پر پہنی جاتی۔(۲)
(۲) ولا یتختم الا بالفضۃ لحصول الاستغناء بہا فیحرم لغیرہا کجہر وصحح السرخسي جواز الیشب والعقیق وعمم منلا خسرو وذہب وحدید وصفر ورصاص وزجاج وغیرہا لما مر۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’ ‘‘: ج ۶، ص: ۳۵۹، سعید کراچی)… التختم بالحدید والصفر والنحاس والرصاص مکروہ للرجال والنساء جمیعاً، وأما العقیق ففي التختم بہ اختلاف المشایخ، وصحیح في الذخیرۃ أنہ لایجوز وقال قاضي خان: الأصح أنہ یجوز۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ‘‘: ج ۵، ص: ۳۸۸، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص185
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: وقت مکروہ نہ ہو اور جماعت شروع ہونے میں اتنا وقت ہو کہ تحیۃ المسجد پڑھی جا سکتی ہو تو پڑھ سکتا ہے ورنہ نہیں۔(۲)
(۲) (وأداء الفرض أو غیرہ الخ:) قال في النہر: وینوب عنہا کل صلاۃ صلاہا عند الدخول فرضاً کانت أو سنۃ۔ وفي البنایۃ معزیا أي مختصر المحیط أن دخولہ بنیۃ الفرض أو الاقتداء ینوب عنہا، وإنما یؤمر بہا إذا دخلہ لغیر الصلاۃ، والحاصل أن المطلوب من داخل المسجد أن یصلي فیہ لیکون ذلک تحیۃ لربہ تعالی: والظاہر أن دخولہ بنیۃ صلاۃ الفرض لإمام أو منفرد أو بنیۃ الاقتداء ینوب عنہا إذا صلی عقب دخولہ، وإلا لزم فعلہا بعد الجلوس وہو خلاف الأولی کما یأتي، (ینوب عنہا بلانیۃ) قال في الحلیۃ: لو اشتغل داخل المسجد بالفریضۃ غیرنا وللتحیۃ قامت تلک الفریضۃ مقام تحیۃ المسجد لحصول تعظیم المسجد، کما في البدائع وغیرہ۔ فلو نوی التحیۃ مع الفرض فظاہر ما في المحیط وغیرہ أنہ یصح عندہما۔ وعند محمد لایکون داخلا في الصلاۃ۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدرالمختار، کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، مطلب في تحیۃ المسجد: ج ۲، ص: ۴۵۹، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص405
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں مکان دیا یا رقم دے کر مکان بنوایا اس کی دو صورتیں ہیں امام کو مذکورہ مکان امام ہونے کی حیثیت سے صرف رہائش کے لیے دیا مالک بناکر نہیں دیا یہ ہی صورت سوال سے معلوم ہوتی ہے تو مذکورہ مکان امام صاحب کی ملکیت نہیں ہوا اور امام صاحب کو اس کے فروخت کرنے کا کوئی حق حاصل نہ تھاامام صاحب نے ناحق مکان فروخت کیا اس صورت میں امامت مکروہ ہوگی، اوردوسری صورت یہ کہ امام صاحب کو مکان کا مالک بنادیا گیا تھا اس صورت میںامام نے مکان فروخت کرلیا تو کوئی حرج نہیں اب مسجد کمیٹی یا متولی و مصلیان جو فیصلہ کریں اسی کے مطابق عمل ضروری ہے اگر ضرورت محسوس کریں تو فیصلہ کرکے اور صورتحال لکھ کر دارالافتاء سے رابطہ کرلیں اس کے بعد فیصلہ سنائیں۔ (۱)
(۱) قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لاتظلموا ألا لایحل مال إمرء إلا بطیب نفس منہ ولایجوز لأحد من المسلمین :أخذ مال أحد لغیر سبب شرعي۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، کتاب البیوع، باب الغصب والعاریۃ، ج۶، ص: ۵۲۰، رقم: ۲۹۶۴)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص332
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: (۱) اگر امام کے سامنے سترہ نہ ہو تو مقتدی کے سامنے سے گزرنا درست نہیں ہے، ہاں اگر پہلی صف میں جگہ خالی ہو تو صف پُر کرنے کے لیے مقتدی کے لیے آگے سے گزرنے کی اجازت ہے۔
’’ولو وجد فرجۃ في الأول لا الثاني لہ خرق، الثاني لتقصیرہم وقال العلامۃ ابن عابدین: یفید أن الکلام فیما إذا شرعوا وفي القنیۃ: قال في آخر صف وبین الصفوف مواضع خالیۃ فللداخل أن یمر بین یدیہ لیصل الصفوف‘‘(۱)
(۲) اگر امام کے سامنے سترہ ہو تو وہ مقتدیوں کا بھی سترہ شمار ہوگا، لہٰذا اگر کوئی شخص نماز کے دوران مقتدیوں کی صف کے آگے سے گزرنا چاہے تو گزر سکتا ہے اس سے وہ گنہگار نہیں ہوگا۔
’’وکفت سترۃ الإمام للکل قولہ للکل أي المقتدین بہ کلہم وعلیہ فلو مر مار في قبلۃ الصف في المسجد الصغیر لم یکرہ إذا کان للإمام سترۃ‘‘(۲)
(۳، ۴) امام کا اگر سترہ ہو تو مقتدی کے سامنے سے گزرنا جائز ہے اور امام کے سامنے دیوار بھی سترہ کے حکم میں ہے۔
’’یجوز أن یکون السترۃ ستارۃ معلقۃ إذا رجع أو سجد یحرکہا رأس المصلي ویزیلہا من موضع سجودہ ثم تعود إذا قام أو قعد‘‘(۳)
’’کان بین مصلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وبین الجدار ممر الشاۃ‘‘(۴)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في الکلام…علی الصف الأوّل‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۲۔
(۲) أیضًا:۔
(۳) أیضًا: ’’باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۰۔
(۴) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب قدرکم ینبغي أن یکون بین مصلي والسترۃ ‘‘: ج ۱، ص: ۵۱، رقم: ۴۹۶۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص448
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: سنتوں میں چاروں رکعتوں میں ضم سورت واجب ہے،(۱) اگر کسی بھی رکعت میں چھوٹ جائے، تو ترک واجب کی وجہ سے سجدہ سہو لازم ہوگا، سجدہ سہو آخر میں کرلیا جائے، تو نماز صحیح اور درست ہوجائے گی اعادہ نہیں کرنا ہوگا(۲) اور اگر سجدہ سہو نہیں کیا تو اعادہ نماز کا واجب ہوگا۔
(۱) تفسیر قولہ علیہ السلام: لا یصلي بعد صلاۃ مثلہا یعني رکعتین بقرأۃ ورکعتین بغیر قراء ۃ فیکون بیان فرضیۃ القراء ۃ في رکعات النفل کلہا۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب النوافل‘‘: ج۱، ص: ۱۴۹، مکتبہ: دار الکتاب دیوبند)
والقراء ۃ واجبۃ في جمیع رکعات النفل وفي جمیع رکعات الوتر۔ (أیضًا: ص: ۱۴۸، مکتبہ: دار الکتاب دیوبند)
وہذا الضم واجب في الأولیین من الفرض وفي جمیع رکعات النفل والوتر۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۱۶، مکتبہ: زکریا دیوبند)
(۲) ویلزمہ (أي السہو) إذا ترک فعلا مسنونا کأنہ أراد بہ فعلا واجبا إلا أنہ أراد بتسمیتہ سنۃ أن وجوبہا بالسنۃ۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ، باب سجود السہو‘‘: ج۱، ص: ۱۵۷، مکتبہ: دار الکتاب دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص361
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: مسافر امام کے دو رکعت پر سلام پھیرنے کے بعد باقی مقیم مقتدی اپنی دو رکعت اس طرح پوری کریں کہ اس میں قرأت نہ کریں؛ بلکہ تھوڑی دیر کھڑے رہ کر رکوع کریں، کیونکہ حکماً وہ مقتدی ہیں اور مقتدی کا قرأت کرنا مکروہ ہے، بہر حال نماز کے فاسد ہونے کا حکم نہیں ہوگا۔
’’إذا صلی المسافر بالمقیم رکعتین سلم وأتم المقیمون صلاتہم، لأن المقتدی التزم الموافقۃ في الرکعتین فینفرد في الباقي کالمسبوق، إلا أنہ لا یقرأ في الأصح لأنہ مقتد تحریمۃ لا فعلا والفرض صار مؤدي‘‘(۱)
’’وصح اقتداء المقیم بالمسافر في الوقت وبعدہ فإذا قام المقیم إلی الاتمام لا یقرأ ولا یسجد للسہو في الأصح لأنہ کاللاحق‘‘(۲)
(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۲۳۸، رشیدیہ۔…
(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۶۱۰، ۶۱۱( زکریا؛ وفتاویٰ محمودیہ: ج ۶، ص: ۵۷۱)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص61
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں امام کو نو انچ کی اونچائی پر کھڑے ہونے سے کسی خاص امتیاز کا اظہار نہیں ہوتا ہے، لہٰذا مذکورہ صورت میں امام کا نماز پڑھانا بلا کراہت درست ہے، البتہ بلا ضرورتِ شرعی ایک ذراع جو شرعی گز کے اعتبار سے ۱۸ انچ کا ہوتا ہے، یا اس سے زیادہ اونچائی پر کھڑے ہوکر نماز پڑھانا مکروہ ہے۔ ہاں اگر کچھ مقتدی بھی ساتھ ہوں تو درست ہے۔(۱)
(۱) وانفراد الإمام علی الدکان للنہي وقدر الارتفاع بذراع ولا بأس بما دونہ وقیل ما یقع بہ الامتیاز وہو الأوجہ۔ ذکرہ الکمال وغیرہ وکرہ عکسہ في الأصح وہذا کلہ عند عدم العذر کجمعۃ وعید فلو قاموا علی الرفوف والإمام علی الأرض أو في المحراب لضیق المکان لم یکرہ۔ لو کان معہ بعض القوم في الأصح و بہ جرت العادۃ في جوامع المسلمین۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب مایفسد الصلاۃ، وما یکرہ فیہا‘‘: ج۲، ص: ۴۱۵، زکریا دیوبند)
ویکرہ أن یکون الإمام وحدہ علی الدکان وکذا القلب في ظاہر الروایۃ، وکذا في الہدایۃ۔ وإن کان بعض القوم معہ قالا صح :أنہ لا یکرہ، کذا في محیط السرخسي۔ ثم قدر الارتفاع قامۃ، ولا بأس بما دونہا، ذکرہ الطحاوي وقیل : إنہ مقدر بما یقع بہ الامتیاز وقیل : بمقدار الذراع اعتبار بالسترۃ وعلیہ الاعتماد، کذا في التبیین۔ وفي غایۃ البیان ہو الصحیح، کذا في البحر الرائق۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع، الفصل الثاني فیما یکرہ في الصلاۃ، ومالایکرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۶۷، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص186
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرض نماز کے بعد سنن ونوافل پڑھنے کے لیے اپنی جگہ سے ہٹ کر حسب گنجائش جگہ بدلنا مستحب ہے۔(۱)
(۱) عن أبي ہریرۃ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: أیعجز أحدکم إذا صلی أن یتقدم أو یتأخر أو عن یمینہ أو عن شمالہ یعني في السبحۃ۔ (أخرجہ أبوداؤد، في سننہ :ص: ۸۵۴؛ واخرجہ ابن ماجہ، في سنہ: ص: ۱۴۱۷)
عن المغیرۃ بن شعبۃ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لایصلي الامام في الموضع الذی صلی فیہ حتی یتحول۔ (أخرجہ أبوداؤد، في سننہ: ص: ۶۱۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص406
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ مسجد مدرسہ کی ہے، اس کا نظم مدرسہ سے متعلق ہے لہٰذا اس مسجد میں جو بھی آمدنی ہوگی وہ مدرسہ میں جمع ہوگی اور مدرسہ والے اس کو جس طرح مناسب سمجھیں ضروریات مسجد پر صرف کریں۔ ذمہ داروں کو چاہے کہ امامت و اذان کہنے کے لیے اشخاص مقرر کرکے تنخواہ دی جائے تاکہ جماعت و اذان کے نظم میں خلل نہ پڑے۔(۲)
(۲) لا یجوز الاستیجار علی الأذان والحج وکذا الإمامۃ وتعلیم القرآن والفقہ والأصل أن کل طاعۃ یختص بہا المسلم لا یجوز الاستیجار علیہ عندنا۔ (المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ‘‘: ج ۳، ص: ۲۳۸)
قال ابن المنذر: ثبت أن رسول اللّٰہ قال لعثمان بن أبي العاص واتخذوا مؤذناً لا یأخذ علی أذانہ أجرأ وأخرج ابن حبان عن یحیی البکالی قال سمعت رجلا قال لإبن عمر إني لأحبک في اللّٰہ قال لہ ابن عمر إني لأبغضک فی اللّٰہ فقال سبحان اللّٰہ أحبک فی اللّٰہ وتبغضی فی اللّٰہ قال نعم إنک تسئل علی أذانک أجرا وروي عن ابن مسعود انہ قال أربع لا یوخذ علیہن أجر الأذان و قرأۃ القرآن والمقاسم والقضاء۔ (نیل الأوطار، ’’باب النہي عن أخذ الأجرۃ علی الأذان‘‘: ج۱، ص: ۳۷۵)
(إن أحق ما أخذتم علیہ أجرا کتاب اللّٰہ) (أخرجہ البخاري في صحیحہ، کتاب الإجارۃ، باب ما یعطي في الرقیۃ‘‘: ج۱، ص: ۳۰۴)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص333