Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: عورتوں کے سامنے آنے جانے سے نماز میں کوئی خلل نہیں ہوتا، نماز فاسد نہیں ہوتی؛ لیکن خشوع باقی نہیں رہتا اس لیے ایسی جگہ نماز پڑھے جہاں کسی کا گزر نہ ہو۔(۱)
(۱) والدلیل علی أن مرور المرأۃ لا یقطع الصلاۃ ما روي أن النبي کان یصلي في بیت أم مسلمۃ فأراد عمر بن أبي سلمۃ أن یمر بین یدیہ فأشار فوقف ثم أراد زینب أن تمر بین یدیہ فأشار علیہا فلم تقف فلما فرغ من صلاتہ، قال ہن أغلب صاحبات یوسف یغلبن الکرام ویغلبھن اللئام۔ (السرخسي، المبسوط: ج ۱، ص: ۳۵۰)
وتکرہ بحضرۃ کل ما یشغل البال کزینۃ وبحضرۃ ما یخل بالخشوع کلہو ولعب۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، فصل في المکروہات‘‘: ج ۱، ص: ۳۶۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص449
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ترک ضم سورت سے ترک واجب ہونے کی بنا پر سجدہ سہو لازم ہوگا بعد والی رکعت میں اس کی تلاوت کرنے سے سجدۂ سہو ساقط نہیں ہوگا؛ بلکہ سجدہ سہو بہر حال کرنا پڑے گا۔ (۳)
والقراء ۃ واجبۃ في جمیع رکعات النفل وفي جمیع رکعات الوتر۔ (أیضًا: ص: ۱۴۸، مکتبہ: دار الکتاب دیوبند)
وہذا الضم واجب في الأولیین من الفرض وفي جمیع رکعات النفل والوتر۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۱۶، مکتبہ: زکریا دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص362
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: واضح رہے کہ حنفی مسلک میں مقتدی امام کے پیچھے قرأت نہیں کرتا ہے، اس لیے کہ امام کا قرأت کرنا ہی مقتدی کے لیے کافی ہے، جیسا کہ ابن ماجہ شریف میں ایک حدیث ہے:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: جو شخص امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہو تو امام کا قرأت کرنا مقتدی کا قرأت کرنا ہے۔
’’من کان لہ إمام فقراء ۃ الإمام لہ قراء ۃ‘‘(۱)
مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ امام کی اقتداء میں جو مقتدی ہیں وہ قرأت نہیں کرے گا اور لاحق بھی تقدیراً امام کے پیچھے ہی سمجھا جاتا ہے اور وہ امام کی اقتدا کر رہا ہوتا ہے، اس لیے وہ لاحق بھی قرأت نہیں کرے گا؛ بلکہ سکوت اختیار کئے رہے گا۔
نیز لاحق کی نماز کا شرعی حکم کے بارے میں فقہاء نے لکھا ہے کہ: اگر جماعت کی نماز باقی ہو تو لاحق اس جماعت میں شریک ہو جا ئے ورنہ باقی چھوٹی ہوئی نماز تنہا پڑھ لے۔
لاحق اپنی چھوٹی ہوئی رکعتوں میں بھی مقتدی سمجھا جائے گا یعنی جیسے مقتدی قرأت نہیں کرتا ویسے ہی لاحق بھی قرأت نہ کرے گا، بلکہ سکوت کیے ہوئے کھڑا رہے گا۔ اور جیسے مقتدی کو اگر سہو ہو جائے تو سجدہ سہو کی ضرورت نہیں ہوتی ویسے ہی لاحق کو بھی ضرورت نہیں، جیسا کہ تبیین الحقائق میں ہے:
’’فصار اللاحق فیما یقضي کأنہ خلف الإمام تقدیراً۔ ولہذا لا یقرأ و لایلزمہ السجود بسہوہ الخ‘‘(۱)
(۱) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب: إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا، باب إذا قرأ الإمام فأنصتوا‘‘: ص: ۶۱، رقم: ۸۵۰۔
(۱) فخر الدین عثمان بن علي، تبیین الحقائق’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۵۳(زکریا دیوبند)۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص62
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جب حاکم نے منع کر رکھا ہے کہ ورکشاپ میں کوئی نماز نہ پڑھے؛ بلکہ رخصت لے کر باہر جا کر نماز پڑھے تو باہر ہی جاکر نماز پڑھنی چاہئے؛ کیوں کہ ورکشاپ ان کی مملوک ہے تو ممانعت کے بعد اس میں نماز پڑھنا ایسا ہے جیسا کہ زمین مغصوبہ میں نماز پڑھنا اور وہ مکروہ ہے؛ لہٰذا کیوں اپنی نماز کو مکروہ کیا جائے پھر شکایت ہوجانے پر اندیشہ سزا علاوہ ازیں ہے۔(۱)
(۱) الصلاۃ في أرض معضوبۃ جائزۃ، ولکن یعاقب بظلمہ، فما کان بینہ وبین اللّٰہ تعالیٰ یثاب، وما کان بینہ وبین العباد یعاقب۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع، فیما یفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، الفصل الثاني‘‘: ج۱، ص: ۱۶۸، زکریا دیوبند)
وتکرہ في أرض الغیر بلا رضاہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في المکروہات‘‘: ص: ۳۵۸، شیخ الہند دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص187
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چوں کہ اکثر تہجد میں آٹھ رکعت پڑھی ہیں،اور تین رکعت وتر پڑھی ہیں؛ اس لیے فقہائے احناف نے آٹھ رکعت پر مواظبت کو مستحب قرار دیا ہے اور گنجائش نہ ہو، تو چار رکعت بھی کافی ہیں اس سے تہجد کا ثواب مل جائے گا۔(۱)
(۱) وصلاۃ اللیل وأقلہا … قال ویصلی ما سہل علیہ ولو رکعتین، والسنۃ فیہا ثمان رکعات بأربع تسلیمات۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مطلب في صلاۃ اللیل‘‘: ج ۲، ص:۶۸، ۶۶۷،زکریا دیوبند)
فینبغي القول بأن أقل التہجد رکعتان، و أوسطہ أربع وأکثرہ ثمان۔ (ابن عابدین، رد المحتار ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۶۸، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص406
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1254 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم-: پنجوقتہ نمازیں فرض ہیں وہ بھی اس طرح لازم نہیں کہ عورتیں مسجدوں ہی میں جماعت سے اداکریں، اور عیدین واجب ہیں جو فرض سے کم درجہ ہیں تو اس کے لئے عید گاہ جانے کا حکم کیوں ہوگا۔ پھر اگر مسجدوں میں جماعت کی پابندی عورتوں پر نہ ہونے میں فتنہ و فساد کا خوف ہے تو عیدین میں تو یہ احتمال و خطرہ اور زیادہ ہے۔ بہرحال عیدگاہ میں نماز عید کے لئے عورتوں کو نہیں جانا چاہئے۔ واللہ اعلم
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 41/9B
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہر طرف بے چینی ہو تو لوگوں کے قلبی راحت کے لئے اذان دینے کی گنجائش ہے۔
عن أنس: قال رسول الله- صلى الله عليه وآله وسلم-: " إذا أذّن في قرية أمّنّها الله تعالى من عذابه ذلك اليوم (شرح ابن ماجہ لمغلطای ج1ص1179)۔ عن علي: رآني النبي صلى الله عليه وسلم حزينا فقال: (يا ابن أبي طالب إني أراك حزينا فمر بعض أهلك يؤذن في أذنك، فإنه درأ الهم) قال: فجربته فوجدته كذلك» (مرقاۃ المفاتیح ج2 ص 547)۔ وَفِي حَاشِيَةِ الْبَحْرِ الرَّمْلِيِّ: رَأَيْت فِي كُتُبِ الشَّافِعِيَّةِ أَنَّهُ قَدْ يُسَنُّ الْأَذَانُ لِغَيْرِ الصَّلَاةِ، كَمَا فِي أَذَانِ الْمَوْلُودِ، وَالْمَهْمُومِ، وَالْمَصْرُوعِ، وَالْغَضْبَانِ، وَمَنْ سَاءَ خُلُقُهُ مِنْ إنْسَانٍ أَوْ بَهِيمَةٍ، وَعِنْدَ مُزْدَحَمِ الْجَيْشِ، وَعِنْدَ الْحَرِيقِ، قِيلَ وَعِنْدَ إنْزَالِ الْمَيِّتِ الْقَبْرَ قِيَاسًا عَلَى أَوَّلِ خُرُوجِهِ لِلدُّنْيَا، لَكِنْ رَدَّهُ ابْنُ حَجَرٍ فِي شَرْحِ الْعُبَابِ، وَعِنْدَ تَغَوُّلِ الْغِيلَانِ: أَيْ عِنْدَ تَمَرُّدِ الْجِنِّ لِخَبَرٍ صَحِيحٍ فِيهِ. أَقُولُ: وَلَا بُعْدَ فِيهِ عِنْدَنَا. اهـ. (الدر المختار ج1ص385)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2016/44-1979
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب تک کسی جگہ 15 دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کی نیت نہ ہو آپ مسافر رہیں گے، چاہے اس طرح کتنی ہی مدت گزرجائے۔
"و لو دخل مصرًا على عزم أن يخرج غدًا أو بعد غد ولم ينو مدة الإقامة حتى بقي على ذلك سنين قصر" لأن ابن عمر رضي الله عنه أقام بأذربيجان ستة أشهر وكان يقصر وعن جماعة من الصحابة رضي الله عنهم مثل ذلك". (الهداية في شرح بداية المبتدي 1 / 80)
"ويصير مقيماً بشيئين: أحدهما إذا عزم علي إقامة خمسة عشر يوماً أين ما كان .." (النتف في الفتاوى للسغدي 1 / 76)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اگر اگلی صف میں جگہ ہے تو اس کو پُر کرنے کے لیے نابالغ بچوں کے آگے سے گزرنا درست ہے۔ بلا وجہ نہ گزریں۔ تاکہ نمازی کے آگے سے گزرنے کا گناہ لازم نہ آئے۔
’’وإن أثم المار لحدیث البزار لو یعلم المار ما ذا علیہ من الوزر لوقف أربعین خریفاً، قولہ لحدیث البزار: ذکر في الحلیۃ أن الحدیث فيالصحیحین بلفظ لو یعلم المار بین یدي المصلي ماذا علیہ لکان أن یقف أربعین خیرا لہ من أن یمر بین یدیہ، قال أبو النضر أحد رواتہ لا أدري قال: أربعین یوماً أو شہرا أو سنۃ قال وأخرجہ البزار وقال: أربعین خریفاً … والخریف السنۃ، سمیت بہ باعتبار بعض الفصول‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، فروع مشی المصلي مستقبل القبلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۹۔
إن کعب الأحبار قال: لو یعلم المار بین یدي المصلي ما ذا علیہ لکان أن یخسف بہ خیراً لہ من أن یمر بین یدیہ۔ أخرجہ مالک في الموطأ، کتاب الصلاۃ، الشدید في أن یمر بین یدي المصلي، ص۱۵۳
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص450
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز میں مطلقاً قرأت فرض ہے اور سورہ فاتحہ یا سورت کا ملانا واجب ہے، اگر سورت ملانا بھول جائے، تو سجدہ سہو سے نماز درست ہو جائے گی اور اگر قرأت بالکل ہی نہ کی ہو، تو نماز دو بارہ پڑھنی فرض ہوگی۔(۱)
(۱) ولہا واجباتٌ وفي قراء ۃ فاتحۃ الکتاب … (و) في جمیع رکعات النفل لأن کل شفع منہ صلاۃ وکل الوتر۔ (ابن عابدین، الرد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب کل شفع من النفل صلاۃ‘‘: ج۲، ص: ۱۴۹؛ و والسہو یلزم إذا زاد في صلاۃ فعلا من جنسہا لیس منہا أوترک فعلاً مسنونا أوترک قراء ۃ فاتحۃ الکتاب اوالقنوت أو التشہد أو تکبیرات العیدین أو یجہر الإمام فیما یخافت أو خافت فیما یجہر۔ (عبدالغني الغنیمي الدمشقي، اللباب في شرح الکتاب، ’’باب سجود السہو‘‘: ج۱، ص: ۹۶)
ضم سورۃ إلی الفاتحۃ في جمیع رکعات النفل والوتر والأولین من الفرض ویکفي في أداء الواجب أقصر سورۃ أو مایماثلہا کثلاث آیات قصار أو آیۃ طویلۃً والآیات القصار الثلاث۔ (عبدالرحمن الجزیري، الفقہ علی المذاہب الأربعۃ، ’’واجبات الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۷)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص363