نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1254 Alif

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                           

بسم اللہ الرحمن الرحیم-: پنجوقتہ نمازیں فرض ہیں وہ بھی اس طرح لازم نہیں کہ عورتیں مسجدوں ہی میں جماعت سے اداکریں، اور عیدین واجب ہیں جو فرض سے کم درجہ ہیں تو اس کے لئے عید گاہ جانے کا حکم کیوں ہوگا۔ پھر اگر مسجدوں میں جماعت کی پابندی عورتوں پر نہ ہونے میں فتنہ و فساد کا خوف ہے تو عیدین میں تو یہ احتمال  و خطرہ اور زیادہ ہے۔ بہرحال عیدگاہ میں نماز عید کے لئے عورتوں کو نہیں جانا چاہئے۔ واللہ اعلم

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 41/9B

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہر طرف بے  چینی ہو تو لوگوں کے قلبی راحت کے لئے اذان دینے کی گنجائش ہے۔

عن أنس: قال رسول الله- صلى الله عليه وآله وسلم-: " إذا أذّن في قرية أمّنّها الله تعالى من عذابه ذلك اليوم (شرح ابن ماجہ لمغلطای ج1ص1179)۔ عن علي: رآني النبي صلى الله عليه وسلم حزينا فقال: (يا ابن أبي طالب إني أراك حزينا فمر بعض أهلك يؤذن في أذنك، فإنه درأ الهم) قال: فجربته فوجدته كذلك» (مرقاۃ المفاتیح ج2 ص 547)۔ وَفِي حَاشِيَةِ الْبَحْرِ الرَّمْلِيِّ: رَأَيْت فِي كُتُبِ الشَّافِعِيَّةِ أَنَّهُ قَدْ يُسَنُّ الْأَذَانُ لِغَيْرِ الصَّلَاةِ، كَمَا فِي أَذَانِ الْمَوْلُودِ، وَالْمَهْمُومِ، وَالْمَصْرُوعِ، وَالْغَضْبَانِ، وَمَنْ سَاءَ خُلُقُهُ مِنْ إنْسَانٍ أَوْ بَهِيمَةٍ، وَعِنْدَ مُزْدَحَمِ الْجَيْشِ، وَعِنْدَ الْحَرِيقِ، قِيلَ وَعِنْدَ إنْزَالِ الْمَيِّتِ الْقَبْرَ قِيَاسًا عَلَى أَوَّلِ خُرُوجِهِ لِلدُّنْيَا، لَكِنْ رَدَّهُ ابْنُ حَجَرٍ فِي شَرْحِ الْعُبَابِ، وَعِنْدَ تَغَوُّلِ الْغِيلَانِ: أَيْ عِنْدَ تَمَرُّدِ الْجِنِّ لِخَبَرٍ صَحِيحٍ فِيهِ. أَقُولُ: وَلَا بُعْدَ فِيهِ عِنْدَنَا. اهـ. (الدر المختار ج1ص385)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2016/44-1979

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  جب تک کسی جگہ 15 دن یا اس  سے زیادہ ٹھہرنے کی نیت نہ ہو آپ مسافر رہیں گے،  چاہے  اس طرح  کتنی ہی مدت  گزرجائے۔

"و لو دخل مصرًا على عزم أن يخرج غدًا أو بعد غد ولم ينو مدة الإقامة حتى بقي على ذلك سنين قصر" لأن ابن عمر رضي الله عنه أقام بأذربيجان ستة أشهر وكان يقصر وعن جماعة من الصحابة رضي الله عنهم مثل ذلك". (الهداية في شرح بداية المبتدي 1 / 80)

"ويصير مقيماً بشيئين: أحدهما إذا عزم علي إقامة خمسة عشر يوماً أين ما كان .." (النتف في الفتاوى للسغدي 1 / 76)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اگر اگلی صف میں جگہ ہے تو اس کو پُر کرنے کے لیے نابالغ بچوں کے آگے سے گزرنا درست ہے۔ بلا وجہ نہ گزریں۔ تاکہ نمازی کے آگے سے گزرنے کا گناہ لازم نہ آئے۔
’’وإن أثم المار لحدیث البزار لو یعلم المار ما ذا علیہ من الوزر لوقف أربعین خریفاً، قولہ لحدیث البزار: ذکر في الحلیۃ أن الحدیث فيالصحیحین بلفظ لو یعلم المار بین یدي المصلي ماذا علیہ لکان أن یقف أربعین خیرا لہ من أن یمر بین یدیہ، قال أبو النضر أحد رواتہ لا أدري قال: أربعین یوماً أو شہرا أو سنۃ قال وأخرجہ البزار وقال: أربعین خریفاً … والخریف السنۃ، سمیت بہ باعتبار بعض الفصول‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، فروع مشی المصلي مستقبل القبلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۹۔
إن کعب الأحبار قال: لو یعلم المار بین یدي المصلي ما ذا علیہ لکان أن یخسف بہ خیراً لہ من أن یمر بین یدیہ۔ أخرجہ مالک في الموطأ، کتاب الصلاۃ، الشدید في أن یمر بین یدي المصلي، ص
۱۵۳

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص450

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز میں مطلقاً قرأت فرض ہے اور سورہ فاتحہ یا سورت کا ملانا واجب ہے، اگر سورت ملانا بھول جائے، تو سجدہ سہو سے نماز درست ہو جائے گی اور اگر قرأت بالکل ہی نہ کی ہو، تو نماز دو بارہ پڑھنی فرض ہوگی۔(۱)

(۱) ولہا واجباتٌ وفي قراء ۃ  فاتحۃ الکتاب … (و) في جمیع رکعات النفل لأن کل شفع منہ صلاۃ وکل الوتر۔ (ابن عابدین، الرد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب کل شفع من النفل صلاۃ‘‘: ج۲، ص: ۱۴۹؛ و والسہو یلزم إذا زاد في صلاۃ فعلا من جنسہا لیس منہا أوترک فعلاً مسنونا أوترک قراء ۃ فاتحۃ الکتاب اوالقنوت أو التشہد أو تکبیرات العیدین أو یجہر الإمام فیما یخافت أو خافت فیما یجہر۔ (عبدالغني الغنیمي الدمشقي، اللباب في شرح الکتاب، ’’باب سجود السہو‘‘: ج۱، ص: ۹۶)
ضم سورۃ إلی الفاتحۃ في جمیع رکعات النفل والوتر والأولین من الفرض ویکفي في أداء الواجب أقصر سورۃ أو مایماثلہا کثلاث آیات قصار أو آیۃ طویلۃً والآیات القصار الثلاث۔ (عبدالرحمن الجزیري، الفقہ علی المذاہب الأربعۃ، ’’واجبات الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۷)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص363

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: سلام پھیرنا واجب ہے اس لئے اگر کسی کو سلام سے پہلے حدث لاحق ہو گیا تو ایک واجب رہ گیا، ایسا شخص وضو کر کے سلام پھیر دے تو یہ بناء درست ہے اور نماز ہو جائیے گی، البتہ بناء کرنے کے مقابلہ میں استیناف یعنی از سر نو پور نماز پڑھنا افضل ہے، چونکہ بناء کے شرائط سخت ہیں اکثر لوگ ان سے واقف نہیں ہوتے، اس لئے استیناف افضل ہے۔
’’وأما حکمہ، فہو الخروج من الصلاۃ، ثم الخروج یتعلق بإحدی التسلیمتین عند عامۃ العلماء، وقد روي عن محمد أنہ قال: التسلیمۃ الأولی للخروج والتحیۃ، والتسلیمۃ الثانیۃ للتحیۃ خاصۃً۔ ‘‘(۱)
’’عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أصابہ في أو رعاف أو قلس أو مذي، فلینصرف فلیتوضأ، ثم لیبن علی صلوتہ، وہوفي ذلک لا یتکلم۔ والأحادیث في الباب مختلفۃ، منہا: ما یدل علی الاستیناف، ومنہا ما یدل علی البناء فجمعنا بینہا بأن حکمنا بجواز کلیہما واستحباب الاستیناف‘‘(۲)
’’سبق الإمام حدیث … غیر مانع البناء کما قدمناہ ولو بعد التشہد لیأتي بالسلام واستینافہ أفضل تحرزاً عن الخلاف … وإذا ساغ لہ البناء توضأ فوراً بکل سنۃ وبنی علی ما مضی الخ‘‘(۳)
’’ثم ما ذکرنا من جواز البناء لا یتخلف، سیما إذا کان الحدث في وسط الصلاۃ أو في آخرہا، حتی لو سبقہ الحدث بعد ما قعد قدر التشہد الأخیر  یتوضأ، ویبني عندنا، لأنہ یحتاج إلی الخروج بلفظۃ السلام التي ہي واجبۃ‘‘(۴)

(۱) الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل: و أما بیان مواضع الجنۃ الخ‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۷، (رشیدیہ)۔
(۲) ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، ’’کتاب الصلاۃ: باب جواز البناء لمن أحدث في الصلاۃ‘‘: ج ۵، ص: ۱، (ادارۃ القرآن، کراچی)۔
(۳) الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۹۹، ۶۰۵، سعید۔
(۴) الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب الصلاۃ: آخر فصل شرائط جواز البناء‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۱، (رشیدیہ)۔

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص63

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا اللّٰہ التوفیق: بغیر اجازت کسی کی چیز نہ لینا چاہیے صراحۃ اجازت لینا بہتر ہے، اور ایک دوسرے کی ٹوپی، لنگی وغیرہ استعمال کرنے میں کوئی اعتراض کسی کو نہ ہو تو دلالۃً اجازت کی وجہ سے استعمال کرنے کی گنجائش ہے اگر اس طرح استعمال پر مالک کو کوئی اعتراض نہ ہو تو یہ اجازت میں شمار ہوتی ہے، تاہم نماز بہر صورت اداء ہو جاتی ہے۔(۱)

(۱) وتکرہ في أرض الغیر بلا رضاہ۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي: ص: ۳۵۸)
وفي مختارات الفتاویٰ۔ الصلاۃ في أرض مغصوبۃ جائزۃ … لأن الظاہر أنہ یرضی بہا لأنہ ینال أجراً من غیر اکتساب منہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح: ص: ۳۵۸)
فروع: تکرہ الصلاۃ في الثوب المغصوب وإن لم یجد غیرہ لعدم جواز الإنتفاع بملک الغیر قبل الإذن۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في المکروہات‘‘: ص: ۳۵۸، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)
الصلاۃ في أرض مغصوبۃ جائزۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع،  الفصل الثاني: فیما یکرہ في الصلاۃ وما لا یکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۸، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص188

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ طریقہ نہ واجب نہ فرض ہے؛ بلکہ بہتر اور مندوب ہے اس کو لازم سمجھنا درست نہیں۔(۲)

(۲) قال کعب بن مالک: کان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا قدم من سفر بدأ بالمسجد فصلی فیہ۔ (الکشمیري، فیض الباری علی شرح البخاری،  کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ إذا قدم من سفر ج۲، ص: ۶۸، بیروت)
ومن المندوبات رکعتا السفر والقدوم منہ: عن مطعم بن المقدام قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ماخلف أحد عند أہلہ أفضل من رکعتین یرکعہما عندہم حین یرید سفراً رواہ الطبراني۔ وعن کعب بن مالک کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لایقدم من السفر إلا نہارا في الضحی،فإذا قدم بدأ بالمسجد فصلی فیہ رکعتین ثم جلس فیہ۔ رواہ مسلم۔ شرح المنیۃ۔ ومفادہ اختصاص صلاۃ رکعتي السفر بالبیت، ورکعتي القدوم منہ بالمسجد، وبہ صرح الشافعیۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، مطلب في رکعتي السفر، ج:۲، ص:۴۶۶، زکریادیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص407

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: دو صف کے فاصلہ کی مقدار چھوڑ کر گزر سکتا ہے۔(۲)

(۲) أو مرور بین یدیہ إلی حائط القبلۃ في بیت ومسجد صغیر فإنہ کبقعۃ واحدۃ مطلقاً، قال ابن عابدین، قولہ في بیت ظاہرہ ولو کبیراً وفي القہستاني وینبغي أن یدخل فیہ أي في حکم المسجد الصغیر الدار والبیت، قولہ ومسجد صغیر ہوا قل من ستین ذراعاً وقیل من أربعین وہو المختار کما أشار إلیہ في الجواہر، قہستاني۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب إذا قرأ قولہ -تعالٰی- جدک بدون ألف لاتفسد‘‘: ج۲، ص: ۳۹۸)
قولہ: ظاہرہ ولو کبیراً لکن ینبغي تقییدہ بالصغیر کما تقدم في الإمامۃ تقیید الدار بالصغیر حیث لم یجعل قدر الصفین مانعا من الاقتداء بخلاف الکبیرۃ۔ (تقریرات الرافعي: ج ۱، ص: ۸۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص450

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں نماز بلا کراہت درست ہے، شبہ نہ کیا جائے؛ کیوں کہ تعدیل ارکان واجب ہے، نماز اطمنان سے ہی پڑھنی چاہئے۔
’’وتعدیل الأرکان أي تسکین الجوارح قدر تسبیحۃ في الرکوع والسجود وکذا في الرفع منہما علی ما اختارہ الکمال‘‘(۱) أي یجب التعدیل أیضاً في القومۃ من الرکوع والجلسۃ بین السجدتین‘‘ (۲)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: مطلب کل شفع من النفل صلاۃ، ج۲، ص: ۱۵۷، زکریا دیوبند۔
(۲) أیضًا۔
ویجب الاطمئنان وہو التعدیل في الأرکان بتسکین الجوارح في الرکوع والسجود حتی تطمئن مفاصلہ في الصحیح۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان واجب الصلاۃ‘‘: ص: ۲۴۹۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص364