نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: سلام پھیرنا واجب ہے اس لئے اگر کسی کو سلام سے پہلے حدث لاحق ہو گیا تو ایک واجب رہ گیا، ایسا شخص وضو کر کے سلام پھیر دے تو یہ بناء درست ہے اور نماز ہو جائیے گی، البتہ بناء کرنے کے مقابلہ میں استیناف یعنی از سر نو پور نماز پڑھنا افضل ہے، چونکہ بناء کے شرائط سخت ہیں اکثر لوگ ان سے واقف نہیں ہوتے، اس لئے استیناف افضل ہے۔
’’وأما حکمہ، فہو الخروج من الصلاۃ، ثم الخروج یتعلق بإحدی التسلیمتین عند عامۃ العلماء، وقد روي عن محمد أنہ قال: التسلیمۃ الأولی للخروج والتحیۃ، والتسلیمۃ الثانیۃ للتحیۃ خاصۃً۔ ‘‘(۱)
’’عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أصابہ في أو رعاف أو قلس أو مذي، فلینصرف فلیتوضأ، ثم لیبن علی صلوتہ، وہوفي ذلک لا یتکلم۔ والأحادیث في الباب مختلفۃ، منہا: ما یدل علی الاستیناف، ومنہا ما یدل علی البناء فجمعنا بینہا بأن حکمنا بجواز کلیہما واستحباب الاستیناف‘‘(۲)
’’سبق الإمام حدیث … غیر مانع البناء کما قدمناہ ولو بعد التشہد لیأتي بالسلام واستینافہ أفضل تحرزاً عن الخلاف … وإذا ساغ لہ البناء توضأ فوراً بکل سنۃ وبنی علی ما مضی الخ‘‘(۳)
’’ثم ما ذکرنا من جواز البناء لا یتخلف، سیما إذا کان الحدث في وسط الصلاۃ أو في آخرہا، حتی لو سبقہ الحدث بعد ما قعد قدر التشہد الأخیر  یتوضأ، ویبني عندنا، لأنہ یحتاج إلی الخروج بلفظۃ السلام التي ہي واجبۃ‘‘(۴)

(۱) الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل: و أما بیان مواضع الجنۃ الخ‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۷، (رشیدیہ)۔
(۲) ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، ’’کتاب الصلاۃ: باب جواز البناء لمن أحدث في الصلاۃ‘‘: ج ۵، ص: ۱، (ادارۃ القرآن، کراچی)۔
(۳) الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۹۹، ۶۰۵، سعید۔
(۴) الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب الصلاۃ: آخر فصل شرائط جواز البناء‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۱، (رشیدیہ)۔

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص63

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا اللّٰہ التوفیق: بغیر اجازت کسی کی چیز نہ لینا چاہیے صراحۃ اجازت لینا بہتر ہے، اور ایک دوسرے کی ٹوپی، لنگی وغیرہ استعمال کرنے میں کوئی اعتراض کسی کو نہ ہو تو دلالۃً اجازت کی وجہ سے استعمال کرنے کی گنجائش ہے اگر اس طرح استعمال پر مالک کو کوئی اعتراض نہ ہو تو یہ اجازت میں شمار ہوتی ہے، تاہم نماز بہر صورت اداء ہو جاتی ہے۔(۱)

(۱) وتکرہ في أرض الغیر بلا رضاہ۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي: ص: ۳۵۸)
وفي مختارات الفتاویٰ۔ الصلاۃ في أرض مغصوبۃ جائزۃ … لأن الظاہر أنہ یرضی بہا لأنہ ینال أجراً من غیر اکتساب منہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح: ص: ۳۵۸)
فروع: تکرہ الصلاۃ في الثوب المغصوب وإن لم یجد غیرہ لعدم جواز الإنتفاع بملک الغیر قبل الإذن۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في المکروہات‘‘: ص: ۳۵۸، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)
الصلاۃ في أرض مغصوبۃ جائزۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع،  الفصل الثاني: فیما یکرہ في الصلاۃ وما لا یکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۸، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص188

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ طریقہ نہ واجب نہ فرض ہے؛ بلکہ بہتر اور مندوب ہے اس کو لازم سمجھنا درست نہیں۔(۲)

(۲) قال کعب بن مالک: کان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا قدم من سفر بدأ بالمسجد فصلی فیہ۔ (الکشمیري، فیض الباری علی شرح البخاری،  کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ إذا قدم من سفر ج۲، ص: ۶۸، بیروت)
ومن المندوبات رکعتا السفر والقدوم منہ: عن مطعم بن المقدام قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ماخلف أحد عند أہلہ أفضل من رکعتین یرکعہما عندہم حین یرید سفراً رواہ الطبراني۔ وعن کعب بن مالک کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لایقدم من السفر إلا نہارا في الضحی،فإذا قدم بدأ بالمسجد فصلی فیہ رکعتین ثم جلس فیہ۔ رواہ مسلم۔ شرح المنیۃ۔ ومفادہ اختصاص صلاۃ رکعتي السفر بالبیت، ورکعتي القدوم منہ بالمسجد، وبہ صرح الشافعیۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، مطلب في رکعتي السفر، ج:۲، ص:۴۶۶، زکریادیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص407

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: دو صف کے فاصلہ کی مقدار چھوڑ کر گزر سکتا ہے۔(۲)

(۲) أو مرور بین یدیہ إلی حائط القبلۃ في بیت ومسجد صغیر فإنہ کبقعۃ واحدۃ مطلقاً، قال ابن عابدین، قولہ في بیت ظاہرہ ولو کبیراً وفي القہستاني وینبغي أن یدخل فیہ أي في حکم المسجد الصغیر الدار والبیت، قولہ ومسجد صغیر ہوا قل من ستین ذراعاً وقیل من أربعین وہو المختار کما أشار إلیہ في الجواہر، قہستاني۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب إذا قرأ قولہ -تعالٰی- جدک بدون ألف لاتفسد‘‘: ج۲، ص: ۳۹۸)
قولہ: ظاہرہ ولو کبیراً لکن ینبغي تقییدہ بالصغیر کما تقدم في الإمامۃ تقیید الدار بالصغیر حیث لم یجعل قدر الصفین مانعا من الاقتداء بخلاف الکبیرۃ۔ (تقریرات الرافعي: ج ۱، ص: ۸۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص450

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں نماز بلا کراہت درست ہے، شبہ نہ کیا جائے؛ کیوں کہ تعدیل ارکان واجب ہے، نماز اطمنان سے ہی پڑھنی چاہئے۔
’’وتعدیل الأرکان أي تسکین الجوارح قدر تسبیحۃ في الرکوع والسجود وکذا في الرفع منہما علی ما اختارہ الکمال‘‘(۱) أي یجب التعدیل أیضاً في القومۃ من الرکوع والجلسۃ بین السجدتین‘‘ (۲)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: مطلب کل شفع من النفل صلاۃ، ج۲، ص: ۱۵۷، زکریا دیوبند۔
(۲) أیضًا۔
ویجب الاطمئنان وہو التعدیل في الأرکان بتسکین الجوارح في الرکوع والسجود حتی تطمئن مفاصلہ في الصحیح۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان واجب الصلاۃ‘‘: ص: ۲۴۹۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص364

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئلہ میں اگر نماز کی حالت میں وضو ٹوٹ جائے اور وہ تنہا نماز پڑھ رہا ہے تو اس کو استیناف یعنی ازسرنو نماز ادا کرنا افضل ہے۔
اور اگر وہ جماعت کے ساتھ نماز ادا کر ہاتھا اور اسی دوران اس کو حدث لاحق ہو جائے تو وضو کرنے کے بعد اس کو جماعت ملنا ممکن ہو تو ازسرنو پڑھنا افضل ہے اور اگر وضو کے بعد جماعت ملنا ممکن نہ تو بنا کرنا افضل ہے، جیسا کہ فتاویٰ ھندیہ میں لکھا ہے۔
’’من سبقہ حدث توضأ وبنی، کذا في الکنز، والرجل والمرأۃ في حق حکم البناء سواء، کذا في المحیط۔ ولایعتد بالتي أحدث فیہا، ولا بد من الإعادۃ، ہکذا في الہدایۃ والکافي۔ والاستئناف أفضل، کذا في المتون۔ وہذا في حق الکل عند بعض المشایخ، وقیل: ہذا في حق المنفرد قطعًا، وأما الإمام والمأموم إن کانا یجدان جماعۃً فالاستئناف أفضل أیضًا، وإن کانا لایجدان فالبناء أفضل؛ صیانۃً لفضیلۃ الجماعۃ، وصحح ہذا في الفتاوی، کذا في الجوہرۃ النیرۃ‘‘(۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب السادس في الحدث في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص:۱۵۲۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص65

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اگر نمازی کے سامنے ڈریسنگ ٹیبل (سنگہار میز) الماری، کھڑکی یا دیوار میں شیشے لگے ہوئے ہوں اور اس میں نمازی کا عکس نظر آتا ہو تو نماز بلا کراہت درست ہوجائے گی، کیوں کہ عکس تصویر کے حکم میں نہیں ہے۔
البتہ اگر شیشے اور آئینہ کی وجہ سے نمازی کی نماز میں خلل ہوتا ہو اور نمازی کی توجہ اس جانب سے ہٹ جائے،تو ایسی صورت میں شیشے کے سامنے نماز پڑھنا مکروہِ تنزیہی ہے، البتہ ان شیشوں میں جو عکس نظر آتا ہے اس کا حکم تصویر کا نہیں ہے۔ہمارے فقہاء نے قبلہ کی جانب دیوار اور محراب میں نقش ونگار کو مکروہ فرمایا،سبب یہی ہے کہ نمازی کی توجہ ہٹ جاتی ہے۔ ایسی صورت میں نماز پڑھتے وقت شیشے پر کپڑا وغیرہ ڈال دیا کریں۔
’’ولا بأس بنقشہ خلا محرابہ فإنہ یکرہ لأنہ یلہي المصلي… وظاہرہ أن المراد بالمحراب جدار القبلۃ‘‘(۱)
’’وتکرہ بحضرۃ کل ما یشغل البال کزینۃ و بحضرۃ ما یخل بالخشوع کلہو ولعب ولذا نہی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن الإتیان للصلاۃ سعیا بالہرولۃ‘‘(۲)
’’ویکرہ الصلاۃ وقت مدافعۃ البول أو الغائط، ووقت حضور الطعام إذا کانت النفس تائقۃ إلیہ والوقت الذی یوجد فیہ ما یشغل البال من أفعال الصلاۃ، ویخل بالخشوع، کائنا ما کان الشاغل‘‘(۳)
فتاویٰ شامی میں ہے:
’’بقي في المکروہات أشیاء أخر ذکرہا في المنیۃ ونور الإیضاح وغیرہما: منہا الصلاۃ بحضرۃ ما یشغل البال ویخل بالخشوع کزینۃ ولہو ولعب، لذلک کرہت بحضرۃ طعام تمیل إلیہ نفسہ، وسیأتي في کتاب الحج قبیل باب القرآن: یکرہ للمصلي جعل نحو نعلہ خلفہ لشغل قلبہ‘‘(۱)

(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’قبیل مطلب: في أفضل المساجد‘‘: ج ۲، ص: ۴۳۰، ۴۳۱، ط: زکریا۔
(۲) حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، کتاب الصلاۃ، فصل في المکروھات: ص: ۳۶۰۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ: ج ۱، ص: ۱۰۹۔
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع ردالمحتار: ج۲، ص:۴۲۵۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص189

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا بھی ثابت ہے کہ آپ نے بارش کی دعاء الٹے ہاتھ کی ہے۔(۱)
’’عن أنس رضي اللّٰہ عنہ قال: أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم استسقی فأشار بظہر کفیہ إلی السماء‘‘(۲)

(۱) ثم السنۃ في کل دعاء لسوال شیء، وتحصیلہ أن یجعل بطون کفیہ نحو السماء، ولرفع بلاء کالقحط یجعل بطونہما إلی الأرض، وذلک معنی قولہ تعالی ویدعوننا رغبا ورہبا۔ کذا في شرح البدر العیني علی الصحیح۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’کتاب الاستسقاء‘‘: ص: ۵۵۱،دارالکتاب دیوبند)
(۲)  أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب صلاۃ الاستسقاء، فصل في الرفع البلیغ للأیدي في الاستسقایء و جعل ظہور الیدین إلی السماء‘‘: رقم: ۸۹۵۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص408

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: مجبوری میں اس کی گنجائش ہے، دو تین قدم آگے بڑھ کر وہ سامنے سے ہٹ جائے تو بہتر ہے۔(۱)

(۱) أراد المرور بین یدي المصلي فإن کان معہ شيء یضعہ بین یدیہ ثم یمر ویأخذہ ولو مر إثنان یقوم أحدہما أمامہ ویمر الآخر ویفعل الآخر، ہکذا یمران۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب إذا قرأ قولہ -تعالی- جدک بدون ألف لاتفسد‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۱)
و کذا مرور المار في أي موضع یکون من المسجد منزلۃ مرورہ بین یدیہ و في موضع سجودہ و إن کان المسجد کبیرا بمنزلۃ الجامع، قال بعضھم: ھو بمنزلۃ المسجد الصغیر فیکرہ المرور في جمیع الأماکن، ابن نجیم، البحرالرائق، کتاب الصلاۃ، و ما یکرہ فیھا، الأکل والشرب في الصلاۃ، ج۲، ص:۱۷)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص451

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: سلام کو الف کے ساتھ ’’السلام علیکم‘‘ ہی پڑھنا چاہئے کہ یہی اصل ضابطے کے مطابق ہے اور اس کی عادت بنانی چاہئے اور اگر اتفاقاً ’’سلام علیکم‘‘ بھی پڑھ لیا جائے تب بھی نمازدرست ہوگئی۔(۱)

(۱) فإن نقص فقال: السلام علیکم أو سلام علیکم أساء بترکہ السنۃ وصح فرضہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح ، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في بیان سننہا‘‘: ص: ۲۷۴، شیخ الہند)
قال في البحر وہو علی وجہ الأکمل أن یقول السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ مرتین، فإن قال السلام علیکم أو السلام أو سلام علیکم أو علیکم السلام أجزأہ وکان تارکا للسنۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إدراک فضیلۃ الافتتاح‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۱)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص365