Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مفتی بہ قول کے مطابق نماز استسقاء جماعت کے ساتھ ادا کرنا مسنون ہے(۱) اس کا وقت اشراق کا وقت ہے یعنی طلوع آفتاب کے ایک ڈیڑھ گھنٹے کے بعد شروع ہوکر زوال تک رہتا ہے، یہ ہی طریقہ متوارث ہے۔(۲)
(۱) وقال محمد: یصلي الإمام أو نائبہ رکعتین کما في الجمعۃ، ثم یخطب: أي یسن لہ ذلک والأصح أن أبایوسف مع محمد۔ (قولہ بل ہي) أي الجماعۃ جائزۃ لامکروہۃ، وہذا موافق لما ذکرہ شیخ الاسلام من أن الخلاف في السنیۃ لا في اصل المشروعیۃ۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الاستسقاء‘‘: ج۳، ص: ۷۰، زکریا دیوبند)
(۲) وقال الحافظ بن رجب وقت صلاۃ الاستسقاء وقت صلاۃ العید، ولایفوت وقتہا بفوات وقت العید بل تصلي في جمیع النہار وذہب الجمہور إنہا تجوز في أي وقت عدا أوقات الکراہۃ۔ (ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، ج۶، ص: ۲۹۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص409
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 39 / 979
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ احناف کے نزدیک قصر واجب ہے۔ صورت مسؤولہ میں مسافر نے اگر دورکعت پر قعدہ کیا تھا توامام کی نماز کراہت کےساتھ ہوجائے گی، مگر اعادہ کرلینا بہتر ہے، البتہ مقتدیوں کی نماز درست نہیں ہوئی، ان پر تمام رکعتوں میں بطور فرض اقتداء کرنا لازم تھا جبکہ امام پر دوہی رکعتیں فرض تھیں ۔لہذا مقتدی حضرات اپنی نمازیں ضرورلوٹالیں۔ کذا فی الشامی
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1085/41-254
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سنن موکدہ کا وقت کے اندر ادا کرنا ضروری ہے، وقت نکل جانے کے بعد اس کی ادائیگی ساقط ہوجاتی ہے۔ اس لئے جو سنتیں اس طرح پڑھی گئیں ان کی قضا لام نہیں ہے۔ جو ہوا اس پر توبہ واستغفار کرے اور آئندہ صحیح طریقہ پر نماز ادا کرے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1708/43-1363
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شہر سے باہرایسی جگہ جمعہ کی نماز قائم کرنا درست نہیں ہے۔ کالج کے طلبہ کے لئے اگر ممکن ہو تو شہر جاکر جمعہ کی نماز ادا کرلیں، اور اگر شہر جانا ممکن نہ ہو تو کالج کے اسی کمرہ میں جہاں پنجوقتہ نماز ہوتی ہے وہیں نمازِ ظہر ادا کرلیں؛ ایسے لوگوں پر نماز جمعہ فرض نہیں ہے۔نماز جمعہ کے لئے شہر، قصبہ یا بڑے گاوٴں کا ہونا ضروری ہے ، چھوٹے گاوٴں یا جنگل میں جمعہ کی نماز قائم کرنا درست نہیں۔
ويشترط لصحتها) سبعة أشياء:الأول: (المصر وهو ما لايسع أكبر مساجده أهله المكلفين بها) وعليه فتوى أكثر الفقهاء، مجتبى؛ لظهور التواني في الأحكام، وظاهر المذهب أنه كل موضع له أمير وقاض قدر على إقامة الحدود كما حررناه فيما علقناه على الملتقى. وفي القهستاني: إذن الحاكم ببناء الجامع في الرستاق إذن بالجمعة اتفاقا على ما قاله السرخسي وإذا اتصل به الحكم صار مجمعاً عليه فليحفظ. (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 137)
"عن أبي حنيفة رحمه الله: أنه بلدة كبيره فيها سكك وأسواق ولها رساتيق، وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم مجشمته وعلمه أو علم غيره، والناس يرجعون إليه فيما يقع من الحوادث، وهذا هو الأصح". (بدائع الصنائع، ج: 2، ص: 260، ط: سعيد)
وتقع فرضاً في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق، وفيما ذكرنا إشارة إلى أنها لاتجوز في الصغيرة". (شامی، ج: 1، ص: 537، ط: سعيد)
لاتجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب، كذا في المضمرات". (شامی، ج: 2، ص: 138، ط: سعيد)
عن علي أنه قال: لا جمعة ولا تشريق إلا في مصر". (اعلاء السنن، ج: 8، ص1، إدارة القرآن)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اگلی صف میں خالی جگہ کا پر کرنا ضروری ہے اور جو لوگ دوسری صف میں کھڑے ہوگئے باوجود پہلی صف میں جگہ ہونے کے، تو اس کو پر کرنے کے لیے دوسری صف والوں کے آگے سے گزرنا اور پہلی صف میں خالی جگہ پر جاکر کھڑا ہونا درست اور جائز ہے۔
’’إلا أن یجد الداخل فرجۃ في الصف الأول فلہ أن یمر بین یدي الصف الثاني لتقصیر أہل الصف الثاني ذکرہ الطیبي‘‘(۱)
’’لو وجد فرجۃ في الأول لاالثاني لہ خرق الثاني لتقصیرہم‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب إذا تردد قولہ جدک بدون ألف لاتفسد‘‘: ج ۲، ص:۴۰۲۔
(۲) أیضًا۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص452
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر زید نے کسی وجہ سے دوسرے آدمی سے بچہ کے کان میں اذان و تکبیر کہلوائی تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے اور اس میں اس امام صاحب کی بھی کوئی توہین نہیں ہے، جنہوں نے پہلے اذان و تکبیر پڑھی تھی۔ اس کو توہین پر محمول کرنا درست نہیں۔ ہاں! پہلی اذان سے سنیت ادا ہوگئی ہے۔ (۱)
(۱) إذا کان في المسجد أکثر من مؤذن واحد أذنوا واحدا بعد واحد فالحرمۃ للأول، کذا في الکفایۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني في الأذان‘‘: الفصل الثاني في کلمات الأذان والإقامۃ وکیفیتہما، ج ۱، ص: ۱۱۴، زکریا دیوبند)
إذا أذن واحد بعد واحد علی المنارۃ یوم الجمعۃ، قال شمس الأئمۃ الحلواني رحمۃ اللّٰہ علیہ: الصحیح أن الموجب للسّعي وترک التجارۃ ہو الأذان الأول لیس للثاني من الحرمۃ ما یکون للأول۔ (فتاویٰ قاضي خان علی الہندیۃ، المجلد السابع، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مسائل الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۵۱، زکریا)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص221
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں حنفی مسلک کے مفتی بہ قول کے مطابق تعدیل ارکان نماز میں واجب ہے سنت کا قول بھی اگرچہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے؛ لیکن فقہاء احناف کا اس پر فتویٰ نہیں ہے۔ مذکورہ امام صاحب نے جو قول بیان کیا وہ غیر مفتی بہ ہے۔(۲)
(۲) ویجب الإطمینان وہو التعدیل في الأرکان بتسکین الجوارح في الرکوع والسجود حتی تطمئن مفاصلہ في الصحیح۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان واجب الصلاۃ‘‘: ص: ۲۴۹، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)
وتعدیل الأرکان ہو تسکین الجوارح حتی تطمئن مفاصلہ وأدناہ قدر تسبیحۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع، في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثانيفي واجبات الصلاۃ ‘‘: ج۱، ص: ۱۲۹، زکریا دیوبند)
ثم القومۃ والجلسۃ سنۃ عندہما وکذا الطمأنینۃ في تخریج الجرجاني وفي تخریج الکرخي واجبۃ حتی تجب سجدتا السہو بترکہا عندہ۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۰۷، ۱۰۸، دار الکتاب دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص365
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: عشاء کے بعد سے ہی تہجد کا وقت شروع ہو جاتا ہے، البتہ افضل یہ ہے کہ آدھی رات کے بعد تہجد پڑھی جائے، لیکن اگر کوئی سونے سے پہلے دو رکعت یا چاریا آٹھ رکعت پڑھ کر اس نیت سے سو گیا کہ تہجد میں بھی اٹھ کر نماز پڑھوں گا، لیکن بیدار نہیں ہو سکا تو اس کو اسی دو رکعت پر تہجد کا ثواب مل جائے گا۔
’’أن رسول اللّٰہ علیہ وسلم قال: لا بد من صلاۃ بلیل ولو ناقۃ ولو حلب شاۃ وما کان بعد صلاۃ العشاء الآخرۃ فہو من اللیل‘‘(۱)
(۱) وماکان بعد صلاۃ العشاء فہو من اللیل أخرجہ الطبراني في الکبیر، ج ۱، ص: ۲۴۵، وہذا یفید أن ہذہ السنۃ تحصل بالتنفل بعد صلاۃ العشاء قبل النوم۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، مطلب في صلاۃ اللیل‘‘: ج ۲، ص: ۴۶۷، زکریا دیوبند)
فینبغي القول بأن اقل التہجد رکعتان، وأوسطہ أربع وأکثرہ ثمان واللّٰہ اعلم۔ (أیضاً، ’’مطلب في صلاۃ اللیل‘‘: ج ۲، ص: ۴۶۸، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص409
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: نماز ایسی جگہ پر پڑھنی چاہئے جہاں خشوع وخضوع مکمل طور پر باقی رہ سکے، سامنے سوتا ہوا آدمی اچانک اٹھ جائے، تو خشوع وخضوع میں خلل پڑے گا؛ لہٰذا بغیر عذر اس طرح نماز پڑھنا مناسب نہیں؛ لیکن مذکورہ طریقہ پر ادا کی گئی نماز بلا شبہ درست وادا ہوجائے گی۔(۱)
(۱) ویکرہ أن یصلي وبین یدیہ قیام، کذا في فتاویٰ قاضي خان۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۷)
ویکرہ أن یکون فوق رأسہ أو خلفہ أو بین یدیہ أو بحذائہ صورۃ … أو یکون بین یدیہ قوم قیام یخشی خروج مایضحک أو یخبل أو یقابل وجہاً وإلا فلا کراہۃ لأن عائشۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہا قالت: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یصلي صلاۃ اللیل کلہا وأنا معترضۃ بینہ وبین القبلۃ فإذا أراد أن یوتر أیقظني فأوتر۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح علی حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في المکروہات‘‘: ص: ۶۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص453
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:بچہ کے کان میں اذان واقامت قبلہ رخ ہونی چاہیے، یہی افضل ہے۔ اگرچہ جائز دوسرا رخ بھی ہے۔(۱)
(۱) ویلتفت فیہ وکذا فیہا مطلقاً وقیل إن المحل متسعاً یمیناً ویساراً فقط لئلا یستدبر القبلۃ بصلاۃ وفلاح ولو وحدہ أو لمولود لأنہ سنۃ الأذان مطلقاً۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۵۳، زکریا دیوبند)
قولہ: حتی قالوا في الذي یؤذن للمولود ینبغي أن یحول قال السندي: فیرفع المولود عند الولادۃ علی یدیہ مستقبل القبلۃ ویؤذن في أذنہ الیمنیٰ ویقیم في الیسریٰ ویلتفت فیہما بالصلاۃ لجہۃ الیمین وبالفلاح لجہۃ الیسار، وفائدۃ الأذان في أذنہ أنہ یدفع أم الصبیان منہ۔ (تقریرات الرافعي علی رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۴۵)
(قولہ ولو وحدہ الخ) أشار بہ إلی رد قول الحلواني: إنہ لا یلتفت لعدم الحاجۃ إلیہ وفي البحر عن السراج أنہ من سنن الأذان فلا یخل المنفرد بشيء منہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج۲، ص: ۵۳، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص222