نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر زید نے کسی وجہ سے دوسرے آدمی سے بچہ کے کان میں اذان و تکبیر کہلوائی تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے اور اس میں اس امام صاحب کی بھی کوئی توہین نہیں ہے، جنہوں نے پہلے اذان و تکبیر پڑھی تھی۔ اس کو توہین پر محمول کرنا درست نہیں۔ ہاں! پہلی اذان سے سنیت ادا ہوگئی ہے۔ (۱)

(۱) إذا کان في المسجد أکثر من مؤذن واحد أذنوا واحدا بعد واحد فالحرمۃ للأول، کذا في الکفایۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني في الأذان‘‘: الفصل الثاني في کلمات الأذان والإقامۃ وکیفیتہما، ج ۱، ص: ۱۱۴، زکریا دیوبند)
إذا أذن واحد بعد واحد علی المنارۃ یوم الجمعۃ، قال شمس الأئمۃ الحلواني رحمۃ اللّٰہ علیہ: الصحیح أن الموجب للسّعي وترک التجارۃ ہو الأذان الأول لیس للثاني من الحرمۃ ما یکون للأول۔ (فتاویٰ قاضي خان علی الہندیۃ، المجلد السابع، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مسائل الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۵۱، زکریا)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص221

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں حنفی مسلک کے مفتی بہ قول کے مطابق تعدیل ارکان نماز میں واجب ہے سنت کا قول بھی اگرچہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے؛ لیکن فقہاء احناف کا اس پر فتویٰ نہیں ہے۔ مذکورہ امام صاحب نے جو قول بیان کیا وہ غیر مفتی بہ ہے۔(۲)

(۲) ویجب الإطمینان وہو التعدیل في الأرکان بتسکین الجوارح في الرکوع والسجود حتی تطمئن مفاصلہ في الصحیح۔ (أحمد بن محمد،  حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان واجب الصلاۃ‘‘: ص: ۲۴۹، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)
وتعدیل الأرکان ہو تسکین الجوارح حتی تطمئن مفاصلہ وأدناہ قدر تسبیحۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع، في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثانيفي واجبات الصلاۃ ‘‘: ج۱، ص: ۱۲۹، زکریا دیوبند)
ثم القومۃ والجلسۃ سنۃ عندہما وکذا الطمأنینۃ في تخریج الجرجاني وفي تخریج الکرخي  واجبۃ حتی تجب سجدتا السہو بترکہا عندہ۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۰۷، ۱۰۸، دار الکتاب دیوبند)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص365

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: عشاء کے بعد سے ہی تہجد کا وقت شروع ہو جاتا ہے، البتہ افضل یہ ہے کہ آدھی رات کے بعد تہجد پڑھی جائے، لیکن اگر کوئی سونے سے پہلے دو رکعت یا چاریا آٹھ رکعت پڑھ کر اس نیت سے سو گیا کہ تہجد میں بھی اٹھ کر نماز پڑھوں گا، لیکن بیدار نہیں ہو سکا تو اس کو اسی دو رکعت پر تہجد کا ثواب مل جائے گا۔
’’أن رسول اللّٰہ علیہ وسلم قال: لا بد من صلاۃ بلیل ولو ناقۃ ولو حلب شاۃ وما کان بعد صلاۃ العشاء الآخرۃ فہو من اللیل‘‘(۱)

(۱) وماکان بعد صلاۃ العشاء فہو من اللیل أخرجہ الطبراني في الکبیر، ج ۱، ص: ۲۴۵، وہذا یفید أن ہذہ السنۃ تحصل بالتنفل بعد صلاۃ العشاء قبل النوم۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، مطلب في صلاۃ اللیل‘‘: ج ۲، ص: ۴۶۷، زکریا دیوبند)
فینبغي القول بأن اقل التہجد رکعتان، وأوسطہ أربع وأکثرہ ثمان واللّٰہ اعلم۔ (أیضاً، ’’مطلب في صلاۃ اللیل‘‘: ج ۲، ص: ۴۶۸، زکریا دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص409

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نماز ایسی جگہ پر پڑھنی چاہئے جہاں خشوع وخضوع مکمل طور پر باقی رہ سکے، سامنے سوتا ہوا آدمی اچانک اٹھ جائے، تو خشوع وخضوع میں خلل پڑے گا؛ لہٰذا بغیر عذر اس طرح نماز پڑھنا مناسب نہیں؛ لیکن مذکورہ طریقہ پر ادا کی گئی نماز بلا شبہ درست وادا ہوجائے گی۔(۱)

(۱) ویکرہ أن یصلي وبین یدیہ قیام، کذا في فتاویٰ قاضي خان۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۷)
ویکرہ أن یکون فوق رأسہ أو خلفہ أو بین یدیہ أو بحذائہ صورۃ … أو یکون بین یدیہ قوم قیام یخشی خروج مایضحک أو یخبل أو یقابل وجہاً وإلا فلا کراہۃ لأن عائشۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہا قالت: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یصلي صلاۃ اللیل کلہا وأنا معترضۃ بینہ وبین القبلۃ فإذا أراد أن یوتر أیقظني فأوتر۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح علی حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في المکروہات‘‘: ص: ۶۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص453

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بچہ کے کان میں اذان واقامت قبلہ رخ ہونی چاہیے، یہی افضل ہے۔ اگرچہ جائز دوسرا رخ بھی ہے۔(۱)

(۱) ویلتفت فیہ وکذا فیہا مطلقاً وقیل إن المحل متسعاً یمیناً ویساراً فقط لئلا یستدبر القبلۃ بصلاۃ وفلاح ولو وحدہ أو لمولود لأنہ سنۃ الأذان مطلقاً۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۵۳، زکریا دیوبند)
قولہ: حتی قالوا في الذي یؤذن للمولود ینبغي أن یحول قال السندي: فیرفع المولود عند الولادۃ علی یدیہ مستقبل القبلۃ ویؤذن في أذنہ الیمنیٰ ویقیم في الیسریٰ ویلتفت فیہما بالصلاۃ لجہۃ الیمین وبالفلاح لجہۃ الیسار، وفائدۃ الأذان في أذنہ أنہ یدفع أم الصبیان منہ۔ (تقریرات الرافعي علی رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۴۵)
(قولہ ولو وحدہ الخ) أشار بہ إلی رد قول الحلواني: إنہ لا یلتفت لعدم الحاجۃ إلیہ وفي البحر عن السراج أنہ من سنن الأذان فلا یخل المنفرد بشيء منہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج۲، ص: ۵۳، زکریا دیوبند)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص222

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایک مرتبہ کے بقدر کافی ہے۔(۱)

(۱)سنتہا رفع الیدین للتحریمۃ … والقومۃ والجلسۃ … وکذا الطمأنینۃ فیہا قدر تسبیحۃ، کذا في شرح المنیۃ لابن الحاج۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع، في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث‘‘: ج۱، ص: ۱۳۰)
 قولہ وتسن الجلسۃ بین السجدتین، المراد بہا الطمانینۃ في القومۃ وتفترض عند أبي یوسف، ومقدار الجلوس عندنا بین السجدتین مقدار تسبیحۃ ولیس فیہ ذکر مسنون، کما في السراج۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان سننہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۸، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص366

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرامؓ سے نوافل کی جماعت ثابت نہیں ہے؛ اس لیے رمضان ہو یا غیر رمضان نوافل تنہا تنہا پڑھنے چاہئیں نوافل کی جماعت درست نہیں ہے۔(۲)

(۲) واعلم أن النفل بالجماعۃ علی سبیل التداعی مکروہ۔ (إبراھیم الحلبي، حلبی کبیري،  ’’تتمات من النوافل‘‘: ص: ۴۳۲، سہیل اکیڈمی)
ولا یصلي الوتر ولا التطوع بجماعۃ خارج رمضان أي یکرہ ذلک لوعلی سبیل التداعي، بأن یقتدی أربعۃ بواحد۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، قبیل باب إدراک الفریضۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۰، زکریا؛ وجماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الخامس في الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص410

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اگر دھوکہ سے کوئی شخص نمازی کے بالکل ہی آگے پہونچ جائے اور آگے پہونچ کر پھر خبر لگے کہ نمازی نماز پڑھ رہا ہے، تو اس کو چاہئے کہ پیچھے کی طرف لوٹ جائے کہ یہ ہی بہتر ہے اور اگر دوسری جانب کو چلا گیاتواب واپس نہ لوٹے۔(۲)

(۲) وقد أفاد بعض الفقہاء أن ہنا صوراً أربعاً، الأولیٰ: أن یکون للمار مندوحۃ عن المرور بین یدي المصلي ولم یتعرض المصلي لذلک فیختص المار بالإثم دون المار، والثانیۃ: مقابلتہا، وہو أن یکون المصلي تعرض للمرور والمار لیس لہ مندوحۃ عن المرور فیختص المصلي بالإثم دون المار، الثالثۃ:  أن یتعرض المصلي للمرور ویکون للمار مندوحۃ فیأثمان أما المصلي فلتعرضہ وأما المار فلمرورہ مع أمکان أن لایفعل، الأربعۃ: أن لایتعرض المصلي ولا یکون للمار مندوحۃ فلا یأثم واحد منہما۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا‘‘: ج۲، ص: ۳۹۹، زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص453

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اذان کے بعد قرآن پاک کی تلاوت کرنا درست ہے، بشرطیکہ نمازیوں کو نماز کی اطلاع کرنا مقصد نہ ہو اور عام لوگوں کو نماز کی طرف متوجہ کرنے کے لیے اذان کے بعد حمد، نعت پڑھنا اور الصلوۃ خیر من النوم کہنا عربی یا اردو میں کوئی دوسرا جملہ کہنا اور اس کو ثواب سمجھنا بدعت ہے صرف ایسے لوگوں کے لیے اجازت ہے جو عامۃ المسلمین کے کاموں میں ہر وقت مشغول رہتے ہوں تاکہ ترک جماعت نہ ہو جیسے قاضی مفتی وغیرہ۔(۱)

(۱) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ،’’کتاب الأقضیۃ، باب نقض الأحکام الباطلۃ‘‘: ج۲، ص: ۷۷ رقم ۱۷۱۸، اعزازیہ دیوبند)
کما یستفاد أن علیا رأی مؤذناً یثوب في العشاء فقال: أخرجوا ہذا المبتدع من المسجد۔ (المبسوط للسرخسي، ’’کتاب الأذان، باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۰)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص223

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: علمائے احناف کے نزدیک مطلقاً قرأت کرنا فرض ہے اگر کسی شخص سورہ فاتحہ پڑھی اور قرأت کرنا یعنی کوئی سورت پڑھنا بھول گیا، اخیر رکعت میں ایک سلام کے بعد سجدہ سہو کر لیا یا اس نے ثناء پڑھنے کے بعد سورہ فاتحہ کے بجائے بھول سے قرأت (کوئی سورت یا آیات کریمہ پڑھ لی) کر لی اور اخیر رکعت میں سجدہ سہو کر لیا تو دونوں صورتوں میں نماز درست ہو جائے گی؛ البتہ اگر جان بوجھ کر کسی نے سورہ فاتحہ یا سورت نہ ملائی تو نماز نہیں ہوگی اس نماز کا اعادہ کرنا واجب ہے، امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے: ہمارے نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ سورہ فاتحہ اور سورتوں میں جو بھی یاد ہو اس کو پڑھ لیا کریں۔
’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أمرنا نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن نقرأ بفاتحۃ الکتاب وما تیسر‘‘(۱)
نیز فرض نماز کی پہلی دو رکعتوں میں سورت کو ملایا جائے گا باقی رکعتوں میں صرف سورہ فاتحہ
پڑھی جائے گی جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے کہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے بعد سورت پڑھتے، پہلی میں طویل قرأت کرتے اور دوسری میں مختصر اور کسی آیت کو قصداً سنا بھی دیتے اور نماز عصر میں سورۂ  فاتحہ اور دو سورتیں پڑھتے اور پہلی رکعت میں قرأت طویل فرماتے اور نماز فجر کی پہلی رکعت میں بھی قرأت فرماتے اور دوسری میں مختصر پڑھتے۔
’’کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقرأ في الرکعتین الأولیین من صلاۃ الظہر بفاتحۃ الکتاب وسورتین، یطول في الأولٰی، ویقصر في الثانیۃ، ویسمع الآیۃ أحیانا، وکان یقرأ في العصر بفاتحۃ الکتاب وسورتین، وکان یطول في الأولٰی، وکان یطول في الرکعۃ الأولٰی من صلاۃ الصبح، ویقصر في الثانیۃ‘‘(۱)
وفي الفقہ علی المذاہب الأربعۃ:
’’ضم سورۃ إلی الفاتحۃ في جمیع رکعات النفل والوتر والأولیین من الفرض ویکفی في أداء الواجب أقصر سورۃ أو ما یماثلہا کثلاث آیات قصار أو آیۃ طویلۃ والأیات القصار الثلاث‘‘(۲)

(۱) أخرجہ أبوداود، في سننہ‘ ’’کتاب الصلاۃ، باب من ترک القراء ۃ في صلاتہ بفاتحۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۶ ، رقم:۸۱۸۔
(۱) أخرجہ البخاري، فی صحیحہ، ’’کتاب الأذان، باب القراء ۃ في الظہر‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۲، رقم: ۷۵۹۔
(۲) عبد الرحمن الجزیري، الفقہ علی المذاہب الأربعۃ، ’’واجبات الصلاۃ (في حاشیۃ)‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۹۔

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص367