نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر اتفاقی طور پر کچھ لوگ جمع ہوکر صلاۃ الستبیح ادا کرلیں، تو شرعاً گنجائش ہے؛ لیکن اس نماز کے لیے دعوت دے کر لوگوں کو جمع کرنا اور نماز پڑھانا بدعت ہے جس کی اصل خیر القرون میں نہیں ملتی۔(۱)

(۱) ولا یصلی الوتر ولا التطوع بجماعۃ خارج رمضان أی یکرہ ذلک علی سبیل التداعي بأن یقتدی أربعۃ بواحد کما في الدرر ولا خلاف في صحۃ الاقتداء۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۰، زکریا دیوبند)
ومثل ذلک یقال في صلاۃ التطوع جماعۃ اذا کان علی غیر وجہ التداعي یحرر۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوی علی المراقي، ’’فصل في صلاۃ التراویح‘‘: ص: ۴۱۲، اشرفیہ دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص411

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No.2843/45-4481

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دلال اگرکسی کا کوئی کام کراتا ہے اور اس کام پر معاوضہ طے کرلیتا ہے تو اس پر وہ طے شدہ معاوضہ  لے سکتا ہے جس کو دلالی کی اجرت کہاجاتاہے،  بشرطیکہ کام جائز ہو اور دلال کی جانب سے محنت و عمل بھی پایا جائے۔اس لئے دلالی کی اجرت جائز ہے،  البتہ اگر دلال جھوٹ اور مکروفریب سے کام لیتاہے تو اس کا وبال اس پر ہوگا اور وہ ان ناجائز امور کا مرتکب ہونے کی بناء پر گنہگار ہوگا۔  سوال میں مذکور باتیں اگر درست ہیں اور مبنی بر  حقیقت ہیں تو ایسا شخص فاسق ہےاور اس کے پیچھے نماز مکروہ ہے۔

"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، ‌وما ‌تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام."(رد المحتار كتاب الاجارة، ج:6، ص:63، ط:سعيد)

"كره إمامة "الفاسق" العالم لعدم اهتمامه بالدين فتجب إهانته شرعا فلا يعظم بتقديمه للإمامة وإذا تعذر منعه ينتقل عنه إلى غير مسجده للجمعة وغيرها وإن لم يقم الجمعة إلا هو تصلى معه"۔ (حاشیۃالطحطاوی، کتاب الصلاۃ، فصل فی بیان الأحق بالإمامة، ص:303، 304، ط:دار الکتب العلمیة)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ فی السوال امام اگر واقعی طور پر ایسا ہی ہے جیسا کہ تحریر سوال میں لکھا گیا ہے، تو وہ شخص بد عقیدہ اور بدعتی ہے اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے پس ایسے شخص کو امام نہ بنایا جائے، بلکہ کسی متقی دیندار اور پرہیز گار متبع سنت کو امام بنایا جائے، کیوں کہ مذکورہ شخص اپنی بد اعتقادی اور بدعت کی وجہ سے فاسق وفاجر ہے اور فاسق کو امام بنانا جائز نہیں ہے اور جو نماز یں اس کی امامت میں ادا ہوئی ہیں ان کا اعادہ ضروری نہیں ہے وہ نمازیں کراہت کے ساتھ ادا ہوگئی ہیں۔(۱)

(۱) وذکر الشارح وغیرہ أن الفاسق إذا تعذر منعہ یصلي الجمعۃ خلفہ وفي غیرہا ینتقل إلی مسجد آخر وعلل لہ في المعراج بأن في غیر الجمعۃ یجد إماما غیرہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۶۱۱)
(وکرہ إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق والمبتدع) فالحاصل أنہ یکرہ إلخ قال الرملي: ذکر الحلبي في شرح منیۃ المصلي أن کراہۃ تقدیم الفاسق والمبتدع کراہۃ التحریم۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق‘‘: ج ۱، ص: ۶۱۱، ۶۱۰)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص118

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:  عام حالات میں نمازپڑھنے والے کے آگے سے چھوٹی مسجدیا چھوٹے مکان میں گزرنا ناجائزہے جب تک کہ اس کے آگے کوئی آڑ نہ ہو، اوراگرنمازی کے آگے سترہ ہوتو اس آڑ کے آگے سے گزرنا جائزہے، سترے اور نمازی کے درمیان سے گزرنا جائز نہیں۔
لہٰذا چھوٹی مسجد یا محدود جگہ میں اتنے فاصلے سے بھی گزرنادرست نہیں، بلکہ نمازی کی نماز کے ختم ہونے کاانتظارکیاجائے، اس لیے کہ نمازی کے آگے سے گزرنے پر حدیث شریف میں شدید وعیدیں آئی ہیں۔
سترہ کا زمین سے چپکا ہوا اور متصل ہونا ضروری نہیں ہے، اگر دروازہ زمین سے متصل نہیں ہے اوپر کی طرف اٹھا ہوا ہے اس کو بھی سترہ بنانا درست ہے: جیسا کہ فتاویٰ محمودیہ میں ہے کہ اگر سترہ زمین سے متصل نہ ہو پھر بھی سترہ کا حکم میں ہے۔(۱)
نیز شیشہ کا دروازہ یا پلاسٹک وغیرہ کا پردہ جس سے دیکھنے والے کو بآسانی نظر آسکے تو وہ سترہ کا کام کرے گا اور نمازی کے سامنے اس دروازہ اور پردے کے بعد گزرنا جائز ہوگا۔
’’قال سعدی حلبی: یجوز أن یکون السترۃ ستارۃ معلقۃ إذا رکع أو سجد یحرکھا رأس المصلی ویزیلھا من موضع سجودہ ثم تعود إذا قام أو قعد اھ وصورتہ أن تکون الستارۃ من ثوب أو نحوہ معلقۃ فی سقف مثلاً ثم یصلی قریباً منہ فإذا سجد تقع علی ظھرہ ویکون سجودہ خارجاً عنھا، وإذا قام أو قعد سبلت علی الأرض‘‘(۱)
الدر المختار علی رد المحتار میں ہے:
(أو) مرورہ (بین یدیہ) إلی حائط القبلۃ (في) بیت و (مسجد) صغیر، فإنہ کبقعۃ واحدۃ (مطلقاً) … الخ‘‘
’’قال ابن عابدین رحمہ اللّٰہ: (قولہ: في بیت) ظاہرہ ولو کبیراً۔ وفي القہستاني: وینبغي أن یدخل فیہ أي في حکم المسجد الصغیر الدار والبیت۔ (قولہ: ومسجد صغیر) ہو أقل من ستین ذراعاً، وقیل: من أربعین، وہو المختار کما أشار إلیہ فی الجواہر، قہستاني‘‘(۲)
 تقریرات الرافعی میں ہے:
’’(قولہ: ظاہرہ ولو کبیراً الخ) لکن ینبغي تقییدہ بالصغیر، کماتقدم في الإمامۃ تقیید الدار بالصغیرۃ حیث لم یجعل قدر الصفین مانعاً من الاقتداء، بخلاف الکبیرۃ‘‘(۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص454

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ عمل درست؛ بلکہ مستحسن اورلائق ثواب ہے، ایک مرتبہ اذان کے بعد حضرت بلالؓ حضور کے پاس گئے اور دیکھا کہ آپ نیند سے بیدار نہیں ہیں تو حضرت بلالؓ نے ’’الصلاۃ خیر من النوم‘‘ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیدار کیا تھا۔ معلوم ہوا کہ فجر کی نماز کے لیے بیدار کرنا درست ہے؛ لیکن اس کا اس قدر التزام کہ لوگوں کے دلوں سے اذان کا مقصد ہی نکل جائے درست نہیں۔
’’والتثویب في الفجر حي علی الصلاۃ حي علی الفلاح مرتین بین الأذان والإقامۃ حسن لأنہ وقت نوم وغفلۃ‘‘ (۱)
’’التثویب الذي یصنعہ الناس بین الأذان والإقامۃ في صلاۃ الفجر ’’حي علی الصلاۃ، حي علی الفلاح‘‘ مرتین حسن، وإنما سماہ محدثا لأنہ أحدث في زمن التابعین، ووصفہ بالحسن لأنہم استحسنوہ۔ وقد قال صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ما رآہ المؤمنون حسنا فہو عند اللّٰہ حسن، وما رآہ المؤمنون قبیحا فہو عند اللّٰہ قبیح‘‘(۲)
’’]فرع[ لایجب انتباہ النائم في أول الوقت، ویجب إذا ضاق الوقت، نقلہ البیری في شرح الأشباہ عن البدائع من کتب الأصول، وقال: ولم نرہ في کتب الفروع فاغتنمہ‘‘(۳)

(۱) ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج۱، ص: ۲۴۹، زکریا بکڈپو، دیوبند۔
(۲) الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، الکلام في التثویب‘‘: ج ۱ ، ص: ۳۶۷، زکریا۔
(۳) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: مطلب في تعبدہ علیہ السلام قبل البعثۃ، ج ۲، ص: ۱۳)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص224

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:  واضح رہے کہ نفل اور وتر نماز کی تمام رکعتوں میں اور فرض نمازوں کی پہلی دورکعتوں میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بعد ضم سورت (سورت کا ملانا) واجب ہے، اگرجان بوجھ کر سورہ فاتحہ کے بعد سورت ملانا چھوڑ دے تو ترکِ واجب کی وجہ سے نماز کا اعادہ کرنا ضروری ہے؛ البتہ اگر بھول کر چھوٹ جائے اور نماز ختم ہونے سے قبل سجدہ سہو کر لے تو نماز ہو جائے گی۔
’’ضم سورۃ إلی الفاتحۃ في جمیع رکعات النفل والوتر والأولیین من الفرض ویکفي في أداء الواجب أقصر سورۃ أو ما یماثلہا کثلاث آیات قصار أو آیۃ طویلۃ والآیات القصار الثلاث‘‘(۱)
’’وفي أظھر الروایات لا یجب (سجود السھو)؛ لأن القراء ۃ فیھما مشروعۃ من غیر تقدیر، والاقتصار علی الفاتحہ مسنون لا واجب‘‘(۲)

(۱) عبدالرحمان الجزیری، الفقہ علی المذاہب الأربعۃ’’واجبات الصلاۃ: (في حاشیۃ)‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۹۔
(۲) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب کل شفع من النفل صلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۵۰۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص369

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس کا یہ عقیدہ قطعی طور پر باطل ہے اور اس پر اصلاح لازم ہے اگر وہ اصلاح نہ کرے، تو اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے۔ عقائد صحیحہ کا حامل یا پابند احکام امام مقرر کرنا چاہئے۔(۱)

(۱) (ومبتدع) أي صاحب بدعۃ وہي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول لا بمعاندۃ بل بنوع شبہۃ وکل من کان من قبلتنا (لا یکفر بہا) حتی الخوارج الذین یستحلون دمائنا وأموالنا وسب الرسول، وینکرون صفاتہ تعالٰی وجواز رؤیتہ لکونہ عن تأویل وشبہۃ بدلیل قبول شہادتہم، إلا الخطابیۃ ومنا من کفرہم (وإن) أنکر بعض ما علم من الدین ضرورۃ (کفر بہا) کقولہ إن اللّٰہ تعالیٰ جسم کالأجسام وإنکارہ صحبۃ الصدیق (فلا یصح الاقتداء بہ أصلا) فلیحفظ۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۹-۳۰۱)

(قولہ وکرہ إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق والمبتدع والأعمی وولد الزنا) بیان للشیئین الصحۃ والکراہۃ أما الصحۃ فمبنیۃ علی وجود الأہلیۃ للصلاۃ مع أداء الأرکان وہما موجودان من غیر نقص في الشرائط والأرکان، وأطلق المصنف في المبتدع فشمل کل مبتدع ہو من أہل قبلتنا، وقیدہ في المحیط والخلاصۃ والمجتبی وغیرہا بأن لا تکون بدعتہ تکفرہ، فإن کانت تکفرہ فالصلاۃ خلفہ لا تجوز، وعبارۃ الخلاصۃ ہکذا۔ وفي الأصل الاقتداء بأہل الأہواء جائز    إلا الجہمیۃ والقدریۃ والروافض الغالي ومن یقول بخلق القرآن والخطابیۃ والمشبہۃ وجملتہ أن من کان من أہل قبلتنا ولم یغل في ہواہ حتی یحکم بکفرہ تجوز الصلاۃ خلفہ وتکرہ، ولا تجوز الصلاۃ خلف من ینکر شفاعۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أو ینکر الکرام الکاتبین أو ینکر الرؤیۃ؛ لأنہ کافر۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ، الأحق بالإمامۃ في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۶۱۰، ۶۱۱)
قال المرغیناني: تجوز الصلاۃ خلف صاحب ہوی وبدعۃ ولا تجوز خلف الرافضي والجہمي والقدري والمشبہۃ ومن یقول بخلق القرآن، وحاصلہ إن کان ہوی لا یکفر بہ صاحبہ تجوز الصلاۃ خلفہ مع الکراہۃ وإلا فلا، ہکذا في التبیین والخلاصۃ وہو الصحیح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماما لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۱)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص119

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: سترہ کے لغوی معنی ہیں: وہ چیز جس کے ذریعہ انسان خود کو چھپا سکے، شریعت کی اصطلاح میں نماز کے باب میں ’’سترہ‘‘ سے مراد وہ لاٹھی یا چھڑی وغیرہ ہے جو کم از کم ایک گز شرعی کے برابر اونچی اور کم از کم ایک انگلی کے برابرموٹی ہو جسے نمازی نماز پڑھتے وقت اپنے سامنے کھڑا کردیتا ہے۔ جیسا کہ علامہ ابن عابدینؒ نے لکھا ہے:
’’(سترۃ بقدر ذراع) طولاً (وغلظ أصبع)؛ لتبدو للناظر‘‘(۱)
مزید آگے لکھتے ہیں:
’’(أو) مرورہ (بین یدیہ) إلی حائط القبلۃ (فی) بیت و (مسجد) صغیر، فإنہ کبقعۃ واحدۃ (مطلقاً) الخ‘‘
سترہ کی کم سے کم مقدار یہ ہے کہ: نمازی کے سامنے ایک ذراع، ایک ہاتھ (یعنی ہاتھ کی بڑی انگلی سے لے کر کہنی تک، دو بالشت) کے برابر لمبائی اور اس کی موٹائی کم سے کم ہاتھ کی ایک چھوٹی انگلی کے برابر ہونی چاہیے۔ اس کی لمبائی فٹ کے اعتبار سے تقریباً ڈیڑھ فٹ بنتی ہے۔
امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے روایت نقل کی ہے:
’’حدثنا أبو الأحوص، عن سماک، عن موسی بن طلحۃ، عن أبیہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا وضع أحدکم بین یدیہ مثل مؤخرۃ الرحل فلیصل، ولایبال من مر وراء ذلک‘‘(۳)
فتاویٰ شامی میں ہے:
’’(ویغرز) ندبا بدائع … (الإمام) وکذا المنفرد (في الصحراء) ونحوہا (سترۃ بقدر ذراع) طولا (وغلظ أصبع) لتبدو للناظر (بقربہ) (قولہ بقدر ذراع) بیان لأقلہا ط۔ والظاہر أن المراد بہ ذراع الید کما صرح بہ الشافعیۃ، وہو شبران (قولہ وغلظ أصبع) کذا في الہدایۃ‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’ ‘‘: ج ۱، ص: ۶۳۷۔
(۲) أیضاً:
(۳) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب سترۃ المصلی‘‘: ج ۱، ص: ۳۵۸، رقم: ۲۴۱، ط: دار إحیاء التراث العربي بیروت۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۶۳۶، ۶۳۷، ط: ایچ، ایم، سعید۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص456

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:صورت مسئولہ میں قدیم نقشہ جات کے مطابق جو عمل پہلے سے چلا آرہا ہے وہ جید و معتمد علماء اور ماہرین و تجربہ کار مفتیان کرام کی تحقیق پر مبنی ہے جو ہر لحاظ سے راجح اور قابل اعتماد ہے چناںچہ علماء کا اس پر اتفاق اور زمانہ دراز سے اس پر عمل ہے اس لیے اس کے مطابق عمل جاری رکھنا چاہئے اور بعض حضرات کی منفردانہ رائے یا تحقیق کی وجہ سے اس کو چھوڑنا درست نہیں ہے۔البتہ اگر کوئی قابل ذکر تحقیق سامنے آئے تو اس کو مفصل تحریر کرکے سوال کرلیا جائے۔(۱)

(۱) ومحل الاستحباب ما إذا لم یشک في بقاء اللیل، فإن شک کرہ الأکل في الصحیح کما في البدائع أیضاً۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم ومالا یفسدہ‘‘: ج ۳، ص: ۴۰۰، ط: مکتبہ: زکریا، دیوبند)
ویکرہ تأخیرہ إلی وقت یقع فیہ الشک، ھندیۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي: ص: ۶۸۳، دارالکتاب، دیوبند)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص93

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: مذکورہ عمل درست؛ بلکہ مستحسن اورلائق ثواب ہے،جیسا کہ ابن الہمامؒ نے فتح القدیر میں لکھا ہے:
’’والتثویب في الفجر حي علی الصلاۃ، حي علی الفلاح مرتین بین الأذان والإقامۃ حسن لأنہ وقت نوم وغفلۃ‘‘(۱)
’’التثویب الذي یصنعہ الناس بین الأذان والإقامۃ في صلاۃ الفجر ’’حي علی الصلاۃ، حي علی الفلاح‘‘ مرتین حسن، وإنما سماہ محدثا لأنہ أحدث في زمن التابعین، ووصفہ بالحسن لأنہم استحسنوہ۔ وقد قال صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ما رآہ المؤمنون حسنا فہو عند اللّٰہ حسن، وما رآہ المؤمنون قبیحا فہو عند اللّٰہ قبیح‘‘(۲)

’’]فرع[ لایجب انتباہ النائم في أول الوقت، ویجب إذا ضاق الوقت، نقلہ البیری في شرح الأشباہ عن البدائع من کتب الأصول، وقال: ولم نرہ في کتب الفروع فاغتنمہ‘‘(۱)
آپ نے مختلف فتاوی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ان میں مذکورہے کہ مذکورہ عمل میں نقصانات نفع سے کہیںزیادہ ہیں، میں نے ان میں سے کئی فتاوی کا مطالعہ کیا ان میں زیادہ تر فتاوی میں مطلق تثویب کے تعلق سے بات لکھی ہے یعنی عام نمازوں میں تثویب کا تذکرہ ہے خاص فجر میں تثویب کا تذکرہ نہیں ہے؛ چناںچہ فتاوی رشیدیہ میں ہے: ا گر احیانا کسی کو بعد اذان بوجہ ضرورت بلوا لیں تو درست ہے، مگر اس کی عادت ڈالنی اور ہمیشہ اس کا التزام کرنا درست نہیں ہے۔(۲)
خلاصہ یہ کہ تثویب کو متاخرین نے جائز قرار دیا ہے، اور خاص طورپر فجر میں تثویب کی اجازت ہے۔(۳) حضرات اکابر نے صرف اس بنیاد پر کہ ایک غیر ضروری امر کو ضروری نہ سمجھ لیا جائے احتیاطاً منع کیا ہے، اس میں عام طورپر فجر کی نماز کا تذکرہ نہیں ہے، جب کہ فجر کا نوم وغفلت کا وقت ہے؛ اس لیے اگر فجر کی نماز میں کسی مناسب انداز سے لوگوں کو نماز کی دعوت دی جائے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔(۴)

(۱) ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۵۔
(۲) الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، فصل بیان کیفیۃ الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۳۶۷۔
(۱) ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، مطلب في تعبدہ علیہ الصلاۃ والسلام قبل البعثۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۳۔
(۲) فتاوی رشیدیہ، تحقیق وتعلیق: مفتی محمد یوسف صاحب: ج ۲، ص: ۴۵۴۔
(۳) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في أول من بني المنائر للأذان،‘‘: ج ۲، ص: ۵۶، مطبع زکریا۔
(۴) قال الزہري: وزاد بلال في نداء صلاۃ الفجر: الصلاۃ خیر من النوم، فأقرہا نبي اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وقال عمر رضي اللّٰہ عنہ، أما إني قد رأیت مثل الذي رأي، ولکنہ سبقني۔ (مسند أبي یعلی، مسند عبد اللّٰہ بن عمر: ج ۹، ص: ۳۷۹، رقم ۵۵۰۴)

أخبرنا مالک، أخبرنا ابن شہاب، عن عطاء بن یزید اللیثي، عن أبي سعید الخدري، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال: إذا سمعتم النداء، فقولوا مثل ما یقول المؤذن (ص: ۵۵) قال مال:) بلغنا أن عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ جاء ہ المؤذن یؤذنہ لصلاۃ الصبح، فوجدہ نائماً فقال المؤذن: الصلاۃ خیر من النوم، فأمرہ عمر أن یجعلہا في نداء الصبح۔ (أخرجہ مالک، في الموطأ، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان والتثویب‘‘: ج ۱، ص: ۵۴، رقم: ۹۱؛ ومسند ابن أبي شیبۃ، ’’من کان یقول في الأذان الصلاۃ خیر من النوم‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۹)
 محمد، قال: أخبرنا أبو حنیفۃ، عن حماد، عن إبراہیم، قال: سألتہ عن التثویب، قال: ہو مما أحدثہ الناس، وہو حسن مما أحدثوا وذکر أن تثویبہم کان حین یفرغ المؤذن من أذانہ: الصلاۃ خیر من النوم قال محمد: وبہ نأخذ، وہو قول أبي حنیفۃ رضي اللّٰہ عنہ۔ (الآثار لمحمد بن الحسن، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۱، رقم: ۹۱(شاملہ)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص225