نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: واضح رہے کہ نماز کے ہر قعدہ میں التحیات پڑھنا واجب ہے خواہ نماز فرض ہو یا نفل اگر امام صاحب قعدہ اخیرہ میں سلام پھر دیں یا قعدہ اولیٰ ہو اور تیسری رکعت کے لیے امام کھڑا ہو جائے اس صورت میں التحیات مکمل کر کے ہی تیسری رکعت یا بقیہ نماز کی تکمیل کے لیے کھڑا ہونا چاہئے؛ البتہ اگر التحیات پڑھے بغیر ہی کھڑا ہو گیا تو اس صورت میں کراہت کے ساتھ نماز ادا ہو جائے گی اعادہ کی ضرورت نہیں۔ جیسا کہ علامہ حصکفیؒ نے در مختار میں لکھا ہے:
’’(بخلاف سلامہ) أو قیامہ لثالثۃ (قبل تمام المؤتم التشہد) فإنہ لا یتابعہ بل یتمہ لوجوبہ، ولو لم یتم جاز؛ ولو سلم والمؤتم في أدعیۃ التشہد تابعہ لأنہ سنۃ والناس عنہ غافلون۔ (قولہ: فإنہ لا یتابعہ إلخ) أي ولو خاف أن تفوتہ الرکعۃ الثالثۃ مع الإمام کما صرح بہ في الظہیریۃ، وشمل بإطلاقہ ما لو اقتدی بہ في أثناء التشہد الأول أو الأخیر، فحین قعد قام إمامہ أو سلم، ومقتضاہ أنہ یتم التشہد ثم یقوم ولم أرہ صریحا، ثم رأیتہ في الذخیرۃ ناقلا عن أبي اللیث: المختار عندي أنہ یتم التشہد وإن لم یفعل أجزأہ۔ اھـ۔ وللّٰہ الحمد (قولہ: لوجوبہ) أي لوجوب التشہد کما في الخانیۃ وغیرہا، ومقتضاہ سقوط وجوب المتابعۃ کما سنذکرہ وإلا لم ینتج المطلوب فافہم (قولہ ولو لم یتم جاز) أي صح مع کراہۃ التحریم کما أفادہ ح، ونازعہ ط والرحمتی، وہو مفاد ما في شرح المنیۃ حیث قال: والحاصل أن متابعۃ الإمام في الفرائض والواجبات من غیر تأخیر واجبۃ فإن عارضہا واجب لا ینبغي أن یفوتہ بل یأتي بہ ثم یتابعہ لأن الإتیان بہ لا یفوت المتابعۃ بالکلیۃ وإنما یؤخرہا، والمتابعۃ مع قطعہ تفوتہ بالکلیۃ، فکان تأخیر أحد الواجبین مع الإتیان بہما أولیٰ من ترک أحدہما بالکلیۃ‘‘(۱)
’’إذا أدرک الإمام في التشہد وقام الإمام قبل أن یتم المقتدي أو سلم الإمام في آخر الصلاۃ قبل أن یتم المقتدي التشہد فالمختار أن یتم التشہد۔ کذا في الغیاثیۃ وإن لم یتم أجزأہ‘‘(۱)
’’(والتشہدان) ویسجد للسہو بترک بعضہ ککلہ وکذا في کل قعدۃ في الأصح إذ قد یتکرر عشراً۔ (قولہ: والتشہدان) أي تشہد القعدۃ الأولی وتشہد الأخیرۃ‘‘(۲)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘:ج ۲، ص:۱۹۹،۲۰۰۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل السادس فیما یتابع الإمام وفیما لایتابع‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۷۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب لاینبغي أن یعدل عن الدرایۃ إذا وقفتہا روایۃ ‘‘: ج ۲، ص:۱۵۷، ۱۵۸۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص370

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام اور لقمہ دینے والے مقتدی دونوں کی نماز صورت مسئول عنہا میں درست ہوگئی اور اس صورت میں سجدۂ سہو کی ضرورت بھی نہیں تھی؛ لیکن اگر غلطی سے سجدۂ سہو کرلیا گیا تب بھی نماز درست ہوگئی۔
بخلاف فتحہ علی إمامہ فإنہ لا یفسد مطلقاً لفاتح وآخذ بکل حال الخ(۱)

(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب: المواضع التي لا یجب فیہا رد السلام‘‘: ج ۲، ص: ۳۸۱، ۳۸۲، ط: زکریا۔
والصحیح أن ینوي الفتح علی إمامہ دون القراء ۃ۔ قالوا : ہذا إذا أرتج علیہ قبل أن یقرأ قدر ما تجوز بہ الصلاۃ، أو بعدما قرأ ولم یتحول إلی آیۃ أخری۔ وأما إذا قرأ أو تحول، ففتح علیہ، تفسد صلاۃ الفاتح، والصحیح: أنہا لا تفسد صلاۃ الفاتح بکل حال ولا صلاۃ الإمام لو أخذ منہ علی الصحیح ہکذا في الکافی۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، الفصل الأول فیما یفسدھا‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص289

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسا شخص رافضی کہلاتا ہے اس کی امامت میں نماز نہ پڑھی جائے، اگر پڑھ لی ہے تو اعادہ کرلیں۔(۱)

(۱) قال المرغیناني: تجوز الصلاۃ خلف صاحب ہوی وبدعۃ ولا تجوز خلف الرافضي والجہمي والقدري والمشبہۃ ومن یقول بخلق القرآن۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماما لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۱)

وفي الأصل الاقتداء بأہل الأہواء جائز إلا الجہمیۃ والقدریۃ والروافض الغالي، ومن یقول بخلق القرآن والخطابیۃ والمشبہۃ وجملتہ أن من کان من أہل قبلتنا ولم یغل في ہواہ حتی لم یحکم بکفرہ تجوز الصلاۃ خلفہ وتکرہ، ولا تجوز الصلاۃ خلف من ینکر شفاعۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أو ینکر الکرام الکاتبین أو ینکر الرؤیۃ لأنہ کافر۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، الأحق بالإمامۃ في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۶۱۱، ۶۱۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص120

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:ہندوستان میں بالعموم صبح صادق اورطلوعِ آفتاب میں ڈیڑھ گھنٹہ کا فرق ہوتا ہے اور اتنا ہی فرق مغرب اور عشاء میں ہوتا ہے؛ البتہ ہندوستان کے علاوہ یہ فرق کم اور زیادہ بھی ہوسکتا ہے۔(۲)

(۲) (من) أول (طلوع الفجر الثاني) وہو البیاض المنتشر المستطیر لا المستطیل (إلی) قبیل (طلوع ذکاء) بالضم غیر منصرف اسم الشمس قولہ: (وہو البیاض إلخ) لحدیث مسلم والترمذي واللفظ لہ لا یمنعنکم من سحورکم أذان بلال ولا الفجر المستطیل ولکن الفجر المستطیر فالمعتبر الفجر الصادق وہو الفجر المستطیر في الأفق: أي الذي ینتشر ضوئہ في أطراف السماء لا الکاذب وہو المستطیل الذي یبدو طویلا في السماء کذنب السرحان أي الذئب ثم یعقبہ ظلمۃالخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، مطلب: في تعبدہ علیہ السلام قبل البعثۃ‘‘: ج۲، ص: ۱۴)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص94

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:مذکورہ وقت بھی قبولیت دعا کے لیے ثابت ہے اور اس وقت کا خصوصیت سے احادیث میں ذکر ہے۔(۱) بغیر کسی التزام کے اگر کوئی شخص اس وقت میں دعا کرے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے؛ لیکن اس کو دینی حکم نہ سمجھنا چاہئے اگر کوئی اس میں شریک نہ ہو اور دعاء نہ کرے، تو اس کو لعن طعن نہ کیا جائے اور اس کو متہم نہ کیا جائے۔(۲)

(۱) عن أبي أمامۃ رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لأن أقعد أذکر اللّٰہ وأکبرہ وأحمدہ وأسبحہ وأہللہ حتی تطلع الشمس أحب إلی من أن أعتق رقبتین من ولد إسماعیل، ومن بعد العصر حتی تغرب الشمس أحب إلي من أن أعتق أربع رقبات من ولد إسماعیل۔ (أخرجہ علي بن أبي بکر، في مجمع الزوائد، باب ما یفعل بعد صلاۃ الصبح والمغرب: ج ۱۰، ص: ۱۳۲، رقم: ۱۶۹۳۶)(شاملہ)
(۲)حدثنا محمد بن فضیل، عن عبد الرحمن بن إسحاق، عن محارب، عن ابن عمر، رضي اللّٰہ عنہم، قال: کان یستحب الدعاء عند أذان المغرب، وقال: إنہا ساعۃ یستجاب فیہا الدعاء۔ (مصنف ابن أبي شیبۃ، في أي الساعات یستجاب الدعاء: ج ۲، ص: ۲۳۲، رقم: ۸۴۶۷)(شاملہ)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص227

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق:اس صورت میں سجدہ سہو لازم تھا وہ ادا کرلیا تو نماز درست ہوگئی، اگر سجدہ سہو نہ کیا جاتا تو نماز واجب الاعادہ ہوتی۔
’’وہي قــراء ۃ الفاتحۃ وضم سورۃ في الأولین من الفرض وجمیــع النفل والوتــر‘‘ (۱)

(۱) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب صلاۃ أدیت مع الکراہۃ التحریم تجب إعادتہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۹، ۱۵۰، زکریا۔
 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص371


 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ’’سبحان اللّٰہ‘‘ کہہ کر لقمہ دیدے کہ امام خود متنبہ ہوکر غلطی کو دور کرنے کی سعی کرے گا۔(۱)

(۱)عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من نابہ شیء في صلاتہ فلیقل: سبحان اللّٰہ، إنما التصفیق للنساء والتسبیح للرجال (أخرجہ أبوداؤد، وأحمد في سننہ، کتاب الإمامۃ: إذا تقدم الرجل من الرعیۃ ثم جاء الوالي ھل یتأخر؟ ج۱، ص۹۰، رقم:۷۸۴)
وعن أبی ہریرۃؓ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال التسبیح للرجال والتصفیق للنساء فمنع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لمن نابہ شيء في صلاتہ من الکلام وأمر بالتسبیح۔ (الجصاص، أحکام القرآن، ’’باب الصلاۃ الوسطی وذکر الکلام في الصلاۃ ‘‘: ج ۲، ص: ۱۵۹)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص290

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2365/44-3570

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   سوال میں مذکور غلطی کی بناء پر نماز فاسد نہیں ہوئی تھی، اور انفرادی طور پر بھی اعادہ کی ضرورت نہیں تھی، البتہ احتیاطا اعادہ صلوۃ کی وجہ سے کوئی گناہ نہیں ہوا ۔

"قال في شرح المنیة الکبیر:"القاعدة عند المتقدمین أن ما غیره تغیراً یکون اعتقاده کفراً تفسد في جمیع ذلک سواء کان في القرآن أو لم یکن إلا ما کان من تبدیل الجمل مفصولاً بوقف تام، ثم قال بعد ذلک: فالأولی الأخذ بقول المتقدمین". (إمداد المفتین، ص ۳۰۳)

"وإن غیر المعنی تغیراً فاحشاً فإن قرأ: ” وعصی آدم ربه فغوی “ بنصب میم ” اٰدم ورفع باء ” ربه “……… وما أشبه ذلک لو تعمد به یکفر، وإذا قرأ خطأً فسدت صلاته..." الخ (الفتاوی الخانیة علی هامش الهندیة، ۱: ۱۶۸، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)

"ومنها: ذکر کلمة مکان کلمة علی وجه البدل إن کانت الکلمة التي قرأها مکان کلمة یقرب معناها وهي في القرآن لاتفسد صلاته، نحو إن قرأ مکان العلیم الحکیم، وإن کان في القرآن، ولکن لاتتقاربان في المعنی نحو إن قرأ: "وعداً علینا إنا کنا غافلین" مکان {فاعلین} ونحوه مما لو اعتقده یکفر تفسد عند عامة مشایخنا،وهو الصحیح من مذهب أبي یوسف رحمه الله تعالی، هکذا في الخلاصة". (الفتاوی الهندیة، ۱: ۸۰،، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)

"وفي المضمرات: قرأ في الصلاة بخطإ فاحش ثم أعاد وقرأ صحیحاً فصلاته جائزة". (حاشیة الطحطاوي علی الدر المختار،۱: ۲۶۷ط: مکتبة الاتحاد دیوبند)

"ذکر في الفوائد: لو قرأ في الصلاة بخطإفاحش ثم رجع وقرأ صحیحاً ، قال: عندي صلاته جائزة". (الفتاوی الهندیة، ۱: ۸۲، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)ف

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2454/45-3723

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  سوال میں اس کی وضاحت نہیں ہے کہ آپ نے قعدہ اخیرہ کے بعد سلام پھیرنے میں تاخیرکیوں  کی جوکہ واجب ہے ۔ اگر کوئی شرعی وجہ نہیں تھی ذہول ہوگیا تھا،  تو ایسی صورت میں سجدہ سہو لازم ہوگا۔ یادآنے پر سہو کا سجدہ کریں، اور پھر تشہد وغیرہ سے فارغ ہوکر سلام پھیردیں۔  

"في الظهيرية: لو شك بعد ما قعد قدر التشهد أصلى ثلاثًا أو أربعًا حتى شغله ذلك عن السلام، ثم استيقن و أتمّ صلاته فعليه السهو ا هـو علله في البدائع بأنه أخر الواجب وهو السلام ا هـ  و ظاهره لزوم السجود وإن كان مشتغلا بقراءة الأدعية أو الصلاة." )حاشية رد المحتار على الدر المختار (2/ 93)

زائدًا عن التشهد ) أي الأول أو الثاني سواء كان بعد الفراغ من الصلاة والأدعية أو قبلهما قوله : ( وجب عليه سجود السهو ) إذا شغله التفكر عن أداء واجب بقدر ركن." (حاشية على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 307)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: سوال میں جو جملہ اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کا مذکور ہے اگر وہ صحیح ہے، تو مذکورہ شخص بلا شبہ مرتد اور اسلام سے خارج ہو گیا، نیز دیگر مذکورہ امور بھی مشتبہ ہیں؛ اس لیے متولی، نمازی ومقتدی حضرات اور اہل محلہ پر اس کو فوراً امامت سے علاحدہ کر دینا واجب ہے۔(۱)

(۱) (قولہ: خلف من لا تکفرہ بدعتہ) فلا تجوز الصلاۃ خلف من ینکر شفاعۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أو  الکرام الکاتبین أو  الرؤیۃ لأنہ کافر، وإن قال لا یری لجلالہ وعظمتہ فہو مبتدع۔ (أحمد بن محمد،  حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)

(ویکرہ إمامۃ عبد … ومبتدع لا یکفر بہا … وإن) أنکر بعض ما علم من الدین ضرورۃ (کفر بہا) کقولہ إن اللّٰہ تعالیٰ جسم کالأجسام وإنکارہ صحبۃ الصدیق۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۱-۲۹۸)
وحاصلہ: إن کان ہویٰ لا یکفر بہ صاحبہ تجوز الصلاۃ خلفہ مع الکراہۃ وإلا فلا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۱، زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص121