نکاح و شادی

Ref. No. 906/41-28B

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ والد کے علاوہ کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے تاہم  مذکورہ نکاح درست ہوگیا۔ اصل مقصود تعارف اور لڑکی کی تعیین ہے،   اور مذکورہ صورت میں لڑکی متعین ہوگئی تو  نکاح درست ہوگیا۔

لأن المقصود نفي الجهالة، وذلك حاصل بتعينها عند العاقدين والشهود، وإن لم يصرح باسمها كما إذا كانت إحداهما متزوجة، ويؤيده ما سيأتي (الدرالمختار 3/15)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 2177/44-2293

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نکاح میں عورتوں کی گواہی  قبول کی جاتی ہے ، لیکن ایک مرد کی جگہ دو عورتوں کا ہونا ضروری ہے۔ اس لئے ایک مرد اور ایک عورت کی گواہی میں نکاح جائز نہیں ہے، بلکہ کم از کم دو عورتوں کا ہونا لازم ہے۔  اگر ایک مرد اور ایک عورت کی گواہی میں نکاح کیاگیا تو نکاح منعقد ہی نہیں ہوا۔ دوبارہ نکاح کرنا ہوگا۔

ومنها:) الشهادة قال عامة العلماء: إنها شرط جواز النكاح، هكذا في البدائع. وشرط في الشاهد أربعة أمور: الحرية والعقل والبلوغ والإسلام ... ويشترط العدد فلاينعقد النكاح بشاهد واحد، هكذا في البدائع. ولايشترط وصف الذكورة حتى ينعقد بحضور رجل وامرأتين". (فتاوی ہندیہ (6/418)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی

Ref. No. 1728/43-1444

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ موبائل پر لڑکا و لڑکی ایجاب وقبول کریں ، اس طرح نکاح درست نہیں ہوتاہے، لیکن پھر معلوم ہونے کے بعد جب آپ نے  وکیل مقرر کیا اور دوگواہوں کی موجودگی میں وکیل نے لڑکی یا لڑکے کی جانب سے مجلس نکاح میں نکاح کو قبول کرلیا تو اب نکاح صحیح ہوگیااور لڑکا ولڑکی میں میاں بیوی کا رشتہ قائم ہوگیا۔  نکاح کے لئے ایک ہی مجلس میں دوگواہوں کے سامنے ایجاب و قبول کا ہونا ضروری ہے، خواہ لڑکا ولڑکی خود موجود ہوں یا ان کا وکیل موجود ہو۔

قال: " النكاح ينعقد بالإيجاب والقبول بلفظين يعبر بهما عن الماضي "  - - - لأن هذا توكيل بالنكاح والواحد يتولى طرفي النكاح على ما نبينه إن شاء الله تعالى " - -  - قال: " ولا ينعقد نكاح المسلمين إلا بحضور شاهدين حرين عاقلين بالغين مسلمين رجلين أو رجل وامرأتين عدولا كانوا أو غير عدول أو محدودين في القذف " قال رضي الله عنه اعلم أن الشهادة شرط في باب النكاح لقوله عليه الصلاة والسلام " لا نكاح إلا بشهود - - - قال: " ومن أمر رجلا بأن يزوج ابنته الصغيرة فزوجها والأب حاضر بشهادة رجل واحد سواهما جاز النكاح " لأن الأب يجعل مباشرا للعقد لاتحاد المجلس فيكون الوكيل سفيرا أو معبرا فيبقى المزوج شاهدا " وإن كان الأب غائبا لم يجز " لأن المجلس مختلف فلا يمكن أن يجعل الأب مباشرا  (الھدایۃ 2/305-307 مکتبہ ملت دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

 

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                           

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  شوہر ثانی کے طلاق دینے کے بعد عدت لازم ہے، عدت  کے اندر نکاح درست نہیں ہے۔ عدت کے اندر نکاح کرنے والے اور اس نکاح میں شرکت کرنے والے سب گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوں گے، اس لئے ہرگز ایسا نہ کیا جائے۔ عدت کے ختم ہونے کا انتظار کرنا ضروری ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 2181/44-2287

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آئندہ پیش آنے والے واقعات واسرار کا علم یا کشف کسی نبی یا بزرگ کو ہوجانا تکوینی علم کہلاتاہے، تکوینی علم اور تشریعی علم میں فرق یہ ہے کہ تشریعی علم کا تعلق اللہ تعالی کے ظاہری احکام وقوانین سے ہوتاہے، جبکہ تکوینی علم موھوب من اللہ ہوتاہے، اس کا تعلق ظاہری احکام سے نہیں ہوتاہے،۔ آپ کا جہاں سے رشتہ آیاتھا اور انہوں نے تکوینی نظام کے تحت رشتہ کے صحیح ہونے یا نہ ہونے کو معلوم کرنے کے لئے کہا ہے بظاہر ان کی مراد استخارہ ہوگی، کہ اس کے ذریعہ ظاہری اسباب کے بغیر دل میں کسی کام کے صحیح یا غلط ہونے کا القاء ہوجاتاہے، ورنہ انسان تشریعی نظام کا مکلف ہے، تکوینی نظام کا مکلف نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی

Ref. No. 2542/45-3879

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر لڑکا و لڑکی مجلس نکاح میں موجود ہوں، تو نکاح منعقد ہونے کے لئے متعاقدین کا ایجاب  و قبول زبانی کرنا ضروری ہے،  صرف متعاقدین کے نکاح نامہ پر دستخط کرنے سے نکاح منعقدہی نہیں ہوتاہے، اس لئےاگر لڑکی نے دھوکہ سے نکاح نامہ پر دستخط کردئے جس کے گواہ بھی موجود ہیں تو بھی یہ نکاح درست نہیں ہوگا۔ نکاح کے انعقاد صحیح کے لئے بالغہ لڑکی کا اپنی مرضی  سےایجاب یا قبول کرنا ضروری ہے،۔ ورنہ نکاح  منعقدنہیں  ہوگا۔

 (فلا ينعقد) بقبول بالفعل كقبض مهر ولابتعاط ولا بكتابة حاضر بل غائب بشرط إعلام الشهود بما في الكتاب۔
مطلب التزوج بإرسال كتاب قوله (ولا بكتابة حاضر) فلو كتب تزوجتك فكتبت قبلت لم ينعقد بحر والأظهر أن يقول فقالت قبلت الخ إذ الكتابة من الطرفين بلا قول لا تكفي ولو في الغيبة تأمل۔ (الدر المختار مع رد المحتار: (12/3، ط: دار الفکر)
ولا ينعقد بالكتابة من الحاضرين فلو كتب تزوجتك فكتبت قبلت لم ينعقد هكذا في النهر الفائق۔ (الفتاوی الھندیۃ: (270/1، ط: دار الفکر)
إن كان العاقدان حاضرين معاً في مجلس العقد وكانا قادرين على النطق فلا يصح بالاتفاق الزواج بينهما بالكتابة أو الإشارة۔ (الفقہ الاسلامی و ادلتہ: (6531/9، ط: دار الفکر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی

Ref. No. 1561/43-1080

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔زنا ایک گناہ کبیرہ ہے، اس پر سچی توبہ اور استغفار لازم ہے۔ اگر لڑکا و لڑکی سے ایسی غلطی ہوگئی اور جب حمل ظاہر ہوا تو دونوں کا نکاح کردیا گیاتو یہ اچھا کام ہوا۔چونکہ یہ حمل اسی کا ہے، اس سے غلطی پر پردہ بھی پڑ جائے گا اور بچہ کو اس کا باپ بھی مل جائے گا۔ اس لئے اگر نکاح کے چھ ماہ  بعد بچہ پیدا ہوگا تو اس کانسب  اس لڑکے سے ثابت ہوجائے گا، اور وہ اسی کا لڑکا قرار پائے گا۔ اور اگر چھ ماہ سے کم میں بچہ پیدا ہوگیا اور شوہر اس کے اپنے نسب سے ہونے کا اقرار کرتاہے تو بھی اس کا نسب اس سے ثابت مانا جائے گا، اور اگر انکار کرتاہے تو وہ لڑکا ولد الزنا ٹھہرے گا۔ نکاح ہوجانے کے بعد لڑکا لڑکی آپس میں مل سکتے ہیں، وضع حمل تک انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔  البتہ اگر اس  لڑکی کا نکاح کسی دوسرے لڑکے سے ہو تو نکاح تو درست ہوجائے گا لیکن اس کے لئے وضع حمل تک صحبت کرنا حلال نہیں ہوگا۔

"لو نكحها الزاني حل له وطؤها اتفاقاً، والولد له ولزمه النفقة (قوله: والولد له) أي إن جاءت بعد النكاح لستة أشهر، مختارات النوازل، فلو لأقل من ستة أشهر من وقت النكاح لايثبت النسب، ولايرث منه إلا أن يقول: هذا الولد مني، ولايقول: من الزنى، خانية. والظاهر أن هذا من حيث القضاء، أما من حيث الديانة فلايجوز له أن يدعيه؛ لأن الشرع قطع نسبه منه، فلايحل له استلحاقه به، ولذا لو صرح بأنه من الزنى لايثبت قضاءً أيضاً، وإنما يثبت لو لم يصرح؛ لاحتمال كونه بعقد سابق أو بشبهة حملاً لحال المسلم على الصلاح، وكذا ثبوته مطلقاً إذا جاءت به لستة أشهر من النكاح؛ لاحتمال علوقه بعد العقد، وأن ما قبل العقد كان انتفاخاً لا حملاً، ويحتاط في إثبات النسب ما أمكن" (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 49) "لاتجب العدة علی الزانیة". (الفتاوی الهندية، 526) "وإن حرم وطؤها و دواعیه حتی تضع ... لو نکح الزاني حل له وطؤها اتفاقاً" (شامی 4/141)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 1637/43-1215

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذاق مذاق میں نکاح کرنا الگ چیز ہے، اور نکاح کی حکایت اور نقل ایک الگ امر ہے۔ اگر مذاق میں نکاح  کیا اور شرائط نکاح  موجود ہوں تو اس سے نکاح منعقد ہوجاتاہے، البتہ اگر کسی نکاح کی حکایت بیانی  کی جائے جیسا کہ ڈراموں میں ہوتاہے تو اس سے نکاح منعقد نہیں ہوگا۔  ڈراموں میں پہلے  کہانی لکھی جاتی ہے اور اداکارواداکارہ اسی کہانی کو عملی شکل میں پیش  کرتے ہیں۔ ان کا مقصد مذاق میں نکاح کرنا یا حقیقت میں نکاح کرنا نہیں ہوتاہے بلکہ محض حکایت مقصود ہوتی ہے، اور زبان سے ان الفاظ کو لکھی ہوئی ایک تحریر کے طور پر پڑھاجاتاہے۔ جیسے ہم اگر کہیں پڑھیں"میں نے اپنی بیوی کو طلاق دیا" تو اس سے ایک مخصوص تحریر کو پڑھنا مقصود ہے نہ کہ طلاق دینا۔الغرض ڈرامہ میں جو بطور تمثیل نکاح و طلاق ہوتاہے اس کا حقیقت نکاح و طلاق سے کوئی تعلق نہیں ۔  تاہم احتیاط بہرصورت لازم ہے۔

"وفي الذخيرة: قال واحد من أهل المجلس للمطربة: "اين بيت بگو كه من بتودادم كه تو جان مني"، فقالت المطربة: ذلك، فقال الرجل: "من پزيرفتم"، إذا قالت على وجه الحكاية فقيل: لاينعقد النكاح، لأنها إذا قالت على وجه الحكاية لاتكون قاصدةً للإيجاب".  (فتاوی تاتارخانیہ، کتاب النکاح (4/7،ط: مکتبہ فاروقیہ)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 999 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مہر فاطمی پانچ سو درہم ہےیعنی ڈیڑھ کلو تیس گرام  نو سو ملی گرام چاندی  ہے۔

  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 1001 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ذات برادری اور خاندان کا لحاظ اس لئے کیا جاتا ہے کہ میاں بیوی کےآپسی رہن سہن  اور مزاج میں  یکسانیت ہو تاکہ  دونوں ایک  خوشگوار زندگی گزارسکیں۔ ذات برادری  میں تقسیم ،تفاخر اور دوسرے کو نیچا سمجھنے کے لئے نہیں بلکہ  تعارف کے لئے  ہے کہ اگر ایک نام کے دوشخص ہیں تو خاندان کے فرق سے امتیاز ہوجائے؛  والدین کو جوڑا تلاش کرتے وقت دینداری کا خیال کرنا چاہئے نہ کہ محض ذات پات کا۔ اسلئے اگر لڑکے یا لڑکی کا باپ دوسری برادری میں شادی  کرادے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ دینداری چھوڑ کر ذات پات میں لگ جانا مزاج شریعت کے خلاف ہے، اور محض جاہلانہ باتیں ہیں۔ قرآن  کریم میں ارشاد ہے، يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ۔ (الحجرات13)۔ اے لوگو ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تم کو مختلف قومیں اور مختلف خاندان بنایا تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرسکو،  اللہ کے نزدیک تم سب میں بڑا شریف وہی ہے جوسب سے زیادہ پرہیزگار ہو، اللہ تعالی خوب جاننے والا پورا خبردار ہے۔حدیث شریف میں ہے : تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ : لِمَالِهَا ، وَلِحَسَبِهَا ، وَلِجَمَالِهَا ، وَلِدِينِهَا ، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ (متفق علیہ) ۔ عورت سے چار وجہوں سے نکاح کیا جاتا ہے: مال، حسب نسب، حسن و جمال، یا دین کی وجہ سے۔ تم دیندار عورت کا انتخاب کرو۔(بخاری) اسی طرح نبی ﷺ نے نیک عورت کو دنیا کی سب سےبہتر متاع قرار دیا ہے۔(مسلم) ۔ 

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند