نکاح و شادی

Ref. No. 2704/45-4169

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کم از کم مہر کی مقدار دس درہم ہے، اگر اس سے کم مہر مقرر ہوا تو بھی دس درہم ہی دینا لازم ہوگا۔اور دس درہم کی موجودہ قیمت دینا بھی کافی ہوگا۔

وأما بيان أدنى المقدار الذي يصلح مهرا فأدناه عشرة دراهم أو ما قيمته عشرة دراهم، وهذا عندنا".  ((ولنا) قوله تعالى: {وأحل لكم ما وراء ذلكم أن تبتغوا بأموالكم} [النساء: 24] شرط سبحانه وتعالى أن يكون المهر مالا.

والحبة والدانق ونحوهما لا يعدان مالا فلا يصلح مهرا، وروي عن جابر - رضي الله عنه - عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه قال: «لا مهر دون عشرة دراهم» ، وعن عمر وعلي وعبد الله بن عمر - رضي الله عنهم - أنهم قالوا: لا يكون المهر أقل من عشرة دراهم، والظاهر أنهم لأنه باب لا يوصل إليه بالاجتهاد والقياس؛ ولأنه لما وقع الاختلاف في المقدار يجب الأخذ بالمتيقن وهو العشرة. وأما الحديث ففيه إثبات الاستحلال، إذا ذكر فيه مال قليل لا تبلغ قيمته عشرة. (بدائع الصنائع: (276/2، ط: دار الکتب العلمیة)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی

Ref. No. 988/41-143

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔صرف وسوسہ آنے سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ زبان پر کنٹرول رکھے  اور زبان سے کوئی بات  ایسی نہ کہے جس سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔  

ورکنہ لفظ مخصوص ھو ماجعل دلالۃ علی معنی الطلاق من صریح او کنایۃ  (ردالمحتار رکن الطلاق 3/230- نظام الفتاوی 2/144)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 2026/44-1993

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ڈاکٹر سے رابطہ کریں،  اپنا اور اہلیہ کا چیک اپ کرائیں اور علاج کرائیں۔ بعض مرتبہ بہت معمولی کمی ہوتی ہے ڈاکٹر  سے ہی اس مسئلہ کو حل کیاجاسکتاہے۔  ڈاکٹر جو مشورہ دے، اس کو دوبارہ لکھ کر  دارالافتاء سے پوچھ لیجئے کہ ایسی صورت اختیار کرنا شرعا جائز  ہے یا نہیں، اور اس سلسلہ میں شرعی ہدایات کیا ہیں وغیرہ۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی

Ref. No. 2459/45-3761

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  شادی میں   بہت ساری خرافات اور رسمیں عمل میں لائی جاتی ہیں جو سراسر شریعت کے خلاف ہوتی ہیں، ان میں سے ایک دولہے کا سلامی کے لئے  آنگن میں جانا بھی ہے۔ اس میں دولہا گھر میں  جاتاہے جہاں غیرمحرم عورتیں  اس کے سامنے آتی ہیں، سالیاں مذاق کرتی ہیں، جوتے چراتی ہیں وغیرہ۔ یہ سب امور خلاف شرع اور ناجائز ہیں اور ان رسموں سے گریز لازم ہے۔ تاہم چونکہ اکثر ایسا ہوتاہے کہ  ساس اپنے داماد کو دیکھنا چاہتی ہے تو ایسی صورت میں پردہ کے ساتھ اگردولہا  ساس کو سلام کرنے جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔  شادی کی مزید رسوم کے متعلق  حکم معلوم کرنے کے لئے  مندرجہ ذیل کتابوں کا مطالعہ مفید ہوگا۔ ”اصلاح الرسوم“ اور ”اسلامی شادی“ دونوں کتابیں حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ کی تصنیفات وافادات ہیں اور بازار میں دستیاب ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی

Ref. No. 2028/44-1991

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  تبلیغی جماعت کی محنت ترغیب پر قائم ہے، اکابر تبلیغ وعظ و نصیحت کے ذریعہ لوگوں کو آمادہ کرتے ہیں تاکہ وہ جماعت میں نکلیں۔ اساتذہ ، ملازمین یا ائمہ کرام کو مجبور کرکے اور دباؤ ڈال کر نکلنے کے لئے کہنا دعوت و تبلیغ کی روح کے خلاف ہے۔  (2) صورت مذکورہ میں نکاح درست نہیں ہوگا، اس لئے کہ لڑکے کے علاوہ ایک شخص لڑکی کا وکیل ہے اور صرف ایک گواہ ہے، اور ایک گواہ کی موجودگی میں نکاح نہیں ہوسکتاہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی

Ref. No. 1721/43-1409

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ لڑکی کی جانب سے  جب   کوئی وکیل بھی نہیں ہے تو یہ نکاح صحیح نہیں ہوا،  مجلس نکاح میں لڑکی یا اس کے وکیل  کا ہونا ضروری ہے، اس لئے لڑکے کا دوگواہوں کی موجودگی میں صرف ایجاب کرلینا کافی نہیں ہے ،لہذا مذکورہ  نکاح باطل ہے۔ لڑکی ولڑکا دونوں سچے دل سے توبہ کریں، اور بقدر استطاعت صدقہ بھی کریں، اورنکاح نہیں ہوا تو مہر کی ادائیگی لڑکے پر ضروری نہیں ہے۔

فالعقد ھو ربط اجزاء التصرف ای الایجاب والقبول شرعا لکن ھنا ارید بالعقد الحاصل بالمصدر وھو الارتباط لکن النکاح ھو الایجاب والقبول مع ذلک الارتباط۔ وانما قلنا ھذا لان الشرع یعتبر الایجاب والقبول ارکان عقد النکاح لا امورا خارجیۃ کالشرائط ونحوھا وقد ذکرت فی شرح التنقیح فی فصل النھی کالبیع فان الشرع یحکم بان الایجاب والقبول الموجودین حسا یرتبطان ارتباطا حکمیا فیحصل معنی شرعی یکون ملک المشتری اثرا لہ فذلک المعنی ھو البیع۔ (شرح الوقایۃ، کتاب النکاح 2/4، مکتبہ بلال دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 2031/44-1997

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عورت کو اس قدر جلدبازی سے کام نہیں لینا چاہیے تھا۔ شوہر کے غائب ہونے کی رپورٹ کرکے کسی دارالقضاء سے رجوع کرنا چاہیے تھا تاکہ مناسب طریقہ سے نکاح کو فسخ کیاجائے۔ کم از کم کسی مفتی صاحب سے ہی مسئلہ معلوم کرلینا چاہیے تھا۔ بہرحال صورت مسئولہ میں یہ عورت  اپنے پہلے شوہر کی ہی بیوی ہے، دوسرے مرد سے نکاح منعقد ہی نہیں ہوا۔ اور شوہر کا مال  شوہر کی ہی ملکیت میں رہے گا، عورت کا اس  کو اپنے نام کرالینا ناجائز اور حرام ہے۔ جو  زمین مسجد  کو دیدی گئی وہ زمین بھی شوہر کے حوالہ کردی جائے، اس پر شوہر کو مکمل اختیار ہے، چاہے تو مسجد رہنے دے اور چاہے تو واپس لے لے۔

ولو قضى على الغائب بلا نائب ينفذ) في أظهر الروايتين عن أصحابنا". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5 / 414)

"قلت: ويؤيده ما يأتي قريبا في المسخر، وكذا ما في الفتح من باب المفقود لايجوز القضاء على الغائب إلا إذا رأى القاضي مصلحة في الحكم له وعليه فحكم فإنه ينفذ؛ لأنه مجتهد فيه اهـ". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5 / 414)

وقال في الدر المنتقى: ليس بأولى، لقول القهستاني: لو أفتى به في موضع الضرورة لا بأس به على ما أظن اهـ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4 / 295)

"وأما تخييره إياه بين أن يردها عليه وبين المهر فهو بناء على مذهب عمر رضي الله عنه في المرأة إذا نعي إليها زوجها فاعتدت وتزوجت ثم أتى الزوج الأول حياً أنه يخير بين أن ترد عليه وبين المهر، وقد صح رجوعه عنه إلى قول علي رضي الله عنه، فإنه كان يقول: ترد إلى زوجها الأول، ويفرق بينها وبين الآخر، ولها المهر بما استحل من فرجها، ولا يقربها الأول حتى تنقضي عدتها من الآخر، وبهذا كان يأخذ إبراهيم رحمه الله فيقول: قول علي رضي الله عنه أحب إلي من قول عمر رضي الله عنه، وبه نأخذ أيضاً؛ لأنه تبين أنها تزوجت وهي منكوحة، ومنكوحة الغير ليست من المحللات، بل هي من المحرمات في حق سائر الناس" (المبسوط للسرخسي ـ موافق للمطبوع (11/ 64)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی

Ref. No. 2534/45-3873

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب دومعتبر گواہوں کی موجود گی میں زبانی  ایجاب و قبول کے ساتھ نکاح ہوگیا تو یہ نکاح درست ہوگیا۔ اب اگر نکاح  ہوجانے کے بعد گواہوں نے نکاح نامہ پراپنا  غلط نام لکھوایا  تو اس سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی

Ref. No. 1321/42-698

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  جوا، سٹہ سے پیسے حاصل کرنا، رشوت اور سود سے پیسے حاصل کرنا ، لڑکی والوں سے  بطورجہیزجبراً  پیسے حاصل کرنا یہ سب حرام و ناجائز ہیں۔ کوئی اگر اپنی رضامندی سے آپ کو بطور ہدیہ کچھ دیدے تو گرچہ  بلامحنت یہ پیسے حاصل ہوئے مگر  یہ حلال ہیں۔

والميسر مشتق من أحد أمرين: إما مشتق من اليسر وهو السهولة، وهذا بسبب أنهم يحصلون على المال من غير كد ولا تعب، وهي مغامرة يأتي بها فينجم عنها مال. وإما مشتق من اليسار وهو الغنى، أي: أنه يغنى بعد فقر، والمعاني متقاربة جداً.(سلسلۃ محاسن التاویل للمغامسی ج19ص12)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 2179/44-2292

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نکاح کے انعقاد کے لئے ایجاب و قبول کا ایک ہی مجلس میں ہونا ضروری ہے۔ اس لئے لڑکا اور لڑکی دو الگ الگ جگہوں پر ہوں اور ویڈیو کال پر نکاح کریں تو نکاح درست نہیں ہوگا۔ اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ لڑکا  یا لڑکی  کسی کواپنا وکیل بنادیں اور وہ مجلس نکاح میں موجود ہو وہ غائب شخص کی جانب سے  نکاح کو قبول کرے ۔ اس طرح ایک اصیل اور ایک وکیل کی موجودگی میں دوگواہوں کے سامنے نکاح منعقد ہوجائے گا۔

قال الحصكفي ؒ: "ومن شرائط الإيجاب والقبول: اتحاد المجلس لو حاضرين."

قال ابن عابدين ؒ: "(قوله: لو حاضرين) احترز به عن كتابة الغائب، لما في البحر عن المحيط الفرق بين الكتاب والخطاب أن في الخطاب لو قال: قبلت في مجلس آخر لم يجز وفي الكتاب يجوز؛ لأن الكلام كما وجد تلاشى فلم يتصل الإيجاب بالقبول في مجلس آخر فأما الكتاب فقائم في مجلس آخر، وقراءته بمنزلة خطاب الحاضر فاتصل الإيجاب بالقبول فصح. اهـ." (الدر المختار و حاشية ابن عابدين، 3/14، دار الفكر)

قال الحصكفي ؒ: "(وشرط سماع كل من العاقدين لفظ الآخر) ليتحقق رضاهما."

علق عليه ابن عابدين ؒ في حاشيته: "(قوله: سماع كل) أي ولو حكما كالكتاب إلى غائبة؛ لأن قراءته قائمة مقام الخطاب كما مر." (الدر المختار و حاشية ابن عابدين، 3/21، دار الفكر)

قال الحصكفي ؒ:" (و) شرط (حضور) شاهدين (حرين) أو حر وحرتين (مكلفين سامعين قولهما معا) على الأصح (فاهمين)۔۔۔."

قال ابن عابدينؒ: " قال في الفتح: ومن اشترط السماع ما قدمناه في التزوج بالكتاب من أنه لا بد من سماع الشهود ما في الكتاب المشتمل على الخطبة بأن تقرأه المرأة عليهم أو سماعهم العبارة عنه بأن تقول إن فلانا كتب إلي يخطبني ثم تشهدهم أنها زوجته نفسها. اهـ." (الدر المختار و حاشية ابن عابدين، 3/23، دار الفكر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند