نکاح و شادی

Ref. No. 2723/45-4241

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دونوں بیویوں کو ایک گھر میں رکھنا شرعا درست  ہے، اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے، تاہم  سونے میں دونوں کو الگ رکھیں ، ایک کی موجودگی میں دوسری سے صحبت کرنا بےحیائی کی بات ہوگی ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی

Ref. No. 2810/45-4386

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کسی عورت کو حیض آتاہے ، چاہے وہ چھ ماہ بعد آئے یا ایک سال بعد آئے وہ عورت ذوات الحیض میں سے ہے، اس کی عدت حیض سے ہی شمار ہوگی۔ یعنی اس کی عدت  مکمل تین ماہورایاں  گزرنے کے بعد ہی پوری ہوگی،اس صورت میں اس لڑکی کو چاہیے کہ کسی ماہر ڈاکٹر کے مشورہ سے بذریعہ علاج معالجہ یا جلدی ماہواری جاری کرنےکی دوا وغیرہ کھا کر مزید دو ماہوریاں گزار کراپنی عدت مکمل کرلے۔ مکمل عدت گزرنے کے بعد ہی اس کی دوسری جگہ شادی ہوسکتی ہے۔ 

"التي حاضت ثم امتد طهرها لا تعتد بالأشهر إلا إذا بلغت سن الإياس. وعن مالك انقضاؤها بحول وقيل بتسعة أشهر ستة لاستبراء الرحم (وثلاثة أشهر) للعدة ولو قضى به قاض نفذ.قال الزاهدي: وقد كان بعض أصحابنا يفتون به للضرورة خصوصًا الإمام والدي/ وفي (البزازية) والفتوى في زماننا على قول مالك في عدة الآيسة." (النہر الفائق شرح کنز الدقائق، کتاب الطلاق، باب العدۃ، ج:2، ص:476، ط:دار الکتب العلمیة)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی
میری منگیتر کا نام تنزیلہ ہے پہلے تو درخواست ہے کہ دعا کریں کہ میری ازدواجی زندگی مستقبل میں کامیاب ہو اور سکون والی ہو. کیا میں مستقبل میں شادی کے بعد اپنی بیوی کا نام تبدیل کر کے عائشہ یا کسی بھی صحابی خاتون کے نام پر رکھ سکتا ہوں کیا بیوی کا نام تبدیل کرنے سے نکاح پر اثر تو نہ پڑے گا نکاح دوبارہ تو نہ کرنا پڑے گا ویسے تنزیلہ نام بھی درست ہے اس کا مطلب ہے نازل ہونے والی

نکاح و شادی

Ref. No. 1540/43-1040

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نکاح کے بعدنام تبدیل کرنے سے نکاح پر کوئی فرق نہیں آئے گا، نکاح بدستور باقی ہے اس لئے کہ منکوحہ عورت تو ایک ہی ہے اسی کو تنزیلہ اور اسی کو عائشہ کہاجائے گا۔  

قوله: أي فإنها لو كانت مشاراً إليها وغلط في اسم أبيها أو اسمها لا يضر؛ لأن تعريف الإشارة الحسية أقوى من التسمية، لما في التسمية من الاشتراك لعارض فتلغو التسمية عندها، كما لو قال: اقتديت بزيد هذا، فإذا هو عمرو، فإنه يصح (شامی 3/26)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 1624/43-1197

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عورت کا بلاکسی وجہ کے انکارکرنا سخت گناہ ہے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ  کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر آدمی اپنی بیوی کو اپنے بستر کی طرف بلائے پھر عورت قربت سے انکار کردے  اور شوہر اسی طرح ناراضگی کی حالت میں رات  گزارے تو فرشتے اس عورت پر صبح تک لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔ عورت کو سمجھائیں کہ یہ سخت گناہ ہے، اور اللہ کی سخت ناراضگی کا سبب ہے، نماز و روزہ کی طرح اس کو اسلامی حکم سمجھے اور شوہر کو ہرگز منع نہ کرے۔ البتہ اگر کبھی  عورت کی سچ مچ مجبوری ہو تو شوہر کو اس کا خیال رکھنا چاہئے،۔ عورت کی شہوت میں کمی کسی بیماری کی وجہ سے بھی ہوتی ہے، کسی ماہر حکیم سے بتاکر اس کا علاج کرانابھی مفید رہے گا۔  اگر دوسرا نکاح کرنے کے تذکرے سے بات بن جائے تو یہ طریقہ بھی اختیار کیا جاسکتاہے۔  یا پھر اگر وسعت ہو تو دوسرا نکاح بھی کیاجاسکتاہے۔ شریعت نے اس سلسلہ میں شوہر کو دوسرا نکاح کرنے کی اجازت دی ہے۔ تاہم طلاق دینے سے بہرصورت شوہر گریز کرے۔ دوسرا نکاح کرنے کے لئے پہلی بیوی کو طلاق دینا شرعا ضروری نہیں ہے۔  شوہر کے لئے خودلذتی اور استمناء بالید جائز نہیں ہے۔

  "عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : "إِذَا دَعَا الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ إِلَى فِرَاشِهِ فَأَبَتْ، فَبَاتَ غَضْبَانَ عَلَيْهَا، لَعَنَتْهَا الْمَلائِكَةُ حَتَّى تُصْبِحَ". رواه البخاري( بدء الخلق/2998) "وعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :"إِذَا بَاتَتْ الْمَرْأَةُ مُهَاجِرَةً فِرَاشَ زَوْجِهَا لَعَنَتْهَا الْمَلَائِكَةُ حَتَّى تَرْجِعَ". رواه البخاري.(النكاح/4795) "وعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا مِنْ رَجُلٍ يَدْعُو امْرَأَتَهُ إِلَى فِرَاشِهَا فَتَأْبَى عَلَيْهِ إِلا كَانَ الَّذِي فِي السَّمَاءِ سَاخِطًا عَلَيْهَا حَتَّى يَرْضَى عَنْهَا". رواه مسلم. (النكاح/1736) "وعَنْ طَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا الرَّجُلُ دَعَا زَوْجَتَهُ لِحَاجَتِهِ فَلْتَأْتِهِ وَإِنْ كَانَتْ عَلَى التَّنُّورِ". رواه الترمذي". ( الرضاع/ 1080) فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلَّا تَعُولُوا (سورۃ النساء 3)  (أو جامع فيما دون الفرج ولم ينزل) يعني في غير السبيلين كسرة وفخذ وكذا الاستمناء بالكف وإن كره تحريما لحديث «ناكح اليد ملعون» ولو خاف الزنى يرجى أن لا وبال عليه. قال ابن عابدین: وفي السراج إن أراد بذلك تسكين الشهوة المفرطة الشاغلة للقلب وكان عزبا لا زوجة له ولا أمة أو كان إلا أنه لا يقدر على الوصول إليها لعذر قال أبو الليث أرجو أن لا وبال عليه وأما إذا فعله لاستجلاب الشهوة فهو آثم اهـ. ۔۔۔۔۔۔ بقوله تعالى {والذين هم لفروجهم حافظون} [المؤمنون: 5] الآية وقال فلم يبح الاستمتاع إلا بهما أي بالزوجة والأمة اهـ فأفاد عدم حل الاستمتاع أي قضاء الشهوة بغيرهما هذا ما ظهر لي والله سبحانه أعلم. (شامی، باب ما یفسد الصوم 2/399) الاستمناء حرام، وفيه التعزير، ولو مكن امرأته، أو أمته من العبث بذكره، فأنزل، فإنه مكروه، ولا شيء عليه، كذا في السراج الوهاج. (الھندیۃ، الباب الاول فی بیان السرقۃ 2/170) (فتح القدیر، باب مایوجب القضاء والکفارۃ 2/330) وهل يحل الاستمناء بالكف خارج رمضان إن أراد الشهوة لا يحل لقوله - عليه السلام - «ناكح اليد ملعون» ، وإن أراد تسكين الشهوة يرجى أن لا يكون عليه وبال كذا في الولوالجية (البحرالرائق، باب ما یفسد الصوم 2/293)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 1137/43-1317

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ میاں بیوی کا جنسی تسکین کے لئے مذکورہ صورت اختیار کرنا مناسب نہیں ہے۔ اور غلبہ کے وقت عورت کا خود کو اس طرح تسکین دینا بھی درست نہیں ہے، احتراز اور خود پر کنٹرول کرنا ضروری ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 2793/45-4364

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر سوال کا مقصد یہ ہے کہ آپ کے بڑے بھائی نے آپ کی دادی کا دودھ پیا ہے تو آپ کی پھوپی اوروالد تو بڑے بھائی کے رضاعی بہن بھائی ہو گئے، لیکن آپ کا رضاعت کا رشتہ نہیں اس لئے آپ اپنی پھوپی زاد بہن سے نکاح کر سکتے ہیں۔

واحل لکم ما وراء ذلکم‘‘ (القرآن الکریم)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی

Ref. No. 40/863

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ زکوۃ کی رقم سے کوئی سامان خرید کر لڑکی کو جو زکوۃ کی مستحق ہو دینا درست ہے، البتہ زکوۃ کی رقم کھانے یا عام لوگوں کے استعمال کی چیزوں میں لگانا جائز نہیں اس سے زکوۃ دینے والوں کی زکوۃ ادا نہیں ہوگی۔  اور کھانا جائز نہیں ہوگا۔ اس میں ایسا کریں کہ کھانے کا نظم دیگر پیسوں سے کریں اور زکوۃ کے پیسوں کو لڑکی کے دینے کے لئے سامان خرید لئے جائیں۔  زکوۃ کی ادائیگی کے لئے مستحق کو مالک بنادینا ضروری ہے ۔

واللہ اعلم بالصواب 

نکاح و شادی

Ref. No. 1092/42-

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  نکاح کے لئے ایجاب وقبول اور گواہوں کا ایک ہی مجلس میں ہونا ضروری ہے اور صورت مسئولہ میں سب الگ الگ مجلس میں ہیں، اس لئے یہ نکاح درست نہیں ہوا۔ دونوں شرعی طور پر دوبارہ نکاح کرلیں، اور اس درمیان جو ہمبستری ہوئی اس پر وطی بالشبہہ کے احکام جاری ہوں گے، اس عمل کو زنا سے تعبیر نہیں کیاجائے گا۔ (کتاب النوازل ۸/۷۹)۔

قولہ اتحاد المجلس: فلواختلف المجلس لم ینعقد۔ (شامی ۴/۸۶)۔ ) ومنہ أي من قسم الوطء بشبهة. قال في النهر: وأدخل في شرح السمرقندي منكوحة الغير تحت الموطوءة بشبهة. حيث قال: أي بشبهة الملك، أو العقد، بأن زفت إليه غير امرأته فوطئها، أو تزوج منكوحة الغير ولم يعلم بحالها. وأنت خبير بأن هذا يقتضي الاستغناء عن المنكوحة فاسدا إذ لا شك أنها موطوءة بشبهة العقد أيضا بل هي أولى بذلك من منكوحة الغير إذ اشتراط الشهادة في النكاح مختلف فيه بين العلماء بخلاف الفراغ عن نكاح الغير. اهـ(رد المحتار 3/517

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 1915/43-1807

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  زید نے اگر تکرار کے دوراان بطور مثال کے کہا کہ جس عورت سے نکاح کروں اس کو تین طلاق۔۔۔۔ تو اس سے کوئی یمین منعقد نہیں ہوگی۔ اور اگر اس نے بطور انشاء کے یہ جملہ کہا اور اس کاا رادہ یہی تھا تو پھر وہ جس عورت سے بھی نکاح کرے گا ، اس منکوحہ پر فورا تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔اب اس سے نجات کا جو حیلہ بتایاجاتاہے  وہ یہ ہے کہ کوئی تیسرا شخص جو نہ ولی ہو نہ وکیل ہو (جس کو فضولی کہاجاتاہے)، اگر اس نے اپنے طور پر کسی عورت سے اس کا نکاح کرادیا اور پھر بعد میں اس کو خبرکردی کہ میں نے تیرا نکاح فلاں عورت سے کردیا ، تو اس کو قبول کرنے اور رد کرنے کا اختیار ہوتاہے، اگر  اس نے جواب میں مہر نکال کر بھیج دیا یا کوئی بھی ایسا کام کیا جس سے رضامندی ظاہر تو اس سے نکاح درست ہوجائے گا اور طلاق واقع نہ ہوگی، اور نکاح کی خبر ملنے پر رد کرے گا تو نکاح رد ہوجائے گا۔

دوسرا حیلہ یہ ہوسکتاہے کہ جس عورت کو ہمیشہ نکاح میں رکھنے کا ارادہ نہ ہو اس سے نکاح کرلے، نکاح کرتے ہی اس کو تین طلاق ہوجائے گی، پھر اپنی پسند کی جگہ نکاح کرلے تو اس کو کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔

"" وفي الحجة: وحکي أن أئمة اسروشنة کتبوا الی أئمة سمرقند منهم أبو أحمد العیاضی وإلی أئمة بخارا منهم محمد بن إبراهیم المیداني: أن علماء عصرنا یختلفون في مسألة نکاح الفضولي، منهم من سوی بین الإجازة بالقول والفعل أنه لا یحنث فیهما، ومنهم من قال: یحنث فیهما، ومنهم من قال: یحنث بالقول دون الفعل، ما اتفقوا علی شيء یجري علیه ولا یختلف، فذکر الإمام أبو أحمد العیاضي ذلک لأئمة عصره وأئمة بخارا، فاجتمعوا وتکلموا في هذه المسألة وجری الکلام بینهم یومین من أول النهار إلی آخره بالنظر والاستدلال والإنصاف وطلب الصواب وابتغاء الثواب، فوقع اتفاقهم علی أنه لایحنث الحالف بالإجازة بالفعل ویحنث بالقول وهو أوسط الأقاویل"۔ (فتاوی التاتارخانیۃ" ۶۱۰/۳)و الدرالمختار۳۵۲/۳)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند