Frequently Asked Questions
نکاح و شادی
Ref. No. 2085/44-2088
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قاضی کا شادی شدہ ہونا ضروری نہیں ہے، اس لئے لوگوں کا اعتراض قابل توجہ نہیں ہے۔ عہدہ قضاء کے لئے اگر وہ موزوں ہیں اور قضاء کے اصول و قوانین سے اچھی طرح واقف ہیں تو ان کو قاضی بنایاجاسکتاہے۔ غیرشادی شدہ ہونا اس کےلئے مانع نہیں ہے۔
قال ولا تصح ولایة القاض حتی یجتمع ف المولی شرائط الشہادة ویکون من أہل الاجتہاد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ العزیز لا ینبغی ان یکون قاضیا حتی تکون فیہ خمس آیتھن اخطاتہ کانت فیہ خللا،یکون عالما بما کان قبلہ، مستشیرا لاھل العلم ملغیا للرثغ یعنی الطمع، حلیما عن الخصم، محتملا للائمة (مصنف عبد الرزاق، باب کیف ینبغی للقاضی ان یکون، ج ثامن ، ص٢٣١، نمبر ١٥٣٦٥)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 955/41-102 B
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جہاں مال اور دولت ہوتی ہے، چور اور ڈاکو اسی جگہ حملہ کرتے ہیں۔ زید کے پاس ایمان کی دولت ہے اور شیطان اس پر حملہ کرکے اس دولت کو چھیننا چاہتا ہے، زید نے لاحول ولا قوۃ الا باللہ پڑھ کر شیطان کو نامراد و ناکام واپس کردیا ہے ۔ ایسے وساوس ایمان کی علامت ہیں۔ ان سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑا، نکاح بدستور باقی ہے۔ کوئی پریشانی کی بات نہیں۔
عن ابی هريرة قال: جاء ناس من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم الی النبی ﷺ فسألوه: إنا نجد في أنفسنا ما يتعاظم أحدنا أن يتكلم به. قال: " وقد وجدتموه؟ " قالوا: نعم، قال: " ذاك صريح الإيمان " (مشکوۃ ص87 باب الوسوسۃ)۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 1518/42-1003
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صرف ہمم کہنے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ یہ لفظ طلاق کے لئے صریح ہے نہ کنایہ۔ طلاق کے لئے لفظ کا صریح ہونا یا کنایہ کے طورپر استعمال ہونا ممکن ہو تو اس سے نیت کے ساتھ طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ اس میں بیوی کی جانب طلاق کی نسبت کی بھی کوئی شکل نہیں ہے۔ اس طرح کے وسوسوں کو دل میں جگہ نہ دیں، اور اس طرح کے خیال آنے پر خود کو کسی کام میں مصروف کرلیں تاآنکہ وسوسہ جاتارہے۔
أن الصريح لا يحتاج إلى النية، ولكن لا بد في وقوعه قضاء وديانة من قصد إضافة لفظ الطلاق إليها عالما بمعناه (شامی، باب صریح الطلاق 3/250) وليس لفظ اليمين كذا إذا لا يصح بأن يخاطبها بأنت يمين فضلا عن إرادة إنشاء الطلاق به أو الإخبار بأنه أوقعه حتى لو قال أنت يمين لأني طلقتك لا يصح فليس كل ما احتمل الطلاق من كنايته بل بهذين القيدين ولا بد من ثالث هو كون اللفظ مسببا عن الطلاق وناشئا عنه كالحرمة في أنت حرام ونقل في البحر عدم الوقوع، بلا أحبك لا أشتهيك لا رغبة لي فيك وإن نوى. (شامی، باب الکنایات 3/296)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 2086/44-2087
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جھوٹی قسم کھانا یا غیراللہ کی قسم کھانا گناہ ہے، تاہم اس سے قسم کھانے والے کے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، نکاح بدستور باقی ہے۔ شوہر کو چاہئے کہ توبہ واستغفار کرے، اور آئندہ اس طرح کی قسم کھانے سے احتراز کرے۔
من کان حالفاً فلیحلف بالله أو لیصمت (بخاری ومسلم) "عن ابن عمر رضي الله عنه قال : قال رسول الله ﷺ : من حلف بغیر الله فقد أشرک".( الترمذی)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 2084/44-2093
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ الفاظ سے اصل مسئلہ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا اوراصل مسئلہ یہ ہے کہ شوہر کے انتقال کے بعد جب تک بیوہ عدت میں ہوتی ہے، شوہر کے نکاح میں باقی رہتی ہے، اس لئے بیوہ اپنے شوہر کو غسل دے سکتی ہے۔ البتہ شوہر کے لئےمردہ بیوی کوغسل دینا شرعاً جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس صورت میں نکاح بالکلیہ ختم ہو چکا ہوتا ہے۔
ویمنع زوجہا من غسلہا ومسہا لا من النظر إلیہا علی الأصح ․․․․․․ وہی لاتمنع من ذلک ․․․․․․ قلت: أي لأنہا تلزمہا عدة الوفاة ولولم یدخل بہا، وفی البدائع: المرأة تغسل زوجہا لأن إباحة الغسل مستفادة بالنکاح، فتبقی مابقي النکاح والنکاح بعد الموت باقی إلی أن تنقضي العدة الخ (درمختار مع الشامی: ۳/۹۰، ۹۱، ط: زکریا) ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 41/1091
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عورت مسلمان ہو کر کسی مسلمان سے شادی کرنا چاہتی ہے، اس کے لئے مسلمان ہونے کے بعد تین حیض گزار لے اور پھر نکاح کرے تو نکاح درست ہوجائے گا۔ اسلام لانے کے بعد تین حیض گزرنے سےخود بخود نکاح ختم ہوجائے گا۔
إلا أن ملك النكاح قبل الدخول غير متأكد فينقطع بنفس الإسلام، وبعده متأكد فيتأجل إلى انقضاء ثلاث حيض كما في الطلاق. .( فتح القدیر 3/419)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 957/41-101 B
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ وسوسہ حدیث النفس کو کہتے ہیں۔ الوسوسۃ حدیث النفس یقال وسوست الی نفسہ ای حدثتہ حدیثا واصلھا الصوت الخفی ومنھا الوسواس للصوت الجلی (تفسیر حقانی 5/34 تفسیر سورۃ الناس آیت 4)۔ آپ کو کس طرح کے وسوسے آتے ہیں آپ نے اس کی تفصیل بیان نہیں کی ہے، تاہم وساوس سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
عن ابی هريرة قال: جاء ناس من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم الی النبی ﷺ فسألوه: إنا نجد في أنفسنا ما يتعاظم أحدنا أن يتكلم به. قال: " وقد وجدتموه؟ " قالوا: نعم، قال: " ذاك صريح الإيمان " (مشکوۃ ص87 باب الوسوسۃ)۔
حدیث میں ہے کہ جب تک ان وساوس کو زبان پر نہ لایاجائے ، ان پر عمل نہ کیا جائے تب تک گرفت نہ ہوگی۔ (البخاری 2528- مسلم 127، 331)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 1068/41-235
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔ سونے کی شکل میں مہر دینا بھی جائز ہے۔ مہر کے علاوہ جو سونا رواج کے طور پر دیاجاتاہے وہ ضروری نہیں ہے۔ دراصل مہر ادا کرنے کو ترجیح دینا چاہئے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 954/41-103 B
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بکر نے دودھ پیا تو بکر سے رضاعت ثابت ہوگی اور بکر کے لئے رضاعی بہن سے یا اس کی اولاد سے نکاح حرام ہوگا، لیکن زید کا اس رضاعت سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لئے زید کا نکاح اسی خالہ کی لڑکی سے درست ہے۔
إلا أم أخته من الرضاع، فإنه يجوز أن يتزوجها، ولا يجوز أن يتزوج أم أخته من النسب؛ لأنها تكون أمه، أو موطوءة أبيه بخلاف الرضاع، ويجوز أن يتزوج أخت ابنه من الرضاع، ولا يجوز ذلك من النسب، لأنه لما وطئ أمها حرمت عليه، ولم يوجد هذا المعنى في الرضاع (البنایۃ شرح الھدایۃ 5/264)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 978
الجواب وباللہ التوفیق
کسی مسلمان لڑکے کا نکاح کسی ہندو لڑکی کے ساتھ جائز ومنعقد نہیں ہوتا۔ قرآن کریم میں ہے: ولا تنکحوا المشرکات حتی یؤمن الآیۃ ۔۔ وکذا فی الدرالمختار۔ لہذا مذکورہ نکاح بالکل ناجائز و حرام ہے، نکاح منعقدہی نہیں ہوگا۔ بہتر ہے کہ مذکورہ شخص کو اس گناہ کبیرہ اور اس پر مرتب ہونے والے اللہ کے غضب سے متعلق خوب اچھے انداز میں سمجھایا جائے ؛اللہ کرے کہ وہ باز آجائے۔ واللہ تعالی اعلم
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند