Frequently Asked Questions
نکاح و شادی
Ref. No. 38 / 1092
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ہاں، کرسکتا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 38 / 1196
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسؤلہ میں نکاح منعقد ہوجائے گا اور شوہر پر مہر مثل واجب ہوگا۔مہر مثل کا مطلب ہے کہ لڑکی کے ددھیالی خاندان کی اس جیسی عورتوں (بہن، پھوپھی)کے مہر کی مقدار کے برابرہو۔ کذا فی الشامی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 2004/44-1960
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں زید کے لڑکے کا نکاح زینب کی سوتیلی بیٹی سے جائز ہے۔ زینب کے بھائی کا زینب کی سوتیلی بیٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لئے دونوں کا رشتہ نکاح جائز ہے۔
"وبنات الأخوات المتفرقات وبنات الإخوة المتفرقين؛ لأن جهة الاسم عامة.
(وبنات الأخوة المتفرقات وبنات الإخوة المتفرقين) ش: أي ويدخل في الآية المذكورة بنات الإخوة والأخوات.
وقوله: المتفرقين بصيغة الجمع المذكر صفة الأخوة التي جمع أخ ويدخل فيه الأخوات التي هي جمع أخت، ومعنى التفرق يعني سواء كانت بنات الأخ لأب وأم أو لأم وبنات الأخت كذلك، وكلهن محرمات على التأبيد بالكتاب والسنة والإجماع". (بنایہ شرح ہدایہ: كتاب النكاح، المحرمات من جهة النسب، 22/5/دار الكتب العلمية)
و) يحرم (أخته) لأب وأم، أو لأحدهما لقوله تعالى {وأخواتكم} [النساء: 23] (وبنتها) لقوله تعالى {وبنات الأخت} [النساء: 23] (وابنة أخيه) لأب وأم، أو لأحدهما لقوله تعالى {وبنات الأخ} [النساء: 23].
وإن سفلن) لعموم المجاز، أو دلالة النص، أو الإجماع كما بيناه (وعمته وخالته) لأب وأم، أو لأحدهما لقوله تعالى {وعماتكم وخالاتكم} [النساء: 23۔ (کتاب النکاح، باب المحرمات، 323/1/دار إحياء التراث العربي)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 2573/45-3940
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ رخصتی سے قبل نکاح کے ناجائز ہونے کا علم ہوگیا اور تفریق کرادی گئی یہ بہت اچھا ہوا، اور اب لڑکے کو معلوم ہونے کے بعد یہ لڑکی میری پوتی کے درجہ میں ہے اس سے نکاح حرام ہے پھر بھی اس سے نکاح کی ضد کرنا بڑی بے شرمی اور بے دینی کی بات ہے۔ اس مسئلہ کا آسان حل تو یہی ہے کہ لڑکے کا نکاح جلد از جلد کسی دوسری لڑکی سے کرادیاجائے۔ اس کی ضد اور اصرار کی بناء پر بہن بیٹی ، پوتی یا کسی بھی محرم سے نکاح کو حلال نہیں کہاجاسکتاہے۔ جو چیز شریعت میں قطعی طور پر حرام ہے اس میں گنجائش کا خیال بھی کسی بے دینی سے کم نہیں ۔
قال الله تعالى: ﴿حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالاَتُكُمْ وَبَنَاتُ الأَخِ وَبَنَاتُ الأُخْتِ﴾۔ (النساء: 23)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 1242 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اگر داماد اپنی ساس کو غلط نیت سے چھولے تو اس کی بیوی اس پر ہمیشہ کے لئےحرام ہوجائے گی۔ اسی طرح اگر سسر نے اپنی بہو کو غلط نیت سے چھودیا تو بہو اس کے بیٹے کے لئے حرام ہوجائے گی۔ ومن مستہ امرءة بشھوة حرمت علیہ امھا وابنتھا، ہدایہ ج۲ ص۳۰۹۔ یحرم کل من الزانی والمزنیة علی اصل الآخروفرعہ۔ شامی۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 38 / 1112
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اپنی بیوہ بھابھی سے نکاح کرسکتا ہے۔ وکیل بننے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 2503/45-3822
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ رضاعت صرف خلیل اور آسیہ کے درمیان متحقق ہوگی، ان کی اولاد پر اس کا اثر نہیں ہوگا۔ لہذا خلیل کے بھائی کا نکاح آسیہ کی بیٹی سے جائز اور درست ہے۔
وتحل أخت أخيه رضاعاً) يصح اتصاله بالمضاف كأن يكون له أخ نسبي له أخت رضاعية، وبالمضاف إليه كأن يكون لأخيه رضاعاً أخت نسباً وبهما وهو ظاهر". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 217)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
نکاح و شادی
Ref. No. 1004
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: صورت مسئولہ میں بشرط صحت سوال خالد کا نکاح شاہین سے جائز ہے۔ واما بنت زوجۃ ابیہ اوابنہ فحلال (در مختار 187)
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 2217/44-2349
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ لڑکی نے عارف کواپنے نکاح کا وکیل بنایا اور پھر وکیل نے مجلس نکاح میں لڑکے کے سامنے ایجاب یا قبول کیا تو اس طرح نکاح منعقد ہوگیا۔
وفي الهندية:
"أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد، حتى لو اختلف المجلس بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لا ينعقد، وكذا إذا كان أحدهما غائباً لم ينعقد، حتى لو قالت امرأة بحضرة شاهدين: زوجت نفسي من فلان، وهو غائب فبلغه الخبر، فقال: قبلت، أو قال رجل بحضرة شاهدين: تزوجت فلانةً وهي غائبة، فبلغها الخبر، فقالت: زوجت نفسي منه، لم يجز وإن كان القبول بحضرة ذينك الشاهدين، وهذا قول أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله تعالى. ولو أرسل إليها رسولاً أو كتب إليها بذلك كتاباً، فقبلت بحضرة شاهدين سمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب جاز؛ لاتحاد المجلس من حيث المعنى، وإن لم يسمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب لا يجوز عندهما". (كتاب النكاح، الباب الأول في تفسير النكاح شرعا وصفته وركنه وشرطه وحكمه: ۱/ ۲۶۹، ط: دار الفكر)
وفي النهر الفائق:
"واعلم أن للإيجاب والقبول شرائط: اتحاد المجلس، فلو اختلف لم ينعقد، بأن أوجب أحدهما فقام الآخر قبل القبول واشتغل بعمل آخر". (كتاب النکاح : ۲/ ۱۷۸، ط: دار الکتب العلمیة)
وفي البحر الرائق :
" ولم يذكر المصنف شرائط الإيجاب والقبول، فمنها: اتحاد المجلس إذا كان الشخصان حاضرين، فلو اختلف المجلس لم ينعقد، فلو أوجب أحدهما فقام الآخر أو اشتغل بعمل آخر بطل الإيجاب؛ لأن شرط الارتباط اتحاد الزمان فجعل المجلس جامعاً تيسيراً". (كتاب النكاح: ۳/ ۸۹، ط: دار المعرفة)
وفي بدائع الصنائع:
" ... وأما الذي يرجع إلى مكان العقد فهو اتحاد المجلس إذا كان العاقدان حاضرين، وهو أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد، حتى لو اختلف المجلس لا ينعقد النكاح، بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لا ينعقد؛ لأن انعقاده عبارة عن ارتباط أحد الشطرين بالآخر، فكان القياس وجودهما في مكان واحد، إلا أن اعتبار ذلك يؤدي إلى سد باب العقود، فجعل المجلس جامعاً للشطرين حكماً مع تفرقهما حقيقةً؛ للضرورة، والضرورة تندفع عند اتحاد المجلس، فإذا اختلف تفرق الشطرين حقيقةً وحكماً فلا ينتظم الركن". ( كتاب النكاح، فصل وأما شرائط الركن فأنواع: ۲/ ۲۳۲، ط: دار الكتاب العربي)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند