Frequently Asked Questions
نکاح و شادی
Ref. No. 40/1041
الجواب وباللہ التوفیق:
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تمام امور میں برابری ضروری نہیں ہے، البتہ اتنا خیال رکھنا ضروری ہے کہ لڑکی یا لڑکی والوں کے لئے باعث عار نہ ہو تو ایسی جگہ نکاح کیا جاسکتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 39 / 941
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔جس کاغذ پر لڑکی سے دستخط لئے اس پر کیا لکھاہوا تھا؟ ناکح کا نام نہیں بتایا کا کیا مطلب؟ بہتر ہوگا کہ کسی شرعی دارالقضاء سے رجوع کرکے احوال واقعی بتائیں اور پھر فیصلہ کے مطابق عمل کریں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
نکاح و شادی
Ref. No. 38 / 1092
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ہاں، کرسکتا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 38 / 1196
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسؤلہ میں نکاح منعقد ہوجائے گا اور شوہر پر مہر مثل واجب ہوگا۔مہر مثل کا مطلب ہے کہ لڑکی کے ددھیالی خاندان کی اس جیسی عورتوں (بہن، پھوپھی)کے مہر کی مقدار کے برابرہو۔ کذا فی الشامی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 2004/44-1960
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں زید کے لڑکے کا نکاح زینب کی سوتیلی بیٹی سے جائز ہے۔ زینب کے بھائی کا زینب کی سوتیلی بیٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لئے دونوں کا رشتہ نکاح جائز ہے۔
"وبنات الأخوات المتفرقات وبنات الإخوة المتفرقين؛ لأن جهة الاسم عامة.
(وبنات الأخوة المتفرقات وبنات الإخوة المتفرقين) ش: أي ويدخل في الآية المذكورة بنات الإخوة والأخوات.
وقوله: المتفرقين بصيغة الجمع المذكر صفة الأخوة التي جمع أخ ويدخل فيه الأخوات التي هي جمع أخت، ومعنى التفرق يعني سواء كانت بنات الأخ لأب وأم أو لأم وبنات الأخت كذلك، وكلهن محرمات على التأبيد بالكتاب والسنة والإجماع". (بنایہ شرح ہدایہ: كتاب النكاح، المحرمات من جهة النسب، 22/5/دار الكتب العلمية)
و) يحرم (أخته) لأب وأم، أو لأحدهما لقوله تعالى {وأخواتكم} [النساء: 23] (وبنتها) لقوله تعالى {وبنات الأخت} [النساء: 23] (وابنة أخيه) لأب وأم، أو لأحدهما لقوله تعالى {وبنات الأخ} [النساء: 23].
وإن سفلن) لعموم المجاز، أو دلالة النص، أو الإجماع كما بيناه (وعمته وخالته) لأب وأم، أو لأحدهما لقوله تعالى {وعماتكم وخالاتكم} [النساء: 23۔ (کتاب النکاح، باب المحرمات، 323/1/دار إحياء التراث العربي)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 2573/45-3940
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ رخصتی سے قبل نکاح کے ناجائز ہونے کا علم ہوگیا اور تفریق کرادی گئی یہ بہت اچھا ہوا، اور اب لڑکے کو معلوم ہونے کے بعد یہ لڑکی میری پوتی کے درجہ میں ہے اس سے نکاح حرام ہے پھر بھی اس سے نکاح کی ضد کرنا بڑی بے شرمی اور بے دینی کی بات ہے۔ اس مسئلہ کا آسان حل تو یہی ہے کہ لڑکے کا نکاح جلد از جلد کسی دوسری لڑکی سے کرادیاجائے۔ اس کی ضد اور اصرار کی بناء پر بہن بیٹی ، پوتی یا کسی بھی محرم سے نکاح کو حلال نہیں کہاجاسکتاہے۔ جو چیز شریعت میں قطعی طور پر حرام ہے اس میں گنجائش کا خیال بھی کسی بے دینی سے کم نہیں ۔
قال الله تعالى: ﴿حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالاَتُكُمْ وَبَنَاتُ الأَخِ وَبَنَاتُ الأُخْتِ﴾۔ (النساء: 23)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 1242 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اگر داماد اپنی ساس کو غلط نیت سے چھولے تو اس کی بیوی اس پر ہمیشہ کے لئےحرام ہوجائے گی۔ اسی طرح اگر سسر نے اپنی بہو کو غلط نیت سے چھودیا تو بہو اس کے بیٹے کے لئے حرام ہوجائے گی۔ ومن مستہ امرءة بشھوة حرمت علیہ امھا وابنتھا، ہدایہ ج۲ ص۳۰۹۔ یحرم کل من الزانی والمزنیة علی اصل الآخروفرعہ۔ شامی۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 38 / 1112
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اپنی بیوہ بھابھی سے نکاح کرسکتا ہے۔ وکیل بننے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 2503/45-3822
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ رضاعت صرف خلیل اور آسیہ کے درمیان متحقق ہوگی، ان کی اولاد پر اس کا اثر نہیں ہوگا۔ لہذا خلیل کے بھائی کا نکاح آسیہ کی بیٹی سے جائز اور درست ہے۔
وتحل أخت أخيه رضاعاً) يصح اتصاله بالمضاف كأن يكون له أخ نسبي له أخت رضاعية، وبالمضاف إليه كأن يكون لأخيه رضاعاً أخت نسباً وبهما وهو ظاهر". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 217)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند