نکاح و شادی

Ref. No. 2217/44-2349

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ لڑکی نے عارف کواپنے نکاح کا وکیل بنایا اور پھر وکیل نے مجلس نکاح میں لڑکے کے سامنے ایجاب یا قبول کیا تو اس طرح نکاح منعقد ہوگیا۔

وفي الهندية:

"أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد، حتى لو اختلف المجلس بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لا ينعقد، وكذا إذا كان أحدهما غائباً لم ينعقد، حتى لو قالت امرأة بحضرة شاهدين: زوجت نفسي من فلان، وهو غائب فبلغه الخبر، فقال: قبلت، أو قال رجل بحضرة شاهدين: تزوجت فلانةً وهي غائبة، فبلغها الخبر، فقالت: زوجت نفسي منه، لم يجز وإن كان القبول بحضرة ذينك الشاهدين، وهذا قول أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله تعالى. ولو أرسل إليها رسولاً أو كتب إليها بذلك كتاباً، فقبلت بحضرة شاهدين سمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب جاز؛ لاتحاد المجلس من حيث المعنى، وإن لم يسمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب لا يجوز عندهما". (كتاب النكاح، الباب الأول في تفسير النكاح شرعا وصفته وركنه وشرطه وحكمه: ۱/ ۲۶۹، ط: دار الفكر)

وفي النهر الفائق:

"واعلم أن للإيجاب والقبول شرائط: اتحاد المجلس، فلو اختلف لم ينعقد، بأن أوجب أحدهما فقام الآخر قبل القبول واشتغل بعمل آخر". (كتاب النکاح : ۲/ ۱۷۸، ط: دار الکتب العلمیة)

وفي البحر الرائق :

ولم يذكر المصنف شرائط الإيجاب والقبول، فمنها: اتحاد المجلس إذا كان الشخصان حاضرين، فلو اختلف المجلس لم ينعقد، فلو أوجب أحدهما فقام الآخر أو اشتغل بعمل آخر بطل الإيجاب؛ لأن شرط الارتباط اتحاد الزمان فجعل المجلس جامعاً تيسيراً". (كتاب النكاح: ۳/ ۸۹، ط: دار المعرفة)

وفي بدائع الصنائع:

" ... وأما الذي يرجع إلى مكان العقد فهو اتحاد المجلس إذا كان العاقدان حاضرين، وهو أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد، حتى لو اختلف المجلس لا ينعقد النكاح، بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لا ينعقد؛ لأن انعقاده عبارة عن ارتباط أحد الشطرين بالآخر، فكان القياس وجودهما في مكان واحد، إلا أن اعتبار ذلك يؤدي إلى سد باب العقود، فجعل المجلس جامعاً للشطرين حكماً مع تفرقهما حقيقةً؛ للضرورة، والضرورة تندفع عند اتحاد المجلس، فإذا اختلف تفرق الشطرين  حقيقةً وحكماً فلا ينتظم الركن". (  كتاب النكاح،   فصل وأما شرائط الركن فأنواع: ۲/ ۲۳۲، ط: دار الكتاب العربي)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی

Ref. No. 2010/44-1966

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صرف لفظ مذکور کے کہنے سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ طلاق کے لئے اس لفظ کو قائم مقام نہیں بنایاجاسکتاہے۔ بیوی کی طرف صراحۃً یا دلالۃً نسبت کیے بغیر طلاق دینے سے طلاق واقع نہیں ہوتی ۔

   لكن لا بد في وقوعه قضاءً وديانةً من قصد إضافة لفظ الطلاق إليها‘‘. (فتاوی شامی 3/250، کتاب الطلاق، ط؛ سعید)

ولو أقر بطلاق زوجته ظاناً الوقوع بإفتاء المفتي فتبين عدمه لم يقع، كما في القنية. قوله: ولو أقر بطلاق زوجته ظاناً الوقوع إلى قوله لم يقع إلخ. أي ديانةً، أما قضاء فيقع ،كما في القنية؛ لإقراره به۔ (غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائر (1/ 461)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی

Ref. No. 2329/44-3495

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس شادی میں منکرات ناچ گانا وغیرہ ہو، اس میں شرکت کرنا درست نہیں ہے۔ اور اس طرح کے منکرات کی روک تھام کے لئے شہر کے ذمہ دار علماء کرام یا مساجد کے ائمہ کرام نکاح نہ پڑھانے کا فیصلہ کریں تو یہ بھی درست ہے۔ اسی طرح صرف مسجد کےامام یا مقتدا عالم جنازہ میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کریں تو درست ہے۔ لیکن مطلقا نماز جنازہ نہ پڑھانے کا فیصلہ کرنا درست نہیں ہے اس لئے اگر دوبارہ مشورہ کرکے فیصلہ میں تبدیلی کردی جائے تو بہتر ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی

Ref. No. 1905/43-1797

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   نکاح مذکور درست نہیں ہوا۔ فون پر نکاح کا مذکورہ طریقہ درست نہیں  تھا۔ نکاح کے لئے ایجاب و قبول کا ایک ہی مجلس میں ہونا شرط ہے جبکہ لڑکی مجلس میں موجود نہیں ہے، لڑکی کے والد اور دیگر حضرات گواہ بن سکتے تھے اگر ایجاب و قبول درست ہوتا۔اس لئے یہ نکاح درست نہیں ہوا تھا۔ البتہ  اگر لڑکی قاضی صاحب کو فون پر اپنا وکیل بنادیتی کہ میرا نکاح آپ فلاں سے کردیں، اور پھر مجلس میں قاضی صاحب کہدیتے کہ میں نے فلاں لڑکی کا نکاح آپ (لڑکے) سے کردیا تو اس طرح نکاح درست ہوجاتا۔  الغرض مذکورہ نکاح درست نہیں ہوا، اب دوبارہ درست طریقہ پر نکاح کرلیا جائے۔  

ومن شرائط الإیجاب والقبول اتحاد المجلس لو حاضرین وإن طال کمخیرة۔ (الدر المختار مع الشامي: 4/76، ط زکریا دیوبند)  

"(ومنها) أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد حتى لو اختلف المجلس بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لاينعقد وكذا إذا كان أحدهما غائبا لم ينعقد حتى لو قالت امرأة بحضرة شاهدين: زوجت نفسي من فلان وهو غائب فبلغه الخبر فقال: قبلت، أو قال رجل بحضرة شاهدين: تزوجت فلانة وهي غائبة فبلغها الخبر فقالت: زوجت نفسي منه لم يجز وإن كان القبول بحضرة ذينك الشاهدين، وهذا قول أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى- ولو أرسل إليها رسولاً أو كتب إليها بذلك كتاباً فقبلت بحضرة شاهدين سمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب جاز؛ لاتحاد المجلس من حيث المعنى." (الفتاوى الهندية (1/ 269)

"ثم النكاح كما ينعقد بهذه الألفاظ بطريق الأصالة ينعقد بها بطريق النيابة، بالوكالة، والرسالة؛ لأن تصرف الوكيل كتصرف الموكل، وكلام الرسول كلام المرسل، والأصل في جواز الوكالة في باب النكاح ما روي أن النجاشي زوج رسول الله صلى الله عليه وسلم أم حبيبة - رضي الله عنها - فلايخلو ذلك إما أن فعله بأمر النبي صلى الله عليه وسلم أو لا بأمره، فإن فعله بأمره فهو وكيله، وإن فعله بغير أمره فقد أجاز النبي صلى الله عليه وسلم عقده والإجازة اللاحقة كالوكالة السابقة". (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 231)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی
تفسیر مظہری میں سورہ نساء کی آیت نمبر 22 کی تفسیر میں ایک حدیث بیان کی گئی ہے کہ کسی عورت کو اگر کسی نے ہاتھ سے بھی دبایا ہو تو اس مرد کو اس عورت کی بیٹی سے نکاح نہیں کرنا چاہئے یہ حدیث کو قاضی ثناءاللہ پانی پتی نے اپنی تفسیر مظہری میں بیان کی ہے اسے مرسل منقطع کہا ہے . کیا یہ ضعیف ہے ؟

نکاح و شادی

Ref. No. 2723/45-4241

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دونوں بیویوں کو ایک گھر میں رکھنا شرعا درست  ہے، اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے، تاہم  سونے میں دونوں کو الگ رکھیں ، ایک کی موجودگی میں دوسری سے صحبت کرنا بےحیائی کی بات ہوگی ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی

Ref. No. 2810/45-4386

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کسی عورت کو حیض آتاہے ، چاہے وہ چھ ماہ بعد آئے یا ایک سال بعد آئے وہ عورت ذوات الحیض میں سے ہے، اس کی عدت حیض سے ہی شمار ہوگی۔ یعنی اس کی عدت  مکمل تین ماہورایاں  گزرنے کے بعد ہی پوری ہوگی،اس صورت میں اس لڑکی کو چاہیے کہ کسی ماہر ڈاکٹر کے مشورہ سے بذریعہ علاج معالجہ یا جلدی ماہواری جاری کرنےکی دوا وغیرہ کھا کر مزید دو ماہوریاں گزار کراپنی عدت مکمل کرلے۔ مکمل عدت گزرنے کے بعد ہی اس کی دوسری جگہ شادی ہوسکتی ہے۔ 

"التي حاضت ثم امتد طهرها لا تعتد بالأشهر إلا إذا بلغت سن الإياس. وعن مالك انقضاؤها بحول وقيل بتسعة أشهر ستة لاستبراء الرحم (وثلاثة أشهر) للعدة ولو قضى به قاض نفذ.قال الزاهدي: وقد كان بعض أصحابنا يفتون به للضرورة خصوصًا الإمام والدي/ وفي (البزازية) والفتوى في زماننا على قول مالك في عدة الآيسة." (النہر الفائق شرح کنز الدقائق، کتاب الطلاق، باب العدۃ، ج:2، ص:476، ط:دار الکتب العلمیة)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی
میری منگیتر کا نام تنزیلہ ہے پہلے تو درخواست ہے کہ دعا کریں کہ میری ازدواجی زندگی مستقبل میں کامیاب ہو اور سکون والی ہو. کیا میں مستقبل میں شادی کے بعد اپنی بیوی کا نام تبدیل کر کے عائشہ یا کسی بھی صحابی خاتون کے نام پر رکھ سکتا ہوں کیا بیوی کا نام تبدیل کرنے سے نکاح پر اثر تو نہ پڑے گا نکاح دوبارہ تو نہ کرنا پڑے گا ویسے تنزیلہ نام بھی درست ہے اس کا مطلب ہے نازل ہونے والی

نکاح و شادی

Ref. No. 1540/43-1040

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نکاح کے بعدنام تبدیل کرنے سے نکاح پر کوئی فرق نہیں آئے گا، نکاح بدستور باقی ہے اس لئے کہ منکوحہ عورت تو ایک ہی ہے اسی کو تنزیلہ اور اسی کو عائشہ کہاجائے گا۔  

قوله: أي فإنها لو كانت مشاراً إليها وغلط في اسم أبيها أو اسمها لا يضر؛ لأن تعريف الإشارة الحسية أقوى من التسمية، لما في التسمية من الاشتراك لعارض فتلغو التسمية عندها، كما لو قال: اقتديت بزيد هذا، فإذا هو عمرو، فإنه يصح (شامی 3/26)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 1624/43-1197

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عورت کا بلاکسی وجہ کے انکارکرنا سخت گناہ ہے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ  کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر آدمی اپنی بیوی کو اپنے بستر کی طرف بلائے پھر عورت قربت سے انکار کردے  اور شوہر اسی طرح ناراضگی کی حالت میں رات  گزارے تو فرشتے اس عورت پر صبح تک لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔ عورت کو سمجھائیں کہ یہ سخت گناہ ہے، اور اللہ کی سخت ناراضگی کا سبب ہے، نماز و روزہ کی طرح اس کو اسلامی حکم سمجھے اور شوہر کو ہرگز منع نہ کرے۔ البتہ اگر کبھی  عورت کی سچ مچ مجبوری ہو تو شوہر کو اس کا خیال رکھنا چاہئے،۔ عورت کی شہوت میں کمی کسی بیماری کی وجہ سے بھی ہوتی ہے، کسی ماہر حکیم سے بتاکر اس کا علاج کرانابھی مفید رہے گا۔  اگر دوسرا نکاح کرنے کے تذکرے سے بات بن جائے تو یہ طریقہ بھی اختیار کیا جاسکتاہے۔  یا پھر اگر وسعت ہو تو دوسرا نکاح بھی کیاجاسکتاہے۔ شریعت نے اس سلسلہ میں شوہر کو دوسرا نکاح کرنے کی اجازت دی ہے۔ تاہم طلاق دینے سے بہرصورت شوہر گریز کرے۔ دوسرا نکاح کرنے کے لئے پہلی بیوی کو طلاق دینا شرعا ضروری نہیں ہے۔  شوہر کے لئے خودلذتی اور استمناء بالید جائز نہیں ہے۔

  "عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : "إِذَا دَعَا الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ إِلَى فِرَاشِهِ فَأَبَتْ، فَبَاتَ غَضْبَانَ عَلَيْهَا، لَعَنَتْهَا الْمَلائِكَةُ حَتَّى تُصْبِحَ". رواه البخاري( بدء الخلق/2998) "وعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :"إِذَا بَاتَتْ الْمَرْأَةُ مُهَاجِرَةً فِرَاشَ زَوْجِهَا لَعَنَتْهَا الْمَلَائِكَةُ حَتَّى تَرْجِعَ". رواه البخاري.(النكاح/4795) "وعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا مِنْ رَجُلٍ يَدْعُو امْرَأَتَهُ إِلَى فِرَاشِهَا فَتَأْبَى عَلَيْهِ إِلا كَانَ الَّذِي فِي السَّمَاءِ سَاخِطًا عَلَيْهَا حَتَّى يَرْضَى عَنْهَا". رواه مسلم. (النكاح/1736) "وعَنْ طَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا الرَّجُلُ دَعَا زَوْجَتَهُ لِحَاجَتِهِ فَلْتَأْتِهِ وَإِنْ كَانَتْ عَلَى التَّنُّورِ". رواه الترمذي". ( الرضاع/ 1080) فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلَّا تَعُولُوا (سورۃ النساء 3)  (أو جامع فيما دون الفرج ولم ينزل) يعني في غير السبيلين كسرة وفخذ وكذا الاستمناء بالكف وإن كره تحريما لحديث «ناكح اليد ملعون» ولو خاف الزنى يرجى أن لا وبال عليه. قال ابن عابدین: وفي السراج إن أراد بذلك تسكين الشهوة المفرطة الشاغلة للقلب وكان عزبا لا زوجة له ولا أمة أو كان إلا أنه لا يقدر على الوصول إليها لعذر قال أبو الليث أرجو أن لا وبال عليه وأما إذا فعله لاستجلاب الشهوة فهو آثم اهـ. ۔۔۔۔۔۔ بقوله تعالى {والذين هم لفروجهم حافظون} [المؤمنون: 5] الآية وقال فلم يبح الاستمتاع إلا بهما أي بالزوجة والأمة اهـ فأفاد عدم حل الاستمتاع أي قضاء الشهوة بغيرهما هذا ما ظهر لي والله سبحانه أعلم. (شامی، باب ما یفسد الصوم 2/399) الاستمناء حرام، وفيه التعزير، ولو مكن امرأته، أو أمته من العبث بذكره، فأنزل، فإنه مكروه، ولا شيء عليه، كذا في السراج الوهاج. (الھندیۃ، الباب الاول فی بیان السرقۃ 2/170) (فتح القدیر، باب مایوجب القضاء والکفارۃ 2/330) وهل يحل الاستمناء بالكف خارج رمضان إن أراد الشهوة لا يحل لقوله - عليه السلام - «ناكح اليد ملعون» ، وإن أراد تسكين الشهوة يرجى أن لا يكون عليه وبال كذا في الولوالجية (البحرالرائق، باب ما یفسد الصوم 2/293)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند