Frequently Asked Questions
طلاق و تفریق
Ref. No. 1814/43-1572
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شریعت نے میاں بیوی کے حقوق بیان کرکے، ان کے درمیان محبت اور پیار کو دائمی بنانے اوراس رشتہ کو حتی الامکان نبھانے کی اہمیت پر زور دیا ہے، اور بغیر شرعی عذر کے طلاق دینے پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ شوہر کی ذمہ داری ہے کہ طلاق دینے سے پہلے خوب غوروفکر کرلے، اور عواقب پر نظر رکھتے ہوئے کوئی قدم اٹھائے۔ طلاق دینے کو معمولی کھیل نہ سمجھے بلکہ دونوں خاندانوں کی عزت و سماجی حیثیت پر بھی نظر رکھے۔ اور جب کسی طرح سے نباہ ہونےکا امکان نہ ہو، تو ایک طلاق دے کر بیوی سے الگ ہوجائے۔ طلاق دینا یا بات بات پرطلاق کو معلق کرنا شریفوں کا کام نہیں ہے۔
صورت مسئولہ میں عائشہ عدت کے بعدزید کے والد کے گھر جائے یا عدت کے دوران جائے، ہر حال میں شرط کے پائے جانے کی وجہ سے زید کے والد کی بیوی پر فقہ حنفی کی روشنی میں تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔ کیونکہ طلاق عائشہ کے گھر میں آنے پر معلق ہے ، نیز سسر اور بہو میں ابدی حرمت کا تعلق ہے۔ عائشہ ،زید کے نکاح میں رہے یا نہ رہے وہ بہرحال اس کی بہو رہے گی۔اس لئے عدت کے اندر جائے یا عدت کے بعد جائے دونوں صورتوں میں اس کی بیوی کو طلاق واقع ہوگی۔
وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق (فتاوی ہندیہ، (الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة إن وإذا وغيرهما:1 /420،ط:دار الفكر)
"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة و ثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا و يدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية."
(فتاوی ہندیہ، کتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة وفيما تحل به المطلقة وما يتصل به، فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به 473/1، ط: دار الفکر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2755/45-4286
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (نوٹ: اسلام میں نکاح ایک پاکیزہ رشتے کا نام ہے،اسلام نے اس کی پائداری پر زور دیا ہے، اور اس کے لیے باہمی الفت ومحبت اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی ہونے لگے تو پہلے دونوں خاندان کے بزرگ کو صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوں کہ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ فعل ہے اور بلا ضرورت اسکا استعمال درست نہیں ہے۔ پھر بھی اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو ایک طلاق صریح دے کر دونوں کو الگ ہو جانے کا حکم ہے۔ ایک طلاق کے بعد اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو عدت میں رجوع کے ذریعہ اور عدت کے بعد نکاح کے ذریعہ دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔ ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعاً گناہ ہے اور ملکی قانون کے مطابق قابل مواخذہ جرم ہے)
جا تو آزاد ہے، یہ لفظ ہمارے عرف میں طلاق صریح کے لئے مستعمل ہے، اور لڑائی کے درمیان یہ الفاظ کئی بار کہے گئے ہیں، اس لئے طلاق کی نیت کے بغیربھی اس سے طلاق واقع ہوگئی۔ لہذا صورت مسئولہ میں اگر یہ لفظ آزاد کیا یا آزاد ہے تین بار سے زیادہ بولا ہے تو عورت طلاق مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی، اب دونوں کا ایک ساتھ رہنا ہر گز جائز نہیں ہے۔ عورت پر عدت لازم ہے، اور عدت کے بعد عورت کو کسی دوسرے مرد سے نکاح کا اختیار ہوگا۔
’’وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لا يستعمل عرفا إلا فيه من أي لغة كانت، وهذا في عرف زماننا كذلك فوجب اعتباره صريحا كما أفتى المتأخرون في أنت علي حرام بأنه طلاق بائن للعرف بلا نية مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية‘‘(الدر المختا ر مع رد المحتار،کتاب الطلاق،باب صریح الطلاق،ج:3،ص:252،ط:سعید)
’’والأصل الذي عليه الفتوى في زماننا هذا في الطلاق بالفارسية أنه إن كان فيها لفظ لا يستعمل إلا في الطلاق فذلك اللفظ صريح يقع به الطلاق من غير نية إذا أضيف إلى المرأة، مثل أن يقول في عرف ديارنا: دها كنم أو في عرف خراسان والعراق بهشتم؛ لأن الصريح لا يختلف باختلاف اللغات وما كان في الفارسية من الألفاظ ما يستعمل في الطلاق وفي غيره فهو من كنايات الفارسية فيكون حكمه حكم كنايات العربية في جميع الأحكام والله أعلم.‘‘ (بدائع الصنائع:کتاب الطلاق،فصل فی النیۃ،ج:3،ص:102،دار الکتب العلمیۃ)
’’ولو قال في حال مذاكرة الطلاق باينتك أو أبنتك أو أبنت منك أو لا سلطان لي عليك أو سرحتك أو وهبتك لنفسك أو خليت سبيلك أو أنت سائبة أو أنت حرة أو أنت أعلم بشأنك. فقالت: اخترت نفسي. يقع الطلاق وإن قال لم أنو الطلاق لا يصدق قضاء.‘‘ (فتاوی ہندیہ کتاب الطلاق،الفصل الخامس،ج:1،ص:375،ط:دار الفکر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
طلاق و تفریق
طلاق و تفریق
Ref. No. 2590/45-4088
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مذکورہ میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ البتہ آئندہ اس طرح کے کلمات بولنے میں احتیاط کریں تاکہ کوئی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
وَلَوْ قَالَ لَهَا لَا نِكَاحَ بَيْنِي وَبَيْنَك أَوْ قَالَ لَمْ يَبْقَ بَيْنِي وَبَيْنَك نِكَاحٌ يَقَعُ الطَّلَاقُ إذَا نَوَى۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۱؍۳۷۵)
وَالْقَوْلُ قَوْلُ الزَّوْجِ فِي تَرْكِ النِّيَّةِ مَعَ الْيَمِينِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٣٧٥)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 976/41-112
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں کوئی حرمت ثابت نہیں ہوئی۔ البتہ اس طرح کےمذاق سے گریز کرنا لازم ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2840/45-4484
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ طلاق کے وقوع کے لئے لفظ طلاق کا زبان سے بولنا ، عورت کی جانب حقیقتا یا حکما نسبت کرنا ضروری ہے۔ لہذا صورت مسئولہ میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ تاہم اس طرح کے جملہ پر مشق کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1251 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم-: اگر شوہر نے اپنے قول سے طلاق کی نیت کی تھی توفقہ حنفی کی روشنی میں تین طلاقیں مغلظہ واقع ہوگئیں۔ اور اگر ایک دو تین سے فوری طور پر نکلنا مراد تھا تو طلاق واقع نہیں ہوئی۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
طلاق و تفریق
Ref. No. 1457/42-887
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب شوہر نے خلع نامہ پر اپنی مرضی سے دستخط کردئے تو خلع مکمل ہوگیا اور عورت بائنہ ہوگئی۔ اب حیض والی عورت تین حیض عدت میں گزارے گی، اور جس عورت کو حیض نہیں آتا وہ تین ماہ عدت گزارے گی۔ عدت گزرنے کے بعد عورت اگر چاہے تو نکاح کرسکتی ہے، عدت گزرنے سے پہلے کسی دوسرے مرد سے نکاح جائز نہیں ہے۔
والمطلقات يتربصن بأنفسهن ثلاثة قروء الآية (سورۃ البقرۃ 228) وَٱلَّٰٓـِٔى يَئِسْنَ مِنَ ٱلْمَحِيضِ مِن نِّسَآئِكُمْ إِنِ ٱرْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَٰثَةُ أَشْهُرٍۢ وَٱلَّٰٓـِٔى لَمْ يَحِضْنَ ۚ وَأُوْلَٰتُ ٱلْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ وَمَن يَتَّقِ ٱللَّهَ يَجْعَل لَّهُۥ مِنْ أَمْرِهِۦ يُسْرًا (سورۃ الطلاق 4)
والمطلقات ذوات الحيض، يجب أن ينتظرن دون نكاح بعد الطلاق مدة ثلاثة أطهار أو ثلاث حيضات على سبيل العدة؛ ليتأكدن من فراغ الرحم من الحمل. ولا يجوز لهن تزوج رجل آخر في أثناء هذه العدة حتى تنتهي. (التفسیر المیسر، 228، ج1ص36)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند