طلاق و تفریق

Ref. No. 2215/44-2353

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ چونکہ جان بوجھ کر گاڑی کو مخاطب کرکے طلاق کو اس کی جانب منسوب کیا ہے ، اس لئے مذکورہ صورت میں اس کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 2776/45-4345

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال بظاہر سوال مذكور میں تمام ذکر کردہ صورتیں خلوت صحیحہ کے ثبوت کے لئے مانع معلوم ہوتی ہیں، اگر واقعی عورت حالت حیض میں تھی تو بلا شبہ خلوت  ثابت نہیں ہوگی، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ اس بات کی تحقیق کرلی جائے تبھی خلوت صحیحہ کے ثبوت اور عدم ثبوت پر یقین کریں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 1806/43-1557

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال مذکورہ صورت میں بیوی پر  فقہ حنفی کے مطابق تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں، اور عورت حرام ہوگئی، اب عورت عدت گزارنے کے بعد دوسرے سے نکاح کرسکتی ہے۔

 قوله وركنه لفظ مخصوص )۔۔۔وبه ظهر أن من تشاجر مع زوجته فأعطاها ثلاثة أحجار ينوي الطلاق ولم يذكر لفظا لا صريحا ولا كناية لا يقع عليه كما أفتى به الخير الرملي وغيره ۔(ردالمحتار علی الدرالمختار، کتاب الطلاق،ج 4 ص 431)

ولو قال أنت طالق هكذا وأشار بأصبع واحدة فهي واحدة وإن أشار بأصبعين فهي ثنتان وإن أشار بثلاث فثلاث۔(الفتاوى الهندية ،كتاب الطلاق ج1 ص439)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 2101/44-2149

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر شوہر ظلم کرتاہے اور آپ اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ہیں تو شوہر سے خلع  حاصل کرلیں یا دارالقضاء میں فسخ نکاح کا دعوی کریں، اس کی اجازت ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 2161/44-2253

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صرف الفاظ طلاق کا تکلم کرنے سے جبکہ کسی طرح بھی بیوی کی طرف نسبت نہیں ہے ، کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔  طلاق کے وقوع کے لئے صراحۃً، دلالۃً یا اشارۃً بیوی کی طرف  نسبت کا ہونا ضروری ہے۔

لكن لا بد في وقوعه قضاءً وديانةً من قصد إضافة لفظ الطلاق إليها‘‘. (فتاوی 3/250، کتاب الطلاق، ط؛ سعید)

"الدر المختار " (3/ 247):

"باب الصريح (صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة) بالتشديد قيد بخطابها، لأنه لو قال: إن خرجت يقع الطلاق أو لا تخرجي إلا بإذني فإني حلفت بالطلاق فخرجت لم يقع لتركه الإضافة إليها".

قال ابن عابدین رحمہ اللہ ":(قوله: لتركه الإضافة) أي المعنوية فإنها الشرط والخطاب من الإضافة المعنوية، وكذا الإشارة نحو هذه طالق، وكذا نحو امرأتي طالق وزينب طالق. اهـ.

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 1171/42-425

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   صورت مسئولہ میں کسی قریبی دارالقضاء سے رجوع کریں، کیونکہ یہ بات تحقیق طلب ہے کہ سر میں لگی چوٹ کس نوعیت کی تھی، حواس کس حد تک گم ہوگئے تھے، ڈاکٹر کی رپورٹ کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 40/1047

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگرہوش کی حالت میں طلاق دی ہے تو واقع ہوگی۔ آخرت کا معاملہ دنیا سے بالکل مختلف ہوگا اس کو دنیا پر قیاس نہ کیا جائے  بلکہ اللہ کے علم کے سپرد کردینا چاہئے۔ طلاق دینے والا اگر کوئی شرعی عذر رکھتا ہے تو گناہ سے بری ہوگا۔   واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1458/42-886

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں شوہر نے  پہلے جملہ سےبیوی کو فارغ کرنے اور طلاق دینے کی دھمکی دی ہے، اس لئے  محض اس دھمکی آمیز جملہ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ البتہ آپ نے لکھاہے کہ ایک بار طلاق کا لفظ استعمال کیا، اس کی وضاحت ضروری ہے کہ آپ نے کس طرح طلاق کا لفظ استعمال کیا۔ جو جملہ آپ نے بولا تھا بعینہ وہی جملہ لکھ کر بھیجیں تاکہ جواب لکھا جاسکے۔

وبالعربية قوله: أطلق، لا يكون طلاقاً في أنه دائر بين الحال والاستقبال فلم يكن تحقيقاً مع الشك حتى أن موضع علمت استعماله للحال كان تحقيقاً )المحیط البرہانی فی الفقہ النعمانی الفصل السابع والعشرون فی المتفرقات 3/472)  (الفتاوی الھندیۃ، الفصل السابع فی الطلاق بالالفاظ الفارسیۃ 1/384)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 2448/45-3710

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عبدالرحمن نے طلاق دی ہے، طلاق نامہ بھی بیوی کے پاس موجود ہے اور گواہ بھی ہیں، اور وہ طلاق کا اقرار بھی کرتا ہے تو پھر طلاق کے وقوع میں شبہہ کیوں ہے؟ طلاق گھر میں دے یا کورٹ میں بہر حال طلاق واقع ہوجاتی ہے، اس لئے کورٹ میں دی گئی طلاق واقع ہوچکی ہے۔ اگر اس کے علاوہ کوئی بات ہو تو اس کی وضاحت کرکے دوبارہ سوال کریں۔    

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 2838/45-4486

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ دونوں صورتوں میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، اس لئے کہ اس 'ہاں ' کا تعلق آگے والے جملہ سے ہے، پیچھے والے جملہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس میں شبہہ نہ کریں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند