طلاق و تفریق

Ref. No. 1539/43-1041

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تفویض طلاق مجلس تفویض تک ہی محدود ہوتی ہے، اور مجلس کے ختم ہونے سے یہ تفویض بھی ختم ہوجاتی ہے لیکن اگر شوہر نے اس سے ہمیشہ کی نیت کی ہے تو اس کی نیت معتبر ہوگی ۔ اس لئے اگر اس نے تفویض طلاق کو موقت نہیں کیا ہے بلکہ عام رکھاہے تو عورت جب بھی تفویض کا استعمال کرتے ہوئے  خود کو طلاق دے گی طلاق واقع ہوجائے گی۔ نکاح ہوجانے کے بعد نکاح نامہ میں تفویض طلاق کی میعاد نہیں ہوتی اور وہ مجلس نکاح تک محدود نہیں ہوتی ہے، اس لئے عورت کوہمیشہ اختیار باقی رہے گا۔ اور اگر تفویض طلاق پر دستخط پہلے ہوئے اورنکاح نامہ پر دستخط بعد میں ، تو عورت کو کوئی اختیار نہیں ملے گا۔

قوله: لم يكن له الأمر إلخ) ذكر الشارح في آخر باب الأمر باليد نكحها على أن أمرها بيدها صح. اهـ. لكن ذكر في البحر هناك: أن هذا لو ابتدأت المرأة، فقالت: زوجت نفسي على أن أمري بيدي أطلق نفسي كلما أريد أو على أني طالق فقال: قبلت وقع الطلاق وصار الأمر بيدها، أما لو بدأ هو لاتطلق ولايصير الأمر بيدها. اهـ". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3 / 27)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1538/43-1045

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مرد کی شرم گاہ کو بلا حائل دیکھنے سے حرمت مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے البتہ کپڑا حائل ہو تو کپڑے کے اوپر سے شرم گاہ کی وضع دیکھنے سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔ لہذا مذکورہ صورت میں حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔

"وناظرة إلى ذكره  .... والعبرة للشهوة عند المس والنظر لا بعدهما وحدها فيهما تحرك آلته أو زيادته به يفتى، وفي امرأة ونحو شيخ كبير تحرك قبله أو زيادته. (قوله: وناظرة) أي بشهوة ... (قوله: وفي امرأة ونحو شيخ إلخ) قال في الفتح: ثم هذا الحد في حق الشاب، أما الشيخ والعنين فحدهما تحرك قلبه أو زيادته إن كان متحركاً لا مجرد ميلان النفس، فإنه يوجد فيمن لا شهوة له أصلاً كالشيخ الفاني، ثم قال: ولم يحدوا الحد المحرم منها أي من المرأة، وأقله تحرك القلب على وجه يشوش الخاطر قال ط: ولم أر حكم الخنثى المشكل في الشهوة، ومقتضى معاملته بالأضر أن يجري عليه حكم المرأة". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) 3/33)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1710/43-1376

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خلع سے شرعا ایک طلاق بائن واقع ہوتی ہے، اس لئے جب شوہر نے پہلی مرتبہ خلع کو قبول کیا تو ایک طلاق بائن واقع ہوگئی، اور اس عورت کی عدت شروع ہوگئی۔ عورت کے بائنہ ہوجانے کے بعد دوسری مرتبہ خلع قبول کرنے پر دوسری طلاق بائن واقع نہیں ہوئی، اس لئے کہ طلاق  بائن کے بعد طلاق  بائن واقع نہیں ہوتی ہے۔ لیکن صریح طلاق بائن کے ساتھ ملحق ہوتی ہے، اس لئے   خلع کے بعد صریح طلاق دینے سے دوسری  طلاق واقع ہوگئی ۔اب شوہر کی جانب سے بیوی پر دوطلاقیں واقع ہوچکی ہیں، اگر شوہر و بیوی دونوں نکاح کرنا چاہیں توعدت کے زمانے میں یا عدت گزرنے کے بعد نئے مہر کے ساتھ نکاح کرسکتے ہیں۔  لیکن خیال رہے کہ آئندہ شوہر کو صرف ایک طلاق کا اختیار باقی رہے گا، آئندہ کبھی بھی ایک طلاق دے گا تو عورت پر تین طلاقیں مکمل ہوجائیں گی اور عورت شوہر کے لئے شرعا پورے طور پر حرام ہوجائے گی۔  

"الطَّلَاقُ الصَّرِيحُ يَلْحَقُ الطَّلَاقَ الصَّرِيحَ بِأَنْ قَالَ: أَنْتِ طَالِقٌ وَقَعَتْ طَلْقَةٌ، ثُمَّ قَالَ: أَنْتِ طَالِقٌ تَقَعُ أُخْرَى، وَيَلْحَقُ الْبَائِنُ أَيْضًا بِأَنْ قَالَ لَهَا: أَنْتِ بَائِنٌ أَوْ خَالَعَهَا عَلَى مَالٍ، ثُمَّ قَالَ لَهَا: أَنْتِ طَالِقٌ وَقَعَتْ عِنْدَنَا، وَالطَّلَاقُ الْبَائِنُ يَلْحَقُ الطَّلَاقَ الصَّرِيحَ بِأَنْ قَالَ لَهَا: أَنْتِ طَالِقٌ ثُمَّ قَالَ لَهَا: أَنْتِ بَائِنٌ تَقَعُ طَلْقَةٌ أُخْرَى، وَلَايَلْحَقُ الْبَائِنُ الْبَائِنَ".  (الھندیۃ 1/377)

(الصريح يلحق الصريح و) يلحق (البائن) بشرط العدة (والبائن يلحق الصريح) الصريح ما لا يحتاج إلى نية بائنا كان الواقع به أو رجعيا فتح  ۔۔۔ (لا) يلحق البائن (البائن (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 306)

الطَّلاقُ مَرَّتَانِ فَامْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ أَوْ تَسْرِیْحٌ بِاحْسَان۔۔۔۔۔۔۔ الی قولہ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ (سورۃ البقرۃ 230)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 2331/44-3500

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عاقلہ بالغہ عورت شدید مجبوری میں پورے پردہ کا اہتمام کرتے ہوئے اگر جائے تو اس کی اجازت ہوگی، تاہم اگر مسافت سفر پر جاناپڑے تو کسی محرم یعنی بھائی، چچا یا ماموں کو ساتھ لے کر جانا ضروری ہوگا۔

"عن عبد الله بن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «لايحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر، تسافر مسيرة ثلاث ليال، إلا ومعها ذو محرم»". (الصحیح لمسلم، 1/433، کتاب الحج، ط: قدیمی)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 40/1068

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نشے کی حالت میں زجراً وقوع طلاق  کا حکم ہوگا۔ 

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No 2670/45-4135

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  

اسلام میں نکاح ایک پاکیزہ رشتے کا نام ہے،اسلام نے اس کی پائداری پر زور دیا ہے، اور اس کے لیے باہمی الفت ومحبت اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی ہونے لگے تو پہلے دونوں خاندان کے بزرگ کو صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوںکہ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ فعل ہے اور بلا ضرورت اسکا استعمال درست نہیں ہے۔ پھر بھی اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو ایک طلاق صریح دے کر دونوں کو الگ ہو جانے کا حکم ہے۔  ایک طلاق کے بعد اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو عدت میں رجوع کے ذریعہ اور عدت کے بعد نکاح کے ذریعہ دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔  ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعاً گناہ ہے اور ملکی قانون کے مطابق قابل مواخذہ جرم ہے۔

بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں جب شوہر تین طلاق کا اقرار کررہاہے تو تین طلاقیں واقع شمار ہوں گی۔ طلاق کے لئے گواہ کا ہونا یا کسی کا سننا شرط نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 2514/45-3847

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں جب بیوی کھانے کو ختم کرنے پر قادر نہیں  تھی، تو یمین منعقد ہی نہیں ہوگی، اور چونکہ بیوی  شروع سے آخر تک کھانے میں شریک رہی اور کھانا ختم کردیا تویمین کے مطابق بھی  عورت پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔   

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 2628/45-4002

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   بشرط صحت سوال اگر نکاح کے بعد شوہر و بیوی کی ملاقات نہیں ہوئی اور خلوت صحیحہ بھی نہیں ہوئی اور شوہر نے اپنی بیوی کو طلاق دیدی تو صورت مسئولہ میں ایک طلاق بائن واقع ہوئی۔ اگر دونوں دوبارہ نکاح کرکے رہنا چاہیں تو عدت کے اندر بھی نکاح کرسکتے ہیں ، البتہ آئندہ شوہر کو صرف دو طلاقوں کا اختیار ہوگا۔

" وإذا طلق الرجل امرأته ثلاثا قبل الدخول بها وقعن عليها " لأن الوقاع مصدر محذوف لأن معناه طلاقا بائنا على ما بيناه فلم يكن قوله أنت طالق إيقاعا على حدة فيقعن جملة فإن فرق الطلاق بانت بالأولى ولم تقع الثانية والثالثة " وذلك مثل أن يقول أنت طالق طالق طالق لأن كل واحدة إيقاع على حدة إذا لم يذكر في آخر كلامه ما يغير صدره۔ (الھدایۃ: (233/1، ط: دار احیاء التراث العربی)

إذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها۔۔۔الخ (الھندیۃ: (473/1، ط: دار الفکر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 1715/43-1392

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ چار مہینے یا اس سے زیادہ کے حمل کو ضائع کرنا ناجائز عمل ہے اور سخت گناہ کی بات ہے، عورت  پر اور ان  تمام  لوگوں پر  جنھوں نے  اس عمل میں اس  عورت کا ساتھ دیاتوبہ واستغفارلازم ہے۔ تاہم  چونکہ بچہ کے اعضاء بن چکے تھے، اور حیات اس میں آگئی تھی ، س لئے اسقاط حمل سے  عورت کی عدت پوری ہوگئی ۔اب  عورت آزاد ہے،  اگرنکاح کرنا چاہے تو کرسکتی ہے۔  

قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالی:"(وسقط) مثلث السين: أي مسقوط (ظهر بعض خلقه كيد أو رجل) أو أصبع أو ظفر أو شعر، ولا يستبين خلقه إلا بعد مائة وعشرين يوما(ولد) حكما..... وتنقضي به العدة."
وقال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی:"(قوله أي مسقوط) الذي في البحر التعبير بالساقط،وهو الحق لفظا ومعنى؛.....وأما معنى فلأن المقصود سقوط الولد ،سواء سقط بنفسه،أو أسقطه غيره." (الدر المختار مع رد المحتار:1/302، دار الفکر،بیروت)
وقال العلامۃ ابن نجیم رحمہ اللہ تعالی:"وإذا أسقطت سقطا استبان بعض خلقه،انقضت به العدة؛ لأنه ولد." (البحر الرائق:4/147،دارالکتاب الإسلامی)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 2092/44-2132

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ علی تقدیر صحۃ السوال المذکور وقع الطلاق الرجعی بقولہ 'اعتبریہ حصل من طرفی'۔ الآن الزوج مخیر ان یراجعھا فی العدۃ او یترکھا حتی تنقضی العدۃ۔ و لو یریدان ان یعیشا معا و قد انقضت عدتھا فلا بد من نکاح جدید۔ قال تعالی: اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ۪-فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍؕ-وَ لَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ شَیْــٴًـا اِلَّاۤ اَنْ یَّخَافَاۤ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِؕ-فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِۙ-فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِهٖؕ-تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَاۚ-وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ (البقرۃ ۲۲۹)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند