طلاق و تفریق

Ref. No. 1191/42-476

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  (1) محض وسوسہ کی وجہ سے نہ تو کلما کی قسم واقع ہوتی ہے اور نہ ہی طلاق واقع ہوتی ہے وسوسے کی بنا پر کوئی حکم نہیں لگتا ہے اس لیے فضولی والے نکاح کی کوئی ضرورت نہیں ہے (2) کلما کے علاوہ الفاظ سے بھی طلاق کی قسم منعقد ہو جاتی ہے لیکن جو مثال ذکر کی ہے کہ میں فلاں کے ساتھ نہیں جاؤں گا اس سے قسم منعقد نہیں ہوگی اور نہ ہی طلاق واقع ہوگی (3)  سوال واضح نہیں ہے، مکمل کلما کے الفاظ کے ساتھ قسم کی وضاحت کر کے معلوم کر لیں (4) وسوسے کا علاج یہ ہے کہ اس کی طرف توجہ نہ دی جائے اور درود شریف کی کثرت کے ساتھ یہ دعا پڑھیں: اللھم انی اعوذ بک من ھمزات الشیاطین واعوذ بک ربی ان یحضرون۔

قال الليث الوسوسه حديث النفس وانما قيل موسوس لانه يحدث بما في ضميره وعن الليث لا يجوز طلاق الموسوس (رد المحتار4/224) ان الله تجاوز عن امتي ما وسوست به صدورها ما لم تعمل بها او تتكلم بها (مشکوۃ ص18)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 2518/45-3850

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اسلام میں نکاح ایک پاکیزہ رشتے کا نام ہے،اسلام نے اس کی پائداری پر زور دیا ہے، اور اس کے لیے باہمی الفت ومحبت اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی ہونے لگے تو پہلے دونوں خاندان کے بزرگ کو صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوںکہ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ فعل ہے اور بلا ضرورت اسکا استعمال درست نہیں ہے۔ پھر بھی اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو ایک طلاق صریح دے کر دونوں کو الگ ہو جانے کا حکم ہے۔  ایک طلاق کے بعد اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو عدت میں رجوع کے ذریعہ اور عدت کے بعد نکاح کے ذریعہ دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔  ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعاً گناہ ہے اور ملکی قانون کے مطابق قابل مواخذہ جرم ہے۔

بشرط صحت سوال مذکورہ صورت میں  جب شوہر نے تین بار طلاق کا لفظ بول دیا توشرعا  تین طلاقیں واقع ہوگئیں اور عورت اپنے شوہر کے لئے حرام ہوگئی۔ عدت گزرنے کے بعد عورت کو مکمل اختیار ہے کہ  اگر وہ چاہے تو کسی دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 2397/44-3630

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  نشہ کی حالت میں بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے، اور چھ سات بار طلاق بولنے سے شرعا تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ اور بیوی شوہر پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجاتی ہے، نکاح فوری طور پر ختم ہوجاتاہے، اور دوبارہ نکاح بھی نہیں ہوسکتاہے۔ مطلقہ عورت اپنی عدت گزارکر دوسرے مرد سے نکاح کرنے میں آزاد ہوتی ہے۔

"إن كان سكره بطريق محرم لايبطل تكليفه فتلزمه الأحكام وتصح عبارته من الطلاق و العتاق." (حاشیۃ ابن عابدین،  مطلب في تعريف السكران وحكمه : 3 / 239 ، ط : سعید)

"(و يقع طلاق كل زوج بالغ عاقل) و لو تقديرًا، بدائع ، ليدخل السكران (ولو عبدًا أو مكرهًا) فإن طلاقه صحيح. (قوله: فإن طلاقه صحيح) أي طلاق المكره." (الدر المختار و حاشیۃ ابن عابدین، رکن الطلاق : 3 / 235 ، ط : سعید)

"وإن كان ‌الطلاق‌ ثلاثا في الحرة و ثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا و يدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية."

(فتاوی ہندیہ، کتاب الطلاق ، الباب السادس في الرجعة وفيما تحل به المطلقة وما يتصل به ، فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به : 473/1 ، ط : دار الفکر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 1720/43-1408

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں  عورت پر فقہ حنفی کی روشنی میں تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں، اور نکاح ختم ہوگیا، اب دونوں اجنبی ہوگئے۔ عورت عدت گزرنے کے بعد کسی دوسرے مرد سے اگر چاہے تو نکاح کرسکتی ہے۔

﴿ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ﴾ [البقرة: 229] ﴿ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾ [البقرة: 230]

عن عائشة، أن رجلا طلق امرأته ثلاثا، فتزوجت فطلق، فسئل النبي صلى الله عليه وسلم: أتحل للأول؟ قال: «لا، حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول». صحيح البخاري(2/791، ط:قدیمی) مطابقته  للترجمة في قوله: طلق امراته ثلاثاً فإنه ظاهر في كونها مجموعة. عمدة القاری (2/336، ط؛ رشیدیه) فالتمسك بظاهرقوله طلقها ثلاثا فإنه ظاهر في كونها مجم وعة. (فتح الباري لابن حجر (9 / 367)

أن عائشة، أخبرته: أن امرأة رفاعة القرظي جاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إن رفاعة طلقني فبت طلاقي، وإني نكحت بعده عبد الرحمن بن الزبير القرظي، وإنما معه مثل الهدبة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لعلك تريدين أن ترجعي إلى رفاعة؟ لا، حتى يذوق عسيلتك وتذوقي عسيلته»۔ (صحيح البخاري (2/791، ط:قدیمی) قوله فبت طلاقي فإنه ظاهر في أنه قال لها أنت طالق ألبتة ويحتمل أن يكون المراد أنه طلقها طلاقا حصل به قطع عصمتها منه وهو أعم من أن يكون طلقها ثلاثا مجموعة أو مفرقة ويؤيد الثاني أنه سيأتي في كتاب الأدب من وجه آخر أنها قالت طلقني آخر ثلاث تطليقات۔ فتح الباري لابن حجر (9 / 367، دار المعرفة – بيروت)

 فَاخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِي جَوَابِهِ وَتَأْوِيلِهِ فَالْأَصَحُّ أَنَّ مَعْنَاهُ أَنَّهُ كَانَ فِي أَوَّلِ الْأَمْرِ إِذَا قَالَ لَهَا أَنْتِ طَالِقٌ أَنْتِ طَالِقٌ أَنْتِ طَالِقٌ وَلَمْ يَنْوِ تَأْكِيدًا وَلَا اسْتِئْنَافًا يُحْكَمُ بِوُقُوعِ طَلْقَةٍ لِقِلَّةِ إِرَادَتِهِمُ الِاسْتِئْنَافَ بِذَلِكَ فَحُمِلَ عَلَى الْغَالِبِ الَّذِي هُوَ إِرَادَةُ التَّأْكِيدِ فَلَمَّا كَانَ فِي زَمَنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَكَثُرَ اسْتِعْمَالُ النَّاسِ بِهَذِهِ الصِّيغَةِ وَغَلَبَ مِنْهُمْ إِرَادَةُ الِاسْتِئْنَافِ بِهَا حُمِلَتْ عِنْدَ الْإِطْلَاقِ عَلَى الثَّلَاثِ عَمَلًا بِالْغَالِبِ السَّابِقِ إِلَى الْفَهْمِ مِنْهَا فِي ذَلِكَ الْعَصْرِ۔ (شرح النووي على مسلم (1/478، ط: قدیمی)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 2461/45-3779

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  شوہر کا قول " میں نے چھوٹ دیدی ہے تو کہیں بھی شادی کرسکتی ہے" یہ طلاق کے کنائی الفاظ ہیں، اگر شوہر  قسم کھاکر کہتاہے کہ اس کی نیت اس جملہ سے طلاق کی نہیں تھی تو طلاق واقع نہیں ہوگی، مذکورہ خاتون کا نکاح اپنے شوہر سے برقرار رہے گا اور اگر اس جملہ سے شوہر کی نیت طلاق کی تھی  تو بیوی پر ایک  طلاقِ بائن واقع ہوگئی اور نکاح ختم ہوگیا، شوہر کو رجوع کا اختیار نہیں ہوگا۔ طلاق کے بعد مذکورہ خاتون  عدت  گزارکر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔

" اذهبي وتزوجي تقع واحدة بلا نية.۔ ۔(قوله: تقع واحدة بلا نية) لأن تزوجي قرينة، فإن نوى الثلاث فثلاث بزازية، ويخالفه ما في شرح الجامع الصغير لقاضي خان: ولو قال: اذهبي فتزوجي وقال: لم أنو الطلاق لايقع شيء؛ لأن معناه إن أمكنك اهـ إلا أن يفرق بين الواو والفاء وهو بعيد هنا بحر، على أن تزوجي كناية مثل اذهبي فيحتاج إلى النية فمن أين صار قرينة على إرادة الطلاق باذهبي مع أنه مذكور بعده والقرينة لا بد أن تتقدم كما يعلم مما مر في اعتدي ثلاثا فالأوجه ما في شرح الجامع، ولا فرق بين الواو والفاء، ويؤيده ما في الذخيرة اذهبي وتزوجي لايقع إلا بالنية وإن نوى فهي واحدة بائنة، وإن نوى الثلاث فثلاث." (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 314)

"ولو قال: (اذهبي) فتزوجي وقال: لم أنو لم يقع لأن معناه إن أمكنك، قاله قاضي خان والمذكور في (الحافظية) وقوعه بالواو بلا نية، ولو قال: إلى جهنم وقع إن نوى، كما في (الخلاصة) والله الموفق، (ابتغي الأزواج) إن قدرت أو لأني طلقتك ومثله تزوجي." (النهر الفائق شرح كنز الدقائق (2/ 360)

"ولو قال لها: اذهبي فتزوجي تقع واحدة إذا نوى فإن نوى الثلاث تقع الثلاث.(الفتاوى الهندية (1/ 376)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 2368/44-3577

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   صورت مذکورہ میں فی الحال کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، تینوں طلاقیں ماں کے گھر جانے پر معلق ہیں ، ماں کے گھر جاتے ہی  تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔ ہاں اگر شوہر اپنی بیوی کو ایک طلاق دیدے ، بیوی عدت پوری کرنے کے بعد اپنی ماں کے گھر جائے اور پھر یہ شخص دوبارہ اس سے نکاح کرلے ، پھر یہ عورت اگر اپنی ماں کے گھر جائے گی تو کوئی  طلاق واقع نہیں ہوگی۔

ثم الشرط ان کان متاخرا عن الجزاء فالتعلیق صحیح وان لم یذکر حرف الفاء اذا لم یتخلل بین الجزاء وبین الشرط سکوت ۔ الاتری ان من قال لامراتہ ان طالق ان دخلت الدار یتعلق الطلاق بالدخول الخ۔۔۔ (الھندیۃ 1/488 زکریا دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 881 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  صورت مسئولہ میں  اگر فارم پر طلاق کی صراحت تھی اور  شوہر نےاس پر اپنی رضامندی سے  دستخط  کردیا ہے  اور  کورٹ نے  اسی کے مطابق فیصلہ سنایا ہے ، تو  عورت پر طلاق واقع ہوچکی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 40/1111

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  طلاق جس طرح زبان سے دینے سے واقع ہوجاتی ہے اسی طرح تحریری طور پر دینے سے ھبی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ آجکل جو جدید آلات ہیں ای میل، واٹس اپ، فیس بک، اس کے ذریعہ بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ البتہ ضروری ہے کہ شوہر نے عورت کو خطاب کرکے دیا ہو، کسی کاغذ پر محض طلاق کا لفظ لکھنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔ اس لئے سوال میں طلاق دینے والے نے عورت کی تصویر پر طلاق کے کیا الفاظ لکھے تھے اس کی وضاحت  کرکے دوبارہ سوال کریں۔ قید بخطابھا لانہ لوقال ان خرجت یقع الطلاق او لا تخرجی الا باذنی فانی حلفت بالطلاق فخرجت لم یقع لترکہ الاضافۃ الیھا (ردالمحتار4/458)۔ ولو کتب علی وجہ الرسالۃ والخطاب کان یکتب یا فلان اذا اتاک کتابی ھذا فانت طالق طلقت بوصول الکتاب (ردالمحتار4/456)۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 2172/44-2284

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو الفاظ شرعا یا عرفا طلاق کے لئے استعمال ہوتے ہیں ، ان کو اس طرح بدل دینا کہ بدلنے کے بعد بھی وہ عوام میں مستعمل ہوں  اور ان کو بول کر طلاق مراد ہوتی ہو  تو ان کو بولنے سے بھی  طلاق واقع ہوجاتی ہے،  لیکن  اگر ایسی تبدیلی کردی کہ عرف میں بالکل بھی اس کا استعمال نہیں ہے اور الفاظ طلاق سے اب وہ لفظ  کوئی مناسبت نہ رکھتاہو تو اس کو  بولنے سے طلاق نہیں ہوگی اور ان کو الفاظ مصحفہ میں شمار نہیں کیاجائے گا۔

رد المحتار - (10 / 500):

"باب الصريح (صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة) بالتشديد قيد بخطابها، لأنه لو قال: إن خرجت يقع الطلاق أو لاتخرجي إلا بإذني فإني حلفت بالطلاق فخرجت لم يقع لتركه الإضافة إليها (ويقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح ، ويدخل نحو طلاغ وتلاغ وطلاك وتلاك أو " ط ل ق " أو " طلاق باش " بلا فرق بين عالم وجاهل ، وإن قال: تعمدته تخويفًا لم يصدق قضاء إلا إذا أشهد عليه قبله وبه يفتى."

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 2175/44-2295

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ 'تجھ سے میرا رشتہ ختم' یہ کنائی الفاظ میں سے ہے، اور کنائی الفاظ سے طلاق واقع ہونے کے لئے نیت شرط ہے، اس لئے اگر شوہر نے یہ جملہ کہتے ہوئے طلاق کی نیت کی تھی تو ایک طلاق بائن  واقع ہوگئی۔ میاں بیوی دوبارہ نکاح کرکے ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔ البتہ شوہر کو خیال رہے کہ آئندہ صرف دو طلاق کا اختیار رہے گا۔ 

"ولو قال لها: لا نكاح بيني وبينك، أو قال: لم يبق بيني وبينك نكاح، يقع الطلاق إذا نوى." (فتاوى ہندیہ كتاب الطلاق، الباب الثاني في ايقاع الطلاق، الفصل الخامس في الكنايات في الطلاق، ج:1، ص:375، ط:رشيديه)

"(كنايته) عند الفقهاء (ما لم يوضع له) أي الطلاق (واحتمله) وغيره (ف) الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال)، وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب.

(قوله: وهي حالة مذاكرة الطلاق) أشار به إلى ما في النهر من أن دلالة الحال تعم دلالة المقال قال: وعلى هذا فتفسر المذاكرة بسؤال الطلاق أو تقديم الإيقاع، كما في اعتدي ثلاثاً وقال قبله المذاكرة أن تسأله هي أو أجنبي الطلاق." (فتاوی شامی كتاب الطلاق، باب الكنايات، ج:3، ص:297،296، ط:سعيد)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند