طلاق و تفریق

Ref. No. 2461/45-3779

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  شوہر کا قول " میں نے چھوٹ دیدی ہے تو کہیں بھی شادی کرسکتی ہے" یہ طلاق کے کنائی الفاظ ہیں، اگر شوہر  قسم کھاکر کہتاہے کہ اس کی نیت اس جملہ سے طلاق کی نہیں تھی تو طلاق واقع نہیں ہوگی، مذکورہ خاتون کا نکاح اپنے شوہر سے برقرار رہے گا اور اگر اس جملہ سے شوہر کی نیت طلاق کی تھی  تو بیوی پر ایک  طلاقِ بائن واقع ہوگئی اور نکاح ختم ہوگیا، شوہر کو رجوع کا اختیار نہیں ہوگا۔ طلاق کے بعد مذکورہ خاتون  عدت  گزارکر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔

" اذهبي وتزوجي تقع واحدة بلا نية.۔ ۔(قوله: تقع واحدة بلا نية) لأن تزوجي قرينة، فإن نوى الثلاث فثلاث بزازية، ويخالفه ما في شرح الجامع الصغير لقاضي خان: ولو قال: اذهبي فتزوجي وقال: لم أنو الطلاق لايقع شيء؛ لأن معناه إن أمكنك اهـ إلا أن يفرق بين الواو والفاء وهو بعيد هنا بحر، على أن تزوجي كناية مثل اذهبي فيحتاج إلى النية فمن أين صار قرينة على إرادة الطلاق باذهبي مع أنه مذكور بعده والقرينة لا بد أن تتقدم كما يعلم مما مر في اعتدي ثلاثا فالأوجه ما في شرح الجامع، ولا فرق بين الواو والفاء، ويؤيده ما في الذخيرة اذهبي وتزوجي لايقع إلا بالنية وإن نوى فهي واحدة بائنة، وإن نوى الثلاث فثلاث." (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 314)

"ولو قال: (اذهبي) فتزوجي وقال: لم أنو لم يقع لأن معناه إن أمكنك، قاله قاضي خان والمذكور في (الحافظية) وقوعه بالواو بلا نية، ولو قال: إلى جهنم وقع إن نوى، كما في (الخلاصة) والله الموفق، (ابتغي الأزواج) إن قدرت أو لأني طلقتك ومثله تزوجي." (النهر الفائق شرح كنز الدقائق (2/ 360)

"ولو قال لها: اذهبي فتزوجي تقع واحدة إذا نوى فإن نوى الثلاث تقع الثلاث.(الفتاوى الهندية (1/ 376)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 2368/44-3577

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   صورت مذکورہ میں فی الحال کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، تینوں طلاقیں ماں کے گھر جانے پر معلق ہیں ، ماں کے گھر جاتے ہی  تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔ ہاں اگر شوہر اپنی بیوی کو ایک طلاق دیدے ، بیوی عدت پوری کرنے کے بعد اپنی ماں کے گھر جائے اور پھر یہ شخص دوبارہ اس سے نکاح کرلے ، پھر یہ عورت اگر اپنی ماں کے گھر جائے گی تو کوئی  طلاق واقع نہیں ہوگی۔

ثم الشرط ان کان متاخرا عن الجزاء فالتعلیق صحیح وان لم یذکر حرف الفاء اذا لم یتخلل بین الجزاء وبین الشرط سکوت ۔ الاتری ان من قال لامراتہ ان طالق ان دخلت الدار یتعلق الطلاق بالدخول الخ۔۔۔ (الھندیۃ 1/488 زکریا دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 881 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  صورت مسئولہ میں  اگر فارم پر طلاق کی صراحت تھی اور  شوہر نےاس پر اپنی رضامندی سے  دستخط  کردیا ہے  اور  کورٹ نے  اسی کے مطابق فیصلہ سنایا ہے ، تو  عورت پر طلاق واقع ہوچکی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 40/1111

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  طلاق جس طرح زبان سے دینے سے واقع ہوجاتی ہے اسی طرح تحریری طور پر دینے سے ھبی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ آجکل جو جدید آلات ہیں ای میل، واٹس اپ، فیس بک، اس کے ذریعہ بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ البتہ ضروری ہے کہ شوہر نے عورت کو خطاب کرکے دیا ہو، کسی کاغذ پر محض طلاق کا لفظ لکھنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔ اس لئے سوال میں طلاق دینے والے نے عورت کی تصویر پر طلاق کے کیا الفاظ لکھے تھے اس کی وضاحت  کرکے دوبارہ سوال کریں۔ قید بخطابھا لانہ لوقال ان خرجت یقع الطلاق او لا تخرجی الا باذنی فانی حلفت بالطلاق فخرجت لم یقع لترکہ الاضافۃ الیھا (ردالمحتار4/458)۔ ولو کتب علی وجہ الرسالۃ والخطاب کان یکتب یا فلان اذا اتاک کتابی ھذا فانت طالق طلقت بوصول الکتاب (ردالمحتار4/456)۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 2172/44-2284

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو الفاظ شرعا یا عرفا طلاق کے لئے استعمال ہوتے ہیں ، ان کو اس طرح بدل دینا کہ بدلنے کے بعد بھی وہ عوام میں مستعمل ہوں  اور ان کو بول کر طلاق مراد ہوتی ہو  تو ان کو بولنے سے بھی  طلاق واقع ہوجاتی ہے،  لیکن  اگر ایسی تبدیلی کردی کہ عرف میں بالکل بھی اس کا استعمال نہیں ہے اور الفاظ طلاق سے اب وہ لفظ  کوئی مناسبت نہ رکھتاہو تو اس کو  بولنے سے طلاق نہیں ہوگی اور ان کو الفاظ مصحفہ میں شمار نہیں کیاجائے گا۔

رد المحتار - (10 / 500):

"باب الصريح (صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة) بالتشديد قيد بخطابها، لأنه لو قال: إن خرجت يقع الطلاق أو لاتخرجي إلا بإذني فإني حلفت بالطلاق فخرجت لم يقع لتركه الإضافة إليها (ويقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح ، ويدخل نحو طلاغ وتلاغ وطلاك وتلاك أو " ط ل ق " أو " طلاق باش " بلا فرق بين عالم وجاهل ، وإن قال: تعمدته تخويفًا لم يصدق قضاء إلا إذا أشهد عليه قبله وبه يفتى."

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 2175/44-2295

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ 'تجھ سے میرا رشتہ ختم' یہ کنائی الفاظ میں سے ہے، اور کنائی الفاظ سے طلاق واقع ہونے کے لئے نیت شرط ہے، اس لئے اگر شوہر نے یہ جملہ کہتے ہوئے طلاق کی نیت کی تھی تو ایک طلاق بائن  واقع ہوگئی۔ میاں بیوی دوبارہ نکاح کرکے ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔ البتہ شوہر کو خیال رہے کہ آئندہ صرف دو طلاق کا اختیار رہے گا۔ 

"ولو قال لها: لا نكاح بيني وبينك، أو قال: لم يبق بيني وبينك نكاح، يقع الطلاق إذا نوى." (فتاوى ہندیہ كتاب الطلاق، الباب الثاني في ايقاع الطلاق، الفصل الخامس في الكنايات في الطلاق، ج:1، ص:375، ط:رشيديه)

"(كنايته) عند الفقهاء (ما لم يوضع له) أي الطلاق (واحتمله) وغيره (ف) الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال)، وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب.

(قوله: وهي حالة مذاكرة الطلاق) أشار به إلى ما في النهر من أن دلالة الحال تعم دلالة المقال قال: وعلى هذا فتفسر المذاكرة بسؤال الطلاق أو تقديم الإيقاع، كما في اعتدي ثلاثاً وقال قبله المذاكرة أن تسأله هي أو أجنبي الطلاق." (فتاوی شامی كتاب الطلاق، باب الكنايات، ج:3، ص:297،296، ط:سعيد)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 1639/43-1213

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہروہ گھر جو ماموں کا رہائشی ہے چاہے ملکیت کا ہو یا کرایہ کا ہو، اور ماموں کی طرف منسوب ہو اس گھرمیں عورت کا داخل ہونا ممنوع ہے۔ اس لئے اگر ماموں کے نئے مکان میں  جائے گی تو حسب شرط شرعا طلاق واقع ہوجائے گی۔  البتہ اگر جانا ضروری ہے، اور تین طلاق کو دخولِ دار پر معلق کیا ہو تو ایک حیلہ اختیار کرسکتے ہیں کہ عورت کو ایک طلاق رجعی دیدی جائے، اورعدت گزرجانے  کے بعد عورت اپنے ماموں کے گھر چلی جائے۔تو اس طرح قسم بھی پوری ہوجائے گی اور طلاق کا محل نہ ہونے کی وجہ سے کوئی طلاق بھی  واقع نہیں ہوگی، اب شوہر دوبارہ اس سے نکاح کرلے، تو اس کے بعد عورت کے لئے ماموں کے گھر جانے کا سلسلہ بھی شروع  ہوجائے گا۔  خیال رہے کہ اب شوہر شرعا صرف دو طلاق کا مالک ہوگا۔ کیونکہ وہ ایک طلاق دے چکاہے۔

حلف لا یدخل دار فلان یراد بہ نسبة السکنی إلیہ عرفاً ولو تبعاً أو بإعارة باعتبار عموم المجاز، ومعناہ کون محل الحقیقة فرداً من أفراد المجاز (شامی، کتاب الأیمان، ۵: ۵۵۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔ وتنحل الیمین بعد وجود الشرط مطلقاً لکن إن وجد فی الملک طلقت وعتق وإلا لا،فحیلة من علق الثلاث بدخول الدار أن یطلقھا واحدة ثم بعد العدة تدخلھا فتنحل الیمین فینکحھا (شامی، کتاب الطلاق، باب التعلیق، ۵: ۵۵۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1934/43-1847

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اس قسم سے ایلاء ہوگیا، چار ماہ کے اندر وطی کرکے قسم توڑ دیں اور کفارہ اداکردیں ، ورنہ چار ماہ گزرنے پر ایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی۔

  للذین یؤلون من نساءھم تربص اربعۃ اشھر فان فاؤا فان اللہ غفور رحیم، وان عزموا الطلاق فان اللہ سمیع علیم۔ (البقرۃ۔ الاٰیۃ 226-227) الایمان مبنیۃ علی الالفاظ (القواعد الفقہیۃ ص 65)  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 1731/43-1430

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس معاملہ کو کسی قریبی دارالقضاء میں لیجائیں ، وہ اپنے طریقہ پر اعلانات وغیرہ کے ذریعہ اس کا حل  نکالنے کی کوشش کریں گے۔  آپ کو وہاں سے  لڑکی کے دوسرا نکاح کرنے کے تعلق سے  بہتر رہنمائی ملے گی ان شاء اللہ۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 2541/45-3887

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  صورت مذکورہ میں اگر والدین اپنے اختیار سے کسی کو وکیل بنائیں اور وکیل نکاح کرے تو یہ مؤکل کی طرف ہی منسوب ہوگا، اور والدین کا ہی نکاح کرنا پایاجائے گا، اور مؤکل کی طرف سے طلاق بھی واقع ہوجائے گی، ۔ ہاں اگر لڑکی بالغہ ہو اور وہ بلا ولی کی اجازت کے نکاح کرے تو ایسی صورت میں طلاق واقع نہیں ہوگی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند