تجارت و ملازمت

Ref. No. 1734/43-1424

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہر وہ چیز جو تاجروں کے عرف میں نقص ثمن کا باعث ہو وہ عیب ہے، اس لئےآج کل کے عرف میں  استعمال شدہ ہونا بھی ایک عیب ہے اس لئے اس کی وجہ سے ثمن میں کمی کرنا  بالکل جائز ہے اور مذکورہ معاملہ درست ہے۔

كذا إذا شرط الأقل لما بيناه إلا أن يحدث في المبيع عيب فحينئذ جازت الإقالة بالأقل؛ لأن الحط يجعل بإزاء ما فات بالعيب، وعندهما في شرط الزيادة يكون بيعا؛ لأن الأصل هو البيع عند أبي يوسف رحمه الله وعند محمد رحمه الله جعله بيعا ممكن فإذا زاد كان قاصدا بهذا ابتداء البيع، وكذا في شرط الأقل عند أبي يوسف رحمه الله؛ لأنه هو الأصل عنده، وعند محمد رحمه الله هو فسخ بالثمن الأول لا سكوت عن بعض الثمن الأول، ولو سكت عن الكل وأقال يكون فسخا فهذا أولى، بخلاف ما إذا زاد، وإذا دخله عيب فهو فسخ بالأقل لما بيناه. (الھدایۃ باب الاقالۃ 3/55)

قال: "وكل ما أوجب نقصان الثمن في عادة التجار فهو عيب"؛ لأن التضرر بنقصان المالية، وذلك بانتقاص القيمة والمرجع في معرفته عرف أهله. (الھدایۃ باب خیارالعیب 3/37)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1937/43-1846

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  جس ریسٹورینٹ کی غالب آمدنی حلال ہو   تو اس میں ایسی ملازمت کرنا جس میں براہ راست حرام کام میں ملوث نہ ہونا پڑتاہو، جائز ہے۔  اس لئے آپ کی ملازمت میں چونکہ ایسی کوئی خرابی نہیں ہے  جس میں  براہ راست بار میں تعاون ہو، اس لئے آپ کی ملازمت جائز ہے اور کمائی حلال ہے، تاہم اس میں ایک گونہ شبہہ ہے، اس لئے  فی الحال یہ ملازمت اختیار کرلیں اور بعد میں جب کوئی متبادل ملازمت میسر ہوجائے تو اس کو چھوڑ دیں ۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ، قَال:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا عَاصِمٍ، عَنْ شَبِيبِ بْنِ بِشْرٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:‏‏‏‏ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْخَمْرِ عَشْرَةً عَاصِرَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَمُعْتَصِرَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَشَارِبَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَحَامِلَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَالْمَحْمُولَةُ إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَسَاقِيَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَبَائِعَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَآكِلَ ثَمَنِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُشْتَرِي لَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُشْتَرَاةُ لَهُ (سنن الترمذی: (رقم الحدیث: 1295)
أہدی إلیہ أو أضافہ وغالب مالہ حرام لا یقبل ولا یأکل ما لم یخبرہ أن ذٰلک المال أصلہ حلال ورثہ أو استقرضہ، وإن کان غالب مالہ حلالاً لا بأس بقبول ہدیتہ والأکل منہا۔ (الفتاوی الھندیۃ: (کتاب الکراہیۃ، 343/5، ط: زکریا)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1928/44-1984

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال میں مذکور صورت میں جس پراڈکٹ کا لنک ویب سائٹ مالک نے لگایا ہے، اگر وہ پراڈکٹ جائز ہے اور کمیشن متعین رقم یا پراڈکٹ کی قیمت کے متعین فیصد کے بقدر طے شدہ ہے تو یہ کام کرنا اور اس کی  اجرت لینا جائز ہے۔چونکہ اس میں لنک تشکیل دینے والے کی حیثیت اجیر کی ہے اور اجیر کا کام اس میں یہ ہے کہ وہ ویب سائٹس پر بیچے جانے والی چیزوں کا لنک تشکیل دیتا ہے اور لوگوں کو اس چیز کی خریداری کی طرف رغبت دلاکر مخصوص ویب سائٹس تک لے کر جاتا ہے، لہٰذا اس صورت میں لنک تشکیل دینے والے کو جو کمیشن ملے گا وہ سامان کی لنک سوشل میڈیا پر شیئر کرنے اور اس کے بکوانے کے سلسلے میں جو اس نے کوشش اور محنت کی ہے اس کا حق المحنت ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ جتنا کمیشن ملنا ہو، وہ پہلے سے طے ہو۔ اس میں کسی قسم کی جہالت نہ ہو۔

’’إجارۃ السمسار والمنادی والحمامی والصکاک وما لا یقدر فیہ الوقت ولا العمل تجوز لما کان للناس بہ حاجۃ ویطیب الأجر المأخوذ لو قدر أجر المثل‘‘ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’ ‘‘: ج ۶، ص: ۴۷، ط: دار الفکر)

’’وأما الدلال فإن باع العین بنفسہ بإذن ربہا فأجرتہ علی البائع وإن سعی بینہما وباع المالک بنفسہ یعتبر العرف وتمامہ في شرح الوہبانیۃ۔

(قولہ: فأجرتہ علی البائع) ولیس لہ أخذ شيء من المشتری؛ لأنہ ہو العاقد حقیقۃ شرح الوہبانیۃ وظاہرہ أنہ لا یعتبر العرف ہنا؛ لأنہ لا وجہ لہ۔ (قولہ: یعتبر العرف) فتجب الدلالۃ علی البائع أو المشتری أو علیہما بحسب العرف جامع الفصولین‘‘ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار: ج ۴، ص: ۵۶۰)

’’إذا باع الدلال مالا بإذن صاحبہ تؤخذ أجرۃ الدلالۃ من البائع ولا یعود البائع بشیء من ذلک علی المشتری لأنہ العاقد حقیقۃ وظاہرہ أنہ لا یعتبر العرف ہنا لأنہ لا وجہ لہ أما إذا کان الدلال مشی بین البائع والمشتری ووفق بینہما ثم باع صاحب المال مالہ ینظر فإن کان مجری العرف والعادۃ أن تؤخذ أجرۃ الدلال جمیعہا من البائع أخذت منہ أو من المشتری أخذت منہ أو من الاثنین أخذت منہما  أما إذ باع الدلال المال فضولا لا بأمر صاحبہ فالبیع المذکور موقوف ویصبح نافذا إذ أجاز صاحب المال ولیس للدلال أجرۃ فی ذلک لأنہ عمل من غیر أمر فیکون متبرعا‘‘ (درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام: ج ۱، ص: ۲۳۱) فقط

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1009

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔وہ پروگرام جن کے حقوق محفوظ ہیں یعنی کاپی رائٹ والے سوفٹ وئر،  ان کوبلااجازت استعمال کرنا درست نہیں ہے۔ آپ اگر خود کو سافٹ ویر مالکان کی جگہ سمجھ کر سنجیدگی سے غور کریں تو بآسانی فیصلہ کر سکتے ہیں۔ لوگ 20 اور 25 ہزار کے کمپیوٹر خریدلیتے ہیں تو کیا 2، 3 ہزار کے سافٹ وئر نہیں خرید سکتے۔ سافٹ وئر بنانے والوں نے بڑی محنت ، وقت اور کافی پیسے خرچ کئے ہیں ان کی محنتوں کو ضائع نہ کیجئے۔ اگر لوگ لائسنس والے سافٹ وئر ہی کمپیوٹروں میں ڈالا کرتے  تو مہنگائی کا شکوہ بھی نہ ہوتا۔ الغرض شرعی اعتبار سے ایسا کرنا اور کاپی رائٹ والے سافٹ ویر بلااجازت استعمال کرنا درست نہیں ، اس سے احتراز کرنا لازم ہے۔ تاہم آپ کی روزی حلال ہے کیونکہ آپ اپنی محنت کی فیس لیتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1335/42-722

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح کی شرط بھی مقتضائے عقد کے خلاف ہے۔ اگر کسی وقت بالکل فائدہ نہ ہوا تو کام کرنے والا پندرہ فیصد فائدہ آپ کو کہاں سے دے گا۔ کوئی بھی متعین فائدہ خاص کرلینا مضاربت میں درست نہیں ہے۔

(وكون الربح بينهما شائعا) فلو عين قدرا فسدت (وكون نصيب كل منهما معلوما) عند العقد. ومن شروطها: كون نصيب المضارب من الربح حتى لو شرط له من رأس المال أو منه ومن الربح فسدت، وفي الجلالية كل شرط يوجب جهالة في الربح أو يقطع الشركة فيه يفسدها، وإلا بطل الشرط وصح العقد اعتبارا بالوكالة۔ (شامی، کتاب المضاربۃ 5/648)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1012 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بینک کا کاروبار  سود پر منحصر ہوتا ہے۔ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے آپ کو یقینا معلوم ہوگا کہ قرآن کریم میں سود کوحرام کہا گیا ہے، اللہ تعالی نے  سودی کاروبار والے کوجنگ کی دھمکی دی ہے،  اور حدیث  پاک میں نبی اکرم ﷺ نے سود کھانے کوماں سے زنا کے مانند قراردیا ہے۔ اس لئے سودی معاملات بھی حرام ہیں اور ہر ایسے کام کی ملازمت بھی جس میں لینے، دینے، لکھنے اور گواہی دینے کے اعتبار سے  سود پر تعاون ہو ،  یہ سارے امورناجائز اور حرام ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے والے پر، سود دینے والے پر، سود کے لکھنے والے پر اور سود کی گواہی دینے والوں پر لعنت فرمائی ہے، اور فرمایا کہ یہ سب گناہ میں برابر کے شریک ہیں، (مشکوٰۃ)۔  جو حکم قرآن وحدیث سے صراحت سے ثابت ہے اس میں کسی قسم کا شک کرنا ایمانی تقاضہ کے منافی ہے، جب سود حرام ہے تو اس کو محنت سے حاصل کیا جائے یا بلامحنت موصول ہو بہر صورت حرام ہی رہے گا۔ خنزیر پر بسم اللہ پڑھ دینے سے اس کا گوشت حلال نہیں ہوجائے گا، ماں، بہن، بیٹی سے نکاح پڑھا لینے  سےوہ حلال نہیں ہوجائیں گی۔ اس لئے سودی کاروبار اور سود پر ہر طرح کے تعاون سے اجتناب لازم اور فرض ہے۔اللہ تعالی حلال اشیاء کی عظمت اور حرام اشیاء کی کراہت ہمارےدلوں میں بٹھادے کہ ہمارے دلوں کو پھیرنے والا وہی ہے ۔  آمین۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1340/42-718

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح متعین منافع پر کاروبار کرنا درست نہیں ہے۔ کاروبار میں جتنے لوگ شریک ہیں سب نفع و نقصان میں شریک ہوں تو معاملہ درست ہے۔ اس لئےمنافع  فی صد کے اعتبار سے متعین ہونے چاہئیں۔ صورت مذکورہ میں پچاس ہزار سے زائد جوروپئے آپ کو ملیں گے وہ حلال نہیں ہیں۔

  وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا (القرآن: سورۃ البقرۃ 275"(

ومنها : أن يكون الربح جزءًا شائعًا في الجملة، لا معينًا، فإن عينا عشرةً، أو مائةً، أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدةً؛ لأن العقد يقتضي تحقق الشركة في الربح والتعيين يقطع الشركة لجواز أن لايحصل من الربح إلا القدر المعين لأحدهما، فلايتحقق الشركة في الربح". (بدائع الصنائع 6/ 59، کتاب الشرکة، فصل في بيان شرائط جواز أنواع الشركة)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1924/43-1834

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر ڈالر سے سامان  خریدا گیا اور جس شخص کے لئے وہ سامان آپ نے خریدا وہ آپ کو  بدلے میں ڈالر سے ہی ادائیگی کرے تب تو کمی و  زیادتی جائز نہیں ہے، چاہے ڈالر کی ویلیو گھٹ جائے یا بڑھ جائے۔ البتہ  دوسری کرنسی دینے کی صورت میں ادائیگی کے وقت ڈالر کی جو قیمت بازار میں ہوگی ، وہی قیمت معتبر ہوگی۔ اس لئے ادائیگی کے دن کی قیمت کا اعتبار کرتے ہوئے آپ ان سے پاکستانی کرنسی لے سکتے ہیں۔

سئل) في رجل استقرض من آخر مبلغاً من الدراهم وتصرف بها ثم غلا سعرها فهل عليه رد مثلها؟  (الجواب) : نعم ولاينظر إلى غلاء الدراهم ورخصها كما صرح به في المنح في فصل القرض مستمداً من مجمع الفتاوى". (العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية (1/ 279) وفیه أیضاً (2/ 227):" الديون تقضى بأمثالها". 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1216/42-000

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  آپ  کے دوستوں نے آپ پر اعتماد کرکے آپ  سے گھی منگوایا  ہے، آپ اس معاملہ میں ایک وکیل کی حیثیت رکھتے ہیں ، اس لئے  بغیر بتائے کمیشن   اور نفع لینا جائز نہیں ہوگا۔ 

إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعاً. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. وفي الفاسدة أجر المثل... لكن إذا لم يشترط في الوكالة أجرة ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا، وليس له أن يطلب أجرة. أما إذا كان ممن يخدم بالأجرة يأخذ أجر المثل ولو لم تشترط له أجرة (درر الحکام في شرح مجلة الأحکام الکتاب الحادي عشر الوکالة، الباب الثالث، الفصل االأول، المادة:۱۴۶۷ ،ج:۳؍۵۷۳،ط:دارالجیل)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1927/44-2264

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ گوگل ایڈسینس کمپنی  آپ کی ویب سائٹ پر اشتہار دینے کے بدلہ میں آپ کو کچھ رقم دیتی ہے۔ اگر اشتہار کے مشمولات جائز ہیں تو ان سے ملنے والا معاوضہ بھی جائز ہوگا، اور اگر مشمولات ناجائز ہیں تو ان پر ملنے والی رقم بھی ناجائز ہوگی۔ تاہم یہ بات معلوم ہے کہ گوگل ایڈسینس کمپنی  آپ کی ویب سائٹ پر اشتہار دینے میں آزاد ہوتی ہے،  اس کے مشمولات کا حد جواز میں ہونا ضروری نہیں ہے، اس لئے بہت سے علماء نے گوگل ایدسینس سے پیسے کمانے کو ناجائز لکھا ہے، اور ظاہر ہے  اس جیسی کمپنیاں جائز و ناجائز مشمولات میں فرق نہیں کرسکتی ہیں۔ اس لئے اس سے احتراز کیاجائے۔

"وفي المنتقى: إبراهيم عن محمد - رحمه الله تعالى - في امرأة نائحة أو صاحب طبل أو مزمار اكتسب مالاً، قال: إن كان على شرط رده على أصحابه إن عرفهم، يريد بقوله: "على شرط" إن شرطوا لها في أوله مالاً بإزاء النياحة أو بإزاء الغناء، وهذا؛ لأنه إذا كان الأخذ على الشرط كان المال بمقابلة المعصية، فكان الأخذ معصيةً، والسبيل في المعاصي ردها، وذلك هاهنا برد المأخوذ إن تمكن من رده بأن عرف صاحبه، وبالتصدق به إن لم يعرفه؛ ليصل إليه نفع ماله إن كان لايصل إليه عين ماله، أما إذا لم يكن الأخذ على شرط لم يكن الأخذ معصيةً، والدفع حصل من المالك برضاه فيكون له ويكون حلالاً له." (الفتاوى الهندية 5/ 349)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند