Frequently Asked Questions
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1640/43-1285
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ گاڑی والے سے فون پر معاملہ طے کرلینے کے بعد آڈتی کی کوشش اور محنت سے گاڑی مل گئی تو اس آڈتی کا اپنا معاوضہ لینا جائز ہے، اور یہ دلالی کے زمرے میں آئے گا۔ آڈتی شخص اگر خود اپنے طور پروہ کام کرا دیتا ہے اور کچھ بھی طے نہیں کرتا ہے تو اس کا یہ کام اس کی جانب سے تبرع شمار ہوگا اس پر معاوضہ طلب کرنے کاحق نہیں۔ تاہم اگر پولس کے ساتھ مل کر آڈتی نے کوئی پلاننگ کی ہو تو یہ درست نہیں ہے۔
عن الحکم وحماد عن إبراہیم وابن سیرین قالوا: لا بأس بأجر السمسار إذا اشتری یدا بید۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ، في أجر السمسار، موسسۃ علوم القرآن ۱۱/ ۳۳۹، رقم: ۲۲۵۰۰)وفي الدلال والسمسار یجب أجر المثل۔ وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمۃ عن أجرۃ السمسار، فقال: أرجو أنہ لا بأس بہ، … لکثرۃ التعامل۔ (شامي، کتاب الإجارۃ، مطلب في أجرۃ الدلال، کراچی ۶/ ۶۳، زکریا ۹/ ۸۷، تاتارخانیۃ، زکریا ۱۵/ ۱۳۷، رقم: ۲۲۴۶۲)
قال في الشامیۃ عن البزازیۃ: إجارۃ السمسار والمنادی والحمامي والصکاک وما لا یقدر فیہ الوقت ولا العمل تجوز لما کان للناس بہ حاجۃ، ویطیب الأجر المأخوذ لو قدر أجر المثل۔ (شامي، کاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، زکریا ۹/ ۶۴، کراچی ۶/ ۴۷، بزازیۃ، زکریا جدید ۲/ ۲۳، وعلی ہامش الہندیۃ ۵/ ۴۰) وأما الدلال: فإن باع العین بنفسہ بإذن ربہا (تحتہ في الشامیۃ) فتجب الدلالۃ علی البائع أو المشتري أو علیہما بحسب العرف۔ (شامي، کتاب البیوع، قبیل مطلب في حبس المبیع لقبض الثمن … زکریا ۷/ ۹۳، کراچی ۴/ ۵۶۰، تنقیح الفتاوی الحامدیۃ ۱/ ۲۴۷)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 38 / 1200
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ زمین کا کرایہ متعین کرکے کرایہ لینا درست ہے، لیکن فی لیٹر پر اتنا لیں گے یہ درست نہیں ہے۔ کرایہ داری کو پٹرول کے کاروبار کے ساتھ جوڑنا درست نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1935/43-1848
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اسکول انتظامیہ کی طرف سے جو گھنٹے پڑھانے کے لئے آپ کو دئے گئے، آپ ان کو پابندی سے پڑھاتے ہیں اور خالی گھنٹوں میں اسی طرح جب بچے نہ ہوں تو فارغ اوقات میں مطالعہ کرتے ہیں یا فون پر بات کرتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس کو خیانت میں شمار نہیں کیاجائے گا۔ اسکول کی جانب سے مقررکردہ امور میں کوتاہی نہ ہونی چاہئے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1562/43-1114
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔مالک نے تو اس قطعہ اراضی کو پارک کے لئے مختص کیا تھااس کو پارک کے لئے ہی استعمال ہونا چاہئے، اب اگر وہاں کے رہائش پذیر افراد آپسی مشورہ سے پارک کی زمین پر مندر بنالیں تو اس میں مالک زمین اور پلاٹنگ کرنے والے گناہ گار نہیں ہوں گے۔ لیکن ابتداء سے کالونی کاٹتے وقت اس طرح کی صراحت کرنا تاکہ متعلقہ افراد زمین زیادہ خریدیں یہ درست نہیں ہے۔ یہ ایک طرح کا دھوکہ ہے، اور حدیث میں ہے: من غشنا فلیس منا(جو دھوکہ دے وہ ہم مسلمانون میں سے نہیں)
"فقد صرح في السیر بأنه لو ظهر علی أرضهم وجعلهم ذمةً لایمنعون من إحداث کنیسةٍ؛ لأن المنع مختص بأمصار المسلمین التي تقام فیها الجمع والحدود، فلو صارت مصراً للمسلمین منعوا من الإحداث(شامی 4/203)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 978/41-138
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شریعت اسلامیہ نے علم طب سیکھنے سکھانے کو نہ صرف مباح کہا ہے بلکہ مصالح عظیمہ و منافع یعنی صحت کی حفاظت اورامراض کے ضررسے بدن کو بچانے کی بنا پر فرض کفایہ قرار دیاہے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ مسلم معاشرے کو خاتون معالج اور لیڈی ڈاکٹر کی اشد ضرورت ہے جو کہ مسلم خواتین کا چیک اپ کریں، ان کا علاج و معالجہ کریں۔ مسلمانوں کو اپنی بیوی بیٹی اور بہن کا چیکپ کروانے کی ضرورت ہوتی ہے اور اپنی کوئی لیڈی مسلم ڈاکٹر میسر نہیں ہوتی صرف مرد ڈاکٹر ملتے ہیں اس لئے مسلمان لڑکیوں کا اس شعبے سے وابستہ ہونا شریعت کے ایک بڑے ہدف کو پورا کرنا ہے۔
آپ ولادت، آپریشن دونوں میں سے کسی کو بھی اختیار کر سکتی ہیں اگر آپ گائنالوجسٹ بن رہی ہیں تو یاد رکھیے کہ اسقاط حمل کی نہ مطلقا اجازت ہے اور نہ مطلقا ممانعت ہے۔ بلکہ اس میں تفصیل یہ ہے کہ اگر حمل چار ماہ سے کم کا ہے اور اس بچہ کی پیدائش سے ماں کی جان کو یقینی یا غالب گمان کے مطابق خطرہ ہے یا ماں کی صحت حمل کا تحمل نہیں کر سکتی تو اسقاط حمل کی گنجائش ہے، اگر کثرت اولاد کی وجہ سے معاشی خوف ہو تو اسقاط حمل ناجائز ہے اگرچہ حمل چار ماہ سے کم مدت کا ہو اور اگر حمل چار ماہ کا ہوجائے تو اسے ضائع کرنا کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہے بلکہ گناہ کبیرہ ہے ؛ اسقاط کرانے والی اور کرنے والی دونوں گناہ گار ہیں۔ حضورﷺ نے تخلیق کو بیان فرمایا: ان احدکم یجمع فی بطن امہ اربعین یوما ثم علقۃ مثل ذلک ثم یکون مضغۃ مثل ذلک ثم یبعث اللہ ملکا فیومر باربع برزقہ واجلہ وشقی او سعید (بخاری شریف)۔
چار ماہ سے قبل مجبور ی کی حالت میں اسقاط کراسکتی ہے۔ ھل یباح الاسقاط بعد الحبل یباح مالم یتخلق شیئ منہ ثم فی غیر موضع ولایکون ذلک الا بعد مائۃ وعشرین یوما انھم ارادوا بالتخلیق نفخ الروح (کذا فی الشامی و فتح القدیر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 2567/45-3909
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فاریکس ٹریڈنگ یا اس طرح کے کسی بھی فکسڈ دپازٹ اسکیم یا سودی کاروبار میں پیسہ لگاکر نفع کمانا حرام ہے، اور اگر کسی نے نادانی میں کسی ایسی کمپنی میں پیسے لگادئے تو نفع کو اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے بلکہ غریبوں پر بلانیت ثواب صدقہ کرنا واجب ہے، ۔ اچھے ارادہ اور نیک نیتی کی بناء پر کوئی ناجائز کام جائز نہیں ہوجائے گا۔ اچھے مقاصد سامنے رکھ کر بھی سودی کاروبار میں ملوث ہونا جائز نہیں ہے، گوکہ بظاہر اس کے ہزاروں فائدے ہوں۔ اس لئے حلال ذرائع پر ہی اکتفاء کیاجائے کہ اسی میں برکت ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَo فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَo ) القرآن الکریم: (البقرۃ، الایة: 278- 279(
عن جابرؓ قال: لعن رسول اللّٰہ ﷺ اٰکل الربا وموکلہ وکاتبہ وشاہدیہ ، وقال: ہم سواء. ) صحیح مسلم: (227/2(
والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه ) الدر المختار مع رد المحتار: (99/5، ط: دار الفکر(
یجب علیہ أن یردہ إن وجد المالک وإلا ففي جمیع الصور یجب علیہ أن یتصدق بمثل ملک الأموال علی الفقراء۔ ) بذل المجہود: (359/1، ط: مرکز الشیخ أبي الحسن الندوي(
"إن آيات الربا التي في آخر سورة البقرة مبينة لأحكامه وذامة لآكليه، فإن قلت: ليس في الحديث شيء يدل على كاتب الربا وشاهده؟ قلت: لما كانا معاونين على الأكل صارا كأنهما قائلان أيضا: إنما البيع مثل الربا، أو كانا راضيين بفعله، والرضى بالحرام حرام" ) عمدة القاري شرح صحيح البخاري (11 / 200(
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1734/43-1424
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہر وہ چیز جو تاجروں کے عرف میں نقص ثمن کا باعث ہو وہ عیب ہے، اس لئےآج کل کے عرف میں استعمال شدہ ہونا بھی ایک عیب ہے اس لئے اس کی وجہ سے ثمن میں کمی کرنا بالکل جائز ہے اور مذکورہ معاملہ درست ہے۔
كذا إذا شرط الأقل لما بيناه إلا أن يحدث في المبيع عيب فحينئذ جازت الإقالة بالأقل؛ لأن الحط يجعل بإزاء ما فات بالعيب، وعندهما في شرط الزيادة يكون بيعا؛ لأن الأصل هو البيع عند أبي يوسف رحمه الله وعند محمد رحمه الله جعله بيعا ممكن فإذا زاد كان قاصدا بهذا ابتداء البيع، وكذا في شرط الأقل عند أبي يوسف رحمه الله؛ لأنه هو الأصل عنده، وعند محمد رحمه الله هو فسخ بالثمن الأول لا سكوت عن بعض الثمن الأول، ولو سكت عن الكل وأقال يكون فسخا فهذا أولى، بخلاف ما إذا زاد، وإذا دخله عيب فهو فسخ بالأقل لما بيناه. (الھدایۃ باب الاقالۃ 3/55)
قال: "وكل ما أوجب نقصان الثمن في عادة التجار فهو عيب"؛ لأن التضرر بنقصان المالية، وذلك بانتقاص القيمة والمرجع في معرفته عرف أهله. (الھدایۃ باب خیارالعیب 3/37)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1937/43-1846
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس ریسٹورینٹ کی غالب آمدنی حلال ہو تو اس میں ایسی ملازمت کرنا جس میں براہ راست حرام کام میں ملوث نہ ہونا پڑتاہو، جائز ہے۔ اس لئے آپ کی ملازمت میں چونکہ ایسی کوئی خرابی نہیں ہے جس میں براہ راست بار میں تعاون ہو، اس لئے آپ کی ملازمت جائز ہے اور کمائی حلال ہے، تاہم اس میں ایک گونہ شبہہ ہے، اس لئے فی الحال یہ ملازمت اختیار کرلیں اور بعد میں جب کوئی متبادل ملازمت میسر ہوجائے تو اس کو چھوڑ دیں ۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا عَاصِمٍ، عَنْ شَبِيبِ بْنِ بِشْرٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْخَمْرِ عَشْرَةً عَاصِرَهَا، وَمُعْتَصِرَهَا، وَشَارِبَهَا، وَحَامِلَهَا، وَالْمَحْمُولَةُ إِلَيْهِ، وَسَاقِيَهَا، وَبَائِعَهَا، وَآكِلَ ثَمَنِهَا، وَالْمُشْتَرِي لَهَا، وَالْمُشْتَرَاةُ لَهُ (سنن الترمذی: (رقم الحدیث: 1295)
أہدی إلیہ أو أضافہ وغالب مالہ حرام لا یقبل ولا یأکل ما لم یخبرہ أن ذٰلک المال أصلہ حلال ورثہ أو استقرضہ، وإن کان غالب مالہ حلالاً لا بأس بقبول ہدیتہ والأکل منہا۔ (الفتاوی الھندیۃ: (کتاب الکراہیۃ، 343/5، ط: زکریا)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1928/44-1984
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال میں مذکور صورت میں جس پراڈکٹ کا لنک ویب سائٹ مالک نے لگایا ہے، اگر وہ پراڈکٹ جائز ہے اور کمیشن متعین رقم یا پراڈکٹ کی قیمت کے متعین فیصد کے بقدر طے شدہ ہے تو یہ کام کرنا اور اس کی اجرت لینا جائز ہے۔چونکہ اس میں لنک تشکیل دینے والے کی حیثیت اجیر کی ہے اور اجیر کا کام اس میں یہ ہے کہ وہ ویب سائٹس پر بیچے جانے والی چیزوں کا لنک تشکیل دیتا ہے اور لوگوں کو اس چیز کی خریداری کی طرف رغبت دلاکر مخصوص ویب سائٹس تک لے کر جاتا ہے، لہٰذا اس صورت میں لنک تشکیل دینے والے کو جو کمیشن ملے گا وہ سامان کی لنک سوشل میڈیا پر شیئر کرنے اور اس کے بکوانے کے سلسلے میں جو اس نے کوشش اور محنت کی ہے اس کا حق المحنت ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ جتنا کمیشن ملنا ہو، وہ پہلے سے طے ہو۔ اس میں کسی قسم کی جہالت نہ ہو۔
’’إجارۃ السمسار والمنادی والحمامی والصکاک وما لا یقدر فیہ الوقت ولا العمل تجوز لما کان للناس بہ حاجۃ ویطیب الأجر المأخوذ لو قدر أجر المثل‘‘ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’ ‘‘: ج ۶، ص: ۴۷، ط: دار الفکر)
’’وأما الدلال فإن باع العین بنفسہ بإذن ربہا فأجرتہ علی البائع وإن سعی بینہما وباع المالک بنفسہ یعتبر العرف وتمامہ في شرح الوہبانیۃ۔
(قولہ: فأجرتہ علی البائع) ولیس لہ أخذ شيء من المشتری؛ لأنہ ہو العاقد حقیقۃ شرح الوہبانیۃ وظاہرہ أنہ لا یعتبر العرف ہنا؛ لأنہ لا وجہ لہ۔ (قولہ: یعتبر العرف) فتجب الدلالۃ علی البائع أو المشتری أو علیہما بحسب العرف جامع الفصولین‘‘ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار: ج ۴، ص: ۵۶۰)
’’إذا باع الدلال مالا بإذن صاحبہ تؤخذ أجرۃ الدلالۃ من البائع ولا یعود البائع بشیء من ذلک علی المشتری لأنہ العاقد حقیقۃ وظاہرہ أنہ لا یعتبر العرف ہنا لأنہ لا وجہ لہ أما إذا کان الدلال مشی بین البائع والمشتری ووفق بینہما ثم باع صاحب المال مالہ ینظر فإن کان مجری العرف والعادۃ أن تؤخذ أجرۃ الدلال جمیعہا من البائع أخذت منہ أو من المشتری أخذت منہ أو من الاثنین أخذت منہما أما إذ باع الدلال المال فضولا لا بأمر صاحبہ فالبیع المذکور موقوف ویصبح نافذا إذ أجاز صاحب المال ولیس للدلال أجرۃ فی ذلک لأنہ عمل من غیر أمر فیکون متبرعا‘‘ (درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام: ج ۱، ص: ۲۳۱) فقط
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1009
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔وہ پروگرام جن کے حقوق محفوظ ہیں یعنی کاپی رائٹ والے سوفٹ وئر، ان کوبلااجازت استعمال کرنا درست نہیں ہے۔ آپ اگر خود کو سافٹ ویر مالکان کی جگہ سمجھ کر سنجیدگی سے غور کریں تو بآسانی فیصلہ کر سکتے ہیں۔ لوگ 20 اور 25 ہزار کے کمپیوٹر خریدلیتے ہیں تو کیا 2، 3 ہزار کے سافٹ وئر نہیں خرید سکتے۔ سافٹ وئر بنانے والوں نے بڑی محنت ، وقت اور کافی پیسے خرچ کئے ہیں ان کی محنتوں کو ضائع نہ کیجئے۔ اگر لوگ لائسنس والے سافٹ وئر ہی کمپیوٹروں میں ڈالا کرتے تو مہنگائی کا شکوہ بھی نہ ہوتا۔ الغرض شرعی اعتبار سے ایسا کرنا اور کاپی رائٹ والے سافٹ ویر بلااجازت استعمال کرنا درست نہیں ، اس سے احتراز کرنا لازم ہے۔ تاہم آپ کی روزی حلال ہے کیونکہ آپ اپنی محنت کی فیس لیتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند