تجارت و ملازمت
https://dud.edu.in/darulifta/?qa=2776/%D9%88%D8%A8%D8%B1%DA%A9%D8%A7%D8%AA%DB%81-%D9%81%D8%A7%D8%B1%D9%85%D8%B3%D8%B3%D9%B9-%D9%84%D8%A7%D8%A6%D8%B3%D9%86%D8%B3-%D9%86%D8%A7%D8%AC%D8%A7%D8%A6%D8%B2-%D8%B8%D8%A7%DB%81%D8%B1%DB%81%DB%8C%DA%BA-%D9%81%D8%A7%D8%B1%D9%85%D8%A7%D8%B3%D8%B3%D9%B9-%D9%84%D8%A7%D8%A6%D8%B3%D9%86%D8%B3-%D9%81%D8%A7%D8%B1%D9%85%DB%8C%D8%B3%DB%8C&show=2776#q2776

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1996/44-1953

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سرکار نے جو میڈیکل سرٹیفکیٹ آپ کے لئے جاری کیا ہے اس کو کسی دوسرے کو اجرت پر دینا قانونا جرم ہے، اور شرعا بھی   درست نہیں ہے۔ اگر میڈیکل اسٹور میں شرکت کرلی جائے تو ایک شریک کے پاس جو سرٹیفکیٹ ہے اس کو استعمال کیاجاسکتاہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 41/957

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مذکورہ کاروبار درست نہیں ہے۔البتہ  اگر پالنے والے کو ماہانہ یا سالانہ اجرت پر رکھاجائے تو جانور کو پالنے کے لئے  دینا درست ہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1802/43-1542

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آن لائن خریدوفروخت آج کل کافی تیزی سے بڑھ رہاہے، اور ہر کمپنی کی پالیسی بھی بہت واضح ہے، اس کے ٹرم اینڈ کنڈیشن کافی حد تک صاف اور دھوکہ سے محفوظ ہوتے ہیں۔ آن لائن خریدوفروخت میں مبیع کی تصویر وغیرہ سے ایک گونہ اندازہ بھی ہوجاتاہے اور پسند نہ آنے کی صورت میں واپسی کی بھی مکمل گنجائش رہتی ہے۔خیار شرط، خیار رؤیت، خیارعیب وغیرہ کی صراحت رہتی ہے،  اس  طرح  بائع ومشتری کے درمیان کسی نزاع کا اندیشہ بہت کم ہوجاتاہے۔ اس لئے آن لائن مارکیٹنگ میں جو کمپنی معتبر ہو اس سے سامان خریدنے اور بیچنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔  تاہم کرنسی کی خریدوفروخت  آن لائن  کرنے  سے گریز کرنا ضروری ہے۔

ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل) أي التساوي وزناً، (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق)، وهو شرط بقائه صحيحاً على الصحيح، (إن اتحد جنساً وإن) وصلية (اختلفا جودةً وصياغةً) ؛ لما مر في الربا (وإلا) بأن لم يتجانسا (شرط التقابض) لحرمة النساء، (فلو باع) النقدين (أحدهما بالآخر جزافاً أو بفضل وتقابضا فيه) أي المجلس (صح)". الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 257(

یع الفلوس بمثلہا، کالفلس الواحد بالفلس الواحد الآخر، وہٰذا إنما یجوز إذا تحقق القبض في أحد البدلین في المجلس قبل أن یفترق المتبایعان؛ فإن تفرقا ولم یقبض أحد شیئًا فسد العقد؛ لأن الفلوس لا تتعین، فصارت دَینًا علی کل أحد، والافتراق عن دَین بدَین لا یجوز۔ (تکملة فتح الملہم ۱/۵۸۷) ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 2214/44-2365

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔اگر کھیت میں آلو کی پیداوار ہوچکی ہے اور ا س کا علم بھی اس طورپر ہے کہ بعض جگہ سے نکال کر دیکھ لیا گیا ہے تو زمین میں رہتے ہوئے آلو کی بیع درست ہے ا س لیے کہ یہ بیع معدوم نہیں ہے بلکہ بیع کا حقیقی وجود ہے اور عاقدین کے درمیان کوئی نزاع کا باعث بھی نہیں ہے اور مبیع موجود ہونے کی صورت میں اس کو اندازے سے فروخت کرنا جائز ہے ۔

ومنه بيع ما أصله غائب كجزر وفجل، أو بعضه معدوم كورد وياسمين وورق فرصاد. وجوزه مالك لتعامل الناس، وبه أفتى بعض مشايخنا عملا بالاستحسان، هذا إذا نبت ولم يعلم وجوده، فإذا علم جا. (قوله بيع ما أصله غائب) أي ما ينبت في باطن الأرض، وهذا إذا كان لم ينبت أو نبت ولم يعلم وجوده وقت البيع وإلا جاز بيعه كما يأت-قال في الهندية إن كان المبيع في الأرض مما يكال أو يوزن بعد القلع كالثوم والجزر والبصل فقلع المشتري شيئا بإذن البائع أو قلع البائع، إن كان المقلوع مما يدخل تحت الكيل أو الوزن إذا رأى المقلوع ورضي به لزم البيع في الكل وتكون رؤية البعض كرؤية الكل إذا وجد الباقي(رد المحتار7/238۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 2099/44-2164

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  صورت مذکورہ میں زید نے عمر سے خالد کو بطور صدقہ کے ایک ہزار روپیہ دینے اور اس کے خود ضامن ہونے کا اقرار کیاہے، گویا زید یہ کہتاہے کہ میری طرف سے اتنا پیسہ صدقہ کردو، میں اس پیسہ کا ضامن ہوں، تو صورت مذکورہ میں زید پر ہزار روپئے لازم ہوں گے،۔

ولوقال ادفع الی فلان کل یوم درھما فاناضامن لک فاعطاہ حتی اجتمع علیہ مال کثیر فقال الاخر لم ارد ھذا کلہ یلزمہ جمیع ذلک (الفتاوی الھندیۃ 3/256) قال ادفع العشرۃ الیہ علی انی ضامن لک العشرۃ ھذہ یجوز (البحر الرائق 6/236)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 41/1010

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بیع ایک عقد ہے جسے پورا کرنے کا حکم  دیا گیا ہے۔ صورت مذکورہ میں اس کی نیت ہے کہ خرید کر کام کرکے واپس کردوں گایعنی عقد کے ساتھ ہی عقد کو ختم کرنے کی نیت کرنا ہے جو کہ اوفوا بالعقود کے خلاف ہے اس لئے مشتری کا یہ عمل کہ خرید کر واپس کردوں گا یہ دیانۃ درست نہیں ہے۔ نیز واپس کرنے میں ایک قسم کا دھوکہ  بھی شامل ہے اس لئے کہ واپس کرنے والا بظاہر یہ نہیں کہتا ہے  کہ میری ضرورت پوری ہوگئی  اس لئے واپس کررہاہوں، بلکہ وہ اپنے عمل سے یہ کہنا چاہتا ہے کہ یہ چیز میں لے کر گیاتھالیکن مجھے یہ سامان پسند نہیں ہے، اس لئے میں واپس کررہا ہوں اس طرح وہ نفع اٹھانے کو چھپاتاہے جبکہ اس نے نفع اٹھاکر سامان کو کسی نہ کسی درجہ میں عیب دار بنادیا ہے۔البتہ  اگر وہ بائع کو صاف بتادے کہ میں نے سامان خریدا تھا پھر کچھ استعمال کیا اور اب واپس کرنا چاہتاہوں اور بائع سامان واپس لے لے تو کوئی خرابی نہیں ہے، یہ اقالہ ہوگا جو کہ جائز ہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1809/43-1558

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اس طرح کی کمپنیوں میں محض ممبر بن کر پیسے کمانا جائز نہیں ہے۔ پہلے دو ممبر جو آپ نے بنائے ان پر جو کمیشن کمپنی دیتی ہے وہ جائز ہے، اس کے بعد ونگ سسٹم سے جو آپ کو ملتاہے جس میں آپ کی کوئی محنت نہیں ہے، وہ ناجائز ہے۔ آر سی ایم وغیرہ کمپنیاں انڈیا میں ایک زمانے سے رائج ہیں  جن کا طریقہ کار وہی ہے جو آپ نے بیان کیا ، اور اس پر علماء دیوبند نے ناجائز کا فتوی دیا ہے۔  تفصیل کے لئے مولانا اشتیاق احمد قاسمی استاذ دارالعلوم  حیدرآباد  کا یہ مضمون پڑھ سکتے ہیں:۔ لنک پر کلک کریں:

http://darululoom-deoband.com/urdu/articles/tmp/1421555891%2002-Networkmarketing_MDU_07-July-08.htm

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1437/42-858

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔مدرسہ میں اگرمدرس  کا وقت  فارغ ہو تو ان اوقات کو ذکر میں لگانے میں حرج نہیں ہے، البتہ طلبہ کی تعلیم کا نقصان کرکے اوراد و وظائف میں لگے رہنا درست نہیں ہے۔ مدرسہ میں  مدرس  تدریسی خدمت کے لئے ملازم  ہے،اس پر مدرسہ کی جانب سے  سونپے  گئے امور کی انجام دہی لازم ہے، اس میں کوتاہی گناہ ہے اور ذکر الہی کے منشا اور مقتضی کے خلاف ہے۔

[مطلب ليس للأجير الخاص أن يصلي النافلة]  (قوله وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا له أن يؤدي السنة أيضا. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلا وعليه الفتوى. (شامی، مطلب ليس للأجير الخاص أن يصلي النافلة 6/70)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 40/1046

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حلال کاروبار میں شرعا کسی کے لئے کوئی قباحت نہیں ۔   واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند