Frequently Asked Questions
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1083/41-255
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔ مدت اجارہ میں جو تنخواہ ملازم کو دی جارہی ہے اس سے زائد کے مطالبہ کا وہ شرعا مستحق نہیں ہے، البتہ اضافہ کی درخواست کرنے میں حرج بھی نہیں ہے۔ تاہم اجارہ کی مدت پورا ہونے کے بعد اگلے دورانیہ کے لئے تنخواہ میں اضافہ کا مطالبہ کرنا درست ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1537/43-1042
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ کا کام شرک میں براہ راست اعانت نہیں ہے، اس لئے آپ کی کمائی حلال ہے، لیکن یہ تقوی اور احتیاط کے خلاف ہے۔
أي لأجرة إنما تکون فی مقابلة العمل.(شامی، باب المہر / مطلب فیما أنفق علی معتدة الغیر 4/307 زکریا)ولو استأجر الذمی مسلمًا لیبنیٰ لہ بیعة أو کنیسةً جاز ویطیب لہ الأجر. (الفتاویٰ الہندیة،الإجارة / الباب الخامس عشر، الفصل الرابع 4/250 زکریا)ولو استأجر الذمی مسلمًا لیبنی لہ بیعةً،أو صومعةً، أو کنیسةً جاز، ویطیب لہ الأجر.(الفتاویٰ التاتارخانیة 15/131 زکریا)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 2619/45-4004
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح کے معاملہ میں جس میں مبیع بائع کی ملکیت میں ہی رہی ، مشتری کاکسی طرح حکما بھی اس پر قبضہ نہیں ہوا ، مشتری کا اس کو بائع سے بیچنا جائز نہیں ہے، ہاں اگر بھٹہ والے نےآپ کی اینٹ اس طور پر الگ کردی کہ اگر آپ لینا چاہیں تو لے لیں اور بیچنا چاہیں تو بیچ دیں ، پھرآپ نے مالک بھٹہ کو وہ اینٹیں بیچ دیں تو یہ بیع جائز ہے اور اس پر منافع لینا درست ہے۔ لیکن اگر مبیع پر مشتری کا کسی طرح کا قبضہ نہیں ہوا تو یہ بیع جائز نہیں ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 2019/44-1979
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سونے اور چاندی میں بیع سلم جائز نہیں ہے۔ بیع سلم میں ثمن پیشگی دی جاتی ہے اور مبیع ادھار ہوتی ہے ، سونے اور چاندی میں مبیع بننے کی صلاحیت نہیں ہے وہ ہر حال میں ثمن ہی ہوں گے۔ نیز سونے اور چاندی کو مبیع قرار دینے میں قلب موضوع لازم آتاہے۔
قال: "وهو جائز في المكيلات والموزونات" لقوله عليه الصلاة والسلام: "من أسلم منكم فليسلم في كيل معلوم ووزن معلوم إلى أجل معلوم" والمراد بالموزونات غير الدراهم والدنانير لأنهما أثمان، والمسلم فيه لا بد أن يكون مثمنا فلا يصح السلم فيهما ثم قيل يكون باطلا، وقيل ينعقد بيعا بثمن مؤجل تحصيلا لمقصود المتعاقدين بحسب الإمكان، والعبرة في العقود للمعاني والأول أصح لأن التصحيح إنما يجب في محل أوجبا العقد فيه ولا يمكن ذلك. (الھدایۃ، باب السلم 3/70)
خرج بقوله (مثمن) الدراهم والدنانير لأنها أثمان فلم يجز فيها السلم خلافا لمالك: (قوله فلم يجز فيها السلم) لكن إذا كان رأس المال دراهم أو دنانير أيضا كان العقد باطلا اتفاقا، وإن كان غيرها كثوب في عشرة دراهم لا يصح سلما اتفاقا، وهل ينعقد بيعا في الثوب بثمن مؤجل؟ قال أبو بكر الأعمش: ينعقد وعيسى بن أبان لا وهو الأصح نهر وهذا صححه في الهداية ورجح في الفتح الأول وأقره في البحر واعترضه في النهر بما هو ساقط جدا كما أوضحته فيما علقته على البحر. (شامی، باب السلم 5/210)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 2020/44-1973
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ انجینئر کو پانچ فی صد رقم غالبا کمیشن کے طور پر دی جاتی ہے، اگر یہ انجینئر سرکاری ملازم نہیں ہے، بلکہ محض ایک درمیانی واسطہ ہے تو کمیشن لینا جائز ہے بشرطیکہ پہلے سے معاملہ طے ہو۔ اور اگر انجینئر کو سرکار سے تنخواہ ملتی ہے تو پھر اس کا اپنی مفوضہ ذمہ داری کی انجام دہی پر کمیشن لینا رشوت ہوگا اور حرام ہوگا۔
ولايجوز أخذ المال ليفعل الواجب (شامی كتاب القضاء، مطلب في الكلام على الرشوة والهدية، ج: 5، صفحہ: 362، ط: سعید)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1625/43-1206
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر ایک بھائی وسعت والا ہے اور خود سے خوش دلی کے ساتھ سب کا بل ادا کردے تو اس میں کوئی گناہ کی بات نہیں ہے۔ لیکن دوسرے بھائیوں کا رویہ اس تعلق سے افسوس ناک ہے کہ وہ بجلی استعمال کررہے ہیں اور بل دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اس قدر بے غیرتی لائق ملامت ہے۔ اگرتمام بھائی بل میں شریک نہیں ہوتے ہیں تو آپ بجلی محکمہ میں درخواست دے کرموجودہ کنکشن کٹوادیں اور نیا کنکشن اپنے نام سے لے لیں یا کسی وکیل سے اس سلسلہ میں بات کریں جو بھی صورت آسان ہو اور بلاکسی نزاع کے حل ہوسکتی ہو اس کو اختیار کریں۔
عن أنس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:صل من قطعك، وأعط من حرمك، واعف عمن ظلمك (شعب الایمان، صلۃ الارحام 10/335) عن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ألا تظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه» . رواه البيهقي في شعب الإيمان والدارقطني في المجتبى (مشکاۃ المصابیح، الفصل الثانی 2/889)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 2022/44-1975
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آن لائن خریدوفروخت شرعی حدود میں رہ کر جائز ہے۔ پلیٹ فارم کوئی بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ البتہ جو ناجائز امور ہیں ان سے بچنا ہر حال میں لازم ہے۔ اور فروخت کرنے کی صورت کیا ہے اس کی وضاحت کرکے دوبارہ سوال کرلیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1080/41-252
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔ بکر کے واش روم میں لیکیج ہے تو بکر کو چاہئے کہ اپنا واش روم ٹھیک کرائے ۔ زید کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم اگر دونوں باہمی مشورہ اور صلح کے ساتھ کچھ طے کرلیں تو زیادہ بہتر ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 984/41-144
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ شخص اگر قرآن کریم حفظ پڑھانے کی صلاحیت رکھتا ہے، قرآن کریم اچھی طرح پڑھنا جانتا ہے تو حفظ پڑھانے کے لئے اس کا تقرر درست ہے۔ حفظ پڑھانے کے لئے خود حافظ ہونا ضروری نہیں ہے، ہاں اگر خود بھی حافظ ہو تو زیادہ بہتر ہے۔ باقی تین سال میں حفظ مکمل کرلینے کا وعدہ ہے تو محنت کرنی چاہئے، لیکن اگر حفظ مکمل نہ کرسکے تو بھی اس کا عہدہ پر بحال رہنا اور تنخواہ لینا جائز ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 2391/44-3625
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سودی قرض لینا جائز نہیں ہے، سودی لین دین پر بڑی سخت وعید آئی ہے، البتہ اس سے حلال کاروبار کرکے کمایا ہوا نفع حرام نہیں ہے، بلکہ حلال ہے، تاہم سودی قرض لینے کی وجہ سے جو گناہ ہوا اس سے توبہ استغفار کرنا ضروری ہے ۔
"(قوله: اكتسب حراما إلخ) توضيح المسألة ما في التتارخانية حيث قال: رجل اكتسب مالًا من حرام ثم اشترى فهذا على خمسة أوجه: أما إن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بها أو اشترى قبل الدفع بها ودفعها، أو اشترى قبل الدفع بها ودفع غيرها، أو اشترى مطلقا ودفع تلك الدراهم، أو اشترى بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم. قال أبو نصر: يطيب له ولا يجب عليه أن يتصدق إلا في الوجه الأول، وإليه ذهب الفقيه أبو الليث، لكن هذا خلاف ظاهر الرواية فإنه نص في الجامع الصغير: إذا غصب ألفا فاشترى بها جارية وباعها بألفين تصدق بالربح. وقال الكرخي: في الوجه الأول والثاني لا يطيب، وفي الثلاث الأخيرة يطيب، وقال أبو بكر: لا يطيب في الكل، لكن الفتوى الآن على قول الكرخي دفعا للحرج عن الناس اهـ. وفي الولوالجية: وقال بعضهم: لا يطيب في الوجوه كلها وهو المختار، ولكن الفتوى اليوم على قول الكرخي دفعا للحرج لكثرة الحرام اهـ وعلى هذا مشى المصنف في كتاب الغصب تبعا للدرر وغيرها." (فتاوی شامی، كتاب البيوع، باب المتفرقات من ابوابها، مطلب إذا اكتسب حراما ثم اشترى فهو على خمسة أوجه، ٥ / ٢٣٥، ط: دار الفكر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند