Frequently Asked Questions
تجارت و ملازمت
Ref. No. 2214/44-2365
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔اگر کھیت میں آلو کی پیداوار ہوچکی ہے اور ا س کا علم بھی اس طورپر ہے کہ بعض جگہ سے نکال کر دیکھ لیا گیا ہے تو زمین میں رہتے ہوئے آلو کی بیع درست ہے ا س لیے کہ یہ بیع معدوم نہیں ہے بلکہ بیع کا حقیقی وجود ہے اور عاقدین کے درمیان کوئی نزاع کا باعث بھی نہیں ہے اور مبیع موجود ہونے کی صورت میں اس کو اندازے سے فروخت کرنا جائز ہے ۔
ومنه بيع ما أصله غائب كجزر وفجل، أو بعضه معدوم كورد وياسمين وورق فرصاد. وجوزه مالك لتعامل الناس، وبه أفتى بعض مشايخنا عملا بالاستحسان، هذا إذا نبت ولم يعلم وجوده، فإذا علم جا. (قوله بيع ما أصله غائب) أي ما ينبت في باطن الأرض، وهذا إذا كان لم ينبت أو نبت ولم يعلم وجوده وقت البيع وإلا جاز بيعه كما يأت-قال في الهندية إن كان المبيع في الأرض مما يكال أو يوزن بعد القلع كالثوم والجزر والبصل فقلع المشتري شيئا بإذن البائع أو قلع البائع، إن كان المقلوع مما يدخل تحت الكيل أو الوزن إذا رأى المقلوع ورضي به لزم البيع في الكل وتكون رؤية البعض كرؤية الكل إذا وجد الباقي(رد المحتار7/238۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 2099/44-2164
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں زید نے عمر سے خالد کو بطور صدقہ کے ایک ہزار روپیہ دینے اور اس کے خود ضامن ہونے کا اقرار کیاہے، گویا زید یہ کہتاہے کہ میری طرف سے اتنا پیسہ صدقہ کردو، میں اس پیسہ کا ضامن ہوں، تو صورت مذکورہ میں زید پر ہزار روپئے لازم ہوں گے،۔
ولوقال ادفع الی فلان کل یوم درھما فاناضامن لک فاعطاہ حتی اجتمع علیہ مال کثیر فقال الاخر لم ارد ھذا کلہ یلزمہ جمیع ذلک (الفتاوی الھندیۃ 3/256) قال ادفع العشرۃ الیہ علی انی ضامن لک العشرۃ ھذہ یجوز (البحر الرائق 6/236)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 41/1010
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بیع ایک عقد ہے جسے پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ صورت مذکورہ میں اس کی نیت ہے کہ خرید کر کام کرکے واپس کردوں گایعنی عقد کے ساتھ ہی عقد کو ختم کرنے کی نیت کرنا ہے جو کہ اوفوا بالعقود کے خلاف ہے اس لئے مشتری کا یہ عمل کہ خرید کر واپس کردوں گا یہ دیانۃ درست نہیں ہے۔ نیز واپس کرنے میں ایک قسم کا دھوکہ بھی شامل ہے اس لئے کہ واپس کرنے والا بظاہر یہ نہیں کہتا ہے کہ میری ضرورت پوری ہوگئی اس لئے واپس کررہاہوں، بلکہ وہ اپنے عمل سے یہ کہنا چاہتا ہے کہ یہ چیز میں لے کر گیاتھالیکن مجھے یہ سامان پسند نہیں ہے، اس لئے میں واپس کررہا ہوں اس طرح وہ نفع اٹھانے کو چھپاتاہے جبکہ اس نے نفع اٹھاکر سامان کو کسی نہ کسی درجہ میں عیب دار بنادیا ہے۔البتہ اگر وہ بائع کو صاف بتادے کہ میں نے سامان خریدا تھا پھر کچھ استعمال کیا اور اب واپس کرنا چاہتاہوں اور بائع سامان واپس لے لے تو کوئی خرابی نہیں ہے، یہ اقالہ ہوگا جو کہ جائز ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1809/43-1558
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح کی کمپنیوں میں محض ممبر بن کر پیسے کمانا جائز نہیں ہے۔ پہلے دو ممبر جو آپ نے بنائے ان پر جو کمیشن کمپنی دیتی ہے وہ جائز ہے، اس کے بعد ونگ سسٹم سے جو آپ کو ملتاہے جس میں آپ کی کوئی محنت نہیں ہے، وہ ناجائز ہے۔ آر سی ایم وغیرہ کمپنیاں انڈیا میں ایک زمانے سے رائج ہیں جن کا طریقہ کار وہی ہے جو آپ نے بیان کیا ، اور اس پر علماء دیوبند نے ناجائز کا فتوی دیا ہے۔ تفصیل کے لئے مولانا اشتیاق احمد قاسمی استاذ دارالعلوم حیدرآباد کا یہ مضمون پڑھ سکتے ہیں:۔ لنک پر کلک کریں:
http://darululoom-deoband.com/urdu/articles/tmp/1421555891%2002-Networkmarketing_MDU_07-July-08.htm
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1437/42-858
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔مدرسہ میں اگرمدرس کا وقت فارغ ہو تو ان اوقات کو ذکر میں لگانے میں حرج نہیں ہے، البتہ طلبہ کی تعلیم کا نقصان کرکے اوراد و وظائف میں لگے رہنا درست نہیں ہے۔ مدرسہ میں مدرس تدریسی خدمت کے لئے ملازم ہے،اس پر مدرسہ کی جانب سے سونپے گئے امور کی انجام دہی لازم ہے، اس میں کوتاہی گناہ ہے اور ذکر الہی کے منشا اور مقتضی کے خلاف ہے۔
[مطلب ليس للأجير الخاص أن يصلي النافلة] (قوله وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا له أن يؤدي السنة أيضا. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلا وعليه الفتوى. (شامی، مطلب ليس للأجير الخاص أن يصلي النافلة 6/70)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 40/1046
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حلال کاروبار میں شرعا کسی کے لئے کوئی قباحت نہیں ۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 2673/45-4146
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں تحریری باتیں اگر درست ہیں تو یہ آپ کےساتھیوں کی بددیانتی گناہ اور دھوکہ ہے جس پر بہت وعید آئی ہے۔ حدیث میں ہے: ’’من غشا فلیس منا والمکر والخداع في النار‘‘ (تعلیقات الحسان صحیح ابن حبان: حدیث: ٣٣٥٥۔
معاملہ پہلے سے چونکہ متعین نہیں تھا، لہٰذا آپ دوبارہ اپنے ساتھیوں سے رجوع کریں اور معاملہ از سر نو طے فرمالیں، کوئی بھی معاملہ مبہم نہیں کرنا چاہئے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 972/41-116
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس اجارہ میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ جتنی صدری فروخت ہوگی اسی قدر فائدہ متعین ہے، اور اس میں کسی قسم کے نزاع کا اندیشہ بھی نہیں ہے، اس لئے ایسا معاملہ کرنا جائز ہے۔ اللہ برکتیں نازل فرمائیں گے ان شاء اللہ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 2108/44-2165
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ملازمین کو ٹھیکیدار کی طرف سے کام سے پہلے کچھ فیصد جو رقم ملتی ہے وہ کس چیز کے عوض ہے؟ اجرت یا پیسہ کام کے عوض ہونا چاہئے، اس لئے بہتر یہ ہے کام سے پہلے جو پیسے دئے اس کو کسی کام کے عوض میں شمار کرلیاجائے، کیونکہ وہ رقم ٹھیکیدار کی نہیں بلکہ حکومت کی ہے، اس لئے ٹھیکیدار کی طرف سے اس کو ہدیہ قرار نہیں دیاجاسکتاہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1179/42-441
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر آپ اس سرکاری نوکری کے اہل ہیں اور اس نوکری کی وجہ سے کسی کا حق ضائع نہیں ہوتا ہے بلکہ اہلیت کی وجہ سے وہ نوکری آپ کا حق ہے تو اسے حاصل کرنے کے لئے رشوت دے سکتے ہیں۔ رشوت لینا ہر صورت میں حرام ہے، لیکن بعض ناگزیر صورت میں دینے کی گنجائش ہے۔
الرشوۃ اربعۃ اقسام: الثالث اخذ المال لیسوی امرہ عندالسلطان دفعا للضرر او جلبا للنفع وھو حرام علی الاخذ (ردالمحتار 5/262)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند