تجارت و ملازمت

Ref. No. 1180/42-442

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  نائی کو مسجد کی دوکان کرایہ پر دینا شرعا جائز ہے۔ لیکن احتیاط کے خلاف ہے۔ (فتاوی محمودیہ 1/464، کتاب المساجد)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند


 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1455/42-912

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اپنے حصہ کی دوکان کا کرایہ آپ لے سکتے ہیں اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 2017/44-1977

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اجیر کو اجرت دینے میں وسعت ظرفی سے کام لینا چاہئے۔ جتنے دن اجیر نے کام کیا ہے اتنے دنوں کی اجرت دینی لازم ہے  یہ اس کا حق ہے۔ مثلاکسی نے 25 دن کام کئے، اور مہینہ پورا ہونے سے پہلے چھوڑنا چاہتاہے تو اس کے 25 دن کی اجرت نہ دینا ظلم ہے۔

والثاني وہوالأجیر الخاص ویسمی أجیر وحد وہو من یعمل لواحدٍ عملاً موقتاً بالتخصیص ویستحق الأجر بتسلیم نفسہ في المدۃ وإن لم یعمل کمن استؤجر شہراً للخدمۃ أو شہراً لرعي الغنم المسمی بأجر مسمی ۔۔۔۔ ولیس للخاص أن یعمل لغیرہ ، ولو عمل نقص من أجرتہ بقدر ما عمل ۔۔۔۔۔ وإن لم یعمل أي إذا تمکن من العمل فلو سلم نفسہ ولم یتمکن منہ لعذر کمطر ونحوہ لا أجر لہ". (رد المحتار: ۹/۸۲ ، کتاب الإجارۃ ، وکذا فی البحر الرائق : ۸ /۵۲ ، کتاب الإجارۃ)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1296/42-652

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مشترکہ پیسے سے خریدے گئے مکان کے تہہ خانے کو بنانے میں اسعد نے اپنی جیب سے دونوں شریکوں کی رضامندی سے پیسے لگائے ، اور اسعد ہی چونکہ مکان کی خریداری وکرایہ داری وغیرہ کے تمام معاملات کا نگراں تھا اس لئے دونوں شریکوں نے تہہ خانے  کےتمام معاملات کی ذمہ داری  اسعد کے حوالہ کردی۔ لہذا جب تہہ خانہ اپنی جیب سے بنانے اور اس کا کرایہ خود وصول کرنے اور ٹیکس وغیرہ  خودادا کرنے پر دونوں شرکاء رضامند ہیں تو  مذکورہ معاملہ درست ہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1083/41-255

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔  مدت اجارہ میں جو تنخواہ  ملازم کو دی جارہی ہے اس سے زائد کے مطالبہ  کا وہ شرعا  مستحق نہیں ہے، البتہ  اضافہ کی درخواست  کرنے میں حرج  بھی  نہیں ہے۔ تاہم  اجارہ کی مدت پورا ہونے کے بعد  اگلے دورانیہ کے لئے تنخواہ میں  اضافہ کا مطالبہ کرنا درست ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1537/43-1042

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ کا کام شرک میں براہ راست اعانت  نہیں ہے، اس لئے آپ کی کمائی حلال ہے، لیکن یہ تقوی  اور احتیاط کے خلاف ہے۔

أي لأجرة إنما تکون فی مقابلة العمل.(شامی، باب المہر / مطلب فیما أنفق علی معتدة الغیر 4/307 زکریا)ولو استأجر الذمی مسلمًا لیبنیٰ لہ بیعة أو کنیسةً جاز ویطیب لہ الأجر. (الفتاویٰ الہندیة،الإجارة / الباب الخامس عشر، الفصل الرابع 4/250 زکریا)ولو استأجر الذمی مسلمًا لیبنی لہ بیعةً،أو صومعةً، أو کنیسةً جاز، ویطیب لہ الأجر.(الفتاویٰ التاتارخانیة 15/131 زکریا)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 2619/45-4004

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اس طرح کے معاملہ میں جس میں مبیع بائع کی ملکیت میں ہی رہی ، مشتری کاکسی طرح حکما بھی اس پر قبضہ نہیں ہوا ،   مشتری کا اس کو بائع سے بیچنا جائز نہیں ہے، ہاں اگر بھٹہ والے نےآپ کی اینٹ  اس طور پر الگ کردی  کہ اگر آپ لینا چاہیں تو لے لیں اور بیچنا چاہیں تو بیچ دیں ، پھرآپ نے مالک بھٹہ کو وہ اینٹیں بیچ دیں تو یہ بیع جائز  ہے اور اس پر منافع لینا درست  ہے۔  لیکن اگر مبیع  پر  مشتری کا کسی طرح کا قبضہ نہیں ہوا تو یہ بیع جائز نہیں ہوگی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 2019/44-1979

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سونے اور  چاندی  میں بیع سلم جائز نہیں ہے۔ بیع سلم میں ثمن پیشگی دی جاتی ہے اور مبیع ادھار ہوتی ہے ، سونے اور چاندی میں مبیع بننے کی صلاحیت نہیں ہے وہ ہر حال میں ثمن ہی ہوں گے۔ نیز سونے اور چاندی کو مبیع قرار دینے میں قلب موضوع لازم آتاہے۔

قال: "وهو جائز في المكيلات والموزونات" لقوله عليه الصلاة والسلام: "من أسلم منكم فليسلم في كيل معلوم ووزن معلوم إلى أجل معلوم" والمراد بالموزونات غير الدراهم والدنانير لأنهما أثمان، والمسلم فيه لا بد أن يكون مثمنا فلا يصح السلم فيهما ثم قيل يكون باطلا، وقيل ينعقد بيعا بثمن مؤجل تحصيلا لمقصود المتعاقدين بحسب الإمكان، والعبرة في العقود للمعاني والأول أصح لأن التصحيح إنما يجب في محل أوجبا العقد فيه ولا يمكن ذلك.  (الھدایۃ، باب السلم 3/70)

خرج بقوله (مثمن) الدراهم والدنانير لأنها أثمان فلم يجز فيها السلم خلافا لمالك: (قوله فلم يجز فيها السلم) لكن إذا كان رأس المال دراهم أو دنانير أيضا كان العقد باطلا اتفاقا، وإن كان غيرها كثوب في عشرة دراهم لا يصح سلما اتفاقا، وهل ينعقد بيعا في الثوب بثمن مؤجل؟ قال أبو بكر الأعمش: ينعقد وعيسى بن أبان لا وهو الأصح نهر وهذا صححه في الهداية ورجح في الفتح الأول وأقره في البحر واعترضه في النهر بما هو ساقط جدا كما أوضحته فيما علقته على البحر.  (شامی، باب السلم 5/210)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 2020/44-1973

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  انجینئر کو پانچ فی صد رقم غالبا  کمیشن کے طور پر دی جاتی ہے،  اگر یہ انجینئر سرکاری ملازم نہیں ہے، بلکہ محض ایک درمیانی واسطہ ہے تو کمیشن لینا جائز ہے بشرطیکہ  پہلے سے معاملہ طے ہو۔  اور اگر انجینئر کو سرکار سے تنخواہ ملتی ہے تو پھر اس کا اپنی مفوضہ ذمہ داری کی انجام دہی پر  کمیشن لینا رشوت ہوگا اور حرام ہوگا۔

ولايجوز أخذ المال ليفعل الواجب (شامی كتاب القضاء، مطلب في الكلام على الرشوة والهدية، ج: 5، صفحہ: 362، ط: سعید)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1625/43-1206

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر ایک بھائی وسعت والا ہے اور خود سے خوش دلی کے ساتھ سب کا بل ادا کردے تو اس میں کوئی گناہ کی بات نہیں ہے۔ لیکن دوسرے بھائیوں کا رویہ اس تعلق سے افسوس ناک ہے کہ وہ بجلی استعمال کررہے ہیں اور بل دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اس قدر بے غیرتی لائق ملامت ہے۔ اگرتمام بھائی بل میں شریک نہیں ہوتے ہیں تو آپ  بجلی محکمہ میں درخواست دے کرموجودہ  کنکشن کٹوادیں اور نیا کنکشن اپنے نام سے لے لیں یا کسی وکیل سے اس سلسلہ میں بات کریں جو بھی صورت آسان ہو اور بلاکسی نزاع کے حل ہوسکتی ہو اس کو اختیار کریں۔

عن أنس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:صل من قطعك، وأعط من حرمك، واعف عمن ظلمك (شعب الایمان، صلۃ الارحام 10/335) عن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ألا تظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه» . رواه البيهقي في شعب الإيمان والدارقطني في المجتبى (مشکاۃ المصابیح، الفصل الثانی 2/889)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند