تجارت و ملازمت

Ref. No. 1437/42-858

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔مدرسہ میں اگرمدرس  کا وقت  فارغ ہو تو ان اوقات کو ذکر میں لگانے میں حرج نہیں ہے، البتہ طلبہ کی تعلیم کا نقصان کرکے اوراد و وظائف میں لگے رہنا درست نہیں ہے۔ مدرسہ میں  مدرس  تدریسی خدمت کے لئے ملازم  ہے،اس پر مدرسہ کی جانب سے  سونپے  گئے امور کی انجام دہی لازم ہے، اس میں کوتاہی گناہ ہے اور ذکر الہی کے منشا اور مقتضی کے خلاف ہے۔

[مطلب ليس للأجير الخاص أن يصلي النافلة]  (قوله وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا له أن يؤدي السنة أيضا. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلا وعليه الفتوى. (شامی، مطلب ليس للأجير الخاص أن يصلي النافلة 6/70)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 40/1046

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حلال کاروبار میں شرعا کسی کے لئے کوئی قباحت نہیں ۔   واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 2673/45-4146

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں تحریری باتیں اگر درست ہیں تو یہ آپ کےساتھیوں کی بددیانتی گناہ اور دھوکہ ہے جس پر بہت وعید آئی ہے۔ حدیث میں ہے: ’’من غشا فلیس منا والمکر والخداع في النار‘‘ (تعلیقات الحسان صحیح ابن حبان: حدیث: ٣٣٥٥۔

معاملہ پہلے سے چونکہ متعین نہیں تھا، لہٰذا آپ دوبارہ اپنے ساتھیوں سے رجوع کریں اور معاملہ از سر نو طے فرمالیں، کوئی بھی معاملہ مبہم نہیں کرنا چاہئے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 972/41-116

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اس اجارہ  میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ جتنی صدری فروخت ہوگی اسی قدر فائدہ متعین ہے، اور اس میں کسی قسم کے نزاع کا اندیشہ بھی نہیں ہے، اس لئے ایسا معاملہ کرنا جائز ہے۔ اللہ برکتیں نازل  فرمائیں  گے ان شاء اللہ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 2108/44-2165

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ملازمین کو ٹھیکیدار کی طرف سے کام سے پہلے  کچھ فیصد جو رقم ملتی ہے وہ کس چیز کے عوض ہے؟ اجرت یا پیسہ کام کے عوض ہونا چاہئے، اس لئے بہتر یہ ہے کام سے پہلے جو پیسے دئے اس کو کسی کام کے عوض میں شمار کرلیاجائے، کیونکہ وہ رقم ٹھیکیدار کی نہیں  بلکہ حکومت کی ہے، اس لئے ٹھیکیدار کی طرف سے اس کو ہدیہ قرار نہیں دیاجاسکتاہے۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1179/42-441

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر آپ اس سرکاری  نوکری کے اہل ہیں اور اس نوکری کی وجہ سے کسی کا حق ضائع نہیں ہوتا ہے بلکہ اہلیت کی وجہ سے وہ نوکری آپ کا حق ہے تو اسے حاصل کرنے کے لئے رشوت دے سکتے ہیں۔ رشوت لینا ہر صورت میں حرام ہے، لیکن بعض ناگزیر  صورت میں دینے کی گنجائش ہے۔

الرشوۃ اربعۃ اقسام: الثالث اخذ المال لیسوی امرہ عندالسلطان دفعا للضرر او جلبا للنفع وھو حرام علی الاخذ (ردالمحتار 5/262)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1244 Alif

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                           

بسم اللہ الرحمن الرحیم-: زمین کرایہ پر دینے میں اگر مثلا ً دو کونٹل پیداوار کی شرط لگائی اور پیداوار دو کونٹل بھی نہیں ہوئی تو کیا ہوگا؟ اس لئے کرایہ طے کرنا چاہئے خواہ رقم کی شکل میں ہو یا چاول و گیہوں کی شکل میں ہو۔ واللہ اعلم

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 2164/44-2247

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مشتری سے  زمین خرید نے پر  کمیشن طے کرنا اور کمیشن لینا درست ہے، اسی طرح بائع سے بھی کمیشن طے کرکے لینے کی اجازت ہوتی ہے ،بشرطیکہ  کمیشن لینے والا  بائع یا مشتری کا وکیل نہ ہو،  البتہ جس زمین اور  پلاٹ میں وہ خود شریک ہے اس میں اپنے شرکاء سے کمیشن لینے کا حقدار نہیں ہے۔اس لئے شرکاء سے کمیشن کا مطالبہ جائز نہیں ہے۔  

قال ابن عابدین وأما الدلال فإن باع العین بنفسہ بإذن ربہا فأجرتہ علی البائع،وإن سعی بینہما وباع المالک بنفسہ یعتبر العرف، وتمامہ فی شرح الوہبانیة اھ وفی الرد: قولہ: فأجرتہ علی البائع: ولیس لہ أخذ شیء من المشتری لأنہ ہو العاقد حقیقة، شرح الوہبانیة، وظاہرہ أنہ لا یعتبر العرف ہنا لأنہ لا وجہ لہ، قولہ: یعتبر العرف: فتجب الدلالة علی البائع أو المشتری أو علیہما بحسب العرف جامع الفصولین اھ (رد المحتار علی الدر المختار، کتاب البیوع: ۹۳/۷، ط: زکریا دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1180/42-442

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  نائی کو مسجد کی دوکان کرایہ پر دینا شرعا جائز ہے۔ لیکن احتیاط کے خلاف ہے۔ (فتاوی محمودیہ 1/464، کتاب المساجد)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند


 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1455/42-912

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اپنے حصہ کی دوکان کا کرایہ آپ لے سکتے ہیں اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند