متفرقات

Ref. No. 2361/45-4129

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔     اللہ تعالیٰ کی ذات سے یہ چیزیں محال نہیں ہیں، دعا کے بارے میں حدیث میں آتا ہے کہ جب بندہ دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کی دعاء قبول کرتے ہیں ہاں قبولیت کے اثرات مختلف انداز میں ظاہر ہوتے ہیں کبھی تو اللہ تعالیٰ بعینہ وہی چیز عطا کرتے ہیں کبھی اس کے متبادل کے طور پر عطا کرتے ہیں اور کبھی اس کو ذخیرہ آخرت بنا دیتے ہیں، اس لیے دعا کا اہتمام کرنا چاہئے اور پوری امت کی مغفرت، نجات اور دنیاوی واخروی فلاح وکامیابی کی دعاء کرنی چاہئے نتیجہ کو اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور مصلحت پر موقوف رکھنا چاہئے ہم بندے ہیں ہمارا کام عبدیت اور اطاعت ہے نتیجہ ہمارا کام نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 2060/44-2054

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔قرآن کریم کی تلاوت کرتے وقت یا کسی سے تلاوت سنتے وقت معانی میں غور وفکر کرتے ہوئے رونا پسندیدہ عمل ہے۔ رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے  اور صحابہ کرام سے تلاوت قران کے وقت رونا ثابت ہے۔

 (( اقرأ عليَّ القرآن ،فقلت یا رسول اللہ  أ أقرَأُ علیک وعلیک أنزل ، قال : إنی أحب أن أسمعہ من غیری فقرات علیہ سورۃ النساء حتی إذا جئت إلی ہذہ الآیۃ:{ فَکَیْفَ إذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ أُمَۃٍ بِشَہِیْدٍ وَجِئْنَابِکَ عَلیٰ ہٰؤلا  ِٔشَہِیْدَاً   (النساء ۴۱)قال : حسبک الآن،فالتفت إلیہ فإذاعیناہ تذرفان ))۔

(رواہ البخاری (۴۵۸۲)کتاب التفسیر/ باب فکیف إذا جئنا من کلأمۃ بشہید… ومسلم(۸۰۰)کتاب صلاۃ المسافرین /باب فضل استماع القرآن)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر کوئی مسلمان قرآن کریم کی کسی ایک آیت کا بھی انکار کردے، تو وہ مرتد ہے، جس کی سزا شریعت اسلامیہ میں یہ ہے کہ اگر وہ اسی انکار پر رہے، تو اس کو لازماً قتل کردیا جائے، لیکن اس سزا کے نفاذ کے لئے اسلامی حکومت واقتدار شرط ہے، جو یہاں پر موجود نہیں؛ اس لئے یہ سزا یہاں پر نہیں دی جاتی، یہاں پر ضروری ہے کہ اس کو سمجھایا جائے اس کے شکوک وشبہات کو دور کیا جائے، اگر اس کے باوجود وہ نہ مانے، تو اس سے تعلقات ختم کردیئے جائیں، جذبات میں کوئی غیر شرعی یا غیر قانونی اقدام نہ کیا جائے۔(۱)

(۱) إذا أنکر آیۃ من القرآن أو استخف بالقرآن أو بالمسجد، أو بنحوہ مما یعظم فی الشرع، أو عاب شیئاً من القرآن کفر۔ (عبد الرحمن، مجمع الأنہر، في شرح الملتقی الأبحر، ’’کتاب السیر والجہاد: باب المرتد، ثم إن ألفاظ الکفر أنواع‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۷)

 فما یکون کفرا بالاتفاق یوجب إحباط العمل کما في المرتد۔ (أیضاً:، ’’الصبي العاقل إذا ارتد‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۱)

 من جحد القرآن أي کلہ أو سورۃ منہ أو آیۃ قلت: وکذا کلمۃ أو قرأۃ متواترۃ أو زعم أنہا لیست من کلام اللّٰہ تعالیٰ کفر۔ (أبو حنیفۃ -رحمہ اللّٰہ-، شرح الفقۃ الأکبر، ’’فصل: فیما یتعلق بالقرآن والصلاۃ‘‘: ص: ۲۷۹)

 

دار العلوم وقف دیوبند

 

(فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد اول ص 166)

 

متفرقات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قانون قدرت ہے کہ انبیاء کی جماعت سخت ترین امتحانوں میں بھی مبتلا کی جاتی ہے۔ پھر امتحان کی بھی اقسام ہیں، ہر بنی کو حق تعالیٰ اپنی حکمت اور اس کی استعداد کے موافق جس قسم کے امتحان میں چاہے مبتلا کرتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے۔ ’’عن مصعب بن سعد عن أبیہ قال: قلت یا رسول اللّٰہ: أي الناس أشد بلائً؟ قال: الأنبیاء ثم الأمثل فالأمثل‘‘۔(۱) اللہ تعالیٰ نے یعقوب علیہ السلام کے دل میں یوسف علیہ السلام کی مافوق العادت محبت ڈالدی، یوسف علیہ السلام کو دردناک طریقے سے ان سے جدا کیا گیا، مفسرین لکھتے ہیں: کہ یعقوب علیہ السلام نہ کسی مخلوق کے سامنے حرف شکایت زبان پر لاتے تھے، نہ کسی سے انتقام لیتے، نہ غصہ کرتے، نہ غم کی بات منہ سے نکلتی، انتہائی غم اور تکلیف کے باوجود ادائے فرض وحقوق میں کوئی خلا نہ پڑنے دیا۔ ان کا دل جتنا فراق یوسف میں روتا تھا، اس سے زیادہ خدا کے حضور میں گڑ گڑا تے تھے۔ اسی درد میں یہ کلمات زبان سے ادا ہوئے۔ {إِنَّمَآ أَشْکُوْا بَثِّيْ وَحُزْنِيْٓ إِلَی اللّٰہِ} (۲)، اس کی تفسیر میں موضح القرآن میں لکھا ہے۔ کیا تم مجھ کو صبر سکھاؤ گے؟ بے صبر وہ ہے جو مخلوق کے آگے خالق کے دیے ہوئے درد کی شکایت کرے۔ میں تو اسی سے کہتا ہوں جس نے درد دیا اور پھر فرمایا: {وَأَعْلَمُ مِنَ اللّٰہِ مَا لَاتَعْلَمُوْنَہ۸۶} (۳) اور جانتا ہوں اللہ کی طرف سے جو تم نہیں جانتے؛ لہٰذا یعقوب علیہ السلام کے ان الفاظ کو جو کہ قرآن پاک میں بیان کیے۔ اپنے مضمون کے استدلال میں ذکر کرنا، ظاہر کرتا ہے کہ آپ ترجمہ سے واقف نہیں، حدیث وتفسیر پر بھی آپ کی نظر نہیں۔ ایوب علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہر طرح کی آسائش وآرام دیا تھا اور وہ بڑے شکر گزار بندے تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو آزمائش میں ڈالا، تو جیسے نعمت میں شاکر تھے، بلاء ومصیبت میں بھی شکر گزار رہے۔ اور کسی سے شکوہ نہ کیا اللہ ہی سے ان الفاظ میں اظہار عاجزی کے ساتھ دعا کی {إِذْ نَادٰی رَبَّہٗٓ أَنِّيْ مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ ہجصلے ۸۳ }(۴) اس لئے آپ کا اس واقعہ کو بھی استدلال میں یا اپنی بات کی تقویت میں لانا آپ کی لاعلمی کا پتہ دیتا ہے۔ جب نوح علیہ السلام نے سیکڑوں سال قوم کو سمجھایا اور وہ راہ راست پر نہ آئی اور بالکل مایوس ہوگئے اور اللہ کی طرف سے وحی کے ذریعہ بتلادیا گیا کہ جو ایمان لاچکے ان کے سوا کوئی اور شخص تمہاری قوم میں سے ایمان نہیںلائے گا، تو کفر اور نافرمانوں کے مٹانے کے لئے اللہ سے التجا کرنی چاہئے تھی کہ قوم میں کفر نہ پھیلے، بلکہ مٹ جائے۔

قرآن پاک میں ہے۔ {وأُوْحِيَ إِلٰی نُوْحٍ أَنَّہٗ لَنْ یُّؤْمِنَ مِنْ قَوْمِکَ إِلَّا مَنْ قَدْ  أٰمَنَ فَلاَ  تَبْتَئِسْ بِمَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَہجصلے۳۶  } (۱)

ترجمہ: اور وحی بھیجی گئی نوح کے پاس کہ جو ایمان لاچکے ہیں (ان کے سوا) کوئی اور شخص تمہاری قوم میں سے ایمان نہیں لائے گا، سو جوکچھ یہ کر رہے ہیں اس پر غم مت کرو۔ {وَاصْنَعِ  الْفُلْکَ بِأَعْیُنِنَا}(۲) (اور ہمارے حکم سے) کشتی تیار کرلو {وَلَا تُخَاطِبْنِيْ فِي الَّذِیْنَ ظَلَمُوْاج إِنَّھُمْ مُّغْرَقُوْنَہ۳۷}(۳) اور مجھ سے کافروں کے بارے میں کوئی گفتگو مت کرنا، وہ سب غرق کیے جائیں گے، تو نوح علیہ السلام نے جو کچھ کیا اور کہا وہ حکم خداوندی کے تحت تھا اور سفارش اور قوم کے لئے دعا کرنے سے روک دیا گیا تھا، تو مذکورہ انبیاء علیہم السلام نے جو کچھ کہا اور کیا وہ سب رضائے الٰہی اور اس کے حکم کے تحت تھا، وہ صبر وتحمل کا پیکر اور دوسروں کے لئے عملی نمونہ تھے۔

آپ کی تحریر سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ آپ مذکورہ عالم کو انبیاء علیہم السلام پر فوقیت دے رہے ہیں۔ اگر آپ کے کلام اور تحریر میں تاویل کی گنجائش نہ ہوتی، تو جو احباب آپ کے کہہ رہے ہیں صحیح ہو جاتا۔

لیکن یہ ضرور کہا جائے گا۔ کہ آپ کا طرز تحریر غلط اور بالکل غلط ہے؛ بلکہ اس کو جرء ت جاہلانہ اور عامیانہ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ چاپلوسی پر مبنی ہے جوکہ شرعاً ممنوع ہے جس سے احتراز ضروری ہے۔(۴)

فقط: واللہ اعلم بالصواب

 دار العلوم وقف دیوبند

(فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد اول ص 169-171)

 

 

متفرقات

Ref. No. 38 / 1044

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: مفراح کے معنی "بہت خوش" (القاموس الوحید)، اور مریم کے معنی "پاکدامن" کے ہیں۔  مفراح مریم Mifrah Maryam  نام رکھنا درست ہے۔ اللہ تعالی اس کو نیک اور صالح بنائے اور ہر قسم کی خیر اس کے لئے مقدر فرمائے۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بشرط صحت سوال، اس سے ایمان سلب نہیں ہوا؛ البتہ اس طرح کے وساوس سے احتیاط ضروری ہے، وسوسہ کی طرف بالکل دھیان نہ دیں، ذہنی الجھنوں سے دور رہنے کے اسباب اختیار کریں۔(۱)

(۱) الخاطئ إذا أجری علی لسانہ کلمۃ الکفر خطأ بأن کان یرید أن یتکلّم بما لیس بکفر فجری علی لسانہ کلمۃ الکفر خطأ، لم یکن ذلک کفرا عند الکل۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۷)

وما کان خطأ من الألفاظ ولا یوجب الکفر، فقائلہ یقرّ علی حالہ، ولا یؤمر بتجدید النکاح ولکن یؤمر بالاستغفار والرّجوع عن ذلک۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار،  ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب جملۃ من لا یقتل إذا ارتد‘‘: ج ۶، ص: ۳۸۱)

(فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد اول ص 168)

دار العلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 1268/42-603

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  گھر میں ٹی وی رکھنے سے بہت سارے مفاسد کے دروازے کھل جاتے ہیں،  اور اسکرین پر چلنے والی چیزیں اپنے اختیار میں نہیں رہتی ہیں، جس کی وجہ سے اس کے برے اثرات خود اپنی ذات پر  اور بچوں پر بھی بہت جلد رونما ہونے لگتے ہیں۔ گناہ کا سبب بننے والی چیزوں سے بچنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا گناہ سے۔ اس کو ذہن میں رکھیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بغیر کسی دلیل اور ثبوت کے کسی صاحب ایمان پر کفر کا حکم لگانا گناہ کبیرہ اور دین وایمان کے فساد کا باعث ہے، لہٰذا ایسے شخص کو چاہئے کہ علی الاعلان اپنی اس غلطی کا اقرار کرے اور توبہ و استغفار کرے اور آئندہ ایسے الفاظ کا استعمال نہ کرے۔ بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا تو ان دونوں میں سے ایک پر کفر لوٹ گیا یعنی یا تو کہنے والا خود کافر ہوگیا یا وہ شخص جس کو اس نے کافر کہا ’’عن أبي ہریرۃ -رضي اللّٰہ عنہ- أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال: إذا قال الرجل لأخیہ: یاکافر فقد باء بہ أحدہما۔(۱) وما کان خطأ من الألفاظ ولا یوجب الکفر فقائلہ مومن علی حالہ ولا یؤمر بتجدید النکاح ولکن یؤمر بالاستغفار والرجوع عن ذلک(۲)۔ وذہب جمہور المحققین إلی أن الإیمان ہو التصدیق بالقلب، وإنما الإقرار شرط لإجراء الأحکام في الدنیا‘‘۔(۳)

دار العلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 38 / 1038

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: قرآن کریم میں کم و بیش پانچ سو آیات احکام سے متعلق ہیں۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 39/1145

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مردہ پیر کے مرید ہونے کے کوئی معنی نہیں۔ بالغ اولاد پر والدین کو زبردستی کا یہ حق نہیں ہے۔ اگر مجلس عام ہے تو اس میں شرکت کی گنجائش ہے اور اگر خاص ہے ان کے مریدین اور مجلس کے شرکاء کے لئے تو پھر اس میں عام لوگوں کی شرکت جائز نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند