متفرقات

Ref. No. 1987/44-1934

بسم اللہ الرحمن الرحیم: اگر امام صاحب صحیح ہیں اور ان کا کوئی عمل خلاف شریعت نہیں ہے تو دوچار لوگوں کی ناراضگی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اکثر نمازی  اور متولی راضی ہیں تو امام صاحب  کو مسجد سے نکالنے کا مطالبہ کرنے والے فسادی لوگ ہیں، ان کو فساد سے روکا جائے۔  مسجد میں فساد پھیلانا گناہ عظیم ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 938

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: اگر عورت نکاح پڑھائے تو نکاح درست و منعقد ہوگا، تاہم مردوں کے ہوتے  ہوئے  یہ کام انہیں کے سپرد رہے تو بہتر ہے، اور یہی توارث امت ہے، دیگر امور میں اصطلاحی طور پر قاضی بننا عائلی مسائل میں اس کی گنجائش ہے، اہم امور حدود و قصاص اور دیت وغیرہ میں درست نہیں ہے، شامی کے باب التحکیم میں اس کی پوری تفصیل  کامطالعہ کیا جاسکتا ہے۔   واللہ تعالی اعلم

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 2495/45-3803

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اچھے اور دینی اشعار سننے کی گنجائش ہے، لیکن جو شاعر ایسے مخلوط اشعار کہتاہو، اس کے اشعار سننے سے گریز کرنا چاہئے، بار بار غلط یا کفریہ اشعار کان پر پڑیں یہ مناسب نہیں ہے۔ اپنے ایمان کے ساتھ اپنے دل و دماغ کی حفاظت بھی ضروری ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 2320/45-4128

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس سلسلے میں آپ کسی کتب خانہ سے رابطہ کرلیں یا دیوبند کے کسی مکتبہ کی فہرست کتب دیکھ لیں کتابوں کے نام مع مصنف کے مل جائیں گے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:فرشتوں کی توہین کفر ہے اور سوال میں مذکور جملہ فرشتوں کی اہانت پر مشتمل ہے؛ اس لئے اس جملہ سے مذکورہ شخص دائرۂ اسلام سے خارج ہوگیا، اس پر قبول اسلام اور توبہ لازم ہے۔(۱)

(۱) من ہزل بلفظ کفر إرتد وإن لم یعتقد للاستخفاف فہو ککفر العناد۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد‘‘: ج ۶، ص: ۳۵۶)

رجل کفر بلسانہ طائعاً وقلبہ مطمئن بالإیمان یکون کافراً ولا یکون عند اللّٰہ مؤمناً،  کذا في فتاوی قاضي خان۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۳)

إن ما یکون کفرا اتفاقاً یبطل العمل والنکاح، وما فیہ خلاف یؤمر بالاستغفار والتوبۃ وتجدید النکاح وظاہرہ أنہ أمر احتیاطي۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: الإسلام یکون بالفعل کالصلوۃ بجماعۃ‘‘: ج ۶، ص: ۳۶۷)

دار العلوم وقف دیوبند

فتاوی دار العلوم وقف دیوبند جلد اول ص 165)

 

متفرقات

Ref. No. 2361/45-4129

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔     اللہ تعالیٰ کی ذات سے یہ چیزیں محال نہیں ہیں، دعا کے بارے میں حدیث میں آتا ہے کہ جب بندہ دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کی دعاء قبول کرتے ہیں ہاں قبولیت کے اثرات مختلف انداز میں ظاہر ہوتے ہیں کبھی تو اللہ تعالیٰ بعینہ وہی چیز عطا کرتے ہیں کبھی اس کے متبادل کے طور پر عطا کرتے ہیں اور کبھی اس کو ذخیرہ آخرت بنا دیتے ہیں، اس لیے دعا کا اہتمام کرنا چاہئے اور پوری امت کی مغفرت، نجات اور دنیاوی واخروی فلاح وکامیابی کی دعاء کرنی چاہئے نتیجہ کو اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور مصلحت پر موقوف رکھنا چاہئے ہم بندے ہیں ہمارا کام عبدیت اور اطاعت ہے نتیجہ ہمارا کام نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 2060/44-2054

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔قرآن کریم کی تلاوت کرتے وقت یا کسی سے تلاوت سنتے وقت معانی میں غور وفکر کرتے ہوئے رونا پسندیدہ عمل ہے۔ رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے  اور صحابہ کرام سے تلاوت قران کے وقت رونا ثابت ہے۔

 (( اقرأ عليَّ القرآن ،فقلت یا رسول اللہ  أ أقرَأُ علیک وعلیک أنزل ، قال : إنی أحب أن أسمعہ من غیری فقرات علیہ سورۃ النساء حتی إذا جئت إلی ہذہ الآیۃ:{ فَکَیْفَ إذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ أُمَۃٍ بِشَہِیْدٍ وَجِئْنَابِکَ عَلیٰ ہٰؤلا  ِٔشَہِیْدَاً   (النساء ۴۱)قال : حسبک الآن،فالتفت إلیہ فإذاعیناہ تذرفان ))۔

(رواہ البخاری (۴۵۸۲)کتاب التفسیر/ باب فکیف إذا جئنا من کلأمۃ بشہید… ومسلم(۸۰۰)کتاب صلاۃ المسافرین /باب فضل استماع القرآن)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر کوئی مسلمان قرآن کریم کی کسی ایک آیت کا بھی انکار کردے، تو وہ مرتد ہے، جس کی سزا شریعت اسلامیہ میں یہ ہے کہ اگر وہ اسی انکار پر رہے، تو اس کو لازماً قتل کردیا جائے، لیکن اس سزا کے نفاذ کے لئے اسلامی حکومت واقتدار شرط ہے، جو یہاں پر موجود نہیں؛ اس لئے یہ سزا یہاں پر نہیں دی جاتی، یہاں پر ضروری ہے کہ اس کو سمجھایا جائے اس کے شکوک وشبہات کو دور کیا جائے، اگر اس کے باوجود وہ نہ مانے، تو اس سے تعلقات ختم کردیئے جائیں، جذبات میں کوئی غیر شرعی یا غیر قانونی اقدام نہ کیا جائے۔(۱)

(۱) إذا أنکر آیۃ من القرآن أو استخف بالقرآن أو بالمسجد، أو بنحوہ مما یعظم فی الشرع، أو عاب شیئاً من القرآن کفر۔ (عبد الرحمن، مجمع الأنہر، في شرح الملتقی الأبحر، ’’کتاب السیر والجہاد: باب المرتد، ثم إن ألفاظ الکفر أنواع‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۷)

 فما یکون کفرا بالاتفاق یوجب إحباط العمل کما في المرتد۔ (أیضاً:، ’’الصبي العاقل إذا ارتد‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۱)

 من جحد القرآن أي کلہ أو سورۃ منہ أو آیۃ قلت: وکذا کلمۃ أو قرأۃ متواترۃ أو زعم أنہا لیست من کلام اللّٰہ تعالیٰ کفر۔ (أبو حنیفۃ -رحمہ اللّٰہ-، شرح الفقۃ الأکبر، ’’فصل: فیما یتعلق بالقرآن والصلاۃ‘‘: ص: ۲۷۹)

 

دار العلوم وقف دیوبند

 

(فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد اول ص 166)

 

متفرقات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قانون قدرت ہے کہ انبیاء کی جماعت سخت ترین امتحانوں میں بھی مبتلا کی جاتی ہے۔ پھر امتحان کی بھی اقسام ہیں، ہر بنی کو حق تعالیٰ اپنی حکمت اور اس کی استعداد کے موافق جس قسم کے امتحان میں چاہے مبتلا کرتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے۔ ’’عن مصعب بن سعد عن أبیہ قال: قلت یا رسول اللّٰہ: أي الناس أشد بلائً؟ قال: الأنبیاء ثم الأمثل فالأمثل‘‘۔(۱) اللہ تعالیٰ نے یعقوب علیہ السلام کے دل میں یوسف علیہ السلام کی مافوق العادت محبت ڈالدی، یوسف علیہ السلام کو دردناک طریقے سے ان سے جدا کیا گیا، مفسرین لکھتے ہیں: کہ یعقوب علیہ السلام نہ کسی مخلوق کے سامنے حرف شکایت زبان پر لاتے تھے، نہ کسی سے انتقام لیتے، نہ غصہ کرتے، نہ غم کی بات منہ سے نکلتی، انتہائی غم اور تکلیف کے باوجود ادائے فرض وحقوق میں کوئی خلا نہ پڑنے دیا۔ ان کا دل جتنا فراق یوسف میں روتا تھا، اس سے زیادہ خدا کے حضور میں گڑ گڑا تے تھے۔ اسی درد میں یہ کلمات زبان سے ادا ہوئے۔ {إِنَّمَآ أَشْکُوْا بَثِّيْ وَحُزْنِيْٓ إِلَی اللّٰہِ} (۲)، اس کی تفسیر میں موضح القرآن میں لکھا ہے۔ کیا تم مجھ کو صبر سکھاؤ گے؟ بے صبر وہ ہے جو مخلوق کے آگے خالق کے دیے ہوئے درد کی شکایت کرے۔ میں تو اسی سے کہتا ہوں جس نے درد دیا اور پھر فرمایا: {وَأَعْلَمُ مِنَ اللّٰہِ مَا لَاتَعْلَمُوْنَہ۸۶} (۳) اور جانتا ہوں اللہ کی طرف سے جو تم نہیں جانتے؛ لہٰذا یعقوب علیہ السلام کے ان الفاظ کو جو کہ قرآن پاک میں بیان کیے۔ اپنے مضمون کے استدلال میں ذکر کرنا، ظاہر کرتا ہے کہ آپ ترجمہ سے واقف نہیں، حدیث وتفسیر پر بھی آپ کی نظر نہیں۔ ایوب علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہر طرح کی آسائش وآرام دیا تھا اور وہ بڑے شکر گزار بندے تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو آزمائش میں ڈالا، تو جیسے نعمت میں شاکر تھے، بلاء ومصیبت میں بھی شکر گزار رہے۔ اور کسی سے شکوہ نہ کیا اللہ ہی سے ان الفاظ میں اظہار عاجزی کے ساتھ دعا کی {إِذْ نَادٰی رَبَّہٗٓ أَنِّيْ مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ ہجصلے ۸۳ }(۴) اس لئے آپ کا اس واقعہ کو بھی استدلال میں یا اپنی بات کی تقویت میں لانا آپ کی لاعلمی کا پتہ دیتا ہے۔ جب نوح علیہ السلام نے سیکڑوں سال قوم کو سمجھایا اور وہ راہ راست پر نہ آئی اور بالکل مایوس ہوگئے اور اللہ کی طرف سے وحی کے ذریعہ بتلادیا گیا کہ جو ایمان لاچکے ان کے سوا کوئی اور شخص تمہاری قوم میں سے ایمان نہیںلائے گا، تو کفر اور نافرمانوں کے مٹانے کے لئے اللہ سے التجا کرنی چاہئے تھی کہ قوم میں کفر نہ پھیلے، بلکہ مٹ جائے۔

قرآن پاک میں ہے۔ {وأُوْحِيَ إِلٰی نُوْحٍ أَنَّہٗ لَنْ یُّؤْمِنَ مِنْ قَوْمِکَ إِلَّا مَنْ قَدْ  أٰمَنَ فَلاَ  تَبْتَئِسْ بِمَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَہجصلے۳۶  } (۱)

ترجمہ: اور وحی بھیجی گئی نوح کے پاس کہ جو ایمان لاچکے ہیں (ان کے سوا) کوئی اور شخص تمہاری قوم میں سے ایمان نہیں لائے گا، سو جوکچھ یہ کر رہے ہیں اس پر غم مت کرو۔ {وَاصْنَعِ  الْفُلْکَ بِأَعْیُنِنَا}(۲) (اور ہمارے حکم سے) کشتی تیار کرلو {وَلَا تُخَاطِبْنِيْ فِي الَّذِیْنَ ظَلَمُوْاج إِنَّھُمْ مُّغْرَقُوْنَہ۳۷}(۳) اور مجھ سے کافروں کے بارے میں کوئی گفتگو مت کرنا، وہ سب غرق کیے جائیں گے، تو نوح علیہ السلام نے جو کچھ کیا اور کہا وہ حکم خداوندی کے تحت تھا اور سفارش اور قوم کے لئے دعا کرنے سے روک دیا گیا تھا، تو مذکورہ انبیاء علیہم السلام نے جو کچھ کہا اور کیا وہ سب رضائے الٰہی اور اس کے حکم کے تحت تھا، وہ صبر وتحمل کا پیکر اور دوسروں کے لئے عملی نمونہ تھے۔

آپ کی تحریر سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ آپ مذکورہ عالم کو انبیاء علیہم السلام پر فوقیت دے رہے ہیں۔ اگر آپ کے کلام اور تحریر میں تاویل کی گنجائش نہ ہوتی، تو جو احباب آپ کے کہہ رہے ہیں صحیح ہو جاتا۔

لیکن یہ ضرور کہا جائے گا۔ کہ آپ کا طرز تحریر غلط اور بالکل غلط ہے؛ بلکہ اس کو جرء ت جاہلانہ اور عامیانہ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ چاپلوسی پر مبنی ہے جوکہ شرعاً ممنوع ہے جس سے احتراز ضروری ہے۔(۴)

فقط: واللہ اعلم بالصواب

 دار العلوم وقف دیوبند

(فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد اول ص 169-171)

 

 

متفرقات

Ref. No. 38 / 1044

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: مفراح کے معنی "بہت خوش" (القاموس الوحید)، اور مریم کے معنی "پاکدامن" کے ہیں۔  مفراح مریم Mifrah Maryam  نام رکھنا درست ہے۔ اللہ تعالی اس کو نیک اور صالح بنائے اور ہر قسم کی خیر اس کے لئے مقدر فرمائے۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند