متفرقات

Ref. No. 1394/42-809

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔مذکورہ الفاظ کے ساتھ اپنی مملوکہ چیز عطیہ کرنا وھبہ کرنا درست ہے اور جس شخص کو ان دونوں بھائیوں نے زمین ہبہ کردی ، موھوب لہ اس کا مالک ہوگیا، اس میں وراثت جاری ہوگی اور موہوب لہ کی اولاد کو اس میں شرعی طور پر وراثت کی تقسیم کرلینی چاہئے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 2081/44-2081

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ واللہ الموفق: نکاح کا مقصد دائمی الفت و محبت کا ایک رشتہ قائم کرنا اورشرم گاہ کی حفاظت کے ساتھ توالدو تناسل کی انسانی ضرورت کو پـورا کرنا ہےاسی لیے اسلام میں نکاح متعہ او رموقت کو حرام قرار دیا گیا ہے کہ اس میں ایک متعین وقت کے لیے شادی کی جاتی ہے ۔البتہ حضرات فقہاءاحناف نے متعہ یا موقت کے لیے عقد نکاح میں وقت کی قید کو ضروری قرار دیا ہے اس لیے اگر عقد میں وقت اور زمانے کی صراحت نہ ہو صرف دل میں ہو تو اس پر متعہ یا موقت کا اطلاق احناف کے نزدیک نہیں ہوتاہے اسی لیے اصولی طورپر نکاح کی یہ صورت کہ دو گواہوں کی موجودگی میںایجاب و قبول ہو اور زبان سے وقت اور زمانہ کو متعین نہ کیا جائے تو یہ درست ہے ۔تاہم مقصد نکاح کو دیکھتے ہوئے ایسا کرنا مکروہ ہے ۔اس لیے بلا ضرورت شدیدہ طلاق دینے کی نیت سے نکاح کرنا کراہت سے خالی نہیں ۔مفتی تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں : تیسری صورت یہ ہے کہ مرد عورت باقاعدہ دو گواہوں کے سامنے ایجاب و قبول کے ذریعہ نکاح کریں اور نکاح میں اس بات کابھی کوئی ذکر نہیں ہوتاکہ یہ نکاح مخصوص مدت کے لیے کیا  جارہا ہے لیکن فریقین میں سے کسی ایک یا دونوں کے دل میں یہ بات ہوتی ہے کہ ایک مخصوص مدت گزرنے کے بعد طلاق کے ذریعہ ہم نکاح ختم کردیں گے فقہاء کرام کی تصریح کے مطابق اس طرح کیا ہوا نکاح درست ہوجاتاہے اور مردو عورت باقاعدہ میاں بیوی بن جاتے ہیں اور ان کے درمیان نکاح کا رشتہ دائمی اور ابدی طورپر قائم ہوجاتاہے او ران پر ضروری نہیں ہوتاکہ وہ اپنے ارادے کے مطابق معین مدت پر طلاق دیں بلکہ ان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ بغیر کسی عذر کے طلاق کا اقدام نہ کریں او رچوں کہ شریعت میں نکاح کا رشتہ قائم رکھنے کے لیے بنایا گیا ہے اس لیے ان کایہ دلی ارادہ کہ کچھ عرصے بعد طلاق دے دیں گے شرعا ایک مکروہ  ا رادہ ہے لہذا اس ارادے کے ساتھ نکاح کرنا بھی مکروہ ہے۔  (فقہی مقالات 1/258)وبطل نكاح متعة، ومؤقت ، وإن جهلت المدة أو طالت في الأصح وليس منه ما لو نكحها على أن يطلقها بعد شهر أو نوى مكثه معها مدةمعينة(الدر المختار مع رد المحتار،3/51) أما إذا كان في تعيين الزوج أنه لا يقيم معها إلا سنة أو شهرا أو نحو ذلك ولم يشترط ذلك، فإنه نكاح صحيح عند عامة أهل العلم ما عدا الأوزاعي، فإنه قال في هذه الصورة: وهو متعة ولا خير فيه.(البنایۃشرح الہدایۃ5/62)لو تزوجہا مطلقا و فی نیتۃ ان یعقد معہا مدۃ نواہا فالنکاح صحیح ( عالمگیری،1/183)اما لو تزوج و فی نیتہ أن یطلقہا بعد مدۃ نواہا صح( فتح القدیر3/152)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 1274/42-633

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   موت کا ایک وقت متعین ہے، اور انسان اپنی تقدیر کے اردگرد گھومتا ہے، جو تقدیر کا فیصلہ ہے خواہی نہ خواہی انسان اس کو کرکے ہی رہتاہے، اس لئے جو کچھ آپ سے ہوا وہ تقدیر کا نوشتہ تھا، اب اپنے دل کو بوجھل نہ کریں، فوری طور پر آپ جہاں لے گئے ، اگر شفا مقدر ہوتی تو وہیں ان کو آرام  مل جاتا، لیکن موت کا متعینہ وقت آچکا تھا تو وہ ٹل نہیں سکتا تھا اور کوئی ماہر ڈاکٹر بھی ان کو زندگی نہیں دے سکتا تھا۔ اس لئے آپ اب ان کے لئے ایصال ثواب کرتے رہیں اور اس طرح کے شیطانی وسوسوں کے شکنجہ سے بچیں۔ اللہ تعالی آپ کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین

المؤمن القويّ خيرٌ وأحبُّ إلى اللهِ من المؤمنِ الضعيفِ وفي كل خيرٌ احرِصْ على ما ينفعكَ واستعنْ باللهِ ولا تعجزْ فإن فاتكَ شيء فقلْ قدر اللهُ وما شاءَ فعلَ وإيّاكَ ولَوْ فإن لَوْ تفتحُ عملَ الشيطانِ۔

الصفحة أو الرقم: 1/237 | التخريج : أخرجه مسلم (2664)، وابن ماجه (4168)، وأحمد (8777)، والنسائي في ((السنن الكبرى)) (10457) باختلاف يسير، والطحاوي في ((شرح مشكل الآثار)) (262) واللفظ له.

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 2080/44-2092

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ منت ماننا درست نہیں ہے۔ اس لئے اس کو پورا کرنا بھی ضروری نہیں ہے۔ آپ بلا کسی تردد کے اس کی ختنہ کراسکتے ہیں۔غیرشرعی  رسم و رواج کو فروغ دینے کے بجائے ان کی بیخ کنی کی فکر کرنی چاہئے۔

"ومنها ) أن يكون قربةً فلايصح النذر بما ليس بقربة رأسا كالنذر بالمعاصي بأن يقول : لله عز شأنه علي أن أشرب الخمر أو أقتل فلاناً أو أضربه أو أشتمه ونحو ذلك؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: { لا نذر في معصية الله تعالى}، وقوله : عليه الصلاة والسلام: { من نذر أن يعصي الله تعالى فلايعصه }، ولأن حكم النذر وجوب المنذور به، ووجوب فعل المعصية محال، وكذا النذر بالمباحات من الأكل والشرب والجماع ونحو ذلك لعدم وصف القربة لاستوائهما فعلاً وتركاً". ) بدائع الصنائع (10/327(

"مصرف الزكاة والعشر: هو الفقير، وهو من له أدنى شيء". (الدر المختار)وفي الشامية: "وهو مصرف أيضاً لصدقة الفطر والكفارة والنذر وغير ذلك من الصدقات الواجبة" . (شامي ۲/۳۳۹(

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 958/41-000

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ نے ایک سائل کی درخواست پر عوام الناس کے لئے بقدر ضرورت دین سیکھنے کے لئے درج ذیل نصاب متعین فرمایا ہے جو دو حصوں پر مشتمل ہے، اور عوام کے لئے مفید ہے۔

پہلا حصہ: 1-حیاۃ المسلمین۔ 2-فروع الایمان۔ 3- تعلیم الدین۔ 4- مردوں کے لئے بہشتی گوہر۔ 5-عورتوں کے لئے بہشتی زیور۔ 6-جزاء الاعمال۔ 7- سیرت خاتم الانبیاء۔ 8- حکایات صحابہ۔ 9- تاریخ اسلام مولانا محمد میاں صاحب۔ 10- اسوہء رسول اکرم ﷺ ڈاکٹر عبدالحیی عارفی۔

دوسرا حصہ: 1- معارف القرآن مفتی شفیع صاحب۔ 2- معارف الحدیث مولانا منظور نعمانی صاحب۔ 3-بہشتی زیور کے مسائل۔ 4-علم الفقہ مولانا عبدالشکور صاحب۔ 5- عقائد اسلام مولانا ادریس صاحب۔ 6-شریعت و طریقت۔ (مستفاد فتاوی عثمانی 1/158)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1397/42-814

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سیاست امیر معاویہ رضی اللہ عنہ زندہ باد سے آپ کی مراد کیا ہے؟ اس کی وضاحت کریں، ہمارے اکابر اور مشائخ کا موقف حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی مقدس جماعت میں شامل ہیں اور آپ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ کے معتمد صحابہ میں سے تھے آپ کا شمار کاتبین وحی میں ہوتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے لئے ہدایت کی دعاء فرمائی ہے، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اہل سنت والجماعت کی نظر میں مؤمن اور قابل احترام ہیں ان کی شان میں کسی بھی قسم کی گستاخی ہرگز جائز نہیں ہے۔۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 40/000

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ان کو سمجھایا جائے کہ آپ کے دھرم میں ایسی کوئی پابندی نہیں ہے جبکہ ہمارے اسلام  میں ان چیزوں پر پابندی ہے۔ اور ایسا کرنے سے ہم کو منع کیاگیا ہے۔ باقی ہم آپ کی خوشی وغم میں برابر شریک ہیں۔  تعزیت وغیرہ میں شریک ہوناچاہئے۔  اور انسانیت کے تمام تقاضوں کو پورا کرنا چاہئے۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 962

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ایک دینی جلسہ کے لئے اس طرح بغرض چندہ غیر شرعی طریقہ اختیار کرنا قابل مذمت  اور واجب الترک ہے، جولوگ  بخوشی دیں ان سے ہی وصول کیا جائے ، بلاوجہ کسی پر اس کا بار نہ ڈالا جائے اور کسی سے بھی زبردستی نہ کی جائے، راستہ پرگاڑیوں کو روکنا اور زبردستی چندہ لینا کسی کے لئے بھی مناسب  نہیں ہے؛ اس میں معاشرتی قوانین کی بھی خلاف ورزی  ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1398/42-816

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شیطان اور جنات کا اس طرح کسی دوسرے کی شکل اختیار کرناممکن ہے۔اس لئے شیاطین وجنات وغیرہ کے شرور سے حفاظت  کے لئے  سونے سے قبل معوذتین (سورۃ الفلق وسورۃ الناس) صبح وشام آیۃ الکرسی اوردیگرمسنون اذکار کا اہتمام کرناچاہئے۔

عن عائشة، قالت: حدث رسول الله صلى الله عليه وسلم نساءه ذات ليلة حديثا، فقالت امرأة منهن: يا رسول الله، كان الحديث حديث خرافة؟ فقال: " أتدرين ما خرافة؟ إن خرافة كان رجلا من عذرة، أسرته الجن في الجاهلية، فمكث فيهن دهرا طويلا، ثم ردوه إلى الإنس، فكان يحدث الناس بما رأى فيهم من الأعاجيب، فقال الناس: حديث خرافة "  (مسند أحمد مخرجا 42/ 141)

وقصة من استهوته الجن: أي جرته إلى المهاوي وهي المهالك ما روى عبد الرحمن بن أبي ليلى قال: أنا لقيت المفقود فحدثني حديثه قال: أكلت خزيرا في أهلي فخرجت فأخذني نفر من الجن فمكثت فيهم، ثم بدا لهم في عتقي فأعتقوني ثم أتوا بي قريبا من المدينة فقالوا: أتعرف الخليل؟ فقلت: نعم، فخلوا عني، فجئت فإذا عمر بن الخطاب قد أبان امرأتي بعد أربع سنين وحاضت وانقضت عدتها وتزوجت، فخيرني عمر - رضي الله عنه - بين أن يردها علي وبين المهر. قال مالك: وهذا مما لا يدرك بالقياس فيحمل على المسموع من رسول الله - صلى الله عليه وسلم – (العنایۃ، کتاب المفقود 6/145)

فإن واحدا من إخوتي وهو أكبر سنا مني قتل حية كبيرة بسيف في دارنا فضر به الجن حتى جعلوه زمنا لا تتحرك رجلاه قريبا من الشهر ثم عالجناه وداويناه بإرضاء الجن حتى تركوه فزال ما به وهذا مما عاينته بعيني (حاشیۃ الطحطاوی فیما لایکرہ للمصلی 1/369)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1890/43-1762

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  صرف محمد نام رکھنا بھی درست ہے، شرعا محبوب ہے، البتہ سرکاری کاغذات میں صرف محمد سے اندراج نہیں ہوتاہے،  بلکہ اس کے ساتھ کسی اور نام کا اضافہ ضروری ہوتاہے، اس لئے آپ محمد احمد نام بھی رکھ سکتے ہیں۔ ایک نام کے ایک خاندان میں کئی بچے ہوں تو کوئی حرج نہیں ہے، ہر ایک اپنے والد سے  منسوب ہوکر پہچانا جاتاہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند