Frequently Asked Questions
متفرقات
Ref. No. 2159/44-2234
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کمپنی کا کاروبار شرعا درست ہے ، اور آپ کا معاملہ مضاربت کا ہے یا شرکت کا واضح ہے اور نفع کے ساتھ نقصان میں بھی شرکت ہے، تو اس طرح فیصدی کے اعتبار سےنفع کی تعیین کے ساتھ معاملہ کرنا درست ہے۔ اور اس میں پیسے لگانا اور نفع کمانا جائز ہے۔
کل شرط یوجب جہالة فی الربح أو یقطع الشرکة فیہ یفسدہا، وإلا بطل الشرط وصح العقد اعتبارا بالوکالة قال الشامي: کشرط الخسران علی المضارب (الدر مع الرد، ۸/ ۴۳۳- ۴۳۴کتاب الشرکة، ط: زکریا دیوبند) و یبطل الشرط کشرط الوضیعة أي الخسران علی المضارب لأن الخسران جزء ہالک من المال فلا یجوز أن یلزم غیرَ رب المال؛ لکنہ شرط زائد لا یوجب قطع الشرکة في الربح ولا الجہالة فیہ فلا یفسد المضاربة؛ لأنہا لا تفسد بالشروط الفاسدة․ (مجمع الأنہر: ۳/ ۴۴۷، ط: فقیہ الأمت دیوبند) (کذا في تبیین الحقائق: ۵/ ۵۲۱، المضاربة، ط: زکریا دیوبند)
في مصنف عبد الرزاق ومصنف ابن أبي شیبہ عن علي رضي اللہ عنہ: الوضیعة علی المال والربح علی ما اصطلحوا علیہ فیتقدر بقدر المال (کنز العمال: ۱۵/ ۱۷۶رقم: ۴۰۴۸۲) إذا شرطا الربح علی قدر المالین متساویا أو متفاضلا فلا شک أنہ یجوز ویکون الربح علی الشرط․․․ والوضیعة علی قدر المالین متساویا ومتفاضلا لأن الوضیعة اسم لجزء ہالک من المال فیتقدر بقدر المال․ (بدائع الصنائع: ۵/ ۸۳الشرکة، ط زکریا دیوبند۔ ۷/ ۵۲۳الشرکة ط: دار المعارف دیوبند․ ثم یقول أي الإمام محمد رحمہ اللہ فما کان من ربح فہو بینہما علی قدر روٴس أموالہما وما کان من وضیعة أو تبعة فہو کذلک․ ولا خلاف أن اشتراط الوضیعة بخلاف قدر رأس المال باطل (فتح القدیر: ۶/ ۱۴۶الشرطة ط: زکریا دیوبند)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No.
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ایسی صورت میں نماز کی حالت میں بائیں طرف تھوکنے کی گنجائش ہے۔ ناجائز اور ناحق ٹیکس سے بچنے کے لئے ایسا حیلہ اختیار کرنا درست ہے، تاہم معاملہ صاف ستھرا ہو کہ بائع اور مشتری کے درمیان کسی قسم کے نزاع کا اندیشہ مستقبل میں نہ ہو، البتہ جو جائز اور مناسب ٹیکس ہوں ان میں ایسا نہ کیا جائے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1896/43-1783
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ باپ نے اپنی حیات میں جس کسی کو بھی کوئی جائداد دے کر مالک بنادیا تو وہ اس حصہ کا مالک ہوگیا، اس میں کوئی دوسرا سوال نہیں کرسکتاہے، اور کسی کو حق اعتراض حاصل نہیں ہے، البتہ مرحوم کے انتقال کے وقت جو کچھ اس کی ملکیت میں باقی ہو اس کی تقسیم تمام ورثاء کے درمیان شرعی اعتبار سے ہونی ضروری ہے۔ اگر میراث کی تقسیم ہوچکی ہے اور بعد میں کسی کو یقین ہو کہ تقسیم شرعی اعتبار سے نہیں ہوئی تو وہ دوبارہ تقسیم کا مطالبہ کرسکتاہے، محض شک کی بناء پر مطالبہ درست نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2360/44-3552
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب آپ سخت ضرورتمند تھے تو مقتدیوں نے آپ کی سودی رقم سے مدد کی ، اس وقت آپ کے لئے سودی رقم استعمال کرنا جائز تھا۔ اس لئے آپ کی امامت درست ہے اور لوگوں کا آپ کی اقتداء میں نماز پڑھنا بھی درست ہے۔
"ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها؛ لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه."
(فتاوی شامی:كتاب الحظر والاباحة، ج:6، ص:385، ط: سعيد)
"والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه."
فتاوی شامی (کتاب البیوع ، باب البیع الفاسد، ج:5، ص:99، ط:سعيد)
"قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقهائنا کالهدایة وغیرها: أن من ملك بملك خبیث، ولم یمكنه الرد إلى المالك، فسبیله التصدقُ علی الفقراء ... قال: و الظاهر أن المتصدق بمثله ینبغي أن ینوي به فراغ ذمته، ولایرجو به المثوبة." (معارف السنن میں ہے:
أبواب الطهارة، باب ما جاء: لاتقبل صلاة بغیر طهور، ج:1، ص:34، ط: المکتبة الأشرفیة)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1999/44-1951
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حسب گنجائش کسی اچھے ڈاکٹر سے علاج کے لئے رابطہ کریں۔ اور جو دوا کھائیں یا لگائیں اس پر سات مرتبہ سورہ فاتحہ پڑھ کر استعمال کریں۔ اللہ تعالی سے ہمیں شفاکی امید رکھنی چاہیے، اور علاج نہیں چھوڑنا چاہئے۔ دنیا دارالاسباب ہے، اللہ پر توکل کرکے اسباب کو اختیار کرنا چاہئے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2687/45-4145
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کسی ناجائز کام کے لئے اپنا مکان یا دوکان کرایہ پر دینا تو جائز نہیں، کیونکہ حکم خدا وندی ہے۔
(وتعاونوا علی البر والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان) (المائدۃ)
تاہم فلم بنانے والوں کو کھانا بنانے یا کھانا کھانے کے لئے جگہ کرایہ پر دینے کی گنجائش ہے۔
ولا بأس بأن یؤاجر المسلم دارا من الذمي یسکنہا فان شرب فیہا الخمر أو عبد فیہاالصلیب أو أدخل فیہا الخنازیر لم یلحق المسلم اثم فی شیئ من ذلک لأنہ لم یؤاجرہا لذلک والمعصیۃ فی فصل المستاجر وفعلہ دون قصد رب الدار فلا اثم علی رب الدار فی ذلک‘‘ (سرخسي، المبسوط: ج ١٦، ص: ٣٩، بیروت دار المعرفۃ؛ وجماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ: ج ٤، ص: ٤٥٠، بیروت دار الفکر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2729/45-4244
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خود سے گھر پر دوہرالینا بھی کافی ہوگا اب دوبارہ حافظ صاحب کو سنانا ضروری نہیں ہے، البتہ اگلے دن اگر دونوں دن کا سبق سنادیں تاکہ اور پختگی آجائے تو بہتر ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2443/45-3715
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مندر میں جو ناریل چڑھائے جاتے ہیں ، وہ خاص طور پر بتوں پر منت کے طور پر چڑھائے جاتے ہیں ،اور ان کا مقصد تقرب الی غیر اللہ ہی ہوتا ہے ، اس لئے مندروں پر چڑھائے ہوئے ناریل وغیرہ کا خریدنا بیچنا جائز نہیں ہوگا۔
{ إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ} [البقرة: 173]
البحر الرائق شرح كنز الدقائق (2/ 321):
"والنذر للمخلوق لايجوز؛ لأنه عبادة والعبادة لا تكون للمخلوق." (کتاب الصوم، باب الاعتکاف، ط: دارالکتاب الاسلامی بیروت)
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 439):
"واعلم أن النذر الذي يقع للأموات من أكثر العوام وما يؤخذ من الدراهم والشمع والزيت ونحوها إلى ضرائح الأولياء الكرام تقربا إليهم فهو بالإجماع باطل وحرام.
وفی الحاشیة : مطلب في النذر الذي يقع للأموات من أكثر العوام من شمع أو زيت أو نحوه (قوله: تقربا إليهم) كأن يقول يا سيدي فلان إن رد غائبي أو عوفي مريضي أو قضيت حاجتي فلك من الذهب أو الفضة أو من الطعام أو الشمع أو الزيت كذا بحر (قوله: باطل وحرام) لوجوه: منها أنه نذر لمخلوق والنذر للمخلوق لا يجوز لأنه عبادة والعبادة لا تكون لمخلوق. ومنها أن المنذور له ميت والميت لا يملك، ومنه أنه إن ظن أن الميت يتصرف في الأمور دون الله تعالى واعتقاده ذلك كفر ..." الخ (كتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم و ما لا يفسده، قبيل باب الاعتكاف، ط: سعيد)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 965/41-122
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خوشبو کے لئے اگربتی جلانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ تاہم کسی مخصوص دن اور وقت یا کسی مخصوص کام کے لئے اس کو لازم نہ سمجھاجائے۔ اور غیروں کے طریقہ کی نقل نہ کی جائے تو حرج نہیں ہے۔ اگر کوئی شبہ ہو تو خوشبو کے لئے عطر کا استعمال کریں، یا عطر فروش سے بخور وغیرہ لے کر گھر میں جلائیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 38 / 1094
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس کمپنی کے سلسلہ میں لوگوں سے معلومات کریں، اور اس کو تلاش کرنے کی خوب کوشش کریں۔ اگر کسی صورت بھی مالک کا علم نہ ہوسکے تو ان اشیاء کی قیمت صدقہ کردیں ۔ لیکن خیال رہے کہ جب بھی مالک کا علم ہوجائے اس کی چیز اس کو لوٹانا لازم ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند