متفرقات

Ref. No. 2096/44-2145

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر ایپ شیئر مارکیٹ سے جڑا ہوا ہے ، اور پیسے  ایسی کمپنی میں  آپ نے لگائے  جس کا کام جائز ہے اور رقم متعین نہیں ہے بلکہ فائدہ اور نقصان میں شریک ہیں تو ایسا فائدہ لینا جائز ہے، لیکن  اگرآپ  کی کمپنی  نفع میں متعین رقم  دیتی ہے تو یہ جائز نہیں ہے۔  اور اس میں پیسے لگانا بھی جائز نہیں ہے ۔  اس لئے اس ایپ کو استعمال کرنے سے گریز کرنا ضروری ہے۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 38 / 1045

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ان کی کتاب تاریخ اسلام معتبر کتاب ہے۔ مولانا اہل حق میں سے تھے، وہ ایک کامیاب اور تحقیقی مزاج رکھنے والے ایک باکمال مصنف تھے، کسی قسم کا شبہ نہ کریں۔ ان کی کتاب کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔ جہاں شبہ ہو عبارت مع حوالہ نقل کر کے مسئلہ دریافت کرلیا کریں۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 41/931

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  قرآن کریم سے تعلق میں کوتاہی کی جانب اشارہ ہے، اس لئے  قرآن  کریم کی  پابندی سے تلاوت  کریں اور اس کے احکام پرعمل کرنے کی طرف خصوصی توجہ دیں۔واللہ المستعان  

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 41/926

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  پگڑی کا شملہ لٹکانا اور نہ لٹکانا دونوں درست ہیں۔ نیز شملہ آگے لٹکانا اور پیچھے لٹکانا بھی  ثابت ہے۔   آپ ﷺ شملہ پیچھے دونوں شانوں کے درمیان چھوڑتے تھے۔ (شعب الایمان للبیہقی)

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 950 Alif

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ہاں، دفن کرسکتے ہیں۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1516/43-1021

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس کا  فون پے /پے ٹی ایم اکاونٹ استعمال ہوا ہے وہ کیش بیک کمپنی کی طرف سے اسی کے لئے ہوتاہے۔ اس لئے وہی اس کا مالک ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1394/42-809

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔مذکورہ الفاظ کے ساتھ اپنی مملوکہ چیز عطیہ کرنا وھبہ کرنا درست ہے اور جس شخص کو ان دونوں بھائیوں نے زمین ہبہ کردی ، موھوب لہ اس کا مالک ہوگیا، اس میں وراثت جاری ہوگی اور موہوب لہ کی اولاد کو اس میں شرعی طور پر وراثت کی تقسیم کرلینی چاہئے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 2081/44-2081

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ واللہ الموفق: نکاح کا مقصد دائمی الفت و محبت کا ایک رشتہ قائم کرنا اورشرم گاہ کی حفاظت کے ساتھ توالدو تناسل کی انسانی ضرورت کو پـورا کرنا ہےاسی لیے اسلام میں نکاح متعہ او رموقت کو حرام قرار دیا گیا ہے کہ اس میں ایک متعین وقت کے لیے شادی کی جاتی ہے ۔البتہ حضرات فقہاءاحناف نے متعہ یا موقت کے لیے عقد نکاح میں وقت کی قید کو ضروری قرار دیا ہے اس لیے اگر عقد میں وقت اور زمانے کی صراحت نہ ہو صرف دل میں ہو تو اس پر متعہ یا موقت کا اطلاق احناف کے نزدیک نہیں ہوتاہے اسی لیے اصولی طورپر نکاح کی یہ صورت کہ دو گواہوں کی موجودگی میںایجاب و قبول ہو اور زبان سے وقت اور زمانہ کو متعین نہ کیا جائے تو یہ درست ہے ۔تاہم مقصد نکاح کو دیکھتے ہوئے ایسا کرنا مکروہ ہے ۔اس لیے بلا ضرورت شدیدہ طلاق دینے کی نیت سے نکاح کرنا کراہت سے خالی نہیں ۔مفتی تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں : تیسری صورت یہ ہے کہ مرد عورت باقاعدہ دو گواہوں کے سامنے ایجاب و قبول کے ذریعہ نکاح کریں اور نکاح میں اس بات کابھی کوئی ذکر نہیں ہوتاکہ یہ نکاح مخصوص مدت کے لیے کیا  جارہا ہے لیکن فریقین میں سے کسی ایک یا دونوں کے دل میں یہ بات ہوتی ہے کہ ایک مخصوص مدت گزرنے کے بعد طلاق کے ذریعہ ہم نکاح ختم کردیں گے فقہاء کرام کی تصریح کے مطابق اس طرح کیا ہوا نکاح درست ہوجاتاہے اور مردو عورت باقاعدہ میاں بیوی بن جاتے ہیں اور ان کے درمیان نکاح کا رشتہ دائمی اور ابدی طورپر قائم ہوجاتاہے او ران پر ضروری نہیں ہوتاکہ وہ اپنے ارادے کے مطابق معین مدت پر طلاق دیں بلکہ ان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ بغیر کسی عذر کے طلاق کا اقدام نہ کریں او رچوں کہ شریعت میں نکاح کا رشتہ قائم رکھنے کے لیے بنایا گیا ہے اس لیے ان کایہ دلی ارادہ کہ کچھ عرصے بعد طلاق دے دیں گے شرعا ایک مکروہ  ا رادہ ہے لہذا اس ارادے کے ساتھ نکاح کرنا بھی مکروہ ہے۔  (فقہی مقالات 1/258)وبطل نكاح متعة، ومؤقت ، وإن جهلت المدة أو طالت في الأصح وليس منه ما لو نكحها على أن يطلقها بعد شهر أو نوى مكثه معها مدةمعينة(الدر المختار مع رد المحتار،3/51) أما إذا كان في تعيين الزوج أنه لا يقيم معها إلا سنة أو شهرا أو نحو ذلك ولم يشترط ذلك، فإنه نكاح صحيح عند عامة أهل العلم ما عدا الأوزاعي، فإنه قال في هذه الصورة: وهو متعة ولا خير فيه.(البنایۃشرح الہدایۃ5/62)لو تزوجہا مطلقا و فی نیتۃ ان یعقد معہا مدۃ نواہا فالنکاح صحیح ( عالمگیری،1/183)اما لو تزوج و فی نیتہ أن یطلقہا بعد مدۃ نواہا صح( فتح القدیر3/152)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 1274/42-633

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   موت کا ایک وقت متعین ہے، اور انسان اپنی تقدیر کے اردگرد گھومتا ہے، جو تقدیر کا فیصلہ ہے خواہی نہ خواہی انسان اس کو کرکے ہی رہتاہے، اس لئے جو کچھ آپ سے ہوا وہ تقدیر کا نوشتہ تھا، اب اپنے دل کو بوجھل نہ کریں، فوری طور پر آپ جہاں لے گئے ، اگر شفا مقدر ہوتی تو وہیں ان کو آرام  مل جاتا، لیکن موت کا متعینہ وقت آچکا تھا تو وہ ٹل نہیں سکتا تھا اور کوئی ماہر ڈاکٹر بھی ان کو زندگی نہیں دے سکتا تھا۔ اس لئے آپ اب ان کے لئے ایصال ثواب کرتے رہیں اور اس طرح کے شیطانی وسوسوں کے شکنجہ سے بچیں۔ اللہ تعالی آپ کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین

المؤمن القويّ خيرٌ وأحبُّ إلى اللهِ من المؤمنِ الضعيفِ وفي كل خيرٌ احرِصْ على ما ينفعكَ واستعنْ باللهِ ولا تعجزْ فإن فاتكَ شيء فقلْ قدر اللهُ وما شاءَ فعلَ وإيّاكَ ولَوْ فإن لَوْ تفتحُ عملَ الشيطانِ۔

الصفحة أو الرقم: 1/237 | التخريج : أخرجه مسلم (2664)، وابن ماجه (4168)، وأحمد (8777)، والنسائي في ((السنن الكبرى)) (10457) باختلاف يسير، والطحاوي في ((شرح مشكل الآثار)) (262) واللفظ له.

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 2080/44-2092

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ منت ماننا درست نہیں ہے۔ اس لئے اس کو پورا کرنا بھی ضروری نہیں ہے۔ آپ بلا کسی تردد کے اس کی ختنہ کراسکتے ہیں۔غیرشرعی  رسم و رواج کو فروغ دینے کے بجائے ان کی بیخ کنی کی فکر کرنی چاہئے۔

"ومنها ) أن يكون قربةً فلايصح النذر بما ليس بقربة رأسا كالنذر بالمعاصي بأن يقول : لله عز شأنه علي أن أشرب الخمر أو أقتل فلاناً أو أضربه أو أشتمه ونحو ذلك؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: { لا نذر في معصية الله تعالى}، وقوله : عليه الصلاة والسلام: { من نذر أن يعصي الله تعالى فلايعصه }، ولأن حكم النذر وجوب المنذور به، ووجوب فعل المعصية محال، وكذا النذر بالمباحات من الأكل والشرب والجماع ونحو ذلك لعدم وصف القربة لاستوائهما فعلاً وتركاً". ) بدائع الصنائع (10/327(

"مصرف الزكاة والعشر: هو الفقير، وهو من له أدنى شيء". (الدر المختار)وفي الشامية: "وهو مصرف أيضاً لصدقة الفطر والكفارة والنذر وغير ذلك من الصدقات الواجبة" . (شامي ۲/۳۳۹(

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند