Frequently Asked Questions
متفرقات
Ref. No. 962
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ایک دینی جلسہ کے لئے اس طرح بغرض چندہ غیر شرعی طریقہ اختیار کرنا قابل مذمت اور واجب الترک ہے، جولوگ بخوشی دیں ان سے ہی وصول کیا جائے ، بلاوجہ کسی پر اس کا بار نہ ڈالا جائے اور کسی سے بھی زبردستی نہ کی جائے، راستہ پرگاڑیوں کو روکنا اور زبردستی چندہ لینا کسی کے لئے بھی مناسب نہیں ہے؛ اس میں معاشرتی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1398/42-816
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شیطان اور جنات کا اس طرح کسی دوسرے کی شکل اختیار کرناممکن ہے۔اس لئے شیاطین وجنات وغیرہ کے شرور سے حفاظت کے لئے سونے سے قبل معوذتین (سورۃ الفلق وسورۃ الناس) صبح وشام آیۃ الکرسی اوردیگرمسنون اذکار کا اہتمام کرناچاہئے۔
عن عائشة، قالت: حدث رسول الله صلى الله عليه وسلم نساءه ذات ليلة حديثا، فقالت امرأة منهن: يا رسول الله، كان الحديث حديث خرافة؟ فقال: " أتدرين ما خرافة؟ إن خرافة كان رجلا من عذرة، أسرته الجن في الجاهلية، فمكث فيهن دهرا طويلا، ثم ردوه إلى الإنس، فكان يحدث الناس بما رأى فيهم من الأعاجيب، فقال الناس: حديث خرافة " (مسند أحمد مخرجا 42/ 141)
وقصة من استهوته الجن: أي جرته إلى المهاوي وهي المهالك ما روى عبد الرحمن بن أبي ليلى قال: أنا لقيت المفقود فحدثني حديثه قال: أكلت خزيرا في أهلي فخرجت فأخذني نفر من الجن فمكثت فيهم، ثم بدا لهم في عتقي فأعتقوني ثم أتوا بي قريبا من المدينة فقالوا: أتعرف الخليل؟ فقلت: نعم، فخلوا عني، فجئت فإذا عمر بن الخطاب قد أبان امرأتي بعد أربع سنين وحاضت وانقضت عدتها وتزوجت، فخيرني عمر - رضي الله عنه - بين أن يردها علي وبين المهر. قال مالك: وهذا مما لا يدرك بالقياس فيحمل على المسموع من رسول الله - صلى الله عليه وسلم – (العنایۃ، کتاب المفقود 6/145)
فإن واحدا من إخوتي وهو أكبر سنا مني قتل حية كبيرة بسيف في دارنا فضر به الجن حتى جعلوه زمنا لا تتحرك رجلاه قريبا من الشهر ثم عالجناه وداويناه بإرضاء الجن حتى تركوه فزال ما به وهذا مما عاينته بعيني (حاشیۃ الطحطاوی فیما لایکرہ للمصلی 1/369)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1890/43-1762
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صرف محمد نام رکھنا بھی درست ہے، شرعا محبوب ہے، البتہ سرکاری کاغذات میں صرف محمد سے اندراج نہیں ہوتاہے، بلکہ اس کے ساتھ کسی اور نام کا اضافہ ضروری ہوتاہے، اس لئے آپ محمد احمد نام بھی رکھ سکتے ہیں۔ ایک نام کے ایک خاندان میں کئی بچے ہوں تو کوئی حرج نہیں ہے، ہر ایک اپنے والد سے منسوب ہوکر پہچانا جاتاہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 38 / 1053
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: حدیث کی معتبر کتابوں میں یہ حدیث ہمیں نہیں ملی۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2155/44-2230
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خواب دیکھنے والی خاتون کو چاہئے کہ اپنے اعمال کی اصلاح کریں(1)۔ نیکی والے اعمال کرنے کے ساتھ ساتھ استغفار کی کثرت کریں۔ برائیوں کو چھوڑدیں ، اور "رب اِنی لما انزلتَ اِلیّ من خیر فقیر" رات سوتے وقت 41 مرتبہ پڑھ لیا کریں۔ اس سے مناسب و موزوں ترین رشتہ آئے گاان شاء اللّٰہ۔
(1) { ٱلۡخَبِیثَـٰتُ لِلۡخَبِیثِینَ وَٱلۡخَبِیثُونَ لِلۡخَبِیثَـٰتِۖ وَٱلطَّیِّبَـٰتُ لِلطَّیِّبِینَ وَٱلطَّیِّبُونَ لِلطَّیِّبَـٰتِۚ أُو۟لَـٰۤىِٕكَ مُبَرَّءُونَ مِمَّا یَقُولُونَۖ لَهُم مَّغۡفِرَة وَرِزۡق كَرِیم } [Surah An-Nûr: 26]
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2570/45-3938
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آیت سجدہ کی تلاوت کرنے یا سننے سے سجدہٴ تلاوت واجب ہوتا ہے، صرف ترجمہ یا تفسیر پڑھنے سے اور سننے سے سجدہٴ تلاوت واجب نہیں ہوتا ہے۔ لہذا جتنی آیات سجدہ پڑھی ہیں اتنے سجدے ہی واجب ہوں گے، ان آیات کا ترجمہ و تفسیر سے مزید کوئی سجدہ واجب نہ ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2569/45-3936
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو کاروبار شریعت میں ناجائز ہے، اس میں گو کہ بظاہر ہزار فائدے نظر آئیں مگر حقیقت میں ان میں خیر نہیں ہوتی، ایک مسلمان جیسے مسلمان کا خیر خواہ ہوتا ہے غیر مسلم کا بھی اس کو خیر خواہ ہونا چاہئے، اس لئے کسی غیر مسلم کو بھی ناجائز کام کی رہنمائی کرنا اور اس پر اجرت لینا جائز نہیں ہے، اگر غیر مسلم کی اعانت کی اور اس نے اس حرام کاروبار دلانے پر اجرت دی تو اس کا لینا جائز نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1403/42-815
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔جس کی جانب اشارہ کیا اگر وہ پہچان کا آدمی ہے تو ممکن ہے کہ وہ کسی معاملے میں ماخوذ ہو ، اور اس پربے بنیاد الزامات عائد ہوں، مگروہ شخص جلدہی ان تمام الزامات سے بری ہوجائےگا۔ نیز خواب دیکھنے والا ممکن کہ کسی معاملے میں بطور گواہ مطلوب ہو۔ اور وہ گواہی دے تو اس کی گواہی قابل قبول ہوگی۔ ان شاء اللہ
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2159/44-2234
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کمپنی کا کاروبار شرعا درست ہے ، اور آپ کا معاملہ مضاربت کا ہے یا شرکت کا واضح ہے اور نفع کے ساتھ نقصان میں بھی شرکت ہے، تو اس طرح فیصدی کے اعتبار سےنفع کی تعیین کے ساتھ معاملہ کرنا درست ہے۔ اور اس میں پیسے لگانا اور نفع کمانا جائز ہے۔
کل شرط یوجب جہالة فی الربح أو یقطع الشرکة فیہ یفسدہا، وإلا بطل الشرط وصح العقد اعتبارا بالوکالة قال الشامي: کشرط الخسران علی المضارب (الدر مع الرد، ۸/ ۴۳۳- ۴۳۴کتاب الشرکة، ط: زکریا دیوبند) و یبطل الشرط کشرط الوضیعة أي الخسران علی المضارب لأن الخسران جزء ہالک من المال فلا یجوز أن یلزم غیرَ رب المال؛ لکنہ شرط زائد لا یوجب قطع الشرکة في الربح ولا الجہالة فیہ فلا یفسد المضاربة؛ لأنہا لا تفسد بالشروط الفاسدة․ (مجمع الأنہر: ۳/ ۴۴۷، ط: فقیہ الأمت دیوبند) (کذا في تبیین الحقائق: ۵/ ۵۲۱، المضاربة، ط: زکریا دیوبند)
في مصنف عبد الرزاق ومصنف ابن أبي شیبہ عن علي رضي اللہ عنہ: الوضیعة علی المال والربح علی ما اصطلحوا علیہ فیتقدر بقدر المال (کنز العمال: ۱۵/ ۱۷۶رقم: ۴۰۴۸۲) إذا شرطا الربح علی قدر المالین متساویا أو متفاضلا فلا شک أنہ یجوز ویکون الربح علی الشرط․․․ والوضیعة علی قدر المالین متساویا ومتفاضلا لأن الوضیعة اسم لجزء ہالک من المال فیتقدر بقدر المال․ (بدائع الصنائع: ۵/ ۸۳الشرکة، ط زکریا دیوبند۔ ۷/ ۵۲۳الشرکة ط: دار المعارف دیوبند․ ثم یقول أي الإمام محمد رحمہ اللہ فما کان من ربح فہو بینہما علی قدر روٴس أموالہما وما کان من وضیعة أو تبعة فہو کذلک․ ولا خلاف أن اشتراط الوضیعة بخلاف قدر رأس المال باطل (فتح القدیر: ۶/ ۱۴۶الشرطة ط: زکریا دیوبند)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No.
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ایسی صورت میں نماز کی حالت میں بائیں طرف تھوکنے کی گنجائش ہے۔ ناجائز اور ناحق ٹیکس سے بچنے کے لئے ایسا حیلہ اختیار کرنا درست ہے، تاہم معاملہ صاف ستھرا ہو کہ بائع اور مشتری کے درمیان کسی قسم کے نزاع کا اندیشہ مستقبل میں نہ ہو، البتہ جو جائز اور مناسب ٹیکس ہوں ان میں ایسا نہ کیا جائے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند