Frequently Asked Questions
متفرقات
Ref. No. 2513/45-3846
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بسم اللہ پڑھنے کے بہت سے فضائل احادیث میں مذکور ہیں، اور یقینا اس کی برکتیں بہت ہیں، اور یہ سعادتوں کی کنجی ہے، مگر مذکورہ واقعہ کی حقیقت کا علم نہیں ہے۔ کسی بزرگ کی مجلس کا واقعہ بیان کیاجاتاہے، اس کی صحت کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی ہے۔ احادیث کے ذخیرہ کے ہوتے ہوئے اس طرح کے قصوں کو بیان کرنے سے احتراز کرنا چاہئے ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 38 / 1147
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دعاء کے لئے نہ تو کوئی وقت متعین ہے اور نہ ہی ممنوع ہے۔ ادعوا ربکم تضرعا وخفیۃ سے معلوم ہوا کہ ہاتھ اٹھاکر دعاء مانگناتضرع کی ایک شکل ہے اس لئے اس کی بھی ممانعت نہیں، البتہ لازم نہ سمجھنا چاہئے اور دعاء کے آداب کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1312/42-686
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جاندار کی تصویر کھینچنا اور بنانا حرام ہے ، البتہ دیکھنے میں تفصیل یہ ہے کہ اگر عورت کی تصویر فتنہ کا باعث بنے تو مرد کے لئے کسی اجنبیہ کی تصویر حرام ہے ۔ لیکن محرم یا جانوروں کی تصویر میں اس قدر شدت تو نہیں پھر بھی اس کے دیکھنےسے بچنا چاہئے۔ احادیث میں جس چیز کی انتہائی تاکید کے ساتھ مذمت بیان کی گئی ہو اس کا دیکھنا کوئی پسندیدہ بات نہیں ہوسکتی ہے۔
(وأما بيان القسم الرابع) فنقول: نظر الرجل إلى المرأة ينقسم أقساما أربعة: نظر الرجل إلى زوجته وأمته، ونظر الرجل إلى ذوات محارمه، ونظر الرجل إلى الحرة الأجنبية، ونظر الرجل إلى إماء الغير. أما النظر إلى زوجته ومملوكته فهو حلال من قرنها إلى قدمها عن شهوة وغير شهوة وهذا ظاهر إلا أن الأولى أن لا ينظر كل واحد منهما إلى عورة صاحبه، كذا في الذخيرة. والمراد بالأمة هاهنا هي التي يحل له وطؤها، وأما إذا كانت لا تحل له كأمته المجوسية أو المشركة أو كانت أمه أو أخته من الرضاع أو أم امرأته أو بنتها فلا يحل له (الھندیۃ 5/327، الباب الثامن فیما یحل للرجل النظر الیہ)
4489- عَنْ أَبِي طَلْحَةَ) : أَيْ سَهْلِ بْنِ زَيْدٍ الْأَنْصَارِيِّ، زَوْجِ أُمِّ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ (قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَاتَدْخُلُ) : بِصِيغَةِ التَّأْنِيثِ وَجُوِّزَ تَذْكِيرُهُ (الْمَلَائِكَةُ) : أَيْ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ لَا الْحَفَظَةُ وَمَلَائِكَةُ الْمَوْتِ، وَفِيهِ إِشَارَةٌ إِلَى كَرَاهَتِهِمْ ذَلِكَ أَيْضًا، لَكِنَّهُمْ مَأْمُورُونَ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ. (بَيْتًا) أَيْ مَسْكَنًا (فِيهِ كَلْبٌ) : أَيْ إِلَّا كَلْبَ الصَّيْدِ وَالْمَاشِيَةِ وَالزَّرْعِ وَقِيلَ: إِنَّهُ مَانِعٌ أَيْضًا وَإِنْ لَمْ يَكُنِ اتِّخَاذُهُ حَرَامًا (وَلَا تَصَاوِيرُ) : يَعُمُّ جَمِيعَ أَنْوَاعِ الصُّوَرِ، وَقَدْ رَخَّصَ فِيمَا كَانَ فِي الْأَنْمَاطِ الْمَوْطُؤَةِ بِالْأَرْجُلِ عَلَى مَا ذَكَرَهُ ابْنُ الْمَلَكِ. قَالَ الْخَطَّابِيُّ: إِنَّمَا لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ أَوْ صُورَةٌ مِمَّا يَحْرُمُ اقْتِنَاؤُهُ مِنَ الْكِلَابِ وَالصُّوَرِ، وَأَمَّا مَا لَيْسَ بِحَرَامٍ مِنْ كَلْبِ الصَّيْدِ وَالزَّرْعِ وَالْمَاشِيَةِ وَمِنَ الصُّورَةِ الَّتِي تُمْتَهَنُ فِي الْبِسَاطِ وَالْوِسَادَةِ وَغَيْرِهِمَا، فَلَا يَمْنَعُ دُخُولَ الْمَلَائِكَةِ بَيْتَهُ. قَالَ النَّوَوِيُّ: وَالْأَظْهَرُ أَنَّهُ عَامٌّ فِي كُلِّ كَلْبٍ وَصُورَةٍ، وَأَنَّهُمْ يَمْتَنِعُونَ مِنَ الْجَمِيعِ، لِإِطْلَاقِ الْأَحَادِيثِ، وَلِأَنَّ الْجَرْوَ الَّذِي كَانَ فِي بَيْتِ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - تَحْتَ السَّرِيرِ كَانَ لَهُ فِيهِ عُذْرٌ ظَاهِرٌ ; لِأَنَّهُ لَمْ يَعْلَمْ بِهِ، وَمَعَ هَذَا امْتَنَعَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ مِنْ دُخُولِ الْبَيْتِ وَعَلَّلَهُ بِالْجَرْوِ.
وَقَالَ الْعُلَمَاءُ: سَبَبُ امْتِنَاعِهِمْ مِنَ الدُّخُولِ فِي بَيْتٍ فِيهِ صُورَةٌ كَوْنُهَا مِمَّا يُعْبَدُ مِنْ دُونِ اللَّهِ تَعَالَى، وَمِنَ الدُّخُولِ فِي بَيْتٍ فِيهِ كَلْبٌ كَوْنُهُ يَأْكُلُ النَّجَاسَةَ، وَلِأَنَّ بَعْضَهُ يُسَمَّى شَيْطَانًا، كَمَا وَرَدَ فِي الْحَدِيثِ: وَالْمَلَائِكَةُ ضِدُّ الشَّيَاطِينِ، وَلِقُبْحِ رَائِحَتِهِ، وَمَنِ اقْتَنَاهُ عُوقِبَ بِحِرْمَانِ دُخُولِ الْمَلَائِكَةِ بَيْتَهُ، وَصَلَاتِهِمْ عَلَيْهِ، وَاسْتِغْفَارِهِمْ لَهُ، وَهَؤُلَاءِ الْمَلَائِكَةُ غَيْرُ الْحَفَظَةِ لِأَنَّهُمْ لَايُفَارِقُونَ الْمُكَلَّفِينَ، قَالَ أَصْحَابُنَا وَغَيْرُهُمْ مِنَ الْعُلَمَاءِ: تَصْوِيرُ صُورَةِ الْحَيَوَانِ حَرَامٌ شَدِيدُ التَّحْرِيمِ، وَهُوَ مِنَ الْكَبَائِرِ لِأَنَّهُ مُتَوَعَّدٌ عَلَيْهِ بِهَذَا الْوَعِيدِ الشَّدِيدِ الْمَذْكُورِ فِي الْأَحَادِيثِ، سَوَاءً صَنَعَهُ فِي ثَوْبٍ أَوْ بِسَاطٍ أَوْ دِرْهَمٍ أَوْ دِينَارٍ أَوْ غَيْرِ ذَلِكَ، وَأَمَّا تَصْوِيرُ صُورَةِ الشَّجَرِ وَالرَّجُلِ وَالْجَبَلِ وَغَيْرِ ذَلِكَ، فَلَيْسَ بِحَرَامٍ. هَذَا حُكْمُ نَفْسِ التَّصْوِيرِ، وَأَمَّا اتِّخَاذُ الْمُصَوَّرِ بِحَيَوَانٍ، فَإِنْ كَانَ مُعَلَّقًا عَلَى حَائِطٍ سَوَاءً كَانَ لَهُ ظِلٌّ أَمْ لَا، أَوْ ثَوْبًا مَلْبُوسًا أَوْ عِمَامَةً أَوْ نَحْوَ ذَلِكَ، فَهُوَ حَرَامٌ، وَأَمَّا الْوِسَادَةُ وَنَحْوُهَا مِمَّا يُمْتَهَنُ فَلَيْسَ بِحَرَامٍ، وَلَكِنْ هَلْ يَمْنَعُ دُخُولَ الْمَلَائِكَةِ فِيهِ أَمْ لَا؟ فَقَدْ سَبَقَ.
قَالَ الْقَاضِي عِيَاضٌ: وَمَا وَرَدَ فِي تَصْوِيرِ الثِّيَابِ لِلُعَبِ الْبَنَاتِ فَمُرَخَّصٌ، لَكِنْ كَرِهَ مَالِكٌ شِرَاءَهَا لِلرَّجُلِ، وَادَّعَى بَعْضُهُمْ أَنَّ إِبَاحَةَ اللُّعَبِ بِهِنَّ لِلْبَنَاتِ مَنْسُوخٌ بِهَذِهِ الْأَحَادِيثِ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ. (مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ) . وَفِي الْجَامِعِ الصَّغِيرِ: رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَالشَّيْخَانِ، وَالتِّرْمِذِيُّ، وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ عَنْ أَبِي طَلْحَةَ مَرْفُوعًا وَلَفْظُهُ: " «لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ وَلَا صُورَةٌ» ". وَرَوَاهُ أَحْمَدُ، وَالتِّرْمِذِيُّ، وَابْنُ حِبَّانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَلَفْظُهُ: " «إِنَّ الْمَلَائِكَةَ لَا تَدْخُلُ بَيْتًا فِيهِ تَمَاثِيلُ أَوْ صُورَةٌ» ". وَرَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ عَنْ عَلِيٍّ بِلَفْظِ: «إِنَّ الْمَلَائِكَةَ لَا تَدْخُلُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ وَلَا صُورَةٌ» ".
(مرقاۃ المفاتیح، كتاب اللباس، بَابُ التَّصَاوِيرِ، الْفَصْلُ الْأَوَّلُ، 7 / 2848، ط: دار الفكر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 39 / 1005
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پرورش کے لئےگود لینا درست ہے تاہم لڑکی کے بالغ ہونے کے بعد پردہ کا اہتمام رکھاجائے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2516/45-3849
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر فاسق کا فسق مشہور ہے تو ایسے شخص کو ابتداء سلام کرنا مکروہ ہے، لیکن اگر وہ سلام کرے تو جواب دینے کی گنجائش ہے۔ تاہم اگر کوئی گناہ کبیرہ کا مرتکب ہو مگر اس کا فسق سب پر عیاں نہ ہو اور وہ اپنے فسق کا اظہار نہ کرتا ہو تو اسے ابتداء بھی سلام کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ علاوہ ازیں اگر فاسق کو سلام کرنے سے اس سے رابطہ کرکے اس کی اصلاح مقصود ہو تو بھی سلام کرنا جائز ہے۔
فلا يسلم ابتداء على كافر لحديث «لا تبدءوا اليهود ولا النصارى بالسلام فإذا لقيتم أحدهم في طريق فاضطروه إلى أضيقه» رواه البخاري وكذا يخص منه الفاسق بدليل آخر، وأما من شك فيه فالأصل فيه البقاء على العموم حتى يثبت الخصوص، ويمكن أن يقال إن الحديث المذكور كان في ابتداء السلام لمصلحةالتأليف ثم ورد النهي اهـ فليحفظ.ولو سلم يهودي أو نصراني أو مجوسي على مسلم فلا بأس بالرد (و) لكن (لا يزيد على قوله وعليك) كما في الخانية
(قوله وكذا يخص منه الفاسق) أي لو معلنا وإلا فلا يكره كما سيذكره (قوله وأما من شك فيه) أي هل هو مسلم أو غيره وأما الشك بين كونه فاسقا أو صالحا فلا اعتبار له بل يظن بالمسلمين خيرا ط (قوله على العموم) أي المأخوذ من قوله صلى الله تعالى عليه وسلم «سلم على من عرفت ومن لم تعرف» ط (قوله إن الحديث) أي الأول المفيد عمومه شمول الذمي (قوله لمصلحة التأليف ) أي تأليف قلوب الناس واستمالتهم باللسان والإحسان إلى الدخول في الإسلام (قوله ثم ورد النهي) أي في الحديث الثاني لما أعز الله الإسلام (قوله فلا بأس بالرد) المتبادر منه أن الأولى عدمه ط لكن في التتارخانية، وإذا سلم أهل الذمة ينبغي أن يرد عليهم الجواب وبه نأخذ.(قوله ولكن لا يزيد على قوله وعليك) لأنه قد يقول: السام عليكم أي الموت كما قال بعض اليهود للنبي - صلى الله عليه وسلم - فقال له " وعليك " فرد دعاءه عليه وفي التتارخانية قال محمد: يقول المسلم وعليك ينوي بذلك السلام لحديث مرفوع إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه قال: «إذا سلموا عليكم فردوا عليه )الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 412) ")
ويكره السلام على الفاسق لو معلنا وإلا لا
(قوله لو معلنا) تخصيص لما قدمه عن العيني؛ وفي فصول العلامي: ولا يسلم على الشيخ المازح الكذاب واللاغي؛ ولا على من يسب الناس أو ينظر وجوه الأجنبيات، ولا على الفاسق المعلن، ولا على من يغني أو يطير الحمام ما لم تعرف توبتهم ويسلم على قوم في معصية وعلى من يلعب بالشطرنج ناويا أن يشغلهم عما هم فيه عند أبي حنيفة وكره عندهما تحقيرا لهم )الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 415
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2811/45-4387
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جمعہ کے دن سورہ طہ اور سورہ ممتحنہ کی تلاوت کرکے، اللہ تعالی سے دعا کریں، اس کے علاوہ چلتے پھرتے ہر وقت کثرت سے 'یالطیف' کا ورد کرتے رہیں، گناہوں سے توبہ کریں اور حلال روزی استعمال کریں، ان شاء اللہ جلد اچھا رشتہ آجائے گا۔ مزید یہ کہ سورہ یونس کی آیت 'فلما جاء السحرۃ سے 'المجرمون' تک تین بار پڑھ کر تھوڑے سے پانی پر دم کرکے رکھیں اور غسل کرنے کے بعد اس کو سر پر ڈال لیں پانی اتنا ہی ہو کہ نیچے نہ گرے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 37 / 1052
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: سلام وجواب زبان سے کرنا چاہئے، دوری ہو اور تحریراً سلام وجواب ہو تو مکمل سوال وجواب لکھنا چاہئے۔ تاہم اگر مذکورہ اشارہ لکھا گیا تو بھی ناجائزنہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No 1917/43-1806
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صفوان کا معنی ہے چکنا پتھر۔ صفوان نام کے کئی صحابہ بھی ہوئے ہیں، اس لئے صفوان نام رکھنا درست ہے۔ ریان کا معنی ہے سیراب کرنے والا، روزہ دار جس دروازہ سے جنت میں داخل ہوں گے اس دروازہ کا نام بھی ریان ہے۔ اس لئے یہ نام بھی درست ہے۔ صفوان نام رکھنا بہتر ہے کہ اس نام کے کئی صحابہ ہیں، اور صحابہ کے نام پر نام رکھنا زیادہ پسندیدہ ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2339/44-3520
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب شریعت نے دوسری شادی کا اختیار دیا ہے اور آپ کو ضرورت بھی ہے تو آپ کو شادی کرلینی چاہئے، ہاں آپ ایسا ضرور کرسکتی ہیں کہ کوئی ایسا آدمی تلاش کریں جو بچیوں کی دیکھ بھال کے ساتھ آپ کو خوش رکھ سکے۔لیکن اپنے ہاتھ سے خودلذتی میں مبتلاء ہونا جائز نہیں ہے، آپ نے جو کچھ کیا اس پر توبہ واستغفار کریں، اللہ تعالی معاف کرنے والاہے۔ مناسب رشتہ دیکھ کر شادی کرلینے میں ہر طرح کی حفاظت ہوگی ان شاء اللہ۔
وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ} ( سورۃ المومنون ، آیت ، ۵ تا ۸)
’’عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " سبعة لاينظر الله عز وجل إليهم يوم القيامة، ولايزكيهم، ولايجمعهم مع العالمين، يدخلهم النار أول الداخلين إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، فمن تاب تاب الله عليه: الناكح يده، والفاعل والمفعول به، والمدمن بالخمر، والضارب أبويه حتى يستغيثا، والمؤذي جيرانه حتى يلعنوه، والناكح حليلة جاره". " تفرد به هكذا مسلمة بن جعفر هذا ". قال البخاري في التاريخ".( شعب الإيمان (7/ 329)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2393/44-3624
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہمارے عرف میں ’’سید‘‘ صرف وہ گھرانے ہیں جو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے صاحب زادگان حضرت حسن و حضرت حسین رضی اللہ عنہما کی اولاد سے ہوں، ان ہی کا لقب ’’سید‘‘ ہے، اور یہ ان کی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبی نسبت کی علامت ہے؛ لہٰذا موجودہ دور میں جو بھی سید ہونے کا مدعی ہو اس سے اس کا نسب معلوم کرنا چاہئے۔ میری معلومات کے مطابق ہندوستان میں شاہ برادری کی علاقائی اعتبارسے مختلف قسمیں ہیں، ہوسکتاہے ان میں سے کوئی سید ہونے کا مدعی ہو۔ بہرحال جو دعوی کرے اسی سے اس سلسلسہ میں معلوم کرنا بہتر ہوگا۔
۔۔۔ فحث على كتاب الله ورغب فيه، ثم قال: «وأهل بيتي، أذكركم الله في أهل بيتي، أذكركم الله في أهل بيتي، أذكركم الله في أهل بيتي». فقال له حصين: ومن أهل بيته؟ يا زيد! أليس نساؤه من أهل بيته؟ قال: نساؤه من أهل بيته، ولكن أهل بيته من حرم الصدقة بعده، قال: ومن هم؟ قال: هم آل علي وآل عقيل، وآل جعفر، وآل عباس قال: كل هؤلاء حرم الصدقة؟ قال: نعم".(صحيح مسلم (4 / 1873)
"(قوله: وعلى آله) اختلف في المراد بهم في مثل هذا الموضع؛ فالأكثرون أنهم قرابته صلى الله عليه وسلم الذين حرمت عليهم الصدقة على الاختلاف فيهم، وقيل: جميع أمة الإجابة، وإليه مال مالك، واختاره الأزهري والنووي في شرح مسلم، وقيل غير ذلك، شرح التحرير.وذكر القهستاني: أن الثاني مختار المحققين". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 13)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند