متفرقات

Ref. No. 1632/431246

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر کوئی کسی کا کوئی  اہم عضو جان بوجھ کر  تلف کردے تو اس  کی تلافی کے لئے فقہ  اسلامی کے مطابق بعض صورتوں میں قصاص آتاہے اور بعض صورتوں میں دیت یا ضمان لازم آتاہے۔ صورت مسئولہ میں چونکہ غلطی سے آنکھ ضائع ہوئی ہے تودونوں آنکھوں کے ضیاع کی صورت میں کامل دیت آئے گی اور ایک آنکھ کے ضائع ہونے کی صورت میں  نصف دیت کا ضمان لازم آئے گا۔   کامل دیت دس ہزار درہم یعنی  آج کے حساب  سے  (30.618) تیس کلو اور چھ سو اٹھارہ گرام چاندی یا اس کے برابر کی قیمت ہے۔آج بتاریخ 28/09/2021  اس مقدار چاندی کی قیمت روپئے میں گیارہ لاکھ بائیس ہزار ایکسو اسی  (1122180)  روپئے انڈین ہوتے ہیں۔  نصف دیت پانچ ہزار درہم ہوں گے یعنی آج کے حساب سے (15.309) پندرہ کلو اور تین سو نو گرام چاندی یا اس  کے برابر کی قیمت: آج  بتاریخ 28/09/2021 نصف دیت  یعنی 15.309 کلو گرام چاندی کی قیمت(561090) انڈین روپئے  ہے۔  اگر ایک آنکھ ضائع ہوئی ہے تو نصف دیت یعنی پانچ لاکھ  اکسٹھ  ہزار نوے روپئے دینے ہوں گے۔

 (قوله والعينين إلخ) ؛ لأن في تفويت الاثنين من هذه الأشياء تفويت جنس المنفعة أو كمال الجمال فيجب كمال الدية، وفي تفويت أحدها تفويت النصف فيجب نصف الدية هداية  (شامی، کتاب الدیات 6/578)

وفي معراج الدراية: ومن نظر في بيت إنسان من ثقب أو شق باب أو نحوه فطعنه صاحب الدار بخشبة أو رماه بحصاة ففقأ عينه يضمن عندنا. وعند الشافعي لا يضمن، لما روى أبو هريرة - رضي الله تعالى عنه - أنه - عليه الصلاة والسلام - قال «لو أن امرأ اطلع عليك بغير إذن فحذفته بحصاة وفقأت عينه لم يكن عليك جناح» . ولنا قوله - عليه الصلاة والسلام - «في العين نصف الدية» وهو عام، ولأن مجرد النظر إليه لا يبيح الجناية عليه كما لو نظر من الباب المفتوح وكما لو دخل بيته ونظر فيه أو نال من امرأته ما دون الفرج لم يجز قلع عينه؛ لأن قوله - عليه الصلاة والسلام - «لا يحل دم امرئ مسلم» الحديث يقتضي عدم سقوط عصمته، والمراد بما روى أبو هريرة المبالغة في الزجر عن ذلك اهـ ومثله في ط عن الشمني، وقوله وكما لو دخل بيته إلخ مخالف لما ذكره الشارح إلا أن يحمل ما ذكره على ما إذا لم يمكن تنحيته بغير ذلك، وما هنا على ما إذا أمكن فليتأمل  (شامی، باب القود فیما دون النفس 6/550)

فقأ عين صبي حين ولد أو بعد أيام، فقال: لم يبصر بها، أو قال: لا أعلم أبصر بها أم لا فالقول له، وعليه أرش حكومة عدل فيما شأنه، وإن كان يعلم أنه يبصر بها بأن شهد شاهدان بسلامتها إن كان خطأ ففيه نصف الدية، وإن كان عمدا ففيه القصاص كذا في الظهيرية. (الھندیۃ الباب الرابع فی القصاص فیمادون النفس 6/10)

ولأن كل الدية عند قطع العضوين يقسم عليهما فيكون في أحدهما النصف؛ لأن وجوب الكل في العضوين لتفويت كل المنفعة المقصودة من العضوين، والفائت بقطع أحدهما النصف فيجب فيه نصف الدية، ويستوي فيه اليمين واليسار لأن الحديث لا يوجب الفصل بينهما، وسواء ذهب بالجناية على العين نور البصر دون الشحمة أو ذهب البصر مع الشحمة لأن المقصود من العين البصر، والشحمة فيه تابعة. (بدائع، فصل فی الجروح التی یجب فیھا ارش مقدر 7/314)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 2025/44-2015

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  عمامہ اس طرح باندھنا کہ سر کا درمیانی حصہ  بالکل کھلارہے  مکروہ  ہے۔ لیکن اگر ٹوپی سےسرکا درمیانی حصہ ڈھکاہوا ہے تو یہ سنت کے مطابق ہی ہوگا اور اس کو بدعت یا کسی دوسرے کی مشابہت سے تعبیر نہیں کیاجائے گا۔

ويكره ان يصلي وهو معتجر لنهي الرسول عليه الصلاة والسلام عن الاعتجار في الصلاة وتفسيره ان يشد العمامة حول راسه ويبدي هامته مكشوفاً (المبسوط للسرخسی، کتاب الصلوۃ، باب مکروھات الصلوۃ، جلد 1، صفحہ 31، مطبوعہ بیروت )

   ويكره الاعتجار وهو ان يكور عمامته ويترك وسط راسه مكشوفاً (تبیین الحقائق، کتاب الصلوۃ، باب ما یفسد الصلوۃ وما یکرہ فیھا، جلد 1، صفحہ 164، مطبوعہ ملتان )

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 39 / 1023

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  بیوہ عورت چار ماہ دس دن عدت میں بیٹھے گی۔ اس دوران گھر سے باہر نکلنا، بناؤ سنگار کرنا ممنوع ہے۔ دوا و علاج کے لئے یا کسی واقعی ضرورت کے لئے گھر سے باہر نکل سکتی ہے۔ غیرمحرموں سے عدت کے دوران بھی پردہ لازم ہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 41/983

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال میں اس کی وضاحت نہیں ہے کہ آپ کس طرح کی تفصیل چاہتے ہیں، اس لئے بہتر ہوگا کہ آپ معارف القرآن میں سورہ توبہ  کا مطالعہ کرلیں، وہاں تمام و اسباب و علل کے ساتھ بحث کی گئی ہے شاید وہاں آپ کے تمام شبہات کے جوابات  مل جائیں۔

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 2523/45-3922

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ میت کو قبر میں اتار کرکفن کے سر، در میانی حصے اور قدموں کی طر ف کفن میں لگی گانٹھیں کھول دینا کافی ہیں۔ چہرہ کھولنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ قبر میں اتارنے کے بعد چہرہ دکھانے کے سلسلے میں بعض حضرات نے رشتہ داروں کے لیے گنجائش دی ہے کہ قبر میں اتارنے کے بعد رشتہ دارکو چہرہ کھول کر دکھایا جاسکتا ہے لیکن چہرہ کھلا رکھنے کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے ۔ سالت یوسف بن محمد عمن يرفع الستر عن وجه المیت لیراه قال لا بأس به (الفتاوی التاتارخانية 78/3)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No 1558/43-1082

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ راستہ بند کرنے سے لوگوں کو کافی دشواری پیش آتی ہے۔ لوگوں کے لئے آسانی پیدا کرنے کا حکم ہے، راستہ بند کرکے نماز کا اجتماع یا جلسہ وغیرہ کرنا نامناسب عمل ہےالا یہ کہ کوئی مجبوری ہو۔ حدیث میں راستے کے جو حقوق بیان کئے گئے ہیں ان کی بھی خلاف ورزی ہے۔ اس لئے کسی بھی دینی ، سیاسی و سماجی اجتماع کے لئے راستہ ہرگز نہ بند کریں، اس سے دوسرے بدگمان بھی ہوتے ہیں اور شرپسندوں کو مواقع بھی فراہم ہوجاتے ہیں۔ البتہ اگر دوسرا راستہ موجود ہو اور ایک راستہ بند کرنے سے زیادہ دشواری نہ ہوتی ہو اور راستہ بند کرنے کا کوئی معقول عذر ہو تو اس کی موقع ومناسبت کو دیکھتے ہوئے گنجائش نکل سکتی ہے۔ مجبوری میں بھی ایسی صورت اختیار کرنی چاہیے جس سے گزرنے والوں کی آمد ورفت میں  کم سے کم خلل  ہو اور انھیں تکلیف نہ پہنچے۔

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم " الإیمان بضع وسبعون شعبة فأفضلہا: قول لا إلہ إلا اللہ وأدناہا: إماطة الأذی عن الطریق الخ (مشکاة، ۱۲) وفي حدیث آخر: قال صلی اللہ علیہ وسلم قال: إیاکم والجلوس بالطرقات․ فقالوا: یا رسول اللہ ما لنا من مجالسنا بد نتحدث فیہا․ قال: فإذا أبیتم إلا المجلس فأعطوا الطریق حقہ قالوا: وما حق الطریق یا رسول اللہ قال: غض البصر وکف الأذی ورد السلام والأمر بالمعروف والنہی عن المنکر۔ متفق علیہ (مشکاة: 398)

بینما رجل یمشی بطریق وجد غصن شوک علی الطریق فاخرہ فشکر اللہ لہ فغفرلہ (بخاری ومسلم) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: لقد رأیت رجلا تتقلب فی الجنة فی شجرة قطعھا من ظہر الطریق کانت توذی الناس (مسلم) قال رسول اللّٰہ: نزع رجل لم یعمل خیرا قط: غصن شوک عن الطریق أما کان فی شجرة فقطعہ والقاہ واما کان موضوعا فأماطہ فشکر اللہ لہ بھا فأدخلہ الجنة (ابوداوٴد524) عن ابی طلحہ قال کنا قعودا بالأفینہ نتحدث فجاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقام علینا فقال: ما لکم ولمجالس الصعدات اجتنبوا مجالس الصعدات فقلنا انما قعدنا لغیر ما بأس، قعدنا نتذاکرا ونتحدث قال: اما لا، فادوا حقھا: غض البصر ورد السلام وحسن الکلام (مسلم:5610) قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم اتقوا اللعانین قالوا: وما اللعانان یا رسول اللہ! قال الذي یتخلی في طریق الناس أو في ظلہم (مسلم: 571) ن سہل بن معاذ عن أبیہ قال: غزونا مع النبي صلی اللہ علیہ وسلم فضیق الناس المنازل وقطعوا الطریق فبعث النبي صلی اللہ علیہ وسلم منادیا ینادي فی الناس: من ضیق منزلا أو قطع طریقا فلا جہاد لہ (أبو داوٴد: 3920)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 2405/44-3627

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ والدین کی قبر پر جاکر سورہ فاتحہ پڑھنے اور ایصال ثواب کرنے سے امید ہے کہ وہ راضی ہوجائیں، لیکن اس طرح والدین کی قبر پر کھڑے ہوکر ان سے معافی مانگنا، یا ان سے مخاطب ہو کر دعا کے لئے کہنا درست نہیں ہے۔ جو کچھ دعا کرنی ہے، اللہ سے دعا کرے اور اللہ سے ہی مانگے۔  

والتفسیر فی المسئلة أن التوسل بالمخلوق لہ تفاسیر ثلاثة: الأول: دعاوٴہ واستغاثتہ کدیدن المشرکین وہو حرام إجماعاً۔ الثانی: طلب الدعاء منہ ولم یثبت فی المیت بدلیل فیختص ہٰذا المعنی بالحی۔ والثالث: دعاء اللّٰہ ببرکة ہٰذا المخلوق المقبول، وہٰذا قد جوّزہ الجمہور۔ (بوادر النوادر ۲/۷۰۶-۷۰۸،زمزم دیوبند)

قال العلامة الآلوسي في روح المعاني (۶:۱۲۸، ۱۲۹، سورة المائدة، الآیة: ۳۵):إن الناس قد أکثروا من دعاء غیر اللہ تعالی من الأولیاء الأحیاء منھم والأموات وغیرھم ، مثل: یا سیدي فلان أغثني،ولیس ذلک من التوسل المباح في شییٴ، واللائق بحال الموٴمن عدم التفوہ بذلک وأن لا یحوم حماہ،وقد عدہ أناس من العلماء شرکا، وإن لایکنہ فھو قریب منہ ولا أری أحداً ممن یقول ذلک إلا وھو یعتقد أن المدعو الحي الغائب أو المیت المغیب یعلم الغیب أو یسمع النداء ویقدر بالذات أو بالغیر علی جلب الخیر ودفع الأذی وإلا لما دعاہ ولا فتح فاہ وفي ذلک بلاء من ربکم عظیم، فالحزم التجنب عن ذلک وعدم الطلب إلا من اللہ تعالی القوي الغني الفعال لما یرید الخ ۲،۳)

فتاوی محمودیہ، باب ما یتعلق باحوال القبور  والارواح، ج: 1، صفحہ: 611 و612، ط: مکتبہ الفاروق کراچی)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 2522/45-3923

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر آپ شرعی معذور نہیں ہیں اور نماز کی حالت میں پیشاب کے قطرے یا مذی کا خروج ہو جاءے تو آپ کا وضو ٹوٹ گیا نماز سے نکل کر ناپاک جگہ کو دھونا اور دوبارہ وضو کر کے نماز میں شریک ہونا ضروری ہے، جہاں تک ہو سکے پیشاب کے قطرے سے بچنے کی پوری کوشش کریں اور تمام تر ضروری تدبیر اختیار کرنے کے بعد بھی اگر چھینٹیں کپڑے پر لگ جائیں  تو ان شاء اللہ مؤاخذہ نہیں ہوگا، ہاں طہارت کے شرعی احکام لاگو ہوں گے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 1921/43-1823

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   اگر دینےوالے نکاح خواں کو پیسے دیتے ہیں تو اس کی مرضی کے بغیر رسید بنالینا جائز نہیں ہے، البتہ اگر وہ خوشی سے مسجد کو دیدے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور اگر دینےوالوں  نے رقم  مسجد میں دی ہے تو وہ رقم مسجد کی ہی ہے، کسی کو اپنے ذاتی استعمال میں لانا جائز نہیں ہے۔ الحاصل دینے والے جس کو رقم دیں گے وہی اس کا مالک ہوگا، اور مالک کی مرضی کے بغیر اس سے چندہ لینا یا رسید بنادینا جائز نہیں ہے۔

وَفِي فَتَاوَى النَّسَفِيِّ: إذَا كَانَ الْقَاضِي يَتَوَلَّى الْقِسْمَةَ بِنَفْسِهِ حَلَّ لَهُ أَخْذُ الْأُجْرَةِ، وَكُلُّ نِكَاحٍ بَاشَرَهُ الْقَاضِي وَقَدْ وَجَبَتْ مُبَاشَرَتُهُ عَلَيْهِ كَنِكَاحِ الصِّغَارِ وَالصَّغَائِرِ فَلَايَحِلُّ لَهُ أَخْذُ الْأُجْرَةِ عَلَيْهِ، وَمَا لَمْ تَجِبْ مُبَاشَرَتُهُ عَلَيْهِ حَلَّ لَهُ أَخْذُ الْأُجْرَةِ عَلَيْهِ، كَذَا فِي الْمُحِيطِ. وَاخْتَلَفُوا فِي تَقْدِيرِهِ، وَالْمُخْتَارُ لِلْفَتْوَى أَنَّهُ إذَا عَقَدَ بِكْرًا يَأْخُذُ دِينَارًا وَفِي الثَّيِّبِ نِصْفَ دِينَارٍ وَيَحِلُّ لَهُ ذَلِكَ هَكَذَا قَالُوا، كَذَا فِي الْبُرْجَنْدِيِّ"( كتاب أدب القاضي، الْبَابُ الْخَامِسَ عَشَرَ فِي أَقْوَالِ الْقَاضِي وَمَا يَنْبَغِي لِلْقَاضِي أَنْ يَفْعَل، ٣ / ٣٤٥)

عن أبي حرة الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا! ألا لا یحل مال امرء إلا بطیب نفس منہ۔ (مشکاة المصابیح / باب الغصب والعاریة، الفصل الثاني ۲۵۵)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 37 / 1061

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ محض آڈیو کی بنیاد پر جرم ثابت نہیں ہوسکتا ہے، ہاں اگر وہ اس کا اقرار کرلے یا اس کی تصدیق کرے یا شرعی شہادت پیش ہوجائے تو الزام کا ثبوت ہوجائے گا۔

۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند