Frequently Asked Questions
متفرقات
Ref. No. 2393/44-3624
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہمارے عرف میں ’’سید‘‘ صرف وہ گھرانے ہیں جو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے صاحب زادگان حضرت حسن و حضرت حسین رضی اللہ عنہما کی اولاد سے ہوں، ان ہی کا لقب ’’سید‘‘ ہے، اور یہ ان کی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبی نسبت کی علامت ہے؛ لہٰذا موجودہ دور میں جو بھی سید ہونے کا مدعی ہو اس سے اس کا نسب معلوم کرنا چاہئے۔ میری معلومات کے مطابق ہندوستان میں شاہ برادری کی علاقائی اعتبارسے مختلف قسمیں ہیں، ہوسکتاہے ان میں سے کوئی سید ہونے کا مدعی ہو۔ بہرحال جو دعوی کرے اسی سے اس سلسلسہ میں معلوم کرنا بہتر ہوگا۔
۔۔۔ فحث على كتاب الله ورغب فيه، ثم قال: «وأهل بيتي، أذكركم الله في أهل بيتي، أذكركم الله في أهل بيتي، أذكركم الله في أهل بيتي». فقال له حصين: ومن أهل بيته؟ يا زيد! أليس نساؤه من أهل بيته؟ قال: نساؤه من أهل بيته، ولكن أهل بيته من حرم الصدقة بعده، قال: ومن هم؟ قال: هم آل علي وآل عقيل، وآل جعفر، وآل عباس قال: كل هؤلاء حرم الصدقة؟ قال: نعم".(صحيح مسلم (4 / 1873)
"(قوله: وعلى آله) اختلف في المراد بهم في مثل هذا الموضع؛ فالأكثرون أنهم قرابته صلى الله عليه وسلم الذين حرمت عليهم الصدقة على الاختلاف فيهم، وقيل: جميع أمة الإجابة، وإليه مال مالك، واختاره الأزهري والنووي في شرح مسلم، وقيل غير ذلك، شرح التحرير.وذكر القهستاني: أن الثاني مختار المحققين". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 13)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2517/45-3830
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نماز تراویح باجماعت پڑھنا سنت ہے، تراویح کی نماز خود نبی کریم ﷺ نے اور صحابہ کرام نے باجماعت ادافرمائی ہے۔ اس لئے تراویح باجماعت پڑھنا سنت ہے۔ نماز وتر رمضان میں نماز تراویح کے تابع ہے اور باجماعت ادا کرنا مستحب ہے، یہ حضرت عمر ؓکے اثر سے ثابت ہے اور اسی پر امت کا اجماع ہے۔
اگر تراویح یا وتر کی جماعت چھوٹ جائے تو تنہا ادا کرلے لیکن تراویح کو تنہا پڑھنے کی عادت بنالینا درست نہیں ہے ورنہ گنہگار ہوگا۔ البتہ نماز وتر باجماعت مستحب ہے، اس لئے اگر کوئی اس کو تنہا پڑھے تو اضافی ثواب سے محروم ہوگا لیکن کوئی گناہ نہیں ہوگا۔
اسی طرح تراویح میں پورا قرآن سننا بھی بہتر اور افضل ہے، اگر کوئی چھوٹی تراویح باجماعت پڑھے، تو اس کو پورا قرآن نہ سننے پر گناہ تو نہیں ہوگا لیکن رمضان کے بابرکت مہینہ میں بڑے اجر سے محروم رہے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 893/41-17B
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حکومت کی پابندیوں پر عمل کرنا ہر شہری کے لئے ضروری ہوتا ہے،لہذا پابندیوں پر عمل کرنا چاہئے، تاہم کسی حکومت کے قوانین میں جو چیزیں شریعت کے اعتبار سے حلال ہیں ان کو حرام اور جو حرام ہیں ان کو حلال نہیں کرسکتے۔
یاایھاالذین آمنوا کلوا من طیبات ما رزقناکم (القرآن-البقرۃ)۔ یا ایھاالنبی لم تحرم ما احل اللہ لک (القرآن -التحریم)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1453/42-929
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسے بچہ پر اگرچہ یتیم کی اصطلاحی تعریف صادق نہیں آتی ہے تاہم ولد الزنا کی کفالت پر بھی یتیم کی کفالت کا اجروثواب ملے گا، حدیث میں ہے: انا و کافل الیتیم لہ او لغیرہ فی الجنۃ کھاتین واشار باصبعیہ السبابۃ والوسطی ۔ یہاں پر لہ سے مراد معروف النسب ہے اور لغیرہ سے مراد مجہول النسب ہے۔
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «كافل اليتيم له أو لغيره أنا وهو كهاتين في الجنة» وأشار مالك بالسبابة والوسطى (صحیح مسلم، باب الاحسان الی الارملۃ والمسکین 4/2287) ولد الزنا هو الذي تأتي به أمه من الزنا (ر: ولد الزنا ف1) . والصلة بين ولد الزنا واليتيم أن كليهما لا أب لهما إلا أن ولد الزنا لم يكن له أب شرعا بخلاف اليتيم فإنه قد كان له أب۔ (الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ، الوصیۃ للیتیم 45/259)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2168/44-2274
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کسی سفید فرد کو دیکھنا روحانیت کی دلیل ہے، یعنی ذکر واذکار کا جو بھی آپ کا معمول ہے اس کی وجہ سے جنات یا فرشتہ رحمت کی شکل میں ایک روحانی شیئ آپ پر متوجہ وملتفت ہے۔ نیز دو کمروں کا نظر آنا اس طرف اشارہ ہے کہ کبھی کبھی آپ کا خیال سابقہ مذہب کی طرف چلاجاتاہے۔ اور چہرہ صاف نظر نہ آنا یا ارد گرد سانپ کا نظر آنا اس بات کی دلیل ہے کہ ذکر و اذکار یا اعمال میں کوئی نقص واقع ہورہاہے۔ اس لئے آپ اخلاص کے ساتھ کثرت سے استغفار کریں، ادعیہ واذکار نیز اعمال صالحہ پر مداومت اختیار کریں،۔ اللہ تعالی ہم سب کے ایمان اور اعمال کی حفاظت فرمائے۔آمین
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2519/45-3851
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ انسان اپنےجسم اور اعضاء کاامین ہے، مالک نہیں ہے کہ جیسا چاہے ویسا تصرف کرسکے، اس لیے اپنےکسی عضو کو ہبہ کرنا یا بعد مرنے کے دوسرے کو دینے کی وصیت کرنا وغیرہ امورجائز نہیں ہیں۔ لہذا کسی انسانی عضوکا دوسرے انسان کے جسم میں استعمال کرنا خواہ معاوضہ کے ساتھ ہو یا بغیر معاوضہ کے ہو ، جائز نہیں ہے۔
"وَأَمَّا حُكْمُهَا فَوُجُوبُ الْحِفْظِ عَلَى الْمُودَعِ وَصَيْرُورَةُ الْمَالِ أَمَانَةً فِي يَدِهِ وَوُجُوبُ أَدَائِهِ عِنْدَ طَلَبِ مَالِكِهِ، كَذَا فِي الشُّمُنِّيِّ".
(4/338، کتاب الودیعہ، ط؛رشیدیہ)
"وَالْآدَمِيُّ مُحْتَرَمٌ بَعْدَ مَوْتِهِ عَلَى مَا كَانَ عَلَيْهِ فِي حَيَاتِهِ. فَكَمَا يَحْرُمُ التَّدَاوِي بِشَيْءٍ مِنْ الْآدَمِيِّ الْحَيِّ إكْرَامًا لَهُ فَكَذَلِكَ لَا يَجُوزُ التَّدَاوِي بِعَظْمِ الْمَيِّتِ. قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : «كَسْرُ عَظْمِ الْمَيِّتِ كَكَسْرِ عَظْمِ الْحَيِّ»" .
( شرح السیر الکبیر(1 /89)
"الِانْتِفَاعُ بِأَجْزَاءِ الْآدَمِيِّ لَمْ يَجُزْ، قِيلَ: لِلنَّجَاسَةِ، وَقِيلَ: لِلْكَرَامَةِ، هُوَ الصَّحِيحُ، كَذَا فِي جَوَاهِرِ الْأَخْلَاطِيِّ".
(5 / 354، الباب الثامن عشر في التداوي والمعالجات، ط: رشیدیة)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1632/431246
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کوئی کسی کا کوئی اہم عضو جان بوجھ کر تلف کردے تو اس کی تلافی کے لئے فقہ اسلامی کے مطابق بعض صورتوں میں قصاص آتاہے اور بعض صورتوں میں دیت یا ضمان لازم آتاہے۔ صورت مسئولہ میں چونکہ غلطی سے آنکھ ضائع ہوئی ہے تودونوں آنکھوں کے ضیاع کی صورت میں کامل دیت آئے گی اور ایک آنکھ کے ضائع ہونے کی صورت میں نصف دیت کا ضمان لازم آئے گا۔ کامل دیت دس ہزار درہم یعنی آج کے حساب سے (30.618) تیس کلو اور چھ سو اٹھارہ گرام چاندی یا اس کے برابر کی قیمت ہے۔آج بتاریخ 28/09/2021 اس مقدار چاندی کی قیمت روپئے میں گیارہ لاکھ بائیس ہزار ایکسو اسی (1122180) روپئے انڈین ہوتے ہیں۔ نصف دیت پانچ ہزار درہم ہوں گے یعنی آج کے حساب سے (15.309) پندرہ کلو اور تین سو نو گرام چاندی یا اس کے برابر کی قیمت: آج بتاریخ 28/09/2021 نصف دیت یعنی 15.309 کلو گرام چاندی کی قیمت(561090) انڈین روپئے ہے۔ اگر ایک آنکھ ضائع ہوئی ہے تو نصف دیت یعنی پانچ لاکھ اکسٹھ ہزار نوے روپئے دینے ہوں گے۔
(قوله والعينين إلخ) ؛ لأن في تفويت الاثنين من هذه الأشياء تفويت جنس المنفعة أو كمال الجمال فيجب كمال الدية، وفي تفويت أحدها تفويت النصف فيجب نصف الدية هداية (شامی، کتاب الدیات 6/578)
وفي معراج الدراية: ومن نظر في بيت إنسان من ثقب أو شق باب أو نحوه فطعنه صاحب الدار بخشبة أو رماه بحصاة ففقأ عينه يضمن عندنا. وعند الشافعي لا يضمن، لما روى أبو هريرة - رضي الله تعالى عنه - أنه - عليه الصلاة والسلام - قال «لو أن امرأ اطلع عليك بغير إذن فحذفته بحصاة وفقأت عينه لم يكن عليك جناح» . ولنا قوله - عليه الصلاة والسلام - «في العين نصف الدية» وهو عام، ولأن مجرد النظر إليه لا يبيح الجناية عليه كما لو نظر من الباب المفتوح وكما لو دخل بيته ونظر فيه أو نال من امرأته ما دون الفرج لم يجز قلع عينه؛ لأن قوله - عليه الصلاة والسلام - «لا يحل دم امرئ مسلم» الحديث يقتضي عدم سقوط عصمته، والمراد بما روى أبو هريرة المبالغة في الزجر عن ذلك اهـ ومثله في ط عن الشمني، وقوله وكما لو دخل بيته إلخ مخالف لما ذكره الشارح إلا أن يحمل ما ذكره على ما إذا لم يمكن تنحيته بغير ذلك، وما هنا على ما إذا أمكن فليتأمل (شامی، باب القود فیما دون النفس 6/550)
فقأ عين صبي حين ولد أو بعد أيام، فقال: لم يبصر بها، أو قال: لا أعلم أبصر بها أم لا فالقول له، وعليه أرش حكومة عدل فيما شأنه، وإن كان يعلم أنه يبصر بها بأن شهد شاهدان بسلامتها إن كان خطأ ففيه نصف الدية، وإن كان عمدا ففيه القصاص كذا في الظهيرية. (الھندیۃ الباب الرابع فی القصاص فیمادون النفس 6/10)
ولأن كل الدية عند قطع العضوين يقسم عليهما فيكون في أحدهما النصف؛ لأن وجوب الكل في العضوين لتفويت كل المنفعة المقصودة من العضوين، والفائت بقطع أحدهما النصف فيجب فيه نصف الدية، ويستوي فيه اليمين واليسار لأن الحديث لا يوجب الفصل بينهما، وسواء ذهب بالجناية على العين نور البصر دون الشحمة أو ذهب البصر مع الشحمة لأن المقصود من العين البصر، والشحمة فيه تابعة. (بدائع، فصل فی الجروح التی یجب فیھا ارش مقدر 7/314)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2025/44-2015
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عمامہ اس طرح باندھنا کہ سر کا درمیانی حصہ بالکل کھلارہے مکروہ ہے۔ لیکن اگر ٹوپی سےسرکا درمیانی حصہ ڈھکاہوا ہے تو یہ سنت کے مطابق ہی ہوگا اور اس کو بدعت یا کسی دوسرے کی مشابہت سے تعبیر نہیں کیاجائے گا۔
ويكره ان يصلي وهو معتجر لنهي الرسول عليه الصلاة والسلام عن الاعتجار في الصلاة وتفسيره ان يشد العمامة حول راسه ويبدي هامته مكشوفاً (المبسوط للسرخسی، کتاب الصلوۃ، باب مکروھات الصلوۃ، جلد 1، صفحہ 31، مطبوعہ بیروت )
ويكره الاعتجار وهو ان يكور عمامته ويترك وسط راسه مكشوفاً (تبیین الحقائق، کتاب الصلوۃ، باب ما یفسد الصلوۃ وما یکرہ فیھا، جلد 1، صفحہ 164، مطبوعہ ملتان )
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 39 / 1023
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بیوہ عورت چار ماہ دس دن عدت میں بیٹھے گی۔ اس دوران گھر سے باہر نکلنا، بناؤ سنگار کرنا ممنوع ہے۔ دوا و علاج کے لئے یا کسی واقعی ضرورت کے لئے گھر سے باہر نکل سکتی ہے۔ غیرمحرموں سے عدت کے دوران بھی پردہ لازم ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 41/983
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال میں اس کی وضاحت نہیں ہے کہ آپ کس طرح کی تفصیل چاہتے ہیں، اس لئے بہتر ہوگا کہ آپ معارف القرآن میں سورہ توبہ کا مطالعہ کرلیں، وہاں تمام و اسباب و علل کے ساتھ بحث کی گئی ہے شاید وہاں آپ کے تمام شبہات کے جوابات مل جائیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند