متفرقات

Ref. No 1558/43-1082

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ راستہ بند کرنے سے لوگوں کو کافی دشواری پیش آتی ہے۔ لوگوں کے لئے آسانی پیدا کرنے کا حکم ہے، راستہ بند کرکے نماز کا اجتماع یا جلسہ وغیرہ کرنا نامناسب عمل ہےالا یہ کہ کوئی مجبوری ہو۔ حدیث میں راستے کے جو حقوق بیان کئے گئے ہیں ان کی بھی خلاف ورزی ہے۔ اس لئے کسی بھی دینی ، سیاسی و سماجی اجتماع کے لئے راستہ ہرگز نہ بند کریں، اس سے دوسرے بدگمان بھی ہوتے ہیں اور شرپسندوں کو مواقع بھی فراہم ہوجاتے ہیں۔ البتہ اگر دوسرا راستہ موجود ہو اور ایک راستہ بند کرنے سے زیادہ دشواری نہ ہوتی ہو اور راستہ بند کرنے کا کوئی معقول عذر ہو تو اس کی موقع ومناسبت کو دیکھتے ہوئے گنجائش نکل سکتی ہے۔ مجبوری میں بھی ایسی صورت اختیار کرنی چاہیے جس سے گزرنے والوں کی آمد ورفت میں  کم سے کم خلل  ہو اور انھیں تکلیف نہ پہنچے۔

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم " الإیمان بضع وسبعون شعبة فأفضلہا: قول لا إلہ إلا اللہ وأدناہا: إماطة الأذی عن الطریق الخ (مشکاة، ۱۲) وفي حدیث آخر: قال صلی اللہ علیہ وسلم قال: إیاکم والجلوس بالطرقات․ فقالوا: یا رسول اللہ ما لنا من مجالسنا بد نتحدث فیہا․ قال: فإذا أبیتم إلا المجلس فأعطوا الطریق حقہ قالوا: وما حق الطریق یا رسول اللہ قال: غض البصر وکف الأذی ورد السلام والأمر بالمعروف والنہی عن المنکر۔ متفق علیہ (مشکاة: 398)

بینما رجل یمشی بطریق وجد غصن شوک علی الطریق فاخرہ فشکر اللہ لہ فغفرلہ (بخاری ومسلم) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: لقد رأیت رجلا تتقلب فی الجنة فی شجرة قطعھا من ظہر الطریق کانت توذی الناس (مسلم) قال رسول اللّٰہ: نزع رجل لم یعمل خیرا قط: غصن شوک عن الطریق أما کان فی شجرة فقطعہ والقاہ واما کان موضوعا فأماطہ فشکر اللہ لہ بھا فأدخلہ الجنة (ابوداوٴد524) عن ابی طلحہ قال کنا قعودا بالأفینہ نتحدث فجاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقام علینا فقال: ما لکم ولمجالس الصعدات اجتنبوا مجالس الصعدات فقلنا انما قعدنا لغیر ما بأس، قعدنا نتذاکرا ونتحدث قال: اما لا، فادوا حقھا: غض البصر ورد السلام وحسن الکلام (مسلم:5610) قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم اتقوا اللعانین قالوا: وما اللعانان یا رسول اللہ! قال الذي یتخلی في طریق الناس أو في ظلہم (مسلم: 571) ن سہل بن معاذ عن أبیہ قال: غزونا مع النبي صلی اللہ علیہ وسلم فضیق الناس المنازل وقطعوا الطریق فبعث النبي صلی اللہ علیہ وسلم منادیا ینادي فی الناس: من ضیق منزلا أو قطع طریقا فلا جہاد لہ (أبو داوٴد: 3920)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 2405/44-3627

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ والدین کی قبر پر جاکر سورہ فاتحہ پڑھنے اور ایصال ثواب کرنے سے امید ہے کہ وہ راضی ہوجائیں، لیکن اس طرح والدین کی قبر پر کھڑے ہوکر ان سے معافی مانگنا، یا ان سے مخاطب ہو کر دعا کے لئے کہنا درست نہیں ہے۔ جو کچھ دعا کرنی ہے، اللہ سے دعا کرے اور اللہ سے ہی مانگے۔  

والتفسیر فی المسئلة أن التوسل بالمخلوق لہ تفاسیر ثلاثة: الأول: دعاوٴہ واستغاثتہ کدیدن المشرکین وہو حرام إجماعاً۔ الثانی: طلب الدعاء منہ ولم یثبت فی المیت بدلیل فیختص ہٰذا المعنی بالحی۔ والثالث: دعاء اللّٰہ ببرکة ہٰذا المخلوق المقبول، وہٰذا قد جوّزہ الجمہور۔ (بوادر النوادر ۲/۷۰۶-۷۰۸،زمزم دیوبند)

قال العلامة الآلوسي في روح المعاني (۶:۱۲۸، ۱۲۹، سورة المائدة، الآیة: ۳۵):إن الناس قد أکثروا من دعاء غیر اللہ تعالی من الأولیاء الأحیاء منھم والأموات وغیرھم ، مثل: یا سیدي فلان أغثني،ولیس ذلک من التوسل المباح في شییٴ، واللائق بحال الموٴمن عدم التفوہ بذلک وأن لا یحوم حماہ،وقد عدہ أناس من العلماء شرکا، وإن لایکنہ فھو قریب منہ ولا أری أحداً ممن یقول ذلک إلا وھو یعتقد أن المدعو الحي الغائب أو المیت المغیب یعلم الغیب أو یسمع النداء ویقدر بالذات أو بالغیر علی جلب الخیر ودفع الأذی وإلا لما دعاہ ولا فتح فاہ وفي ذلک بلاء من ربکم عظیم، فالحزم التجنب عن ذلک وعدم الطلب إلا من اللہ تعالی القوي الغني الفعال لما یرید الخ ۲،۳)

فتاوی محمودیہ، باب ما یتعلق باحوال القبور  والارواح، ج: 1، صفحہ: 611 و612، ط: مکتبہ الفاروق کراچی)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 2522/45-3923

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر آپ شرعی معذور نہیں ہیں اور نماز کی حالت میں پیشاب کے قطرے یا مذی کا خروج ہو جاءے تو آپ کا وضو ٹوٹ گیا نماز سے نکل کر ناپاک جگہ کو دھونا اور دوبارہ وضو کر کے نماز میں شریک ہونا ضروری ہے، جہاں تک ہو سکے پیشاب کے قطرے سے بچنے کی پوری کوشش کریں اور تمام تر ضروری تدبیر اختیار کرنے کے بعد بھی اگر چھینٹیں کپڑے پر لگ جائیں  تو ان شاء اللہ مؤاخذہ نہیں ہوگا، ہاں طہارت کے شرعی احکام لاگو ہوں گے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 1921/43-1823

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   اگر دینےوالے نکاح خواں کو پیسے دیتے ہیں تو اس کی مرضی کے بغیر رسید بنالینا جائز نہیں ہے، البتہ اگر وہ خوشی سے مسجد کو دیدے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور اگر دینےوالوں  نے رقم  مسجد میں دی ہے تو وہ رقم مسجد کی ہی ہے، کسی کو اپنے ذاتی استعمال میں لانا جائز نہیں ہے۔ الحاصل دینے والے جس کو رقم دیں گے وہی اس کا مالک ہوگا، اور مالک کی مرضی کے بغیر اس سے چندہ لینا یا رسید بنادینا جائز نہیں ہے۔

وَفِي فَتَاوَى النَّسَفِيِّ: إذَا كَانَ الْقَاضِي يَتَوَلَّى الْقِسْمَةَ بِنَفْسِهِ حَلَّ لَهُ أَخْذُ الْأُجْرَةِ، وَكُلُّ نِكَاحٍ بَاشَرَهُ الْقَاضِي وَقَدْ وَجَبَتْ مُبَاشَرَتُهُ عَلَيْهِ كَنِكَاحِ الصِّغَارِ وَالصَّغَائِرِ فَلَايَحِلُّ لَهُ أَخْذُ الْأُجْرَةِ عَلَيْهِ، وَمَا لَمْ تَجِبْ مُبَاشَرَتُهُ عَلَيْهِ حَلَّ لَهُ أَخْذُ الْأُجْرَةِ عَلَيْهِ، كَذَا فِي الْمُحِيطِ. وَاخْتَلَفُوا فِي تَقْدِيرِهِ، وَالْمُخْتَارُ لِلْفَتْوَى أَنَّهُ إذَا عَقَدَ بِكْرًا يَأْخُذُ دِينَارًا وَفِي الثَّيِّبِ نِصْفَ دِينَارٍ وَيَحِلُّ لَهُ ذَلِكَ هَكَذَا قَالُوا، كَذَا فِي الْبُرْجَنْدِيِّ"( كتاب أدب القاضي، الْبَابُ الْخَامِسَ عَشَرَ فِي أَقْوَالِ الْقَاضِي وَمَا يَنْبَغِي لِلْقَاضِي أَنْ يَفْعَل، ٣ / ٣٤٥)

عن أبي حرة الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا! ألا لا یحل مال امرء إلا بطیب نفس منہ۔ (مشکاة المصابیح / باب الغصب والعاریة، الفصل الثاني ۲۵۵)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 37 / 1061

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ محض آڈیو کی بنیاد پر جرم ثابت نہیں ہوسکتا ہے، ہاں اگر وہ اس کا اقرار کرلے یا اس کی تصدیق کرے یا شرعی شہادت پیش ہوجائے تو الزام کا ثبوت ہوجائے گا۔

۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 2090/44-2129

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس میں اشارہ ہے کہ خواب دیکھنے والے سے بھلائی کا ظہور ہوگا، اس سے خَلق خدا کو دینی فائدہ حاصل ہوگا، اور بہت سے لوگوں کے لئے ہدایت کا ذریعہ بنے گا، ان شاء اللہ

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 2521/45-3852

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ انسان  کو اللہ نے قابل احترام بنایا ہے،اس کے تمام اعضاء  محترم ہیں،ا س کے کسی عضو کی بھی بے حرمتی   مناسب نہیں ہے۔  اس لئے  اپنے ناخن یا بال کاٹ کر اس کو دفن کردینا  مناسب ہے، لیکن پھینکنا بھی جائز ہے اور اس میں کوئی گناہ نہیں ہوگا۔  تاہم ٹوائلٹ اور نالی میں ڈالنا مکروہ ہے۔  

قال اللہ تعالی: ولقد کرمنا بني آدم الآیة (الإسراء، رقم الآیة: ۷۰) ، فإذا قلم أظفارہ أو جز شعرہ ینبغي أن یدفنہ، فإن رمی بہ فلا بأس، وإن ألقاہ فی الکنیف أو فی المغتسل کرہ؛ لأنہ یورث داء۔ خانیة۔ ویدفن أربعة: الظفر والشعر وخرقة الحیض والدم۔ عتابیة۔ ط (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ، فصل فی البیع وغیرہ ۹: ۵۸۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ، وکل عضو لا یجوز النظر إلیہ قبل الانفصال لا یجوز بعدہ ولو بعد الموت کشعر عانة وشعر رأسھا وعظم ذراع حرة میتة وساقھا وقلامة ظفر رجلھا دون یدھا مجتبی (الدر المختار مع الرد ، کتاب الحظر والإباحة، فصل فی النظر والمس ۹: ۵۳۴۵۸۰، ۵۳۵) ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 40/1071

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   علماء فرنگی محل علماء اہل سنت والجماعت ہیں، ملا قطب الدین سہالوی (۱۱۰۳ھ) ملا نظام الدین سہالوی فرنگی محلی (۱۱۶۱ھ) مولانا محمد عبدالحیی فرنگی محلی (۱۲۰۴ھ) مولانا عبدالرزاق فرنگی محلی  (۱۳۰۷ھ) اور مولانا عبدالباری فرنگی محلی (۱۳۴۴ھ) ۔ یہ سب علماء اہل سنت والجماعت اور علماء حق پرست ہیں۔ ان کے زمانہ میں دیوبندیت اور بریلویت کا وجود نہیں تھا۔ مولانا عبدالباری بھی علماء اہل سنت میں سے ہیں، ان کے زمانہ میں مولانا احمد رضا خان صاحب موجود تھے، اور ان کے ساتھ تعلقات بھی تھے لیکن اس بنیاد پر ان کو سنی نہیں کہا جاسکتا ہے، کیونکہ ان کے بعض مسائل میں مولانا احمد رضا خان صاحب سے بھی اختلافات تھے، جیسا کہ بعض مسائل میں علماء دیوبند سے اختلاف تھا، مولانا عبدالباریؒ نے حضرت تھانوی ؒ کی کتاب حفظ الایمان پر اعتراض کیا تھا صرف اتنی بات ملتی ہے لیکن یہ بات کہاانھوں نے حضرت تھانوی کی کتابیں فرنگی محل میں جلادی تھیں  اس کا تذکرہ مجھے کہیں نہیں ملا۔  

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1550/43-1124

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔انڈیا اور دیگر کسی بھی ملک سے محبت اور اس کی ترقی کی خواہش کرنا ، اور ملک میں امن و امان قائم رہے اس کی دعا کرنا ایمانی جذبہ  ہے، اسلام اس کی مخالفت نہیں کرتا ہے۔ انڈیا کے جھنڈے میں کوئی ایمان کے منافی چیز نہیں ہے اس لئے اس کی تصویر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔  ایمان کے لوازمات کو برتتے ہوئے ، انسانیت سے محبت اور انسانیت کی ترقی کے لئے کوشاں رہنا ضروری ہے۔ اللہ تعالی انڈیا اور دنیا کے تمام ممالک میں امن و سلامتی اور انصاف قائم فرمائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1556/43-1068

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ چھوٹی مسجد میں نماز ی کے آگے سے بغیرہ سترہ کے بالکل  گزرنا جائز نہیں ہے۔ البتہ اگر مسجد بڑی ہے  (کم ازکم چالیس شرعی گز یا اس سے بڑی مسجد)ہے تو دو تین صف چھوڑ کر آگے سے بغیر کسی سترہ کے بھی گزرسکتے ہیں، اسی طرح کھلے میدان میں بھی دو تین صف کی جگہ چھوڑ کر گزرنا درست ہے۔

أو) مروره (بين يديه) إلى حائط القبلة (في) بيت و (مسجد) صغير، فإنه كبقعة واحدة (مطلقاً) ..."الخ قال ابن عابدين رحمه الله: " (قوله: في بيت) ظاهره ولو كبيراً. وفي القهستاني: وينبغي أن يدخل فيه أي في حكم المسجد الصغير الدار والبيت. (قوله: ومسجد صغير) هو أقل من ستين ذراعاً، وقيل: من أربعين، وهو المختار، كما أشار إليه في الجواهر، قهستاني (شامی". (1/63) "(قوله: ظاهره ولو كبيراً الخ) لكن ينبغي تقييده بالصغير، كماتقدم في الإمامة تقييد الدار بالصغيرة حيث لم يجعل قدر الصفين مانعاً من الاقتداء، بخلاف الكبيرة".(تقريرات الرافعي 1/83)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند