Frequently Asked Questions
متفرقات
Ref. No. 1453/42-929
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسے بچہ پر اگرچہ یتیم کی اصطلاحی تعریف صادق نہیں آتی ہے تاہم ولد الزنا کی کفالت پر بھی یتیم کی کفالت کا اجروثواب ملے گا، حدیث میں ہے: انا و کافل الیتیم لہ او لغیرہ فی الجنۃ کھاتین واشار باصبعیہ السبابۃ والوسطی ۔ یہاں پر لہ سے مراد معروف النسب ہے اور لغیرہ سے مراد مجہول النسب ہے۔
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «كافل اليتيم له أو لغيره أنا وهو كهاتين في الجنة» وأشار مالك بالسبابة والوسطى (صحیح مسلم، باب الاحسان الی الارملۃ والمسکین 4/2287) ولد الزنا هو الذي تأتي به أمه من الزنا (ر: ولد الزنا ف1) . والصلة بين ولد الزنا واليتيم أن كليهما لا أب لهما إلا أن ولد الزنا لم يكن له أب شرعا بخلاف اليتيم فإنه قد كان له أب۔ (الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ، الوصیۃ للیتیم 45/259)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2168/44-2274
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کسی سفید فرد کو دیکھنا روحانیت کی دلیل ہے، یعنی ذکر واذکار کا جو بھی آپ کا معمول ہے اس کی وجہ سے جنات یا فرشتہ رحمت کی شکل میں ایک روحانی شیئ آپ پر متوجہ وملتفت ہے۔ نیز دو کمروں کا نظر آنا اس طرف اشارہ ہے کہ کبھی کبھی آپ کا خیال سابقہ مذہب کی طرف چلاجاتاہے۔ اور چہرہ صاف نظر نہ آنا یا ارد گرد سانپ کا نظر آنا اس بات کی دلیل ہے کہ ذکر و اذکار یا اعمال میں کوئی نقص واقع ہورہاہے۔ اس لئے آپ اخلاص کے ساتھ کثرت سے استغفار کریں، ادعیہ واذکار نیز اعمال صالحہ پر مداومت اختیار کریں،۔ اللہ تعالی ہم سب کے ایمان اور اعمال کی حفاظت فرمائے۔آمین
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2519/45-3851
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ انسان اپنےجسم اور اعضاء کاامین ہے، مالک نہیں ہے کہ جیسا چاہے ویسا تصرف کرسکے، اس لیے اپنےکسی عضو کو ہبہ کرنا یا بعد مرنے کے دوسرے کو دینے کی وصیت کرنا وغیرہ امورجائز نہیں ہیں۔ لہذا کسی انسانی عضوکا دوسرے انسان کے جسم میں استعمال کرنا خواہ معاوضہ کے ساتھ ہو یا بغیر معاوضہ کے ہو ، جائز نہیں ہے۔
"وَأَمَّا حُكْمُهَا فَوُجُوبُ الْحِفْظِ عَلَى الْمُودَعِ وَصَيْرُورَةُ الْمَالِ أَمَانَةً فِي يَدِهِ وَوُجُوبُ أَدَائِهِ عِنْدَ طَلَبِ مَالِكِهِ، كَذَا فِي الشُّمُنِّيِّ".
(4/338، کتاب الودیعہ، ط؛رشیدیہ)
"وَالْآدَمِيُّ مُحْتَرَمٌ بَعْدَ مَوْتِهِ عَلَى مَا كَانَ عَلَيْهِ فِي حَيَاتِهِ. فَكَمَا يَحْرُمُ التَّدَاوِي بِشَيْءٍ مِنْ الْآدَمِيِّ الْحَيِّ إكْرَامًا لَهُ فَكَذَلِكَ لَا يَجُوزُ التَّدَاوِي بِعَظْمِ الْمَيِّتِ. قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : «كَسْرُ عَظْمِ الْمَيِّتِ كَكَسْرِ عَظْمِ الْحَيِّ»" .
( شرح السیر الکبیر(1 /89)
"الِانْتِفَاعُ بِأَجْزَاءِ الْآدَمِيِّ لَمْ يَجُزْ، قِيلَ: لِلنَّجَاسَةِ، وَقِيلَ: لِلْكَرَامَةِ، هُوَ الصَّحِيحُ، كَذَا فِي جَوَاهِرِ الْأَخْلَاطِيِّ".
(5 / 354، الباب الثامن عشر في التداوي والمعالجات، ط: رشیدیة)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1632/431246
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کوئی کسی کا کوئی اہم عضو جان بوجھ کر تلف کردے تو اس کی تلافی کے لئے فقہ اسلامی کے مطابق بعض صورتوں میں قصاص آتاہے اور بعض صورتوں میں دیت یا ضمان لازم آتاہے۔ صورت مسئولہ میں چونکہ غلطی سے آنکھ ضائع ہوئی ہے تودونوں آنکھوں کے ضیاع کی صورت میں کامل دیت آئے گی اور ایک آنکھ کے ضائع ہونے کی صورت میں نصف دیت کا ضمان لازم آئے گا۔ کامل دیت دس ہزار درہم یعنی آج کے حساب سے (30.618) تیس کلو اور چھ سو اٹھارہ گرام چاندی یا اس کے برابر کی قیمت ہے۔آج بتاریخ 28/09/2021 اس مقدار چاندی کی قیمت روپئے میں گیارہ لاکھ بائیس ہزار ایکسو اسی (1122180) روپئے انڈین ہوتے ہیں۔ نصف دیت پانچ ہزار درہم ہوں گے یعنی آج کے حساب سے (15.309) پندرہ کلو اور تین سو نو گرام چاندی یا اس کے برابر کی قیمت: آج بتاریخ 28/09/2021 نصف دیت یعنی 15.309 کلو گرام چاندی کی قیمت(561090) انڈین روپئے ہے۔ اگر ایک آنکھ ضائع ہوئی ہے تو نصف دیت یعنی پانچ لاکھ اکسٹھ ہزار نوے روپئے دینے ہوں گے۔
(قوله والعينين إلخ) ؛ لأن في تفويت الاثنين من هذه الأشياء تفويت جنس المنفعة أو كمال الجمال فيجب كمال الدية، وفي تفويت أحدها تفويت النصف فيجب نصف الدية هداية (شامی، کتاب الدیات 6/578)
وفي معراج الدراية: ومن نظر في بيت إنسان من ثقب أو شق باب أو نحوه فطعنه صاحب الدار بخشبة أو رماه بحصاة ففقأ عينه يضمن عندنا. وعند الشافعي لا يضمن، لما روى أبو هريرة - رضي الله تعالى عنه - أنه - عليه الصلاة والسلام - قال «لو أن امرأ اطلع عليك بغير إذن فحذفته بحصاة وفقأت عينه لم يكن عليك جناح» . ولنا قوله - عليه الصلاة والسلام - «في العين نصف الدية» وهو عام، ولأن مجرد النظر إليه لا يبيح الجناية عليه كما لو نظر من الباب المفتوح وكما لو دخل بيته ونظر فيه أو نال من امرأته ما دون الفرج لم يجز قلع عينه؛ لأن قوله - عليه الصلاة والسلام - «لا يحل دم امرئ مسلم» الحديث يقتضي عدم سقوط عصمته، والمراد بما روى أبو هريرة المبالغة في الزجر عن ذلك اهـ ومثله في ط عن الشمني، وقوله وكما لو دخل بيته إلخ مخالف لما ذكره الشارح إلا أن يحمل ما ذكره على ما إذا لم يمكن تنحيته بغير ذلك، وما هنا على ما إذا أمكن فليتأمل (شامی، باب القود فیما دون النفس 6/550)
فقأ عين صبي حين ولد أو بعد أيام، فقال: لم يبصر بها، أو قال: لا أعلم أبصر بها أم لا فالقول له، وعليه أرش حكومة عدل فيما شأنه، وإن كان يعلم أنه يبصر بها بأن شهد شاهدان بسلامتها إن كان خطأ ففيه نصف الدية، وإن كان عمدا ففيه القصاص كذا في الظهيرية. (الھندیۃ الباب الرابع فی القصاص فیمادون النفس 6/10)
ولأن كل الدية عند قطع العضوين يقسم عليهما فيكون في أحدهما النصف؛ لأن وجوب الكل في العضوين لتفويت كل المنفعة المقصودة من العضوين، والفائت بقطع أحدهما النصف فيجب فيه نصف الدية، ويستوي فيه اليمين واليسار لأن الحديث لا يوجب الفصل بينهما، وسواء ذهب بالجناية على العين نور البصر دون الشحمة أو ذهب البصر مع الشحمة لأن المقصود من العين البصر، والشحمة فيه تابعة. (بدائع، فصل فی الجروح التی یجب فیھا ارش مقدر 7/314)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2025/44-2015
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عمامہ اس طرح باندھنا کہ سر کا درمیانی حصہ بالکل کھلارہے مکروہ ہے۔ لیکن اگر ٹوپی سےسرکا درمیانی حصہ ڈھکاہوا ہے تو یہ سنت کے مطابق ہی ہوگا اور اس کو بدعت یا کسی دوسرے کی مشابہت سے تعبیر نہیں کیاجائے گا۔
ويكره ان يصلي وهو معتجر لنهي الرسول عليه الصلاة والسلام عن الاعتجار في الصلاة وتفسيره ان يشد العمامة حول راسه ويبدي هامته مكشوفاً (المبسوط للسرخسی، کتاب الصلوۃ، باب مکروھات الصلوۃ، جلد 1، صفحہ 31، مطبوعہ بیروت )
ويكره الاعتجار وهو ان يكور عمامته ويترك وسط راسه مكشوفاً (تبیین الحقائق، کتاب الصلوۃ، باب ما یفسد الصلوۃ وما یکرہ فیھا، جلد 1، صفحہ 164، مطبوعہ ملتان )
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 39 / 1023
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بیوہ عورت چار ماہ دس دن عدت میں بیٹھے گی۔ اس دوران گھر سے باہر نکلنا، بناؤ سنگار کرنا ممنوع ہے۔ دوا و علاج کے لئے یا کسی واقعی ضرورت کے لئے گھر سے باہر نکل سکتی ہے۔ غیرمحرموں سے عدت کے دوران بھی پردہ لازم ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 41/983
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال میں اس کی وضاحت نہیں ہے کہ آپ کس طرح کی تفصیل چاہتے ہیں، اس لئے بہتر ہوگا کہ آپ معارف القرآن میں سورہ توبہ کا مطالعہ کرلیں، وہاں تمام و اسباب و علل کے ساتھ بحث کی گئی ہے شاید وہاں آپ کے تمام شبہات کے جوابات مل جائیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2523/45-3922
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ میت کو قبر میں اتار کرکفن کے سر، در میانی حصے اور قدموں کی طر ف کفن میں لگی گانٹھیں کھول دینا کافی ہیں۔ چہرہ کھولنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ قبر میں اتارنے کے بعد چہرہ دکھانے کے سلسلے میں بعض حضرات نے رشتہ داروں کے لیے گنجائش دی ہے کہ قبر میں اتارنے کے بعد رشتہ دارکو چہرہ کھول کر دکھایا جاسکتا ہے لیکن چہرہ کھلا رکھنے کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے ۔ سالت یوسف بن محمد عمن يرفع الستر عن وجه المیت لیراه قال لا بأس به (الفتاوی التاتارخانية 78/3)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No 1558/43-1082
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ راستہ بند کرنے سے لوگوں کو کافی دشواری پیش آتی ہے۔ لوگوں کے لئے آسانی پیدا کرنے کا حکم ہے، راستہ بند کرکے نماز کا اجتماع یا جلسہ وغیرہ کرنا نامناسب عمل ہےالا یہ کہ کوئی مجبوری ہو۔ حدیث میں راستے کے جو حقوق بیان کئے گئے ہیں ان کی بھی خلاف ورزی ہے۔ اس لئے کسی بھی دینی ، سیاسی و سماجی اجتماع کے لئے راستہ ہرگز نہ بند کریں، اس سے دوسرے بدگمان بھی ہوتے ہیں اور شرپسندوں کو مواقع بھی فراہم ہوجاتے ہیں۔ البتہ اگر دوسرا راستہ موجود ہو اور ایک راستہ بند کرنے سے زیادہ دشواری نہ ہوتی ہو اور راستہ بند کرنے کا کوئی معقول عذر ہو تو اس کی موقع ومناسبت کو دیکھتے ہوئے گنجائش نکل سکتی ہے۔ مجبوری میں بھی ایسی صورت اختیار کرنی چاہیے جس سے گزرنے والوں کی آمد ورفت میں کم سے کم خلل ہو اور انھیں تکلیف نہ پہنچے۔
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم " الإیمان بضع وسبعون شعبة فأفضلہا: قول لا إلہ إلا اللہ وأدناہا: إماطة الأذی عن الطریق الخ (مشکاة، ۱۲) وفي حدیث آخر: قال صلی اللہ علیہ وسلم قال: إیاکم والجلوس بالطرقات․ فقالوا: یا رسول اللہ ما لنا من مجالسنا بد نتحدث فیہا․ قال: فإذا أبیتم إلا المجلس فأعطوا الطریق حقہ قالوا: وما حق الطریق یا رسول اللہ قال: غض البصر وکف الأذی ورد السلام والأمر بالمعروف والنہی عن المنکر۔ متفق علیہ (مشکاة: 398)
بینما رجل یمشی بطریق وجد غصن شوک علی الطریق فاخرہ فشکر اللہ لہ فغفرلہ (بخاری ومسلم) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: لقد رأیت رجلا تتقلب فی الجنة فی شجرة قطعھا من ظہر الطریق کانت توذی الناس (مسلم) قال رسول اللّٰہ: نزع رجل لم یعمل خیرا قط: غصن شوک عن الطریق أما کان فی شجرة فقطعہ والقاہ واما کان موضوعا فأماطہ فشکر اللہ لہ بھا فأدخلہ الجنة (ابوداوٴد524) عن ابی طلحہ قال کنا قعودا بالأفینہ نتحدث فجاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقام علینا فقال: ما لکم ولمجالس الصعدات اجتنبوا مجالس الصعدات فقلنا انما قعدنا لغیر ما بأس، قعدنا نتذاکرا ونتحدث قال: اما لا، فادوا حقھا: غض البصر ورد السلام وحسن الکلام (مسلم:5610) قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم اتقوا اللعانین قالوا: وما اللعانان یا رسول اللہ! قال الذي یتخلی في طریق الناس أو في ظلہم (مسلم: 571) ن سہل بن معاذ عن أبیہ قال: غزونا مع النبي صلی اللہ علیہ وسلم فضیق الناس المنازل وقطعوا الطریق فبعث النبي صلی اللہ علیہ وسلم منادیا ینادي فی الناس: من ضیق منزلا أو قطع طریقا فلا جہاد لہ (أبو داوٴد: 3920)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2405/44-3627
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ والدین کی قبر پر جاکر سورہ فاتحہ پڑھنے اور ایصال ثواب کرنے سے امید ہے کہ وہ راضی ہوجائیں، لیکن اس طرح والدین کی قبر پر کھڑے ہوکر ان سے معافی مانگنا، یا ان سے مخاطب ہو کر دعا کے لئے کہنا درست نہیں ہے۔ جو کچھ دعا کرنی ہے، اللہ سے دعا کرے اور اللہ سے ہی مانگے۔
والتفسیر فی المسئلة أن التوسل بالمخلوق لہ تفاسیر ثلاثة: الأول: دعاوٴہ واستغاثتہ کدیدن المشرکین وہو حرام إجماعاً۔ الثانی: طلب الدعاء منہ ولم یثبت فی المیت بدلیل فیختص ہٰذا المعنی بالحی۔ والثالث: دعاء اللّٰہ ببرکة ہٰذا المخلوق المقبول، وہٰذا قد جوّزہ الجمہور۔ (بوادر النوادر ۲/۷۰۶-۷۰۸،زمزم دیوبند)
قال العلامة الآلوسي في روح المعاني (۶:۱۲۸، ۱۲۹، سورة المائدة، الآیة: ۳۵):إن الناس قد أکثروا من دعاء غیر اللہ تعالی من الأولیاء الأحیاء منھم والأموات وغیرھم ، مثل: یا سیدي فلان أغثني،ولیس ذلک من التوسل المباح في شییٴ، واللائق بحال الموٴمن عدم التفوہ بذلک وأن لا یحوم حماہ،وقد عدہ أناس من العلماء شرکا، وإن لایکنہ فھو قریب منہ ولا أری أحداً ممن یقول ذلک إلا وھو یعتقد أن المدعو الحي الغائب أو المیت المغیب یعلم الغیب أو یسمع النداء ویقدر بالذات أو بالغیر علی جلب الخیر ودفع الأذی وإلا لما دعاہ ولا فتح فاہ وفي ذلک بلاء من ربکم عظیم، فالحزم التجنب عن ذلک وعدم الطلب إلا من اللہ تعالی القوي الغني الفعال لما یرید الخ ۲،۳)
فتاوی محمودیہ، باب ما یتعلق باحوال القبور والارواح، ج: 1، صفحہ: 611 و612، ط: مکتبہ الفاروق کراچی)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند