Frequently Asked Questions
متفرقات
Ref. No. 2030/44-1998
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اذہان، ذہن کی جمع ہے، اس لئے نام رکھنا درست ہے تاہم مناسب ہے کہ کوئی اور نام رکھ لیاجائے۔ مستبشرہ کے معنی ہیں خوشخبری دینے والی۔ یہ نام مناسب ہے ۔ قدسیہ نام رکھنا درست ہے مگر مناسب نہیں ہے۔ 'نضرۃ' کے معنی ہیں تروتازگی، شادابی۔ یہ نام بھی ٹھیک ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2032/44-2137
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خواب خوش آئند ہے، اور مرحومہ ان شاء اللہ جنت کی بہاروں میں ہے ، اور خواب دیکھنے والی کے لئے یہ بشارت اس میں ہے۔ حسب گنجائش صدقہ کرنا اچھی بات ہے،
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2531/45-3903
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تصویر میں چہرہ اصل ہے، ایسا عضو جس کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا، اگر اس عضو کو کاٹ دیاجائے تو وہ تصویر کے زمرے میں نہیں ہے۔ اس لئے ایسی تصویر حرام نہیں ہے۔ اگر چہرہ کا دائرہ بناہواہو مگر آنکھ، ناک وغیرہ بناہوانہ ہو تو اس پر تصویر کا حکم نہیں ہوگا۔
وان کانت مقطوعۃ الراس لاباس بہ، وکذا لو محی وجہ الصورۃ فھو کقطع الراس (خلاصہ الفتاویٰ ، کتاب الصلوۃ 1/58)
او ممحوۃ عضو لاتعیش بدونہ لایکرہ ، لانھا لاتعبد وخبر جبریل مخصوص بغیرالمھانۃ (شامی، باب مایفسد الصلوۃ ومایکرہ فیھا، سعید ج1ص648)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1634/43-1220
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔
نعم حکم العام الذی لم یخص عنہ البعض فی منزلۃ الخاص فی وجوب العمل بہ، وآیۃ إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا عامۃ لم یخص عنھا البعض، فلماذا یخصون البعض بان یصلوا علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعد الصلوۃ الجماعۃ الخمسۃ وقبل الاذان و فی ھذہ الآیۃ حکم مطلق والمطلق یجری علی اطلاقہ۔ فلھذا لایختص الصلوۃ والوقت للصلوۃ والسلام علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی الاوقات المذکورۃ لان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال من احدث فی امرنا ھذا مالیس منہ فھو رد، متفق علیہ، مشکوۃ المصابیح 1/27، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت ایوب علیہ السلام کے جسد مبارک میں کیڑے پڑنے کی روایات معتبر نہیں ہیں، جن روایات وآثار سے کیڑے پڑنے اور جسد اطہر میں پھوڑے پھنسی وغیرہ کا ثبوت ہوتا ہے ان پر محققین نے رد کیا ہے، کیونکہ انبیاء علیہ السلام کو بشری بیماری لاحق ہونا تو ثابت ہے؛ لیکن ایسی بیماری کا لاحق ہونا جس سے انسانی طبیعت نفرت کرتی ہو نصوص شرعیہ کے خلاف ہے؛ بلکہ صحیح روایات اور آیت قرآنی سے صرف اتنی بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام کو ایک شدید قسم کا مرض لاحق ہوا تھا۔ حضرت مفتی محمد شفیع صاحب نے معارف القرآن میں لکھاہے: قرآن میں اتنا تو بتلایا گیا ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام کو ایک شدید قسم کا مرض لاحق ہوگیا تھا لیکن اس مرض کی نوعیت نہیں بتائی گئی احادیث میں بھی اس کی کوئی تفصیل آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں ہے۔ البتہ بعض آثار سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے جسم کے ہر حصہ پر پھوڑے نکل گئے تھے یہاں تک کہ لوگوں نے گھن کی وجہ سے آپ کو کوڑی پر ڈال دیا تھا، لیکن بعض محقق مفسرین نے ان آثار کو درست تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ انبیاء علیہم السلام پر بیماریاں تو آسکتی ہیں، لیکن انہیں ایسی بیماریوں میں مبتلانہیں کیا جاتا جن سے لوگ گھن کرنے لگیں۔(۱)
۱) مفتی محمد شفیع عثماني صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ، معارف القرآن: ج ۷، ص: ۵۲۲۔
قال: أہل التحقیق أنہ لا یجوز أن یکون بصفۃ یستقذرہ الناس علیہا …لأن فی ذلک تنفیرا فأما الفقر والمرض وذہاب الأہل فیجوز أن یمتحنہ اللّٰہ تعالی بذلک‘‘۔
وفي ہدایۃ المرید للفاني أنہ یجوز علی الأنبیاء علیہم السلام کل عرض بشری لیس محرما ولا مکروہا ولا مباحا مزریا ولا مزمنا ولا مما تعافہ الأنفس ولا مما یؤدي إلی النفرۃ ثم قال بعد ورقتین: واحترزنا بقولنا ولا مزمنا ولا مما تعافہ الأنفس عما کان کذلک کالإقعاد والبرص والجذام والعمی والجنون، وأما الإغماء، فقال النووي: لا شک في جوازہ علیہم لأنہ مرض بخلاف الجنون فإنہ نقص، وقید أبو حامد الإغماء بغیر الطویل وجزم بہ البلقینی، قال السبکي: ولیس کإغماء غیرہم لأنہ إنما یستر حواسہم الظاہرۃ دون قلوبہم لأنہا معصومۃ من النوم الأخف، قال: ویمتنع علیہم الجنون وإن قل لأنہ نقص ویلحق بہ العمی ولم یعم نبي قط، وما ذکر عن شعیب من کونہ کان ضریرا لم یثبت، وأما یعقوب فحصلت لہ غشاوۃ وزالت اہ۔
وفرق بعضہم في عروض ذلک بین أن یکون بعد التبلیغ وحصول الغرض من النبوۃ فیجوز وبین أن یکون قبل فلا یجوز، ولعلک تختار القول بحفظہم بما تعافہ النفوس ویؤدي إلی الاستقدار والنفرۃ مطلقا، وحینئذ فلا بد من القول بأن ما ابتلی بہ أیوب علیہ السلام لم یصل إلی حد الاستقذار والنفرۃ کما یشعر بہ ما روي عن قتادۃ ونقلہ القصاص في کتبہم، وذکر بعضہم أن دائہ کان الجدري ولا أعتقد صحۃ ذلک واللہ تعالی أعلم۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني: ’’سورۃ ص: ۳۷ تا ۴۵‘‘، ج ۷، ۳۰۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص203
متفرقات
Ref. No. 1923/44-1876
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آیات قرآنیہ اور اسمائے الہیہ کا ذکر بطور استعانت اور نبی علیہ السلام کے اسماء کا ذکر بطور تبرک کے جائز ہے۔ اس لئے جھاڑ پھونک میں برکت کے لئے نبی علیہ السلام کا نام لینا درست ہے، البتہ آپﷺ کا ذکر بطور استعانت جائز نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2636/45-4000
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شاید آپ کے سننے میں کوئی غلطی ہوئی ہے، بیت الخلاء میں قبلہ کی جانب پیٹھ کرنا خلاف ادب اور ناجائزہے۔ حدیثِ پاک میں نبی کریم ﷺنے قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی جانب پشت کرنے اور رخ کرنے سے منع فرمایاہے۔ چنانچہ مشکاۃ شریف میں ہے :
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم بیت الخلا جاؤ تو قبلہ کی طرف نہ منہ کرو اور نہ پشت، بلکہ مشرق اور مغرب کی طرف منہ اور پشت رکھو‘‘۔مطلقا قبلہ کی طرف پیٹھ کرنے کی ممانعت نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1926/43-1835
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگرخود کا حصہ نہیں ہے تو اس جانور کے گوشت بنانے کی اجرت لینا جائز ہے جس میں بیوی نے حصہ لے رکھا ہو۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1322/42-694
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تعلیم کے تعلق سے اسلام کا نقطہ نظر بہت واضح ہے، تعلیم جس طرح مردوں کے لئے ضروری ہے اسی طرح عورتوں کے لئے بھی ہے، تعلیم کا پہلا حصہ دینی تعلیم ہے، اس لئے کہ اس پر دنیا کی تربیت اور آخرت کی کامیابی موقوف ہے، دینی تعلیم مرد و عورت دونوں کے لئے یکساں ہے۔ جہاں تک عصری تعلیم کا تعلق ہے تو وہ تعلیم جو قوم اور سماج کی ترقی اور انسانیت کی فلاح و بہبود سے متعلق ہےایسی تعلیم حاصل کرنا وقت کا تقاضہ ہے ۔ البتہ عورتوں کے لئے اپنی عفت وعصمت کی حفاظت پردہ اور غیرمحرم کے ساتھ اختلاط سے اجتناب یہ ضروری اور بنیادی امرہے اس کی رعایت کے ساتھ ایسی تعلیم جس کے ذریعہ مطلوبہ شرائط کے ساتھ وہ سماج کی خدمت کرسکیں، عورتوں کے لئے بھی مطلوب ومستحسن عمل ہے۔ سوال میں جن مسائل کا تذکرہ کیا گیا ہے ان کی بنیاد دینی تعلیم وتربیت کا فقدان ہے ، اگر دینی تعلیم وتربیت کو ملحوظ رکھ کر عصری علوم میں آگے بڑھاجائے ان شاء اللہ اس طرح کے مسائل پیدا نہیں ہوں گے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2582/45-3948
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نابالغ بچہ کے لئے بھی دعاء مغفرت کرنا جائز ہے، کیونکہ دعاء کا ایک ہی فائدہ نہیں بلکہ ہرشخص کو اس کے مناسب احوال اس کا فائدہ پہونچتاہے، چنانچہ بچے کو اگر چہ مغفرت کی دعا کی ضرورت نہیں ہے، لیکن بچہ کے لیے دعا کرنے سے بچہ کو بھی درجات کی بلندی کا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔
"(ولا يستغفر فيها لصبي ومجنون) ومعتوه لعدم تكليفهم (بل يقول بعد دعاء البالغين: اللهم اجعله لنا فرطا) بفتحتين: أي سابقا إلى الحوض ليهيئ الماء، وهو دعاء له أيضا بتقدمه في الخير، لا سيما، وقد قالوا: حسنات الصبي له لا لأبويه بل لهما ثواب التعليم.
(قوله: وهو دعاء له) أي للصبي أيضا: أي كما هو دعاء لوالديه وللمصلين لأنه لا يهيئ الماء لدفع الظمأ أو مصالح والديه في دار القرار إلا إذا كان متقدما في الخير، وهو جواب عن سؤال، حاصله أن هذا دعاء للأحياء، ولا نفع للميت فيه ط (قوله لا سيما وقد قالوا إلخ) حاصله أنه إذا كانت حسناته: أي ثوابها له يكون أهلا للجزاء والثواب، فناسب أن يكون ذلك دعاء له أيضا لينتفع به يوم الجزاء". (فتاوی شامی، باب صلاۃ الجنازۃ،ج:2،ص:215،سعید)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند