متفرقات

Ref. No. 2343/44-3527

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔    صورت مذکورہ میں بھائی کوچاہئے کہ اپنی بہن سے وقتی طور پر قطع تعلق کرلے تاکہ وہ اپنے گناہ سے باز آجائے اور اس کی اصلاح ہوسکے۔ البتہ اگر قطع تعلق سے اس کے مزید بگڑنے کااندیشہ ہو تو اس سے قطع تعلق نہ کیا جائے، بلکہ  وقتًا فوقتًا اس کو حکمت سے سمجھانے کی کوشش کی جائے۔

" أراد بهذه الترجمة بيان الهجران الجائز لأن عموم النهي مخصوص بمن لم يكن لهجره سبب مشروع فتبين هنا السبب المسوغ للهجر و هو لمن صدرت منه معصية فيسوغ لمن اطلع عليها منه هجره عليها ليكف عنها."

(فتح الباری شرح صحیح البخاری،قوله باب ما يجوز من الهجران لمن عصى، 10/497،ط:دارالمعرفۃ بیروت)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 40/916

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پولیو کی دوا میں جب تک تحقیق سے کسی غلط چیز کی ملاوٹ کا ثبوت  نہ ہوجائے اس کو ناجائز نہیں کہا جائے گا۔ حکومت کا یہ اقدام ملک سے پولیو کے خاتمے کے لئے ہے اور اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہے، اس لئے بلاوجہ اس میں شبہ کرنا مناسب نہیں ۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 1118/42-344

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہاں، زندہ لوگوں کو بھی ایصال ثواب کرسکتے ہیں۔ چونکہ زندہ لوگوں کا عمل ابھی جاری ہے، اور جو اس دنیا سے فوت ہوگئے ہیں، وہ ثواب کے زیادہ محتاج ہیں، اس لئے مردہ لوگوں کو ایصال ثواب کیاجاتاہے۔ تاہم زندہ لوگوں کو بھی ایصال ثواب کرسکتے ہیں۔  

فإن من صام أو صلى أو تصدق وجعل ثوابه لغيره من الأموات والأحياء جاز ويصل ثوابها إليهم عند أهل السنة والجماعة كذا في البدائع وبهذا علم أنه لا فرق بين أن يكون المجعول له ميتا أو حيا  (البحرالرائق 3/63) (بدائع الصنائع 2/212)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1655/43-1238

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ناظم مدرسہ نے تنخواہ میں کمی کردی اور اساتذہ کو اس سے شروع میں ہی آگاہ کردیا، اور سب نے اس سے اتفاق کرلیا، اس لئے ناظم مدرسہ پر تنخواہ وضع کرنے کا کوئی الزام نہیں آئے گا۔ البتہ ناظم مدرسہ نے اساتذہ کے تئیں شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تنخواہ کے بقیہ حصہ کی تلافی کی ایک شکل اساتذہ کے سامنے رکھی، اور اس کے مطابق جو چندہ کرے گا وہ اس کا مستحق ہوگا، اور جو نہیں کرے گا وہ مستحق نہیں ہوگا۔ ناظم صاحب نے چندہ کی شرط ان کے لئے رکھی ہے جو بقیہ پچیس فیصد کی تلافی چاہتے ہیں ورنہ ان پر چندہ لازم نہیں۔ اور جن لوگوں نے پچیس فی صد اضافی تنخواہ لے لی اور چندہ نہیں کیا تویقینا شرط کے مطابق وہ  پچیس فی صد کے حقدار نہ ہونے کی وجہ سے اس کے مستحق نہیں تھے، اس لئے یا تو وہ پیسے ناظم صاحب کو واپس کریں یا پھر اگلی تنخواہوں میں وضع کرائیں، ناظم مدرسہ نے  اگلی تنخواہوں میں وضع کرکے اس میں بھی  اساتذہ کی رعایت کی  ہے۔

لقول النبي ﷺ: المسلمون على شروطهم (رواه الترمذي في (الأحكام) باب ما ذكر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في الصلح برقم 1352)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1266

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                           

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:   مذکورہ بات درست نہیں ہے۔ ٹخنوں سے نیچے تک پائجامہ یا کرتا  درست نہیں ہے۔ واللہ تعالی اعلم

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 41/848

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح کے گروپ میں شامل ہوکر اپنی  نیکی کا اظہار کرنا درست معلوم نہیں ہوتا ۔ ہرشخص  خاموشی اور اخلاص کے ساتھ  پڑھے، ریاکاری وغیرہ امور عبادت کے ثواب کو ضائع کردیتے ہیں۔ اس لئے بچنا چاہئے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1574/43-1100

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ euthanasia کا مطلب: لاعلاج اور انتہائی تکلیف دہ بیماری یا ناقابل واپسی کوما میں مبتلا مریض کو بلا کسی تکلیف و درد کے بذریعہ انجکشن یا دوا جان سے مارڈالنااور قتل کرنا۔

زندگی اللہ کی امانت ہے، اللہ نے دی ہے اور وہی اس کا مالک ہے، اپنی حیات کو ختم کرنے کا کسی کو اختیار نہیں دیا گیا اس لئے خود کشی حرام ہے اور احادیث میں خود کشی پر سخت وعید آئی ہے ، اگرخدا نخواستہ کوئی بقول ڈاکٹر  لاعلاج بیماری میں مبتلا ہوجائے تو  بھی  خلاصی حاصل کرنے کی خاطر خودکشی کا راستہ اختیار کرنا جائز نہیں ہوگا۔ نیز کسی آدمی کا  خودکشی کرنا اور دوسرے کو قتل کرنا، دونوں کا ایک حکم ہے، دونوں حرام ہیں۔کوئی کسی ناقابل برداشت تکلیف میں ہو اور  اس سے نجات حاصل کرنے کے لئے خودکشی کرنا چاہے تو یہ ایسا ہی حرام ہے، جیساکہ بلاوجہ خودکشی کرنا  حرام ہے۔ تکلیف سے نجات حاصل کرنے کے لئے بجائے خودکشی کے کسی ایسے فعل کا ارتکاب کرنا جو موت  کا سبب بن جائے وہ بھی بحکم خودکشی کے ہے۔ان سب کی ممانعت بہت صراحت کے ساتھ قرآن و حدیث میں موجود ہے۔تاہم  اگر دوا سے کوئی خاص فائدہ نہ ہو اور دوا چھوڑدی جائے تو یہ قتل نفس کے زمرے میں نہیں آئے گا، اسی طرح اگر مصنوعی آلہ  تنفس کو اگر ہٹادیاجائے اور سانس رک جائے اور موت واقع ہوجائے تو یہ بھی قتل نفس کے زمرے میں نہیں آئے گا۔  قتل نفس کے لئے انجکشن لینا یا دینا دونوں حرام ہے اور بعض صورتوں میں لگانے والے یا دوا دینے والے پر دیت بھی لازم ہوسکتی ہے۔ جو صورت پیش آئے اس کی وضاحت کے ساتھ سوال کرلیا جائے تاکہ اسی کے مطابق جواب دیا جاسکے۔ 

وَلاَ تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ الاَّ بِالْحَقِّ“ (سورۃ الانعام 151) یکرہ تمنی الموت لغضب، أو ضیق عیش، وفی صحیح مسلم: لا یتمنین أحدکم الموت لضرّ نزل بہ(شامی 5/270) استعجالا للموت أو لغیر مصلحة، فانہ لو کان علی طریق المداواة التي یغلب الظن علی نفعہا، لم یکن حراما“ شرح مسلم للنووی 1/73) وان قیل: لا ینجو أصلا لا یتداوی بل یترک، کذا فی الظہیریة“ ((الھندیۃ 6/239) الأسباب المزیلة للضرر تنقسم الی مظنون کالفصد وسائر أبواب الطب وترکہ لیس محظورا“ ((الھندیۃ کتاب الکراہیة باب الثامن عشر) بخلاف من امتنع عن التداوي حتی مات (یعنی لایکون عاصیًا)“(شامی 5/512) من تردّی من جبل فقتل نفسہ فہو فی نار جہنم یتردّی فیہا خالدًا مخلدًا فیہا ابدًا، ومن تحسّی سمًا فقتل نفسہ فسمہ فی یدہ یتحساہ فی نار جہنم خالدًا مخلدًا فیہا ابدًا، ومن قتل نفسہ بحدیدة فحدیدتہ فی یدہ یتوجأ بہا فی بطنہ فی نار جہنم خالدًا مخلدًا ابدًا (مسلم مع فتح الملہم 1/265)  ن جندب بن عبد اللہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: کان فیمن کان قبلکم رجل بہ جرح، فجزع، فأخذ سکینا فحز بہا یدہ، فما رقأ الدم حتی مات، قال اللہ تعالی: بادرَنی عبدی بنفسہ، حرمت علیہ الجنة․ رواہ البخاری (3463) عن أبی ہریرة قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من قتل نفسہ بحدیدة فحدیدتہ فی یدہ یتوجأ بہا فی بطنہ فی نار جہنم“ ومن شرف سما فقتل نفسہ (الحدیث)“ قولہ فحدیدتہ فی یدہ، قال ابن دقیق العید: ․․․ ویوٴخذ منہ أن جنایة الانسان علی نفسہ کجنایتہ علی غیرہ فی الاسلام، لأن نفسہ لیست ملکا لہ مطلقا بل ہی للّٰہ تعالیٰ فلا یتصرف فیہا الا بما أذن فیہ (فتح الملہم: 1/562)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 2473/45-3740

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دونوں کے لئے ضروری ہے کہ گناہوں سے بچنے کی کوشش کریں، اور سابقہ گناہوں سے توبہ کرکے اعمال صالحہ پر جمنے کی کوشش کریں ۔ ہر فرض نماز کے بعد داہنا ہاتھ سر پر رکھ کر 'یاقوی' گیارہ مرتبہ پڑھ لیا کریں، سوتے وقت گیارہ مرتبہ سورہ فاتحہ ، اول و آخر گیارہ مرتبہ درود شریف پڑھ لیا کریں،اور خمیرہ گاؤزبان عنبری جواہر والا خاص ہمدرد کا اور خمیرہ ابریشم حکیم ارشد والا دونوں برابر مقدار میں صبح کو پانچ گرام گرم پانی سے لے لیا کریں، انشاء اللہ جسم میں طاقت رہے گی اور حافظہ بھی قوی ہوگا، اس کے علاوہ ضرورت ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 2818/45-4422

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اصولی طور پر تنہائی میں آہستہ آواز سے ذکر کرنا بہتر ہے۔ لیکن اجتماعی طور پر جہرا ذکرکرنا شرعا جائزہے۔ اوراس سلسلہ میں حدیث قدسی سے ثبوت ملتاہے۔

عن أبي ھریرہ رضى اللہ عنہ قال قال النبي ﷺ يقول الله تعالى أنا عند ظن عبدي بي وأنا معه إذا ذکرنی فان ذکرنی في نفسه ذكرتہ فی نفسي وإن ذكرني في ملاء ذكرته في ملاء خير منهم (صحیح بخاری 9/121) (صحیح مسلم 4/2061)

اس لئے اگر کوئی متبع شریعت، شیخ کامل اپنے مریدوں کی اصلاح و تربیت کیلئے کسی ایسی جگہ ذکرکی مجلس منعقد کرے جہاں دوسرے عبادت کرنے والوں کی عبادت میں خلل نہ پڑے اور اسے لازم نہ سمجھا جائے تو اسکی اجازت ہے ۔ حضرت مولانا حکیم اخترصاحب نوراللہ مرقدہ یا ان کے خلفاء کی جانب سے ذکر کی مجالس کا انعقاد درست ہے۔ اور ان کے خلفاء سے اصلاحی تعلق قائم کرنا بھی درست ہے۔ صوفیاء کرام کا مقصد یہ ہے ذکر اللہ سے اللہ تبارک وتعالی کی یاد تازہ ہوتی ہے اور تعلق و محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔

عن ابی ھر یرۃ  قال قال النبي ﷺ يقول الله تعالى أنا عند ظن عبدي بي وأنا معه إذا ذکرنی فان ذکرنی في نفسه ذكرتہ فی نفسي وإن ذكرني في ملاء ذكرته في ملاء خير منهم وإن تقرب إلى بشبر تقربت إليه ذراعا وإن تقرب إلى ذراعاً تقربت إليه باعا وإن أتاني يمشي أتيته هرولة – (متفق عليه) اخرجه البخاري في الصحيح، کتاب التوحید ، باب قول اللہ  و يحذركم اللہ نفسہ 6/2694)

( قوله ورفع صوت بذكر ) أقول : اضطرب كلام صاحب البزازية في ذلك فتارة قال إنہ حرام وتارة قال إنه جائز و فى الفتاوى الخيرية من الكراهة والإستحسان جاء في الحديث به اقتضى طلب الجهر به نحوه وإن ذكرنى فى ملاء ذكرته فى ملاء خير منهم - رواه الشيخان .... فقال بعض أهل العلم إن الجھر أفضل لأنه أكثر عملا ولتعدى فائدته إلى السامعين و يوقظ قلب الذاكر فيجمع همه إلى الفکر وبصرف سمعہ إليه ويطرد النوم ويزيد النشاط . (الدر المختار مع رد المحتار 1/660)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 1575/43-1111

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ماں کے دودھ کی طرح بکری اور گائے کا دودھ بھی مفید ہوسکتاہے، اس سلسلہ میں ڈاکٹر سے بات کرلی جائے، تاہم اگر کوئی دوسری  صورت نہ ہو تو بدرجہ مجبوری ماں کا دودھ بقدر ضرورت کچھ دنوں تک اس طرح پلایاجاسکتاہے۔

’’وتكره ألبان الأتان للمريض وغيره، وكذلك لحومها، وكذلك التداوي بكل حرام، كذا في فتاوى قاضي خان. ... يجوز للعليل شرب الدم والبول وأكل الميتة؛ للتداوي إذا أخبره طبيب مسلم أن شفاءه فيه ولم يجد من المباح ما يقوم مقامه‘‘.  (الھندیۃ 5/355)

"مطلب في التداوي بالمحرم: قوله: اختلف في التداوي بالمحرم) ففي النهاية عن الذخيرة يجوز إن علم فيه شفاء ولم يعلم دواء آخر. وفي الخانية في معنى قوله عليه الصلاة والسلام: «إن الله لم يجعل شفاءكم فيما حرم عليكم» كما رواه البخاري أن ما فيه شفاء لا بأس به كما يحل الخمر للعطشان في الضرورة، وكذا اختاره صاحب الهداية في التجنيس فقال: لو رعف فكتب الفاتحة بالدم على جبهته وأنفه جاز للاستشفاء، وبالبول أيضا إن علم فيه شفاء لا بأس به، لكن لم ينقل وهذا؛ لأن الحرمة ساقطة عند الاستشفاء كحل الخمر والميتة للعطشان والجائع. اهـ من البحر. وأفاد سيدي عبد الغني أنه لا يظهر الاختلاف في كلامهم لاتفاقهم على الجواز للضرورة، واشتراط صاحب النهاية العلم لا ينافيه اشتراط من بعده الشفاء ولذا قال والدي في شرح الدرر: إن قوله: لا للتداوي محمول على المظنون وإلا فجوازه باليقيني اتفاق كما صرح به في المصفى. اهـ.

أقول: وهو ظاهر موافق لما مر في الاستدلال، لقول الإمام: لكن قد علمت أن قول الأطباء لايحصل به العلم. والظاهر أن التجربة يحصل بها غلبة الظن دون اليقين إلا أن يريدوا بالعلم غلبة الظن وهو شائع في كلامهم تأمل (قوله: وظاهر المذهب المنع) محمول على المظنون كما علمته (قوله: لكن نقل المصنف إلخ) مفعول نقل قوله: وقيل: يرخص إلخ والاستدراك على إطلاق المنع، وإذا قيد بالمظنون فلا استدراك. ونص ما في الحاوي القدسي: إذا سال الدم من أنف إنسان ولاينقطع حتى يخشى عليه الموت وقد علم أنه لو كتب فاتحة الكتاب أو الإخلاص بذلك الدم على جبهته ينقطع فلا يرخص له فيه؛ وقيل: يرخص كما رخص في شرب الخمر للعطشان وأكل الميتة في المخمصة وهو الفتوى. اهـ (قوله:  ولم يعلم دواء آخر) هذا المصرح به في عبارة النهاية كما مر وليس في عبارة الحاوي، إلا أنه يفاد من قوله كما رخص إلخ؛ لأن حل الخمر والميتة حيث لم يوجد ما يقوم مقامهما أفاده ط. قال: ونقل الحموي أن لحم الخنزير لا يجوز التداوي به وإن تعين، (شامی 1/210)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند