متفرقات

Ref. No. 2756/45-4290

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فرائض کی ادائیگی سب سے پہلے لازم ہے پھر اس کے بعد آدمی نوافل پڑھے یا نہ پڑھے یہ اس کا اپنا اختیار ہے، تاہم اگر کوئی فرائض ادا نہیں کرتا اور کسی موقع پر نفل پڑھتاہے تو اس کی وہ عبادت امید ہے کہ قبول کی جائے گی گرچہ فرائض کے ترک کی بناء پر وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوگا اور اس کا گناہ اور وبال اس پر ہوگا، لیکن فرض چھوڑنے والے سے فرض کی ادائیگی کی ترغیب دی جائے گی نوافل پڑھنے سے منع نہیں کیا جائے گا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 2471/45-3742

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   حضرت عثمان ؓ کے والد  عفان نے اسلام قبول کیا تھا یا نہیں، اس سلسلہ میں مستند  کتب متداولہ میں کہیں کوئی  صراحت نہیں ملتی ہے،  اس لئے اس سلسلہ میں کچھ بھی کہنا درست نہیں ہوگا، تاہم عفان نام بذات خود اچھا معنی رکھتا ہے، اس لئے عفان نام رکھنا درست ہے، اس میں کسی طرح کا شبہہ نہ کیاجائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 2132/44-2202

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اصلاح باطن اور اہتمام کے ساتھ سنت و شریعت کی پابندی کی ضرورت ہے۔ خواب میں اس جانب بھی اشارہ ملتاہے کہ جانے انجانے میں کچھ ایسے اعمال سرزد ہورہے ہیں  جواہل سنت والجماعت کے عقائد کے منافی ہیں ۔ اس لئے کسی متبع سنت شیخ سے تعلق قائم کرکے اپنے احوال بیان کریں اور ان سے عقائد و اعمال کی اصلاح کے لئے مسلسل رابطہ میں رہیں، ان شاء اللہ فائدہ ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 1653/43-1319

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  دوسرے کی زمین پر ظالمانہ قبضہ کرنا حرام ہے، ایسا شخص فاسق ہے، اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے۔ اگر وہ شخص زمین واپس نہیں کرتا یا زمین کے مالک کو پیسے دیکر صلح نہیں کرتا تو اس کو ہٹاکر کسی اور مناسب شخص کو امام بنالینا چاہئے۔

"و" لذا كره إمامة "الفاسق" العالم لعدم اهتمامه بالدين فتجب إهانته شرعا فلا يعظم بتقديمه للإمامة وإذا تعذر منعه ينتقل عنه إلى غير مسجده للجمعة وغيرها وإن لم يقم الجمعة إلا هو تصلى معه "والمبتدع" بارتكابه ما أحدث على خلاف الحق المتلقى عن رسول الله صلى الله عليه وسلم من علم أو عمل أو حال بنوع شبهة أو استحسان وروى محمد عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى وأبي يوسف أن الصلاة خلف أهل الأهواء لا تجوز والصحيح أنها تصح مع الكراهة خلف من لا تكفره بدعته لقوله صلى الله عليه وسلم: "صلوا خلف كل بر وفاجر وصلوا على كل بر وفاجر وجاهدوا مع كل بر وفاجر" رواه الدارقطني كما في البرهان وقال في مجمع الروايات وإذا صلى خلف فاسق أو مبتدع يكون محرزا ثواب الجماعة لكن لا ينال ثواب من يصلي خلف إمام تقي (حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی، فصل فی بیان الاحق بالامامۃ 1/302)

قوله: وفاسق) من الفسق: وهو الخروج عن الاستقامة، ولعل المراد به من يرتكب الكبائر كشارب الخمر، والزاني وآكل الربا ونحو ذلك. وأما الفاسق فقد عللوا كراهة تقديمه بأنه لايهتم لأمر دينه، وبأن في تقديمه للإمامة تعظيمه، وقد وجب عليهم إهانته شرعًا  (شامی کتاب الصلاة، باب الإمامة، ج:1، ص:560، ط:سعید) "وفي النهر عن المحيط: صلّى خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعة، وكذا تكره خلف أمرد وسفيه ومفلوج، وأبرص شاع برصه، وشارب الخمر وآكل الربا ونمام، ومراء ومتصنع.  - - - قوله: نال فضل الجماعة) أفاد أنّ الصلاة خلفهما أولى من الانفراد، لكن لاينال كما ينال خلف تقي ورع لحديث: «من صلّى خلف عالم تقي فكأنما صلى خلف نبي»، قال في الحلية: ولم يجده المخرجون نعم أخرج الحاكم في مستدركه مرفوعًا: «إن سركم أن يقبل الله صلاتكم فليؤمكم خياركم، فإنهم وفدكم فيما بينكم وبين ربكم»." (شامی کتاب الصلاة، باب الإمامة، ج:1، ص:562، ط: سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 2372/44-3587

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آیوشمان کارڈ بنوانے والوں کو حکومت یہ سہولت دیتی ہے کہ اگر وہ بیمار ہوجائیں تو پانچ لاکھ تک کا علاج مفت ہوسکتاہے اور یہ کارڈ مفت بنتاہے۔ یہ حکومت کی طرف سے ایک تعاون ہے ، اگر یہ کارڈ جھوٹ بول کر نہ بنوایاگیاہو تو اس کارڈ کو بنوانے اور اس کے ذریعہ علاج کرانے میں شرعا کوئی حرج  نہیں ہے، اور نہ یہ توکل کے خلاف ہے، کیونکہ دنیا دارالاسباب ہے اور اسباب اختیار کرنا ممنوع نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 40/913

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسلمان مسلمان کا دینی بھائی ہے اور غیرمسلم وطنی بھائی ہیں اور کچھ تو نسبی بھائی بھی ہوتے ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 2311/44-3469

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صحاح ستہ میں کل چھ کتابیں ہیں ان کے نام یہ ہیں: بخاری شریف، مسلم شریف،  ترمذی شریف، ابوداؤد شریف، نسائی شریف، اور سنن ابن ماجہ۔ 

ان میں بھی ترتیب ہے ۔پہلا درجہ بخاری شریف کا ہے دوسرا درجہ مسلم شریف کا ،تیسرا درجہ ابو داود کا، چوتھا ترمذی کا ،اور پانچواں نسائی کا ہے ابن ماجہ کو تمام لوگ صحاح میں شامل نہیں مانتے ہیں، ابو طاہر مقدسی نے ابن ماجہ کوصحاح میں شامل کیا ہے بعد میں لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے، کتب احادیث میں صحاح کا مقام اہمیت کا حامل ہے اس لیے صحاح ستہ کا مطالعہ کرنا درست اور بہتر ہے تاہم بخاری ومسلم کے علاوہ کتب صحاح میں ضعیف احادیث بھی ہیں ان ماجہ میں بعض روایت موضوع بھی ہیں اس لیے تمام روایات سے استدلال درست نہیں ہے بلکہ حدیث کی حیثیت کو دیکھ کر استدلال کرنا چاہئے۔

ان کتب احادیث کے اردو ترجمے بھی ہوئے ہیں علماء دیوبند نے عموماً ان کی اردو شرحیں لکھی ہیں جن میں ترجمہ کا بھی اہتمام کیا گیا ہے،  بخاری شریف کے لیے تحفۃ القاری (مفتی سعید احمد پالنپوریؒ) نصر الباری مولانا عثمان غنی صاحب، ترمذی شریف کے لیے تحفۃ  الالمعی  (حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالن پوریؒ) مطالعہ کے لیے بہتر ہیں۔

اردو ترجمہ مسلم (مولانا مفتی کفیل الرحمن نشاط عثمانی ابو داود کے لئے الدر المنضود (حضرت مولانا عاقل صاحب) ابن ماجہ کے لیے تکمیل الماجہ (مفتی غلام رسول قاسمی) مفید کتابیں ہیں جن میں ترجمہ کے ساتھ مطلب تشریف بھی ہے آپ ان کتابوں کے صرف تراجم پر بھی اکتفا کر سکتے ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 1473/42-920

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بطور تاکید اور بعض مرتبہ بطور فرض   اور تقدیر  اس طرح کے الفاظ کا اضافہ کردیا جاتاہے اور اس  میں کوئی  حرج نہیں ہے۔ قرآن میں ہے کہ " لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک وماتاخر"(سورۃ الفتح)  واللہ غفور  رحیم (سورۃ التحریم) جبکہ آپ ﷺ معصوم ہیں۔  

وقوله - عَزَّ وَجَلَّ -: (وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ). أي: غفور لما تقدم من ذنبك وما تأخر لو كان. أو يكون رحيما؛ حيث لم يعاقبك بما اجترأت من الإقدام على اليمين؛ لا بإذن سبق من اللَّه تعالى لك فيه. (تفسیر الماتریدی، تاویلات اھل السنۃ2، 10/77)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1838/43-1669

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ استقرار حمل کے بعد اگر کوئی خاص وجہ نہ ہو تو ایک مہینہ کے حمل کو بھی ضائع کرناجائز نہیں ہے۔  البتہ اگر کوئی معقول وجہ ہو جیسے کہ حمل سے عورت کی جان کو خطرہ  ہو یا کسی شدید مضرت کا اندیشہ ہویا  حمل سے عورت کا دودھ بند ہوجائے جس  سے پہلے بچہ کو نقصان ہوتو ایسی مجبوری کی صورتوں میں  ابھی ابتدائی مرحلہ میں  اسقاط  حمل کی گنجائش ہے۔

"وقالوا: يباح إسقاط الولد قبل أربعة أشهر ولو بلا إذن الزوج. (قوله: وقالوا إلخ) قال في النهر: بقي هل يباح الإسقاط بعد الحمل؟ نعم! يباح ما لم يتخلق منه شيء ولن يكون ذلك إلا بعد مائة وعشرين يوماً، وهذا يقتضي أنهم أرادوا بالتخليق نفخ الروح وإلا فهو غلط؛ لأن التخليق يتحقق بالمشاهدة قبل هذه المدة، كذا في الفتح. وإطلاقهم يفيد عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذكورة على إذن الزوج. وفي كراهة الخانية: ولا أقول بالحل إذ المحرم لو كسر بيض الصيد ضمنه؛ لأنه أصل الصيد، فلما كان يؤاخذ بالجزاء فلا أقل من أن يلحقها إثم هنا إذا سقط بغير عذرها اهـ قال ابن وهبان: ومن الأعذار أن ينقطع لبنها بعد ظهور الحمل وليس لأبي الصبي ما يستأجر به الظئر ويخاف هلاكه. ونقل عن الذخيرة لو أرادت الإلقاء قبل مضي زمن ينفخ فيه الروح هل يباح لها ذلك أم لا؟ اختلفوا فيه، وكان الفقيه علي بن موسى يقول: إنه يكره، فإن الماء بعدما وقع في الرحم مآله الحياة فيكون له حكم الحياة كما في بيضة صيد الحرم، ونحوه في الظهيرية قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة على حالة العذر، أو أنها لاتأثم إثم القتل اهـ. وبما في الذخيرة تبين أنهم ما أرادوا بالتحقيق إلا نفخ الروح، وأن قاضي خان مسبوق بما مر من التفقه، والله تعالى الموفق اهـ كلام النهر ح۔ (شامی،  مطلب فی اسقاط الحمل، باب نکاح الرقیق، 3/176ط؛ سعید)

"وذهب الحنفیة إلی إباحة إسقاط العلقة حیث أنهم یقولون بإباحة إسقاط الحمل ما لم یتخلق منه شيء ولم یتم التخلق إلا بعد مائة وعشرین یوماً، قال ابن عابدین: وإطلاقهم یفید عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذکورة علی إذن الزوج، وکان الفقیه علي بن موسی الحنفي یقول: إنه یکره فإن الماء بعد ما وقع في الرحم مآله الحیاة، فیکون له حکم الحیاة کما في بیضة صید الحرم، قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة علی حالة العذر أو أنها لا تأثم إثم القتل." (الموسوعة الفقهیة الکویتیة 30/285)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 2343/44-3527

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔    صورت مذکورہ میں بھائی کوچاہئے کہ اپنی بہن سے وقتی طور پر قطع تعلق کرلے تاکہ وہ اپنے گناہ سے باز آجائے اور اس کی اصلاح ہوسکے۔ البتہ اگر قطع تعلق سے اس کے مزید بگڑنے کااندیشہ ہو تو اس سے قطع تعلق نہ کیا جائے، بلکہ  وقتًا فوقتًا اس کو حکمت سے سمجھانے کی کوشش کی جائے۔

" أراد بهذه الترجمة بيان الهجران الجائز لأن عموم النهي مخصوص بمن لم يكن لهجره سبب مشروع فتبين هنا السبب المسوغ للهجر و هو لمن صدرت منه معصية فيسوغ لمن اطلع عليها منه هجره عليها ليكف عنها."

(فتح الباری شرح صحیح البخاری،قوله باب ما يجوز من الهجران لمن عصى، 10/497،ط:دارالمعرفۃ بیروت)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند