Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:یہ بات صحیح نہیں ہے کہ دونوں میں سے ایک کا پڑھ لینا کافی ہے؛ بلکہ عید و جمعہ کے دونوں خطبے اور دونوں نمازیں پڑھنا ضروری اور واجب ہے۔’’وفي الجامع الصغیر عیدان اجتمعا في یوم واحد، فالأول سنۃ، والآخر فریضۃ، ولا یترک واحد منہما‘‘(۱)(۱) المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۲۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 178
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: جب یہ دونوں دیہات سہارنپور سے علیحدہ اور مستقل ہیں اور سہارنپور کے محلے نہیں ہیں اگر ان گاؤں میں شرائط جمعہ نہیں پائی جاتی ہیں تو ان کے باشندوں پر نماز جمعہ واجب نہیں ہے۔ آواز کا آنا وجوب جمعہ کے لیے کافی نہیں ہے۔’’ولا یجب علی من کان خارجہ ولو سمع النداء من المصر سواء کان سوادہ قریباً من المصر أو بعیداً علی الأصح فلا یعمل بما قیل بخلافہ وإن صحح‘‘(۱)’’(فلا یعمل بما قیل) قال في الشرح: قد علمت بنص الحدیث والأثر والروایۃ عن ائمتنا أبي حنیفۃ وصاحبیہ واختیار المحققین من أہل الترجیح أنہ لا عبرۃ ببلوغ النداء، ولا بالغلوۃ والأمیال، وإنہ لیس بشيء فلا علیک من مخالفۃ غیرہ وإن ذکر تصحیحہ فمنہ ما في البدائع أنہ إن أمکن أن یحضر الجمعۃ وببیت بأہلہ من غیر تکلف یجب علیہ الخ‘‘(۲)
(۱) أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ص: ۵۰۴۔(۲) أیضاً: ص: ۵۰۵۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 177
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اس صورت میں جماعت کا نہ ہونا ایک اتفاقی امر ہے جس کے باعث حکم سابق منقوض نہیں ہوگا لہٰذا جمعہ کی نماز حسب سابق درست اور لازم ہے۔(۲)(۲) قولہ: (وفي القہستاني الخ) … تقع فرضا في القصبات والقری الکبیرۃ التي فیہا أسواق۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۶)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 177
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: جمعہ کے روز تمام کاروبار خرید و فروخت جمعہ کی اذان اول تک جائز ہے، اس کے بعد مکروہ تحریمی ہے۔ تنویر الابصار میں ہے۔ ’’وکرہ البیع عند أذان الأول‘‘ پس اذان کے ہوتے ہی جملہ کاروبار ترک کرکے جمعہ کے لئے خالی ہوجانا چاہئے۔(۱)(۱) وترک البیع … (بالأذان الأول) في الأصح، وإن لم یکن في زمن الرسول ﷺ؛ بل في زمن عثمان رضي اللّٰہ عنہ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۳۸)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 176
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: جمعہ کے دن کی فجر سے پہلے اور جمعہ کی نماز کے بعد سفر کرنے میں کوئی اختلاف نہیں ہے بالاتفاق جائز ہے ، اور فجر کے بعد زوال سے پہلے سفر شروع کرنے میں بھی احناف کے یہاں کوئی کراہت نہیں ہے، جائز ہے ،البتہ زوال کے بعد یعنی جمعہ کا وقت شروع ہوجانے کے بعد سفر شروع کرنا احناف کے یہاں مکروہ ہے ہاں اگر ساتھی کے چھوٹ جانے کا اندیشہ ہو، یا شدید مجبوری ہو، ٹرین کا ٹائم وہی ہو اور کوئی مناسب متبادل نہ تو زوال کے بعد بھی سفر کیا جاسکتاہے۔’’کما یکرہ السفر بعد دخول وقت الجمعۃ‘‘(۱)’’ویکرہ بعد الزوال یوم الجمعۃ لا قبلہ، و في شرح الأقطع: لا یکرہ قبلہ و بعدہ، و في النوادر: أن یسافر یوم الجمعۃ قبل الصلاۃ من غیر فصل، و في المبسوط: لا یجوز السفر بعد الزول یوم الجمعۃ عند الشافعي، وکذاعند المالکیۃ ذکرہ في الذخیرۃ للقرافي‘‘(۲)(۱) ابن الہمام الحنفي، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۴۹۔(۲) العیني، البنایۃ، شرح الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: البیع و الشراء بعد أذان الجمعۃ الأول‘‘: ج ۳، ص: ۹۴۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 175
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: شریعت اسلامیہ کی نظر میں قیام جمعہ کا مقصد تکثیر جماعت مسلمین ہے تاکہ ان کو وعظ و نصیحت اور خطبہ سننے کا موقع ملے اور اس کے ذریعہ مسائل اور دینی معلومات فراہم ہوں؛ لیکن فریضہ کی ادائیگی ایک ساتھ مل کر کر سکیں اس کے پیش نظر مسجد کے قرب و جوار کے مسلمان، دوکانداروں اور صادرین مسلمان جس وقت میں زیادہ سے زیادہ جمع ہوسکیں اور سب کو نماز جمعہ سہولت کے ساتھ مل سکے ایسے وقت کا تعین ذمہ داران مسجد کے لیے جائز ہے۔ اور اس کے پیش نظر تبدیلی وقت بھی بلا شبہ جائزاور درست ہے۔(۱)(۱) وقال الجمہور لیس بمشروع؛ لأنہا تقام بجمع عظیم فتأخیرہ مفض إلی الحرج۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب: في طلوع الشمس من مغربہا‘‘: ج ۲، ص: ۲۵)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 174
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: نماز کے بعدجو دعا کی جاتی ہے وہ سنت ہے۔ اس کی پابندی لوگ اس وجہ سے کرتے ہیں کہ فرائض کے بعد خاص طور پردعا مقبول ہوتی ہے۔ اس لیے نماز جمعہ کے بعد دعاء کو مؤخر کرنے اور مذکورہ تقریر و چندہ کو مقدم کرنے کی شرعاً گنجائش ہے۔ ہاںاس کے بعد جو دعا کی جائے گی وہ دعاء اس حدیث کا مصداق نہیں ہوگی جس میں کہا گیا ہے کہ فرائض کے بعد قبولیت دعاء کا بہترین وقت ہے اور اس کا وہ اجر نہ ہوسکے گا جو بعد فرض متصلاً دعاء پر ملتا ہے؛ اس لیے بہتر یہ ہے کہ سب نمازیوں کو پہلے سے اطلاع دے دی جائے کہ بعد دعاء صرف پانچ منٹ بیان ہوگا امید کہ لوگ ضرور ٹھہر کر سنیں گے۔(۱)(۱) قال اللّٰہ تعالیٰ: {فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَب ہلا۷ } (سورۃ الم نشرح: ۷)وقال قتادۃ: فإذا فرغت من صلاتک فانصب إلیٰ ربک في الدعاء۔ (أحمد بن علی الجصاص، أحکام القرآن، ’’سورۃ القدر: ۳‘‘: ج ۳، ص: ۸۱۳)وعن علي بن أبي طالب رضي اللّٰہ عنہ قال: کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا سلم من الصلاۃ قال: اللہم اغفرلي ما قدمت، وما أخرت، وما أسررت، وما أعلنت، وما أسرفت، وما أنت أعلم بہ مني، أنت المقدم وأنت المؤخر لا إلہ إلا أنت۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یقول الرجل إذا سلم‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۲، رقم: ۱۵۰۹)قولہ: (قلت الخ) … ولا ینبغي أن یتکلف لإلتزام ما لم یکن في الصدر الأول۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مطلب: في کراہۃ الاقتداء في النفل علی سبیل التداعي الخ‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۱)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 172
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک نماز فجر میں (بوقت ضرورت) قنوت نازلہ پڑھنا افضل اور بہتر ہے، کسی دوسری سری یا جہری نماز میں مشروع نہیں ہے۔شوافع کے یہاں جن روایات سے فجر کے علاوہ دیگر نمازوں میں قنوت نازلہ کی مشروعیت پر استدلال کیا جاتا ہے وہ روایات ہمارے نزدیک منسوخ ہیں۔’’عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ قال: قنت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم شہراً بعد الرکوع في صلاۃ الصبح یدعو علی رعل وذکوان ویقول عصیۃ عصیت اللّٰہ ورسولہ‘‘(۱)’’قولہ: (فیقنت الإمام في الجہریۃ) … وأما القنوت في الصلات کلہا للنوازل لم یقل بہ؛ إلا الشافعي وکأنہم حملوا ما روي عنہ علیہ الصلاۃ والسلام أنہ قنت في الظہر والعشاء کما في مسلم، وأنہ قنت في المغرب أیضاً کما في البخاري علی النسخ لعدم ورود المواظبۃ والتکرار الواردین في الفجر عنہ علیہ الصلاۃ والسلام‘‘(۲)(۱) أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’کتاب الوتر: باب القنوت قبل الرکوع وبعدہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۶، رقم: ۱۰۰۳۔(۲) ابن عابدین، ردالمحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مطلب: في القنوت للنازلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۹۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 171
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اس صورت میں دو رکعت نماز جمعہ کی ادا کرے، ظہر نہ پڑھے یہ ہی صحیح قول ہے۔(۱)(۱) ومن أدرکہا فيالتشہد أو في سجود السہو أتم جمعۃ۔ (حسن بن علي الشرنبلالي، نورالایضاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ص: ۱۱۸ حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ص: ۵۲۲) (ومن أدرکہا في تشہد أو سجود سہو) … (یتمہا جمعۃ)۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۳۳۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 171
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: جمعہ کے دن سورہ کہف کی تلاوت کرناافضل ہے، احادیث شریفہ میں اس کے بڑے فضائل مذکور ہیں؛ چناں چہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص جمعہ کے روز سورہ کہف پڑھے وہ اگلے آٹھ دن تک ہر فتنہ سے محفوظ رہے گا،حتی کہ اگر دجال نکل آئے تو اس کے فتنے سے بھی محفوظ رہے گا۔’’من قرأ سورۃ الکہف یوم الجمعۃ فہو معصوم إلی ثمانیۃ أیام من کل فتنۃ وإن خرج الدجال عصم منہ‘‘(۱)(۱)ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ الکہف: ۵‘‘: دار الکتب العلمیہ، بیروت، ج ۵، ص: ۱۲۲۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 170