نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: سورہ تراویح ہی بہتر ہے، معاوضہ دے کر قرآن نہ سنا جائے اور نہ سنوایا جائے(۲) ہاں اگر معاوضہ طے نہ ہو اور نہ دینے پر کوئی شکایت بھی نہ ہو، بلکہ ختم کے بعد اپنے طور پر کوئی ہدیہ و تحفہ سننے یا سنانے والے کو دیدے تو اس میں مضائقہ نہیں اس لیے کہ وہ معاوضہ نہیں ہے۔(۳)

(۲) فالحاصل أن ماشاع في زماننا من قراء ۃ الأجزاء بالأجرۃ لایجوز لأن فیہ الأمر بالقراء ۃ وإعطاء الثواب للآمر والقرائۃ لأجل المال۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار،’’کتاب الإجارۃ: باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب تحریر مہم في عدم جواز الاستئجار علی التلاوۃ‘‘: ج ۹، ص: ۷۷)

(۳) کفایت المفتی میں ہے: اسی طرح اگر بلا تعیین کچھ دے دیا جائے اور نہ دینے پر کوئی شکایت بھی نہ ہو اور نہ وہاں بطور اجرت لینے دینے کا عرف ورواج ہو تو یہ صورت اجرت سے خارج اور جواز میں داخل ہو سکتی ہے۔ (کفایت المفتی: ج ۳، ص: ۳۹۵، ۴۱۰، دار الکتاب، دیوبند)

فتاوي دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 35

Usury / Insurance

Ref. No. 3222/46-7092

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

In response to your previous question, it was explained that the amount of profit cannot be fixed, as doing so, it would make the transaction interest-based. (1) In the scenario you presented here, where a fixed amount of four thousand is specified, it clearly becomes an interest-based transaction. (2) In profit-sharing agreements, the profit should be divided according to an agreed-upon percentage, where, for example, on a sum of one hundred thousand, the profit would be distributed such as that X receives a certain percentage and Y receives another. In your case, whether there is profit or not, and regardless of whether it is large or small, specifying a fixed profit amount or determining a percentage from the principal amount is completely un-Islamic and constitutes an interest-based transaction. Both of the forms you mentioned in your question are unlawful (haram). Please review your previous question carefully and refrain from asking further questions on this matter. If you do not understand, kindly consult a qualified scholar in your area face to face for clarification.

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband 

Fiqh

Ref. No. 3221/46-7093

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شریعت اسلامیہ میں انسانی اعضاء و اجزاء  کے احترام کے پیش نظر بلاضرورت شدیدہ ان کا استعمال اور ان سے انتفاع  جائز نہیں ہے۔ عورت کا دودھ اس کا جزء ہے اس سے بھی انتفاع جائز نہیں ہے، تاہم بچے کی شیرخوارگی کے زمانہ میں ضرورتاً بچے کے لیے  ماں کا دودھ پینے کی اجازت ہے اور بچہ کے دو سال کا ہوجانے کے بعد جب ضرورت نہیں رہی تو اب دودھ پینا بچہ کے لئے بھی جائز نہیں رہتاہے۔یعنی  کسی بڑے یا چھوٹے کا کسی عورت کا دودھ پینا جائز نہیں ہے چاہے عورت کی مرضی سے ہو ، اور شوہر کے لئے  بھی اپنی بیوی کا دودھ پینا جائز نہیں ہے، تاہم اگر کبھی پستان منھ میں لیا اور دودھ نکل آیا تو اس کو تھو ک دے، اس کو نگل لیناجائز  نہیں ہے ۔ تاہم اس سے رشتہ نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

"(مص من ثدي آدمية) ولو بكرا أو ميتة أو آيسة، وألحق بالمص الوجور والسعوط (في وقت مخصوص) هو (حولان ونصف عنده وحولان) فقط (عندهما وهو الأصح) ولو بعد الفطام محرم وعليه الفتوى،.... لأنه جزء آدمي والانتفاع به لغير ضرورة حرام على الصحيح شرح الوهبانية". (شامی، كتاب الرضاع، ج:3، ص:209/210/211، ط:ايج ايم سعيد)

"(ولم يبح الإرضاع بعد مدته)؛ لأنه جزء آدمي، و الانتفاع به لغير ضرورة حرام على الصحيح، شرح الوهبانية". )الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (3 / 211(

"مص رجل ثدي زوجته لم تحرم". )الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (3 / 225(

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 3220/46-8005

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ والدہ نے جو زیور یا مال کسی بیٹی یا بیٹے کو دے کر مالک بنادیا وہ اس کا ہوگیا اس میں دیگر ورثہ کا حصہ نہیں ہوگا،اور زندگی میں کسی کو کچھ دیدینے سے مرنے کے بعد وراثت  کے حصہ میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔الیکن اگر زبانی طور پر ہبہ کیا اور قبضہ میں نہیں دیا تو ہبہ مکمل نہیں ہوا،  اور یہ زیور بھی مرحومہ کا ترکہ ہوگا،  لڑکی اس کی  مالک نہ ہوگی۔ہاں جو زمین لڑکی کے نام کردی گئی ہے وہ اس کی ملکیت ہے اس کو وراثت میں تقسیم نہیں کیا جائے گا۔

 البتہ مرنے کے وقت آپ کی والدہ کی ملکیت میں جو کچھ تھا چاہے وہ زمین ہو یا مکان یا زیورات اور روپئے پیسے ہوں۔ کل جائداد کو  اس کے شوہر، بیٹی اور بیٹوں میں اس طرح  تقسیم کیاجائے گا کہ شوہر کو کل جائداد کا چوتھا حصہ دینے کے بعد مابقیہ مال  بیٹی اور بیٹوں کو  للذکر مثل حظ الانثیین کے حساب سے دیدیں گے۔ چنانچہ اگر کل ملکیت 6400000  روپئے ہی ہیں تو ان میں سے  سولہ لاکھ (1600000) مرنے والی کے شوہر کو،  چھ لاکھ پچاسی ہزار سات سو چودہ روپئے (685714) بیٹی کو، اور  تیرہ لاکھ اکہتر  ہزار چار سو اٹھائیس روپئے (1371428) ہر ایک بیٹے کو دیئے جائیں گے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 3219/46-7078

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بالوں کی کٹنگ اس طور پر کرنا کہ کچھ حصہ کے بال بڑے ہوں اور کچھ حصہ کے چھوٹے ہوں، خلاف سنت اور مکروہ ہے، ایسا کرنے سے احتراز کرنا چاہئے اور بالوں کو ہرچہار جانب سے برابر کٹوانا چاہئے۔ البتہ اگرسر کے  بالوں کو کنارے سے مونڈدیاجائے یا انتہائی باریک کردیاجائے اور بیچ میں بال رکھے جائیں، یا بیچ سے مونڈ کر کنارے کے بال باقی رکھے جائیں تو ایسا کرنا 'قزع' کے تحت ناجائز اور سخت گناہ ہوگاجس کی حدیث میں ممانعت ہے ۔

جو امام فساق اور فجار والی ہیئت پر سر کے بال  رکھتا ہو جیسا کہ آپ  کی بھیجی ہوئی تصاویر میں  ہے تو ایسے شخص کو مستقل امام بنانا مکروہِ تحریمی ہو گا۔ مسجد کمیٹی کو چاہئے کہ امام مقرر کرنے سے پہلے ان سب چیزوں  پر نظر کرلیں۔ تاہم اگر امام کو تنبیہ کردی جائے اور وہ  اپنے بال صحیح کرالے تو اس کو امامت پر باقی رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

القزع أربعة انواع: أحدہا: أن یحلق من رأسہ مواضع من ھاھنا و ھاھنا ․․․․․․․․ الثانی: أن یحلق وسطہ ویترک جوانبہ ․․․․․․․․ الثالث: أن یحلق جوانبہ ویترک وسطہ ․․․․․․․․ الرابع: أن یحلق مقدمہ ویترک موٴخرہ وہذا کلہ من القزع ۔ (تحفة المودود بأحکام المولود: ۱۴۷-۱۴۸، الباب السابع، ط: دار علم الفوائد بیروت)۔

ویکرہ القزع:وہوأن یحلق البعض ویترک البعض۔(ردالمختار:۹/۵۹۴،کتاب الحظروالاباحة،باب الاستبراءوغیرہ،ط:زکریا دیوبند)

عن ابن عمر أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہی عن القزع۔ فتح الباری: ۱۰/۳۷۶، کتاب اللباس، باب القزع حدیث نمبر ۵۷۱۰، ص:۵۹۲۰، ط: علی نفقة صاحب السمو الملکی الأمیر سلطان بن عبد العزیز آل سعود۔ وعنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم۔ (ابوداوٴد، کتاب اللباس، باب في لبس الشہوة، رقم الحدیث: ۴۰۳۱۔)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 3218/46-7079

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اجنبیہ عورت کے ساتھ تنہائی اختیار کرنا ، اس کے ساتھ غلط تعلق کرنا  وغیرہ امور حرام ہیں، ایسا شخص گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے، اس پر توبہ و استغفار لازم ہے۔ اس عورت سے اگر ممکن ہو تو نکاح کرلے اورنکاح نہ کرسکتاہو تو اس سے بالکل قطع تعلق کرلے۔ اسلامی حکومت نہ ہونے کی وجہ سے کوئی حد وغیرہ نافذ نہ ہوگی۔ البتہ اپنے فعل پر ندامت کے ساتھ اللہ کی طرف برابر  توبہ کا خواستگار  رہے تو ان شاء اللہ اس کی معافی کی امید ہے اور اس کی توبہ مقبول ہوگی۔

قُلْ يَاعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُواعَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَاتَقْنَطُوامِن رَّحْمَةِاللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُالذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ [الزمر:53]

اِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ التَّوَّابِینَ وَ یُحِبُّ المُتَطَهِّرِینَ‘‘ [البقرة:222]

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 3217/46-7080

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اسلام میں نکاح ایک پاکیزہ رشتے کا نام ہے،اسلام نے اس کی پائداری پر زور دیا ہے، اور اس کے لیے باہمی الفت ومحبت اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی ہونے لگے تو پہلے دونوں خاندان کے بزرگ کو صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوںکہ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ فعل ہے اور بلا ضرورت اسکا استعمال درست نہیں ہے۔ پھر بھی اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو ایک طلاق صریح دے کر دونوں کو الگ ہو جانے کا حکم ہے۔  ایک طلاق کے بعد اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو عدت میں رجوع کے ذریعہ اور عدت کے بعد نکاح کے ذریعہ دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔  ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعاً گناہ ہے اور ملکی قانون کے مطابق قابل مواخذہ جرم ہے۔

بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں عورت پر شرعا تین طلاقیں واقع ہوگئیں، نکاح بالکلیہ ختم ہوگیا اور رجعت کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہی اور تین طلاق کے بعد نکاح بھی نہیں ہوسکتاہے، اس لئے  اب عورت آزاد ہے، عدت کے بعد کسی دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔  

فان طلقھا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ (القرآن)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

بدعات و منکرات

Ref. No. 3215/46-7071

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دُفّ سے ایسی ڈفلی مراد ہے جس میں ایک طرف چمڑا چڑھا ہوا ہو، اور اس میں گھنگرو وغیرہ نہ ہو، توایسا دف اعلانِ نکاح کے لیے بجانا درست ہے، ایسی دف کے ساتھ نعت پڑھنے کی گنجائش ہے، مگر اس سے بچنا بہتر ہے، ورنہ آہستہ آہستہ اس طرح کی نعت سننے سے دیگر موسیقی  آلات کی طرف میلان ہونے کا اندیشہ ہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 3214/46-7072

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر بچپن میں کہیں سے آپ نے کوئی سامان وغیرہ لیا تھا جس کا پیسہ نہیں دیا تھا تو اب اس دوکان میں پیسے دیدینے سے آپ کا ذمہ پورا ہوجائے گا اور ان شاء اللہ کل قیامت میں بازپرس سے بچ جائیں گے۔ اگر سوال کچھ اور ہو تو دوبارہ تفصیل لکھ کر بھیجیں۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: چھ دن یا اس سے کم یا اس سے زیادہ ایام میں تراویح میں قرآن پورا کرنے میں کوئی قباحت وکراہت نہیں ہے اور اس میں شرکت کرنا بھی درست ہے بس یہ لحاظ رکھنا چاہئے کہ مقتدیوں کو پریشانی نہ ہو اور اس کے بعد بھی تراویح کا پورا اہتمام کیا جائے بعد میں تراویح کا نہ پڑھنا غلط اور سنت کا ترک ہے۔(۱)

(۱) الختم مرّۃً سنۃٌ ومرّتین فضیلۃ وثلاثا أفضل، ولایترک الختم لکسل القوم؛ لکن في الاختیار: الأفضل في زماننا قدر مالایثقل علیہم۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۷)السنۃ في التراویح: إنما ہو الختم مرۃ فلا یترک لکسل القوم … والختم مرتین فضیلۃ والختم ثلاث مرات أفضل۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۷)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 34