نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: جمعہ کی اذان ثانی حنفیہ کے نزدیک مسجد کے ممبر کے پاس ہونی چاہئے یہی توارث امت ہے اور یہی سنت ہے ’’ویؤذن ثانیا بین یدي الخطیب‘‘(۱) بعض حضرات کو اس سے اختلاف ہے؛ انہیں میں سے مولانا عبدالحی صاحب کو تصور کیا جائے لیکن عند الاحناف مسئلہ یہی ہے۔اگر اس کی ضرورت ہو کہ دونوں مسجدوں میں نماز جمعہ ہو کہ لوگوں (نمازیوں) کی کثرت ہو یا مقتدیوں کی اسی میں سہولت ہو تو دونوں مسجدوں میں درست ہے۔’’(وتؤدی في مصر واحد بمواضع کثیرۃ) مطلقاً علی المذہب، وعلیہ الفتویٰ‘‘(۱)(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۱۵، ۱۶۔ ویؤذن ثانیاً بین یدیہ أي الخطیب … إذا جلس علی المنبر۔ (الحصکفي، الدر المختار مع در المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب: في حکم المرقي بین یدي الخطیب‘‘: ج ۳، ص: ۳۹)(وإذا صعد الإمام علی المنبر جلس وأذن المؤذنون بین یدي المنبر) بذلک جری التوارث۔ (ابن الھمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۶۸)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 163

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: احناف رحمہم اللہ کے یہاں جمعہ کی نماز کا وقت وہی ہے جو ظہر کی نماز کا ہے، لہٰذا احناف کے نزدیک زوال سے پہلے اذان دینا درست نہیں ہے جس کو لوٹا لینا بہتر ہے اگر آپ دوسرے ملک مثلاً سعودیہ وغیرہ میں ہیں تو اس دران آپ سنتیں نہ پڑھیں اگر پڑھ لی گئی تو لوٹانی پڑے گی اور پڑھی ہوئی نماز نفل ہو جائے گی۔’’تقدیم الأذان علی الوقت في غیر الصحیح لا یجوز اتفاقاً وکذا في الصحیح عند أبي حنیفۃ ومحمد رحمہما اللّٰہ تعالیٰ وإن قدم یعاد في الوقت، ہکذا في شرح مجمع البحرین لابن الملک وعلیہ الفتوی، ہکذا في التتار خانیہ ناقلا عن الحجۃ‘‘(۱)’’وبالجملۃ فہذا الأذان کان قبل التأذین بین یدي الخطیب وکان في أول وقت الظہیر متصلاً بالزوال‘‘(۲)(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني في الأذان، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۱۰۔(۲) البنوري، معارف السنن، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۴، ص: ۳۹۶۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 162

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: واضح رہے کہ جمعہ کے روز اذان ثانی امام کے بالکل سامنے کھڑے ہوکر دینا ہی سنت متوارثہ ہے، تاہم تھوڑا بہت دائیں بائیں ہٹ کر اذان کہنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے، مگر اس کی عادت بنا لینا درست نہ ہوگا۔’’فکونہ بین یدیہ عام شامل لما قام في محاذاتہ أو شیئاً إلی الیمین أو الشمال أو یکون علی الأرض أو الجدار الخ‘‘(۲)(۲) خلیل أحمد سہارنفوري، بذل المجہود، ’’کتاب الصلاۃ: باب الفداء یوم الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۸۰۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 161

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: احادیث میں مطلق اذان کا جواب دینا مسنون قرار دیا ہے جس میں جمعہ کی اذان ثانیہ کی کوئی تخصیص معلوم نہیں ہوتی ہے، تاہم خطیب کے خروج کے بعد صلوٰۃ وکلام ممنوع قرار دیا ہے، مگر بعض فقہاء اسے کلام الناس پر محمول کرتے ہیں رہی تسبیح وغیرہ ان کو ممنوع نہیں کہا ہے، مگر احترامِ خطبہ میں دل ہی دل میں پڑھنے کی تلقین کرتے ہیں پھر بھی خاموش رہ کر خطبہ سماعت کرنا افضل ہے، لہٰذا مذکورہ دعاء سے پرہیز ہی کرنا چاہئے۔’’قال بعضہم إنما یکرہ الکلام الذي ہو من کلام الناس وأما التسبیح واتباعہ فلا وقال بعضہم کل ذلک والأول أصح، کذا في المبسوط فخر الأسلام …… وذکر في المصفی عن العون أن المراد بالکلام فی ہذین الوقتین أي بعد الفراغ من الخطبۃ قبل شروع الصلاۃ وقبلہا إجابۃ المؤذن أما غیرہ من الکلام فیکرہ إجماعاً‘‘(۲)’’وینبغي أن لا یجیب بلسانہ اتفاقا الخ‘‘(۱)(۲) اللکھنوي، تاوی للکھنوي، ’’کتاب الصلاۃ: ما یتعلق بالجمعۃ‘‘:ص: ۳۵، بیروت۔(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب في کراہۃ تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۷۰۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 160

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: احناف رحمہم اللہ کے نزدیک جمعہ کی اذان ثانی امام کے سامنے مسجد میں ہونی چاہئے، صف اول کا ہونا ضروی نہیں ہے، دوسری، تیسری صف میں بھی دی جا سکتی ہے۔’’قال في شرح المنیۃ واختلفوا في المراد بالأذان الأول فقیل الأول باعتبار المشروعیۃ وہو الذي بین یدي المنبر لأنہ الذي کان أولاً في زمنہ علیہ الصلاۃ والسلام وزمن أبي بکر وعمر حتی أحدث عثمان رضي اللّٰہ عنہ الأذان الثاني علی الزوراء حین کثر الناس والأصح أنہ الأول باعتبار الوقت وہو الذي یکون علی  المنارۃ بعد الزوال، والزوراء بالمد اسم موضع في المدینۃ‘‘(۱)(۱) الحصکفي عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب في حکم المرقي بین یدي الخطیب‘‘: ج ۳، ص: ۳۸؛ وہکذا في فتاوی الرحیمۃ، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۶، ص: ۱۰۸۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 159

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: واضح ہو کہ اکثر فقہاء اذان اول کے بعد سے ہی ہر قسم کے معاملات ترک کرنے کے قائل ہیں، لیکن بعض فقہاء جیسے امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ وصاحب فتاوی عتابی وغیرہ نے ترک معاملات میں اذان ثانی ہی کو جو خطیب کے سامنے ہوتی ہے اسی کو معتبر قرار دیا ہے، لہٰذا عند الضرورۃ دوسرے قول پر عمل کرنے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔’’قال صاحب الہدایۃ: قیل المعتبر في وجوب السعي وحرمۃ البیع ہو الأذان الأصلي الذي کان علی عہد النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم بین یدی المنبر ہو مذہب الطحاوي … وفي فتاویٰ العتابي ہو المختار، وبہ قال الشافعي رحمہ اللّٰہ وأحمد وأکثر الفقہاء الأمصار، ونص المرغیناني أنہ الصحیح‘‘(۱)’’وفي الرد: حاصلہ أن السعي نفسہ فرض والواجب کونہ في وقت أذان الأول الخ‘‘(۲)(۱) بدرالدین العینی، عمدۃ القاري، ’’کتاب الصلاۃ: باب المشي إلی الجمعۃ‘‘: ج ۵، ص: ۶۲، ۶۳۔(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب في حکم المرقي بین یدي الخطیب‘‘: ج ۳، ص: ۳۸۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 158

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مذکورہ میں جمعہ کی اذان اول کے بعد سے چوںکہ اجماعاً سعی الی الجمعۃ میں مخل ہونے والا ہر کام ناجائز ہے، لہٰذا نکاح پڑھانا بھی جائز نہیں ہوگا، تاہم جمعہ کی اذان اول کے بعد کیا جانے والا نکاح منعقد ہو جائے گا۔’’في المحلی یصح البیع إلا أن بعد الصلاۃ ولا یصح بخروج الوقت ولو کان بین کافرین ولا یحرم نکاح ولا اجازۃ ولا مسلم‘‘(۱)’’وفي الرد، وحاصلہ أن السعي نفسہ فرض والواجب کونہ في وقت أذان الأول … وقولہ وترک البیع) أراد بہ کل عمل ینافي السعي وخصہ اتباعا للآیۃ‘‘(۲)(۱) بدرالدین عینی، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج۳، ص: ۱۰۶۔(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب في حکم المرقي بین یدي الخطیب‘‘: ج ۳، ص: ۳۸۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 157

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: بروز جمعہ مذکورہ گھنٹہ بجانا کیوں کہ صرف جمعہ کے دن کی یاد دہانی کے لئے ہی ہوتا ہے اس کو دین اور عبادت سمجھ کر نہیں کیا جاتا ہے، لہٰذا مذکورہ عمل کے جاری رکھنے میں کوئی مضائقہ معلوم نہیں ہوتا۔’’بأنہا البدعۃ: ما أحدث علی خلاف الحق المتلقی عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من علم أو عمل أو حال بنوع شبہۃ واستحسان وجعل دینا قویماً وصراطاً مستقیماً‘‘(۱)(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب: البدعۃ خمسۃ أقسام‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۹۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 157

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: واضح رہے کہ جمعہ کے روز دوسری اذان کے لئے لوگوں کی کثرت کو جو اس زمانے میں علت قرار دیا گیا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ اس زمانے میں دور تک آواز  پہونچانے کا اور کوئی ذریعہ اس سے بہتر نہیں ایجاد ہوا تھا جو اعلان بھی ہو اور عبادت بھی، مگر موجودہ دور میں بہت سے آلات ایجاد ہو چکے ہیں جن کے ذریعہ اذان اول ہی کی آواز کو دور تک پہونچایا جا سکتا ہے، لہٰذا تیسری کسی اذان کی کوئی ضرورت نہیں رہی، بلکہ اذان ثانی کی بھی علت کمزور ہو جاتی ہے، مگر چوں کہ اذان اول باجماع صحابہ رضی اللہ عنہم رائج ہوئی ہے اور اس اذان کی آج بھی ان تمام آلات کے باوجود ضرورت ہے، مزید حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کی سنتوں کی اتباع کرنا بھی ہم پر لازم ہے، لہٰذا وہ اذان تو اب بھی رائج ہے اور ان شاء اللہ تعالیٰ رائج رہے گی، اب اس کو علت بنا کر ایسا عمل رائج کرنا جس کی نظیر دور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں نہ ملے بدعت ہی ہوگا۔ حدیث شریف میں ہے:’’عن العرباض بن ساریہ رضي اللّٰہ عنہم اجمعین، قال صلی بنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم … فعلیکم بسنتي وسنۃ الخلفاء الراشدین المہدیین، تمسکوا بہا وعضو علیہا بالنواجذ … الخ‘‘(۱)’’بأنہا البدعۃ: ما أحدث علی خلاف الحق المتلقی عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من علم أو عمل أو حال بنوع شبہۃ واستحسان وجعل دینا قویماً وصراطاً مستقیماً‘‘(۲)(۱) خطیب تبریزي، مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الثاني‘‘: ج۱، ص: ۳۰۔(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب: البدعۃ خمسۃ أقسام‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۹۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 156

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: واضح رہے کہ جمعہ کی دوسری اذان کا جواب دینا، اذان کے بعد دعا اور خطبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام آنے پر درود شریف پڑھنا اور خطبہ میں آنے والی دعاؤں پر آمین کہنا یہ سب زبان سے کہنا درست نہیں ہے، بلکہ دل ہی دل میں یہ سب کہہ لیا جائے تو گنجائش ہے، اور دو خطبوں کے درمیان بھی زبان سے دعا کرنا اور ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا درست نہیں ہے، بلکہ دو خطبوں کے درمیان دل ہی دل میں دعا کرلی جائے، تو کوئی حرج نہیں ہے، جیسا کہ علامہ ابن عابدین نے اس کی صراحت کی ہے۔’’وینبغي أن لا یجیب بلسانہ اتفاقاً في الأذان بین یدي الخطیب‘‘(۱)(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب: في کراہۃ تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۷۰۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 155