Frequently Asked Questions
Prayer / Friday & Eidain prayers
Ref. No. 3053/46-4878
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بغیر کسی عذر کے ٹیک لگاکر اٹھنا مکروہ ہے، اس لئے ایسا کرنے سے بچنا چاہئے، تاہم نماز ہوجائے گی۔ البتہ اگر کسی کو کوئی عذر ہے اور وہ بیڈ یا دیوار کے سہارے سے اٹھتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں، نماز بلا کراہت درست ہوگی۔
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی: قوله: (بلا اعتماد إلخ): أي على الأرض. قال في الكفاية: أشار به إلى خلاف الشافعي في موضعين: أحدهما: يعتمد بيديه على ركبتيه عندنا وعنده على الأرض. والثاني: الجلسة الخفيفة. قال شمس الأئمة الحلواني: الخلاف في الأفضل حتى لو فعل، كما هو مذهبنا لا بأس به عند الشافعي، ولو فعل، كما هو مذهبه لا بأس به عندنا، كذا في المحيط. اهـ. قال في الحلية: والأشبه أنه سنة أو مستحب عند عدم العذر، فيكره فعله تنزيها لمن ليس به عذر. اهـ. وتبعه في البحر، وإليه يشير قولهم: لا بأس، فإنه يغلب فيما تركه أولى.(رد المحتار: 1/506)
قال العلامۃ ابن نجیم رحمہ اللہ تعالی: قوله: (وكبر للنهوض بلا اعتماد وقعود) لحديث أبي داود: "نهى النبي صلی اللہ علیہ وسلم أن يعتمد الرجل على يديه إذا نهض في الصلاة، وفي حديث وائل بن حجر في صفة صلاة رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم: "وإذا نهض نهض على ركبتيه واعتمد على فخذيه"، ولحديث الترمذي عن أبي هريرة أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم: "كان ينهض في الصلاة على صدور قدميه". (البحر الرائق: 1/340)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 3042/46-4864
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب آپ نے توبہ کرتے ہوئے پچھلے تمام کفریہ کلمات سے توبہ کرلی تو ہر ایک کفریہ کلمہ کو دوہرانے اور اس سے توبہ کرنے کی ضرورت نہیں رہی، تمام کفریہ کلمات سے توبہ کرنے کے بعد تجدید ایمان و تجدید نکاح کرلینا تو یہ کافی ہوگیا۔ اگر کوئی کفریہ جملہ کہا اور وہ کفریہ جملہ یاد ہے تو اس کے مقابل ایمان والا جملہ کہہ کر توبہ کرلینا زیادہ بہتر ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3052/46-4920
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ کا حکم نیت کے اعتبار سے مختلف ہوگا۔ اگر مقصد عیب کو کھولنا اور کسی کو ذلیل کرنا ہے تو یہ عمل ناجائز اور حرام ہے، لیکن اگر مقصد کسی کی اصلاح و تربیت اور گناہ سے بچانا ہے تو یہ عمل جائز ہے۔ مذکورہ صورت میں کوشش کی جائے کہ براہ راست لڑکی کے گھروالوں کو ہی ثبوت فراہم کئے جائیں اور اگر یہ ممکن نہ ہوسوائے مذکورہ صورت کے توپھر اس کو بھی اختیار کرنے کی گنجائش ہے۔ اس شرط کے ساتھ کہ بعد میں اس کو ڈیلیٹ کردیاجائے، اور حتی الامکان احتیاط سے کام لیاجائے ، حضرات فقہاء نے لکھا ہے کہ غیبت کا مقصد اگر اس کی اصلاح ہے تو اس پر غیبت کا اطلاق نہیں ہوگا۔الامور بمقاصدھا (الاشباہ)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Marriage (Nikah)
Ref. No. 3034/46-4928
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
As the husband uttered Kufriya words, he became infidel. Hence the marriage was annulled. However, with this annulment of the marriage, a divorce (Talaq e Bain) occurred on the woman, and Idah became obligatory on her. And if a divorce with clear words is given during her Iddah after the previous divorce (Talaq e Bain), the divorce will take place. Therefore, in the case mentioned in the question, if a clear divorce is given during the Iddah of annulment of the marriage, according to the Hanafi school, the divorce will take place as a punishment in an exceptional case.
وأما الفسخ: فهو نقض العقد من أصله، أو منع استمراره، ولا يحتسب من عدد الطلاق، ويكون غالبا في العقد الفاسد أو غير اللازم. وبه يتبين أن الفسخ يفترق عن الطلاق من ثلاثة أوجه: ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الثالث: أثر كل منهما: الفسخ: لا ينقص عدد الطلقات التي يملكها الرجل، أما الطلاق فينقص به عدد الطلقات. وكذلك فرقة الفسخ لا يقع في عدتها طلاق، إلا إذا كانت بسبب الردة أو الإباء عن الإسلام، فيقع فيهما عند الحنفية طلاق زجرا وعقوبة. أما عدة الطلاق فيقع فيها طلاق آخر، ويستمر فيها كثير من أحكام الزواج. ثم إن الفسخ قبل الدخول لا يوجب للمرأة شيئا من المهر، أما الطلاق قبل الدخول فيوجب نصف المهر المسمى، فإن لم يكن المهر مسمى استحقت المتعة (تعويض بمثابة هدية۔ (الفقه الإسلامى و أدلته: (3153/4، ط: دار الفكر) ).الحیلة الناجزۃ: (ص: 119، ط: دار الاشاعت)
وارتداد أحدهما) أي الزوجين (فسخ) فلاينقص عددًا (عاجل) ... بلا قضاء ... وعليه نفقة العدة." قوله: بلاقضاء) أي بلا توقف على قضاء القاضي ...(قوله: و عليه نفقة العدة) أي لو مدخولًا بها إذ غيرها لا عدة عليها. وأفاد وجوب العدة سواء ارتد أو ارتدت بالحيض أو بالأشهر لو صغيرة أو آيسة أو بوضع الحمل، كما في البحر." (رد المحتار3/ 193ط:سعيد) (الحیلۃ الناجزہ، ص۲۰۸)
یقع طلاق زوج المرتدۃ وزوج المسلمۃ الآتی بعد التفریق علیھما مادامتا فی العدۃ، اما فی الاباء فلان الفرقۃ بالطلاق واما فی الردۃ فلان الحرمۃ بالردۃ غیر متابدۃ فانھا ترتفع بالاسلام فیقع طلاقہ علیھا فی العدۃ مستتبعا فائدتہ فی حرمتھا علیہ بعد الثلاث حرمۃ معیاۃ بوطئ زوج آخر۔ (فتح القدیر، باب نکاح اھل الشرک، ج3، ص 420)
و فی مسئلۃ الردۃ لوکان ھو المرتد ففی کونہ فسخا خلاف ابی یوسف، اما رتھا ففسخ اتفاقا ھذا ولکن سیاتی فی آخر کنایات الطلاق ان المرتد اذا لحق بدارالحرب وطلقھا فی العدۃ لم یقع طلاقہ لانقطاع العصمۃ فان عاد وھی فی العدۃ وقع الی آخر ما نقلہ عن البدائع الخ۔ (البحرالرائق، کتاب الطلاق، ج3 ص 255)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
Fiqh
Ref. No. 3049/46-4860
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہمیں اس ڈرنک کے بارے میں تفصیلات کا علم نہیں ہے۔ کسی بھی ڈرنک میں اگر اس کے مشمولات پاک اور حلال ہوں تو ان کا استعمال جائز ہوتاہے، اگر آپ کو کسی ڈرنک میں ناپاکی یا حرام کایقین نہ ہو تو اس کو استعمال کرسکتے ہیں تاہم اگر شبہہ ہو تو احتراز کرنا بہتر ہے۔" اعلم أن الأصل في الأشياء كلها سوى الفروج الإباحة قال الله تعالى {هو الذي خلق لكم ما في الأرض جميعا} [البقرة: ٢٩] وقال {كلوا مما في الأرض حلالا طيبا} [البقرة: ١٦٨] وإنما تثبت الحرمة بعارض نص مطلق أو خبر مروي فما لم يوجد شيء من الدلائل المحرمة فهي على الإباحة." (مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر كتاب الأشربة،ج:2،ص:568،ط: دار إحياء التراث العربي)
حكم الأطعمة:الأصل في جميع الأطعمة الحل إلا النجس، والضار، والخبيث، والمسكر، والمخدر، وملك الغير.فالنجس كله خبيث وضار، فهو محرم." (موسوعۃ الفقہ الاسلامی، الباب الثالث عشر كتاب الأطعمة والأشربة،باب الأطعمة،ج:4،ص:283،ط:بیت الافکار الدولیۃ)
"كل شيء كره أكله والانتفاع به على وجه من الوجوه فشراؤه وبيعه مكروه، وكل شيء لا بأس بالانتفاع به فلا بأس ببيعه". (الوجیز فی ایضاح القواعد الفقہیۃ الکلیۃ، المقدمة السابعة: نشأن القواعد الفقهية وتدوينها وتطورها،ج:1،ص:52،ط:مؤسسة الرسالة العالمية) واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Games and Entertainment
Ref. No. 3048/46-4884
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہیمسٹر کومبیٹ سے پیسہ کمانے کی جو تفصیل آپ نے لکھی ہے کہ اس میں پیسے لگانے نہیں پڑتے ہیں اور اسکرین پر نظر آنے والے دائرہ پر بٹن دباکر کمپنی کی طرف سے کچھ کوائن دئے جاتے ہیں پھر کچھ سوالوں کے جوابات وغیرہ امور کے بعد کوائن کو اپنے اکاونٹ میں بھی ٹرانسفر کیاجاسکتاہے۔ اس پورے معاملہ میں اصولی طور پر کوئی خرابی معلوم نہیں ہوتی ہے، بشرطیکہ کمپنی کا اکثر سرمایہ اور ذریعہ آمدنی حلال ہو۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Taharah (Purity) Ablution &Bath
Ref. No. 3047/46-4862
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کپڑے ناپاک ہوں تو ان کی نجاست کو پہلے دھولیاجائے پھر مشین میں پاک کپڑوں کے ساتھ ڈالاجائے ، اور اگر پاک اور ناپاک کپڑے سب ایک ساتھ مشین میں دھوئے جائیں ، اور کھنگالتے وقت تمام کپڑوں کو تین بار پانی میں ڈال کر نچوڑ لیا جائے یا تمام کپڑوں کو واشنگ مشین میں اچھی طرح دھو لیا جائے، پھر اِسپینر مشین جس میں گھمانے سے کپڑے اچھی طرح نچوڑ جاتے ہیں اس میں کپڑوں کو ڈال دیا جائے، اور اِسپینر کے اوپر صاف پانی کا پائپ لگاکر اتنی دیر چلایا جائے کہ گندے پانی کی جگہ صاف پانی نیچے پائپ سے آنا شروع ہوجائے، تو یہ کپڑے پاک ہوجائیں گے، یہ عمل ایک مرتبہ کرنا بھی مفید طہارت ہوگا، مشین سے تین بار نچوڑنا یا اسی طرح اس کو ہاتھ سے نچوڑنا ضروری نہیں ہے۔ اگر کپڑوں کو اس طرح دھوکر پہناگیا ہے تو اس میں نماز درست ہوگئی اور اگر ناپاک کپڑے صرف ایک یا دوبار مشین میں دھوکر بغیرپانی ڈالےنچوڑدئے گئے تو پاک شمار نہیں ہوں گے اور نمازیں لوٹانی ہوں گی۔
یعني اشتراط الغسل والعصر ثلاثاً إنما هو إذا غمسه في إجانة، أما إذا غمسه في ماء جار حتى جرى عليه الماء أو صب عليه ماءً كثيراً بحيث يخرج ما أصابه من الماء ويخلفه غيره ثلاثاً فقد طهر مطلقاً بلا اشتراط عصر وتجفيف وتكرار غمس، هو المختار، والمعتبر فيه غلبة الظن، هو الصحيح، كما في السراج، ولا فرق في ذلك بين بساط وغيره، وقولهم يوضع البساط في الماء الجاري ليلةً إنما هو لقطع الوسوسة''۔ (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 161)
"لَوْ غُسِلَ فِي غَدِيرٍ أَوْ صُبَّ عَلَيْهِ مَاءٌ كَثِيرٌ، أَوْ جَرَى عَلَيْهِ الْمَاءُ طَهُرَ مُطْلَقًا بِلَا شَرْطِ عَصْرٍ وَتَجْفِيفٍ وَتَكْرَارِ غَمْسٍ هُوَ الْمُخْتَارُ". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين: 1/333، باب الانجاس، ط؛ سعید)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 3035/46-4835
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں حقوق متقدمہ علی الارث کی ادائیگی کے بعد مرحوم کی کل جائداد کو 18 حصوں میں تقسیم کریں گے، جن میں سے ہر ایک بیٹی کو تین حصے،ماں کو تین حصے، بہن کو ایک حصہ اور بھائی کو دو حصے ملیں گے۔ یعنی کل مال کا دو ثلث بیٹیوں میں تقسیم ہوگا ، اور ایک سدس ماں کو دیاجائے گا اور پھر جو کچھ باقی بچے گا اس کو بھائی بہنوں میں للذکر مثل حظ الانثیین کے مطابق تقسیم کیاجائے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
کھیل کود اور تفریح
Ref. No. 3033/46-4841
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ میوزک کا استعمال شریعت میں ممنوع اور ناجائز ہے، حمدونعت کے ساتھ میوزک کا استعمال مزید قباحت کا باعث ہے، اللہ جل جلالہ اور نبی کریم ﷺ کی توہین اور سخت گستاخی کی بات ہے۔ اس لئے ایسی نعتیں سننے سے احتراز لازم ہے۔ البتہ بعض نعتوں میں ایکو ساؤنڈ ہوتاہے جو میوزک میں شامل نہیں ہے اس لئے نعتوں میں ایکو کا استعمال کرنا اور اس کا سننا ممنوع نہیں ہے۔ میوزک نعت کے ساتھ چلے یا بیک گراؤنڈ میں چلے دونوں صورتوں میں اس کا سننا ممنوع ہے۔
﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ﴾ ( لقمان : 6)
"وعن نافع رحمه الله قال : كنت مع ابن عمر في طريق فسمع مزماراً، فوضع أصبعيه في أذنيه، وناء عن الطريق إلى الجانب الآخر، ثم قال لي بعد أن بعد : يا نافع هل تسمع شيئاً ؟ قلت : لا، فرفع أصبعيه عن أذنيه قال : كنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فسمع صوت يراع، فصنع مثل ما صنعت . قال نافع: فكنت إذ ذاك صغيراً . رواه أحمد وأبو داود". (مشكاة المصابيح - (3 / 43)
وقال الحسن البصري: أنزلت هذه الآية: ﴿ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ ﴾ في الغناء والمزامير" (تفسير ابن كثير / دار طيبة - (6 / 330)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 3046/46-4861
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نکاح کے درست ہونے کے لیے ایجاب وقبول کا ایک ہی مجلس میں ہونا شرط ہے اور ویڈیو کال میں لڑکا اپنی جگہ اور لڑکی اپنی جگہ بیٹھ کر ایجاب و قبول کرتے ہیں جس میں ایک مجلس نہیں پائی جاتی ہے ، اس لئے شرط کے مفقود ہونے کی وجہ سے یہ نکاح درست نہیں ہوتاہے۔ البتہ اس کے جواز کی ایک صورت یہ ہے کہ لڑکا یا لڑکی میں سے کوئی ایک فون پر کسی شخص کو اپنا وکیل بنادے جو دوسرے فریق کے پاس موجود ہو اور وہ وکیل شرعی گواہوں (یعنی دو مسلمان عاقل بالغ مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں) کی موجودگی میں فریقِ اول (غائب) کی طرف سے ایجاب کرلے اور دوسرا فریق اسی مجلس میں قبول کرلے تو اتحادِ مجلس کی شرط پوری ہونے کی وجہ سے یہ نکاح صحیح ہوجائے گا۔
ومنها) أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد حتى لو اختلف المجلس بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لا ينعقد، وكذا إذا كان أحدهما غائباً لم ينعقد حتى لو قالت امرأة بحضرة شاهدين: زوجت نفسي من فلان وهو غائب فبلغه الخبر فقال: قبلت، أو قال رجل بحضرة شاهدين: تزوجت فلانةً وهي غائبة فبلغها الخبر فقالت: زوجت نفسي منه لم يجز وإن كان القبول بحضرة ذينك الشاهدين وهذا قول أبي حنيفة ومحمد -رحمهما الله تعالى - ولو أرسل إليها رسولاً أو كتب إليها بذلك كتاباً فقبلت بحضرة شاهدين سمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب؛ جاز لاتحاد المجلس من حيث المعنى". (الفتاوى الهندية (1/ 269)
ثم النكاح كما ينعقد بهذه الألفاظ بطريق الأصالة ينعقد بها بطريق النيابة، بالوكالة، والرسالة؛ لأن تصرف الوكيل كتصرف الموكل، وكلام الرسول كلام المرسل، والأصل في جواز الوكالة في باب النكاح ما روي أن النجاشي زوج رسول الله صلى الله عليه وسلم أم حبيبة - رضي الله عنها - فلا يخلو ذلك إما أن فعله بأمر النبي صلى الله عليه وسلم أو لا بأمره، فإن فعله بأمره فهو وكيله، وإن فعله بغير أمره فقد أجاز النبي صلى الله عليه وسلم عقده، والإجازة اللاحقة كالوكالة السابقة". (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 231)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند