اسلامی عقائد

Ref. No. 3152/46-6049

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اللہ تعالیٰ کی ذات کسی مکان کے ساتھ اس طرح خاص نہیں ہے جس طرح انسانی جسم ایک محدود مکان کا احاطہ کئے ہوئے ہوتاہے، ۔ اگر کسی نے لاپتہ کہدیا  جبکہ مقصود یہی لا مکان ہو کیونکہ پتہ بھی مخصوص مکان کا ہوتاہے تو اس سے بھی مکان کی نفی ہوتی ہے اس لئے اس  سے کفر لازم نہیں آیا۔ البتہ ان جیسے الفاظ سے اجتناب کرنا چاہئے اور اللہ تعالی کے لئے وہی الفاظ استعمال کرنے چاہئیں جو قرآن و حدیث میں مذکور ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 3151/46-6052

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مذکورہ آیات میں غنہ کرنا غلط ہے، اور تجوید کےقاعدہ کے خلاف ہے، تاہم اس سے نماز ہوجائے گی، اسی طرح پُر کو باریک یا باریک کو پُر پڑھنے سے بھی نماز صحیح  ہوجاتی ہے،  البتہ اس کے علاوہ کیا کیا غلطیاں امام صاحب تلاوت میں کرتے ہیں ان واضح انداز میں لکھئے تاکہ اس کے مطابق جواب دیاجاسکے۔ اچھے انداز میں  امام صاحب کو ان غلطیوں کی نشاندہی کردی جائے ، پھر بھی اگر درست نہ کریں تو دوسرا امام مقرر کرلیاجائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

بدعات و منکرات

Ref. No. 3114/46-5088

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  جھوٹی قسم کھانایا جھوٹی گواہی دینا حرام ہے اور کبیرہ گناہ ہے، اس لئے آدمی اس سے گنہگار  ہوگا لیکن اس سے کافر نہیں ہوگا اگر اس کا عقیدہ درست ہے۔ اہل سنت والجماعت کا مسلک یہی ہے کہ آدمی گناہ کبیرہ کے ارتکاب سے کافر نہیں ہوتاہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Marriage (Nikah)

Ref. No. 3149/46-6043

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows

In the mentioned case, your marriage is not valid because, according to Islamic principles, both the proposal (Ijab) and acceptance (Qubul) must occur in the same meeting for the Nikah to be valid. In the case of a video call, the two parties are in separate meetings; which does not meet the requirements. A valid way for the Nikah to take place is for the woman to appoint her prospective husband or any other man as her representative (Wakil), who would then make the proposal on her behalf, and the man would accept it. This would render the Nikah valid. However, it is crucial to perform the marriage with the consent of the parents, as causing them distress can never be appropriate. This aspect should also be considered.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

تجارت و ملازمت

Ref. No. 3165/46-6090

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   کسی کا گناہ اپنے سر لے کر قید ہونا اور اس  قید پر صلح کرنا درست نہیں ہے، اس سے مجرم کی اعانت ہوتی ہے جوکہ ناجائز ہے، لہذا آپس میں جو معاہدہ ہوا تھا وہ غیرشرعی تھا، تاہم عمرو چونکہ اپنی ناواقفیت و جہالت کی بناء پر قید ہوگیا تو زید کا اخلاقی فریضہ ہے  کہ وہ عمرو کو قید سے رہاکرانے کی کوشش کرے اور خود بھی گناہ کے کام سے توبہ کرے۔

الصلح جائز بین المسلمین الا صلحا احل حراما او حرم حلالا  (السنن الکبری 11686) ویجوز التوکیل بالخصومۃ فی سائر الحقوق ویجوز بالاستیفاء الا فی الحدود والقصاص (مختصر الضروری شرح مختصر القدوری 384)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 3147/46-6091

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  عالمی منڈی میں جو سونے کی خریدوفروخت ہوتی ہے وہ ناجائز ہے اس لئے کہ مجلس عقد میں سونے پر قبضہ نہیں پایا جاتا، اس کے علاوہ عالمی منڈی میں منافع کی بعض شکل وہ ہے جس میں صرف قیمت کا اتارچڑھاؤ سے منافع کمانا مقصود ہوتاہے جس کے لئے ایک معاہدہ ہوتاہے کہ اوپر جانے پر فلاں قیمت اور نیچے جانے پر فلاں قیمت پر در اصل قمار کی بھی ایک شکل ہے لہذا آن لائن سونے کی بیع خواہ فیوچرٹریڈنگ کے طور پر ہو یا کسی دوسرے فرم  میں ہو تمام صورتیں قبضہ نہ پائے جانے کی وجہ سے ناجائز ہیں۔

جنسا بجنس او بغیر جنس ویشترط عدم التاجیل والخیار والتماثل ای التساوی وزنا والتقابض  بلابراجم لا بالتخلیۃ قبل الافتراق وھو شرط بقائہ علی الصحیح (ردالمحتار 5/257)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 3146/46-6047

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   سب سے پہلے چند اصولی باتیں سمجھ لیجئے تاکہ جواب سمجھنے میں آسانی ہو۔ 1۔ ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی جائداد کا مالک ہوتا ہے وہ اپنی مرضی سے جس کو کتنا چاہے دے سکتاہے، یعنی ہبہ کرسکتاہے تاہم  ہبہ صحیح ہونے کے لئے شرط یہ ہے کہ اس کا اپنی زندگی میں ہی مالک بنادیاجائے، لہذا اگر کسی نے زبانی ہبہ کیا لیکن رجسٹریشن وغیرہ کے ساتھ مالک نہیں بنایا تو وہ یہ وعدہ ہے، ہبہ نہیں ہے اور اس زبانی ہبہ کا اس کے مرنے کے بعد کوئی اعتبار نہیں ہوگا اور کسی کا دعوی مسموع نہیں ہوگا۔ 2۔ آدمی اپنی زندگی میں اپنی جائداد اپنے ورثہ میں تقسیم کرسکتاہے اور ورثہ کو دینے میں بقدر ضرورت کمی بیشی بھی کرسکتاہے۔3۔ کسی مصلحت سے رجسٹریشن کرادینا ملکیت کی دلیل نہیں ہے، لہذا جس کے نام پر کوئی پلاٹ رجسٹرد ہے اگر دینے والے نے مالک بنایا ہے اور کہا ہے کہ یہ خالص تمہارا ہے  تو وہ موہوب لہ کا ہوگا۔  4۔ باپ کی وراثت اس کی  بیوی اور اولاد میں تقسیم ہوتی ہے، پوتے اور پوتیاں وغیرہ اس میں شامل نہیں ہوتی ہیں۔ 5۔ اگر مرحوم نے اپنی زندگی میں جائداد تقسیم کی اور اس موقع پر پوتوں یا پوتیوں میں سے کسی کو کچھ دے کر مالک بنادیا تو وہ خاص اسی  کا ہوگا، یعنی اگر دادا نے اپنی زندگی میں پوتوں کو کوئی پلاٹ وغیرہ ہبہ کیا تھا تو اس کے مرنے کے بعد بھی وہ پوتوں کی ہی ہوگی۔ 6۔ باپ کی وراثت میں بیٹوں کے ساتھ بیٹیاں بھی حصہ دار ہیں، لہذا اگر کسی کے بیٹوں نے اپنے باپ کی پراپرٹی آپس میں یعنی بھائیوں میں تقسیم کی اور بہنوں کو حصہ نہیں دیا تو وہ شرعی تقسیم نہیں کہلائے گی۔

اب صورت مسئولہ میں اگر دادا شیخ محمد نے اپنی زندگی میں اپنی جائداد اپنے تین بیٹوں اور دوبیٹیوں میں تقسیم کردیا اور ہر ایک کو مالک بنادیا تو ہبہ تام ہوگیا اور ہر ایک اپنے حصہ کا جو اس کو دیاگیا مالک بن گیا۔ شیخ عبید کو جو جائداد ملی وہ اس کا مالک ہوگیا اب اس حصہ پر شیخ محمد کا کوئی اختیار باقی نہیں رہا۔ لہذا شیخ عبید کے مرنے کے بعد اس کے حصہ کی جائداد اس کی بیوی ، بیٹے ، بیٹیوں اور والدین  میں شریعت کے مطابق تقسیم ہوگی۔ اب اس جائداد کا اگر دادا دادی نے اپنی رضامندی سے صرف مرحوم کی بیوی اور اس کےلڑکوں کو مالک  بنادیا تو یہ غیرشرعی تقسیم ہوگی اور اب دوبارہ تقسیم کریں گے اور بیٹیوں کو بھی شامل کیاجائے گا۔ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ ان کا جو حصہ شیخ عبید کی جائداد میں بنتاہے وہ شیخ عبید کی بیوی اور بیٹوں میں بطور ہبہ تقسیم ہوگی اور اس میں شیخ عبید کی بیٹیاں شامل نہیں ہوں گی ، لیکن اس کے علاوہ شیخ عبیدکی  بقیہ جائداد میں بیٹوں کے ساتھ بیٹیاں بھی  حصہ دار ہوں گی۔  اس سلسلہ میں بہتر ہوگا کہ کسی قریبی دارالقضا یا دارالافتا سے رجوع کرکے  مسئلہ  کو اچھی طرح سمجھ لیں ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref.  No.  3145/46-6033

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   معذور اپنے عذر کے اعتبار سے نماز میں بیٹھ سکتاہے، جس قدر ممکن ہو قیام کرے اور جب تھک جائے تو بیٹھ جائے، ایساکرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ نمازجماعت کے ساتھ  مسجد میں ہی  اداکرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Business & employment

Ref. No. 3144/46-6089

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Your explanation effectively captures the essence of consulting services. The primary goal of your firm is to equip clients with the insights they need to better understand their financial landscape and make informed investment decisions.

By evaluating financial metrics like EBITDA, you can gauge a company's performance and its ability to manage interest, taxes, and other financial responsibilities. Your role in verifying the accuracy of the data provided is crucial, as it enables clients to make decisions based on reliable information.

The importance of your position cannot be overstated; accurate information is the foundation upon which any company can build its financial future. However, your work is allowed as per the ruling of Islamic Shariah.

If you would like to explore any specific aspects of this field further or need additional clarification, please don’t hesitate to reach out!

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

نماز / جمعہ و عیدین

Ref.  No.  3143/46-6044

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  بلاعذرنچلی منزل کو خالی چھوڑکر اوپر کی منزل میں  جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا مکروہ اور ناپسندیدہ  ہے، کیونکہ دوسری منزل پر جماعت مسجد کی اصل وضع اور امت کے متوارث عمل کے خلاف ہے، نیز نچلی منزل کا خالی رہنا احترامِ مسجد کے بھی خلاف ہے۔ نماز نچلی منزل میں ہی جماعت سے پڑھی جائے پھر نچلی منزل جب پُر ہوجائے تو دوسری منزل پر مقتدی حضرات چلے جائیں۔ البتہ اگرکوئی عذر ہو مثلا نچلی منزل میں صفائی وغیرہ کا کام چل رہاہو تو  دوسری منزل میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھ سکتے ہیں۔ اور مقتدی کچھ نیچے کچھ اوپر کی منزلوں میں اقتداکریں تو اس کی گنجائش ہے۔ جب تک ایک منزل مکمل طور سے پُر نہ ہوجائے دوسری منزل میں نہیں جانا چاہئے۔ اور صفوں کی ترتیب کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔

’’الصعود على سطح كل مسجد مكروه، و لهذا إذا اشتد الحر يكره أن يصلوا بالجماعة فوقه، إلا إذا ضاق المسجد فحينئذٍ لايكره الصعود على سطحه للضرورة، كذا في الغرائب‘‘. (الھندیۃ ٥/ ٣٢٢، ط: رشيدية)

’’و كذا الصعود علي سطح كل مسجد مكروه، و لهذا إذا اشتد الحر يكره أن يصلوا بجماعة فوق السطح، إلا إذا ضاق المسجد فحينئذٍ لايكره الصعود على سطحه للضرورة، و أما شدة الحر فلأنها لاتوجب الضرورة ط، و إنما يحصل به زيادة المشقة و بها يزداد الأجر. كله من المحيط و غيره‘‘(نصاب الاحتساب، الباب الخامس عشر في ما يحتسب في المسجد، ص: ٣٢، قلمي)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند