Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 3079/46-4949
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس وقت سے کنویں کی ناپاکی کا علم ہوا اس وقت سے ہی اس کو ناپاک شمار کیاجائے گا، اس لئے ناپاکی کا علم ہونے سے پہلے جو کپڑے اس کنویں کے پانی سے دھلے گئے وہ سب پاک شمار ہوں گے۔ البتہ اگر نجاست گرنے کا وقت یقینی طور پر معلوم ہوجائے تو پھر اس وقت سے اس کو ناپاک شمار کیاجائے گا ۔اوراس ناپاک پانی سے وضو یا غسل کرکے، یا اس سے کپڑے دھو کرجتنی نمازیں پڑھی ہیں ان کا اعادہ بھی ضروری ہوگا ۔
فلا نحكم بنجاسته بالشك على الأصل المعهود إن اليقين لا يزول بالشك." (بدائع الصنائع، كتاب الطهارة ،فصل في بيان المقدار الذي يصير الماء نجساّ،ج :1 ،ص :73 ،ط:رشيدية)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 3076/46-4927
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی، طلاق کے معاملہ میں مذاق اور دھمکی کا اعتبار نہیں ہوتاہے، صریح طلاق سے بہرصورت طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ طلاق اور طلاخ کا فرق بھی قابل اعتناء نہیں ہے۔ اور دوبار دیتاہوں دیتاہوں کہنے سے تاکید ہوئی کوئی مزید طلاق واقع نہیں ہوئی۔ خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں ایک طلاق رجعی واقع ہوئی ہے، اگر عدت کے دوران شوہر رجعت کرلے تو نکاح باقی رہے گا، اور اگر عدت گزرگئی تو دوبارہ نئے مہر کے ساتھ نکاح کرنا ہوگا، تاہم اس کا بھی خیال رہے کہ شوہر آئندہ صرف دو طلاقوں کا مالک ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 3075/46-4926
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خیال رہے کہ مردوعورت کا ایک ہی مجلس میں دو گواہوں کے سامنے ایجاب و قبول کرنا نکاح کے درست ہونے کے لیے ضروری ہے۔ نکاح میں خطبہ ہونا ضروری نہیں ہے البتہ مسنون ہے ۔ صورت مسئولہ میں جب نکاح عورت کے پاس پڑھایاجائے گا تو صرف عورت کی طرف سے ایجاب بغیر قبول کے ہوگا، اور جب لڑکے کا نکاح ہوگا تو وہ بھی قبول بغیر ایجاب کے ہوگا، تو ایک ہی مجلس میں ایجاب و قبول کی شرط نہیں پائی گئی، اس لئے یہ نکاح درست نہیں ہوگا۔ ہاں اگر لڑکی کسی کو اپنا وکیل بنادے اور وہ لڑکے کی موجودگی میں یہ کہے کہ میں نے فلاں لڑکی کا نکاح تم سے کردیا اور لڑکا قبول کرلے تو اب نکاح درست ہوجائے گا۔ کیونکہ وکیل کی طرف سے ایجاب اور لڑکے کی طرف سے قبول دونوں چیزیں ایک ہی مجلس میں پائی گئیں۔
ومنها) أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد حتى لو اختلف المجلس بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لا ينعقد، وكذا إذا كان أحدهما غائباً لم ينعقد حتى لو قالت امرأة بحضرة شاهدين: زوجت نفسي من فلان وهو غائب فبلغه الخبر فقال: قبلت، أو قال رجل بحضرة شاهدين: تزوجت فلانةً وهي غائبة فبلغها الخبر فقالت: زوجت نفسي منه لم يجز وإن كان القبول بحضرة ذينك الشاهدين وهذا قول أبي حنيفة ومحمد -رحمهما الله تعالى - ولو أرسل إليها رسولاً أو كتب إليها بذلك كتاباً فقبلت بحضرة شاهدين سمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب؛ جاز لاتحاد المجلس من حيث المعنى". (الفتاوى الهندية (1/ 269)
ثم النكاح كما ينعقد بهذه الألفاظ بطريق الأصالة ينعقد بها بطريق النيابة، بالوكالة، والرسالة؛ لأن تصرف الوكيل كتصرف الموكل، وكلام الرسول كلام المرسل، والأصل في جواز الوكالة في باب النكاح ما روي أن النجاشي زوج رسول الله صلى الله عليه وسلم أم حبيبة - رضي الله عنها - فلا يخلو ذلك إما أن فعله بأمر النبي صلى الله عليه وسلم أو لا بأمره، فإن فعله بأمره فهو وكيله، وإن فعله بغير أمره فقد أجاز النبي صلى الله عليه وسلم عقده، والإجازة اللاحقة كالوكالة السابقة". (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 231)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Divorce & Separation
Ref. No. 3074/46-4925
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شوہرنے بیوی سے تنگ آکر اس طرح کا جملہ محض جان چھڑانے کے لئے بولا ہے ، اس سے بیوی کو ماں کے ساتھ کسی چیز میں تشبیہ دینا یا طلاق دینا یا ظہار وغیرہ کی نیت نہیں ہے، اس لئے اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی اور رشتہ پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اور اس سے ظہار بھی نہیں ہوگا، تاہم اس طرح کا جملہ بیوی کے لئے بولنا یعنی بیوی کو ماں کہنا ناپسندیدہ ہے ، اس لئے شوہر کو چاہئے کہ آئندہ اس طرح کا لفظ استعمال کرنے سے اجتناب کرے۔
وإن نوى بأنت علي مثل أمي) أو كأمي وكذا لو حذف علي، خانية ( براً أو ظهاراً أو طلاقاً صحت نيته ) ووقع ما نواه؛ لأنه كناية ( وإلا ) ينو شيئاً أو حذف الكاف، ويكره قوله: أنت أمي ويا ابنتي ويا أختي ونحوه" (قوله:حذف الكاف ) بأن قال أنت أمي، ومن بعض الظن جعله من باب زيد أسد، در منتقى عن القهستاني، قلت: ويدل عليه ما نذكره عن الفتح من أنه لا بد من التصريح بالأداة، (قوله: لغا )؛ لأنه مجمل في حق التشبيه، فما لم يتبين مراد مخصوص لا يحكم بشيء، فتح (قوله: ويكره الخ ) جزم بالكراهة تبعاً للبحر و النهر، والذي في الفتح: وفي أنت أمي لايكون مظاهراً، وينبغي أن يكون مكروهاً، فقد صرحوا بأن قوله لزوجته: يا أخية مكروه، وفيه حديث رواه أبو داود أن رسول الله سمع رجلاً يقول لامرأته: يا أخية، فكره ذلك ونهى عنه، ومعنى النهي قربه من لفظ التشبيه، ولولا هذا الحديث لأمكن أن يقول: هو ظهار؛ لأن التشبيه في أنت أمي أقوى منه مع ذكر الأداة، ولفظ يا أخية استعارة بلا شك، وهي مبنية على التشبيه، لكن الحديث أفاد كونه ليعين ظهاراً حيث لم يبين فيه حكماً سوى الكراهة والنهي، فعلم أنه لا بد في كونه ظهاراً من التصريح بأداة التشبيه شرعاً، ومثله أن يقول لها: يا بنتي أو يا أختي ونحوه". (الدر المختار مع رد المحتار (3 / 470)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3073/46-4924
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حدیث شریف میں مندرجہ درج ذیل دعا موجود ہے، اس مسنون دعا کا کثرت کے ساتھ اہتمام کریں ان شاء اللہ ، اللہ تعالی آسانیاں پیدا کریں گے: "اَللّهمَّ إِنِّي أَعُوْذُ بِكَ مِنَ البَرصِ وَ الْجُنُونِ وَ الْجُذَامِ وَ مِنْ سَيْئِ الأسْقَامِ".
نیز مندرجہ ذیل آیاتِ شفاء ہر روز صبح پڑھ کر ایک بوتل پانی پر دم کرکے دن بھر مریض کو پلائیں، اس سے بھی افاقہ ہوگا ان شاء اللہ۔
"وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِينَ. يٰاَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَشِفَآءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ. وَهُدًى وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ. يَخْرُجُ مِنْ بُطُوْنِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُه‘ فِيْهِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ. وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ وَلَا يَزِيْدُ الظّٰلِمِيْنَ اِلَّا خَسَارًا. وَاِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِيْنِ. قُلْ هُوَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا هُدًى وَّشِفَآءٌ".(اعمال قرآنی،ص:29،ط:دار الاشاعت کراچی )
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبندمتفرقات
Ref. No. 3072/46-4923
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پنجوقتہ نماز باجماعت کی پابندی سب سے پہلے ضروری ہے، اسی سے گناہوں اور فحاشی کے کاموں سے نجات حاصل ہوگی۔ نیز آخرت کی فکر اور جہنم کا تصوربھی گناہوں سے اجتناب میں بہت مؤثر ہے۔ ہر وقت اور خاص طور پر گناہ کے وقت یہ دھیان میں رہے کہ اللہ تعالی ہم کو اس حالت میں بھی دیکھ رہاہے ، یہ خیال جس قدر مضبوط ہوگا اسی قدر اللہ کا خوف پیدا ہوگا اور گناہوں سے بچنے میں کافی مدد ملے گی۔ یقینا اللہ تعالی کا عذاب سخت ترین ہے اور کس حالت میں موت آجائے کسی کو نہیں معلوم، اس لئے ہر وقت اس کا خیال رکھنا چاہئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسی گناہ کی حالت میں موت آجائے تو اللہ کو کیا منھ دکھائیں گے۔ بہتر ہوگا کہ کسی اللہ والے کی صحبت اختیار کرلی جائے اور بری صحبتوں سے مکمل اجتناب کیاجائے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Taharah (Purity) Ablution &Bath
Ref. No. 3071/46-4929
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
The bleeding that started from July 22 to 29 was menstruation. The blood spot that was seen from August 8 to 18 was Istihazah because at least fifteen days of purity are required between two menstruations. During the days of Istihaza, it is obligatory to make up for the missed prayers. Later on, the bleeding that appeared again on August 28 as per the habit of the woman was menstruation.
أقل الطهر) بين الحيضتين أو النفاس والحيض (خمسة عشر يومًا) ولياليها إجماعًا (ولا حد لأكثره)".الدر المختار وحاشية ابن عابدين (1 / 285(
"فالأصل عند أبي يوسف وهو قول أبي حنيفة الآخر على ما في المبسوط أن الطهر المتخلل بين الدمين إذا كان أقل من خمسة عشر يوما لا يصير فاصلا بل يجعل كالدم المتوالي؛ لأنه لا يصلح للفصل بين الحيضتين فلا يصلح للفصل بين الدمين." (البحر الرائق،كتاب الطهارة،باب الحيض،216/1،ط:دار الکتب الإسلامي)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
Business & employment
Ref. No. 3070/46-4981
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ 1:۔ مذکورہ معاملہ میں بہت سارے مفاسد پائے جارہے ہیں، اس لئے اس طرح اجارہ کا معاملہ کرنا درست نہیں ہے۔ یا تو پورے طور پر ہر چیز میں شرکت کا معاملہ کیاجائے اور نفع و نقصان میں دونوں شریک ہوں یا پھر عمرو کو اجیر رکھ کر کام کرایا جائے اور اس کو متعینہ اجرت دی جائے، تبھی معاملہ درست ہوسکتاہے۔ 2:۔ گائے کے دودھ کو اجرت کے طور پر متعین کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ گائے کتنا دودھ دے گی معلوم نہیں ہے اس لئے اجرت مجہول ہے، اور ہوسکتاہے کہ بالکل بھی دودھ نہ دے تو اجیر کو کچھ بھی اجرت نہیں ملے گی ۔ اس لئے یہ معاملہ جائز نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3069/46-4922
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ روایات سے یہ بات ثابت ہے کہ قبر میں نیک اور برے ہمسایہ کا اثر دوسرے مردوں تک پہنچتا ہے۔ "حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے مردوں کو نیک لوگوں کی قبروں کے درمیان دفن کرو، اس واسطے کہ مردوں کو برے ہمسائے سے تکلیف پہنچتی ہے، جیسے زندوں کو برے ہمسایہ سے تکلیف پہنچتی ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تمہارا کوئی مر جائے تو اس کو اچھا کفن دو اور جلدی لے جاؤ، اور قبر گہری تیار کرو، ،اور برے ہمسایہ سے اس کو دور رکھو، صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آخرت میں بھی نیک ہمسایہ سے نفع ہوتا ہے؟ آپ نے پوچھا دنیا میں نفع ہوتا ہے، سب نے عرض کیا : ہاں ہوتا ہے، آپ نے فرمایا: اسی طرح آخرت میں بھی ہوتا ہے۔"
نیک ہمسایہ کی وجہ سے عذاب میں تخفیف کرنا یا عذاب دور کردینا یہ اللہ تعالی کا فعل ہے، کوئی نبی یا ولی اپنی مرضی سے کسی کے عذاب میں کمی کردے یا کسی سےعذاب دور کردے یہ اختیار کسی کو حاصل نہیں ۔ اس سلسلہ میں کسی پیر ، ولی یا نبی کو خود مختارسمجھنا عقیدہ توحید کے خلاف ہے۔
تاہم جس کی برائیاں ظاہر ہوں اس کو نیک لوگوں کے درمیان دفن کرنے سے نیک لوگوں کو تکلیف ہوگی، اس لئے ایسے شخص کی تدفین نیک لوگوں سے دورکرنی چاہئے۔
"وأخرج أبو نعيم، وابن مندة ، عن أبي هريرة قال : قال رسول الله ﷺ ادفنوا موتاكم وسط قوم صالحين، فإن الميت يتأذى بجار السوء ، كما يتأذى الحى بجار السوء .۔۔واخرج ابن عساكر في تاريخ دمشق ، بسند ضعيف ، عن ابن مسعود ، قال : قال رسول الله ﷺ : ادفنوا موتاكم في وسط قوم صالحين فإن الميت يتأذى بجار السوء ..""وأخرج الماليني عن ابن عباس عن النبي الا الله قال : إذا مات لأحد كم ا لميت ، فأحسنوا كفته، وعجلوه بإنجا زوصيته وأعمقوا له في قبره ، وجنبوه الجار السوء ، قيل يا رسول الله !وهل ينفع الجار الصالح في الاخرة:قال هل ينفع في الدنيا،قال: نعم، قال:كذالك ينفع في الاخرة..." (شرح الصدور بشرح حال المونى والقبور ،با ب دفن العبد في الأرض التى خلق منها ،ص: 133۔۔۔ 135، ط: المكتبة التوفيقية)
قال علماؤنا: ويستحب لك ـ رحمك الله ـ أن تقصد بميتك قبور الصالحين.ومدافن أهل الخير.فندفنه معهم، وتنزله بإزائهم، وتسكنه في جوارهم، تبركا بهم، وتوسلاً إلى الله عز وجل بقربهم، وأن تجتنب به قبور من سواهم، ممن يخاف التأذي بمجاورته، والتألم بمشاهدة حاله حسب ما جاء في الحديث."(التذكرة بأحوال الموتى وأمور الآخرة،لشمس الدين القرطبي (ت ٦٧١)، ص:٣١٥، ط:دار المنهاج)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 3063/46-4895
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بیوی نے شوہر سے خلع کا مطالبہ کیا اور شوہر نے اس کو منظور کرلیا توخلع درست ہوگیا اور عورت پر ایک طلاق بائن واقع ہوگئی۔ خلع کے لئے گواہ کا ہونا ضروری نہیں ہے جس طرح طلاق کے لئے گواہ کا ہونا ضروری نہیں ہے اور جس طرح فون پر طلاق واقع ہوجاتی ہے اسی طرح فون پر خلع بھی صحیح ہوجاتاہے۔
"أما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول۔"
(بدائع الصنائع ، ج:۳،ص:۱۴۵ ،فصل فی شرائط رکن الطلاق،ط:سعید)
"وأما كون الخلع بائنًا فلما روى الدارقطني في كتاب "غريب الحديث" الذي صنفه عن عبد الرزاق عن معمر عن المغيرة عن إبراهيم النخعي أنه قال: الخلع تطليقة بائنة، وإبراهيم قد أدرك الصحابة وزاحمهم في الفتوى، فيجوز تقليده، أو يحمل على أنه شيء رواه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم؛ لأنه من قرن العدول فيحمل أمره على الصلاح صيانة عن الجزاف والكذب، انتهى." (البناية شرح الهداية:٥/٥٠٩)
"إذا كان الطالق بائنًا دون الثالث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها." (الفتاوى الهندية، ج:۱، ص:۴۷۲ ط: ماجدیة)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند