Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: عید کی نماز کے بعد خطبہ سنت مؤکدہ ہے؛ لہٰذا نماز سے پہلے ہی لوگوں کو تاکید کردی جائے کہ وہ خطبہ سن کر ہی واپس جائیں اور خطبہ کی حیثیت و اہمیت پر بھی روشنی ڈالی جا ئے ۔(۱) اگر چھوٹا گاؤں ہے تو بلا عذر عید کی نماز عیدگاہ کے علاوہ دوسری جگہ نہ پڑھیں، ہاں! شدید عذر کی وجہ سے عید گاہ کے علاوہ دوسری جگہ پر نماز پڑھی جاسکتی ہے اور اگر بڑا قصبہ یا شہر ہو اور عید گاہ میں سب لوگ نہ آسکتے ہوں یا پہونچنے میں پریشانی ہو تو مساجد میں بھی عید کی نماز ادا کر لی جائے۔ چھوٹے گاؤں میں جب کہ بآسانی سب لوگ عید گاہ پہونچ کر نماز ادا کرسکتے ہوں عیدگاہ ہی میں نماز پڑھنی چاہئے؛ لیکن اگر نماز مسجد میں بھی ادا کرلی گئی تو وہاں نماز پڑھنے والوں کی نماز ادا ہوگئی۔(۲) (۱) (ویخطب بعدہا خطبتین) وہما سنۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین، مطلب: أمر الخلیفۃ لا یبقی بعد موتہ‘‘: ج ۳، ص: ۵۷)(۲) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أنہ أصابہم مطر في یوم عید فصلی بہم النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم صلاۃ العید في المسجد۔ (أخرجہ أبو داؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب یصلي بالناس في المسجد إذا کان یوم مطر‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۴، رقم : ۱۱۶۰)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 265
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں نماز بھی درست ہوگئی اور خطبہ بھی درست ہوگیا۔(۳)(۳) قولہ: (وہکذا الخ) … ویستفاد من کلامہم أن الخطیب إذا رأی حاجۃ إلی معرفۃ بعض الأحکام فإنہ یعلمہم۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین، مطلب: أمر الخلیفۃ لا یبقی بعد موتہ‘‘: ج ۳، ص: ۵۸)قولہ: (ویعلم الناس فیہا أحکام صدقۃ الفطر) لأنہا شرعت لأجلہ، وقال في السراج الوہاج: وأحکامہا خمسۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ العیدین‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۳)ویعلم الناس صدقۃ الفطر وأحکامہا، وہي خمسۃ … وفي عید النحر یکبر الخطیب ویسبح، ویعظ الناس، ویعلمہم أحکام الذبح والنحر والقربان، کذا في التتار خانیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع عشر في صلاۃ العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۲)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 265
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: عیدین کے خطبوں میں سنت یہ ہے کہ عیدین کے احکام بیان کئے جائیں، عید الفطر، صدقۃ الفطر، قربانی، کے احکام اور سنن وواجبات بیان کئے جائیں جن میں ترغیب و ترہیب کا ذکر ہو اس لیے یہ ہی بہتر ہے کہ عیدین میں وہی مقررہ خطبے پڑھے جائیں؛ البتہ اگر کسی وجہ سے جمعہ والا خطبہ پڑھ دیا تو خطبہ درست ہوجائے گا۔
(۱) (و) أن (یعلم الناس فیہا أحکام) صدقۃ (الفطر) لیؤدیہا من لم یؤدہا، قولہ: (وہکذا الخ) … ویستفاد من کلامہم أن الخطیب إذا رأی حاجۃ إلی معرفۃ بعض الأحکام؛ فإنہ یعلمہم إیاہا في خطبۃ الجمعۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین، مطلب: أمر الخلیفۃ لا یبقی بعد موتہ‘‘: ج ۳، ص: ۵۸)قولہ: (ویعلم الناس فیہا أحکام صدقۃ الفطر) لأنہا شرعت لأجلہ، وقال في السراج الوہاج: وأحکامہا خمسۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ العیدین‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۳)ویعلم الناس صدقۃ الفطر وأحکامہا، وہي خمسۃ … وفي عید النحر یکبر الخطیب ویسبح، ویعظ الناس، ویعلمہم أحکام الذبح والنحر والقربان، کذا في التتار خانیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع عشر في صلاۃ العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۲)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 264
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں بہتر یہی ہے کہ ایک ہی شخص خطبہ پڑھے اور وہی نماز پڑھائے، لیکن اگر ایک نے خطبہ پڑھا اوردوسرے نے نماز پڑھائی تو بھی نماز درست ہوجائے گی۔(۱)(۱) تنبیہ: … وقد صرح في الخلاصۃ بأنہ لوخطب صبي بإذن السلطان وصلی الجمعۃ رجل بالغ یجوز۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب: في نیۃ آخر ظہر بعد صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۱۹)وقد صرح في الخلاصۃ: بأنہ لو خطب صبي بإذن السلطان وصلی الجمعۃ رجل بالغ یجوز۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۵۸)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 263
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: خطبہ حمد وصلوٰۃ اور وعظ ونصیحت نیز ادعیہ پر مشتمل ہوتا ہے، اس میں الوداع وغیرہ کے جملے بغیر التزام کے کہہ دینے میں تو حرج نہیں؛ لیکن اس کو سنت سمجھنا اور اس کا التزام درست نہیں ہے، خطبہ کے بعد دعاء نہ مسنون ہے اور نہ ہی بزرگوں کا طریقہ ہے(۱) جب کہ نماز کے بعد دعاء مسنون ہے اور اسی پر بزرگوں کا عمل بھی ہے اس لیے دعا نماز کے بعد ہی کرنی چاہئے۔(۲) (۱) من أحدث في أمرنا ہذا مالیس منہ فہو رد۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۷، رقم: ۱۴۰)(۲) إن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم یرفع یدیہ حتی یفرغ من صلاتہ۔ (الطبراني، المعجم الکبیر، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۱۳، ص: ۱۲۹، رقم: ۷۳۵، دار الکتب العلمیہ، بیروت)قولہ: (وسن خطبتان بجلستہ الخ) کما رویٰ عن أبي حنیفۃ أنہ قال: ینبغي أن یخطب خطبۃ خفیفۃ یفتتح بحمد اللہ تعالیٰ ویثني علیہ ویتشہد ویصلي علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ویعظ ویذکر ویقرأ سورۃ ثم یجلس جلستہ خفیفۃ، ثم یقوم فیخطب خطبۃ أخری۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۵۸)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 262
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: عید کے خطبہ کا وقت نماز عید کے بعد ہے، اگر پہلے پڑھ لیا تو غلط ہوا، مگر نماز کے بعد اعادہ کی ضرورت نہیں۔ الجوہرۃ النیرۃ میںہے ’’وإن خطب قبل الصلاۃ اجزأہ مع الاساء ۃ ولا تعاد الصلاۃ‘‘ اس لیے دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں تاہم اگر لوگوں کے کہنے پر احتیاطاً اعادہ کرلیا گیا تو تب بھی جائز ہوگیا۔(۱)(۱) (فلو خطب قبلہا صح وأساء) لترک السنۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین، مطلب: أمر الخلیفۃ لا یبقی بعد موتہ‘‘: ج ۳، ص: ۵۷)قولہ: (ویخطب بعدہا خطبتین) اقتداء بفعلہ علیہ الصلاۃ والسلام بخلاف الجمعۃ؛ فإنہ یخطب قبلہا لأن الخطبۃ فیہا شرط والشرط متقدم أو مقارن، وفي العبد لیست بشرط، ولہذا إذا خطب قبلہا صح وکرہ؛ لأنہ خالف السنۃ کما لو ترکہا أصلا۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ العیدین‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۳)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 261
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ضروری احکام صدقہ فطر وقربانی وغیرہ خطبہ میں بیان کرنے چاہئیں، عربی میں پڑھے ہوئے خطبہ کا اردو میں ترجمہ اسی وقت سنانا ثابت نہیں، ایسا نہیں کرنا چاہئے کہ سننے والے اکتا جائیں گے، پریشان ہوں گے۔ البتہ نماز سے پہلے جو تقریر ہوتی ہے اسی میں تفصیلات بیان کردینی چاہئیں۔(۲)(۲) (و) أن (یعلم الناس فیہا أحکام) صدقۃ (الفطر) لیؤدیہا من لم یؤدہا وینبغي تعلیمہم في الجمعۃ التي قبلہا لیخرجوہا في محلہا ولم أرہ، وہکذا کل حکم احتیج إلیہ؛ لأن الخطبۃ شرعت للتعلیم۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین، مطلب: أمر الخلیفۃ لا یبقی بعد موتہ‘‘: ج ۳، ص: ۵۸)قولہ: (ویعلم الناس فیہا أحکام صدقۃ الفطر) لأنہا شرعت لأجلہ، وقال في السراج الوہاج: وأحکامہا خمسۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ العیدین‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۳)ویعلم الناس صدقۃ الفطر وأحکامہا، وہي خمسۃ … وفي عید النحر یکبر الخطیب ویسبح، ویعظ الناس، ویعلمہم أحکام الذبح والنحر والقربان، کذا في التتار خانیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع عشر في صلاۃ العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۲)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 260
نماز / جمعہ و عیدین
الجـواب وباللّٰہ التوفیــق: عیدین کی نماز کے بعد ممبر پر کھڑے ہوکر خطبہ دینا سنت ہے۔(۱) (۱) (و) أن (یکبر قبل نزولہ من المنبر أربع عشرۃ) وإذا صعد علیہ لایجلس عندنا۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین، مطلب: أمر الخلیفۃ لا یبقی بعد موتہ‘‘: ج ۳، ص: ۵۸)قولہ: (ویخطب بعدہا خطبتین) اقتداء بفعلہ علیہ الصلاۃ والسلام بخلاف الجمعۃ فإنہ یخطب قبلہا … وفي المجتبیٰ … ویبدأ بالتکبیرات في خطبۃ العیدین، ویستحب أن یستفتح الأولیٰ بتسع تکبیرات تتریٰ، والثانیۃ بسبع، قال عبد اللّٰہ بن عتبۃ بن مسعود: ہو من السنۃ ویکبر قبل أن ینزل من المنبر أربع عشرۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ العیدین‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۳)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 260
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: خطبہ کے لیے نماز کی طرح ہی صفوں میں بیٹھنا بہتر ہے، حضرات صحابہؓ کا یہ عمل رہا ہے، لیکن اگر آواز سننے کے لیے سب لوگ اکھٹے ہوکر بیٹھیں اور مقصد خطبہ کا صحیح سننا ہو، تو یہ بھی جائز ہے۔(۱)(۱) ولہذا قال في التجنیس: والرسم في زماننا أن القوم یستقبلون القبلۃ، قال: لأنہم لو استقبلو الإمام لخرجوا في تسویۃ الصفوف بعد فراغہ لکثرۃ الزحام، وجزم في الخلاصۃ بأنہ یستحب استقبالہ إن کان أمام الإمام۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۵۹)ویستحب للرجل أن یستقبل الخطیب بوجہہ، ہذا إذا کان أمام الإمام … والدنو من الإمام أفضل من التباعد عنہ … ویستحب أن یقعد فیہا کما یقعد في الصلاۃ، کذا فی معراج الدرایۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السادس عشر في صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۸، ۲۰۹)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 259
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسنون طریقہ خطبہ کا یہ ہے کہ دونوں خطبے عربی زبان میں ہوں اور دونوں کے درمیان کسی دوسری زبان میں تقریر وغیرہ سے فصل نہ کیا جائے۔ اگر لوگوں کو سمجھانے کے لیے کسی دوسری زبان کی ضرورت ہے، تو نماز عید سے اور خطبۂ جمعہ سے قبل احکام ومسائل وغیرہ دوسری زبان میں سمجھادئے جائیں، تاکہ مقصد بھی پورا ہو جائے اور سنت بھی پوری ہو جائے۔(۱) (۱) تتمہ: لم یقید الخطبۃ بکونہا بالعربیۃ اکتفاء بما قدمہ في باب ’’صفۃ الصلاۃ‘‘ من أنہا غیر شرط ولو مع القدرۃ علی العربیۃ عندہ، خلافا لہما حیث شرطاہا إلا عند العجز کالخلاف في الشروع في الصلاۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب: في نیۃ آخر ظہر بعد صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۱۹)وقد صرح في السراج الوہاح بلزوم الاستئناف وبطلان الخطبۃ وہذا ہو الظاہر؛ لأنہ إذا طال الفصل لم یبق خطبۃ للجمعۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۵۸)وفي البدائع: ویکرہ للخطیب أن یتکلم في حال خطبتہ إلا إذا کان أمرا بمعروف فلا یکرہ لکونہ منہا۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’أیضاً‘‘: ص: ۲۶۱)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 258