Frequently Asked Questions
Masajid & Madaris
Ref. No. 3044/46-4866
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ لڑکیوں کو دینی تعلیم دینا بہت ضروری ہے، مگر ان کے لئے مدرسہ چلانے والوں کو بہت احیتاط کی ضرورت ہوتی ہے جو عام طور پر نہیں ہوتی ہے، اور دینی ادارہ میں بے پردگی پر کوئی خاص توجہ نہ دینا افسوس کی بات ہوتی ہے۔ اگر معقول پردہ کے ساتھ، خواتین اساتذہ پڑھائیں تو زیادہ بہتر ہے اور اگر مرد حضرات پڑھائیں تو لڑکیوں کی نگرانی کے لئے اندر ایک عورت ہو اور مرد استاذ سے لڑکیوں کا کوئی تعلق یا بات چیت نہ ہو ورنہ آہستہ آہستہ یہ بات چیت بے تکلفی میں بدل جائے گی ۔ اگر اس طرح کوئی مدرسۃ البنات چلائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ چھٹی ہونے پر والد یا محرم سرپرست بچیوں کو اپنے ساتھ لائیں اور لیجائیں ، اس کا بھی اہتمام ہو۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبندBusiness & employment
Ref. No. 3043/46-4865
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس ایپ کے ذریعہ اگر سوال کا جواب دے کر پیسہ کمایا جاتاہے اور اس میں پیشگی کچھ جمع نہیں کرنا پڑتاہے تو جس طرح آف لائن سوال کا جواب دے کر انعام کمانا جائز ہے اسی طرح یہ بھی جائز ہوگا، صرف آن لائن ہونے سے کوئی فرق نہیں آئے گا، تاہم اس کو دوسروں تک پہونچاکر اس سے جو پیسے دوسروں کے کمانے سے آپ کو حاصل ہوں گے وہ اجرت (دلالی) غیر متعین ہے۔ لہذا وہ رقم لینا آپ کے لئے جائز نہیں ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبنداحکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 3041/46-4863
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں شہاب الدین مرحوم کی کل جائداد منقولہ وغیرمنقولہ کو اس کی تمام اولاد اور موجودہ بیوی کے درمیان اس طرح تقسیم کیاجائے گا کہ کل مال کا ثمن یعنی آٹھواں حصہ مرحوم کی بیوی کو دینے کے بعد مابقیہ جائدادکو اس کی تمام اولاد میں للذکر مثل حظ الانثیین کے حساب سے تقسیم کریں گے۔ چنانچہ تمام ترکہ کو 80 حصوں میں تقسیم کرکے فاطمہ بیوی کو 10 حصے، چاروں بیٹوں میں سے ہر ایک بیٹے کو 14 حصے اور دو بیٹیوں میں سے ہر ایک بیٹی کو سات حصے دیں گے۔
پھر فاطمہ کا انتقال ہوا تو فاطمہ کا کل ترکہ جو اس کی ملکیت میں ہے یا جو اس کو اپنے مرحوم شوہر سے ملا ہے سب کو اس کے دو حقیقی بیٹوں اور ایک حقیقی بیٹی کے درمیان للذکر مثل حظ الانثیین کے حساب سے تقسیم کریں گے، اورسوتیلی ماں(فاطمہ) کے ترکہ میں سے سوتیلے(مریم کے) بیٹوں کا شرعی قانون کے مطابق کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ چنانچہ فاطمہ کا کل ترکہ اگر 10 ہے جو شوہر سے ملا ہے تو بیٹوں کو چارچار اور بیٹی کو دو حصے ملیں گے۔
پھر جب سعیدہ کا انتقال ہوا تو اس کی پوری ملکیت اور جو کچھ اس کو اپنے مرحوم باپ سے اور پھر مرحومہ ماں سے ملا ہے ان سب کو اس کے دو حقیقی بھائیوں کے درمیان برابر برابر تقسیم کریں گے،اور سوتیلے بھائیوں کو سوتیلی بہن کے ترکہ سے کچھ نہیں ملے گا۔ چنانچہ سعیدہ کو اپنے باپ سے سات حصے اور ماں سے دو حصے ملے تھے، تو اگر اس کے پاس کل نو حصے ہیں تو دونوں بھائی نصف نصف لے لیں گے۔
اگر اب تک میراث تقسیم نہیں ہوئی ہے تو موجود وارثین کے درمیان اس کو اس طرح تقسیم کرسکتے ہیں کہ کل ترکہ کے 320 حصے کریں، جن میں سے غلام محمد کو 56 حصے، احمد شیخ کو 56 حصے، عبدالعزیز کو 90 حصے، ضیاء الدین کو 90 حصے اور شریفہ کو 28 حصے دیدئے جائیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Hadith & Sunnah
Ref. No. 3038/46-4852
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فجر کی نماز طلوع آفتاب سے اتنی دیر پہلے پڑھنی چاہئے کہ مسنون قراءت کے ساتھ نماز پڑھنے کے بعد اگر نماز میں کسی فساد کا علم ہو اور نماز کے اعادہ کی ضرورت پڑے تو وقت کے اندر ہی نماز کا اعادہ ممکن ہو۔ عام طور پر فجر میں مسنون قراءت کرنے کے لئے دس سے پندرہ منٹ درکار ہوتے ہیں۔ اس لئے فجر کی نماز طلوع آفتاب سے کم از کم پچیس منٹ قبل پڑھنی چاہئے۔ اتنی تاخیر کردینا کہ نماز میں شبہہ ہوجائے یا نماز فاسد ہونے کی صورت میں اعادہ کا وقت باقی نہ رہے ، بالکل مناسب نہیں ہے۔ لیکن اگر تاخیر سے نماز ہوتی ہے اور مسنون قراءت کے ساتھ ہوتی ہے مگر مسنون قراءت کے ساتھ اعادہ کا وقت باقی نہیں رہتاہے تو ایسا کرنا مناسب نہیں لیکن یہ وعید میں داخل نہیں ہوگا، کیونکہ اس نے نماز میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبندMarriage (Nikah)
Ref. No. 3036/46-4853
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر لڑکی والے کسی قسم کی زبردستی اور خاندانی دباؤ کے بغیر اپنی خوشی و رضامندی سے لڑکے والوں کے متعلقین کو بھی دعوت پر بلائیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ لڑکے والوں کو چاہیے کہ بارات کی دعوت میں اتنے افراد کو لے کر جائیں جتنے افراد کو لڑکی والوں نے اپنی وسعت کے مطابق دعوت دی ہو، اس لیے پچیس پچاس افراد کو ان کی رضامندی سے لے جانے میں کوئی سنت کی خلاف ورزی نہیں ہوگی۔ لڑکی والوں کی رضامندی سے افراد کی تعیین کی جائے اور ان پر زیادہ بوجھ نہ ڈالاجائے۔اسی طرح منگنی کے موقع پر چند افراد( جس تعداد پر لڑکی والے راضی ہوں )لے جانے میں کوئی گناہ کی بات نہیں ہے۔ مفتی کفایت اللہ صاحب نے لکھا ہے کہ: ’’لڑکی والوں کی طرف سے باراتیوں کو یا برادری والوں کو کھانا دینا لازم یا مسنون اور مستحب نہیں ہے ، اگر بغیرالتزام کے وہ اپنی مرضی سے کھانا دیدیں تو مباح ہے، نہ دیں تو کوئی الزام نہیں'' ۔ (کفایت المفتی، 7/471، باب العرس والولیمہ)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 3032/46-4842
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد کی زمین جو مسجدسے علیحدہ ہواور مسجد کے لیے وقف ہو اور واقف نے اس بات کی تصریح کردی ہو کہ اس کی آمدنی سے مسجد کی جملہ ضروریات کو پورا کیا جائے تو اس زمین پر مسجد بنانا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ واقف کے منشاء کے خلاف ہے۔ اس لئے مصالح مسجد کے لئے وقف شدہ زمین پر مسجد نہیں بنائی جائے گی۔ البتہ اگر بڑی مسجد کی آمدنی کے دیگر ذرائع موجود ہوں اور اس کے پاس اتنا مال ہو کہ اس کو اس وقف شدہ زمین کی آمدنی کی نہ تو فی الحال ضرورت ہے اور نہ ہی آئندہ ضرورت پیش آنے کے امید ہے ،نیز اس زمین کی آمدنی کے ضائع ہونے یا غیر مصرف میں خرچ ہونے کا اندیشہ ہے تو ایسی صورت میں اس زمین پر مسجد بنانا جائزہوگا۔
إن شرائط الواقف معتبرةٌ إذا لم تخالف الشرع وهو مالكٌ، فله أن يجعل ماله حيث شاء ما لم يكن معصية وله أن يخصّ صنفاً من الفقراء، وكذا سيأتي في فروع الفصل الأول أنّ قولهم: شرط الواقف كنصّ الشارع أي في المفهوم والدلالة، ووجوب العمل به. قلت: لكن لا يخفى أن هذا إذا علم أنّ الواقف نفسه شرط ذلك حقيقةّ، أما مجرد كتابة ذلك على ظهر الكتب كما هو العادة فلا يثبت به الشرط، وقد أخبرني بعض قوّام مدرسة إنّ واقفها كتب ذلك ليجعل حيلةً لمنع إعارة من يخشى منه الضياع والله سبحانه أعلم .
(رد المحتار ، کتاب الوقف، مطلب متی ذکر للوقف مصرفاً....،ج:۴،ص:۳۶۶،ط:سعید)
البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناء ووقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعاً لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه، والأصحّ أنه لا يجوز كذا في الغياثية. (الھندیۃ، کتاب الوقف، الباب الثانی فی مایجوز وقفہ ومالایجوز، ج:۲،ص:۳۶۲،ط:رشیدیہ)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 3020/46-4818
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پورا سوال پڑھنے سے یہ معلوم ہوا کہ آپ نے ایک مرتبہ اپنی بیوی کو فون پر کہا ہے کہ میں تم کو چھوڑرہاہوں۔ پس اس کہنے کی وجہ سے ایک طلاق واقع ہوگئی تھی، اگر اس طلاق کے بعد آپ نے قولی یا عملی رجعت نہیں کی اور عورت کی عدت پوری ہوگئی تو نکاح آپ دونوں کا ختم ہوگیا ۔ اب اس لڑکی سے دوبارہ نئے مہر کے ساتھ نکاح کرکے دونوں ایک ساتھ میاں بیوی کے طور پر رہ سکتے ہیں۔ خیال رہے کہ یہ جملہ 'میں تم کو چھوڑرہاہوں " آپ نے عدت کے دوران جتنی بار بولا ہے اتنی ہی طلاقیں واقع ہوں گی۔ اگر آپ نے ایک طلاق دی ہے تو آئندہ نکاح کے بعد دو طلاق کا مزید اختیار باقی ہے، اس لئے آئندہ احتیاط کریں اور طلاق دینے سے بچیں۔ لیکن اگر دوران عدت کئی مرتبہ یہ جملہ بولا ہے تو اس کی تفصیل لکھ کر دوبارہ سوال کیاجاسکتاہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Business & employment
Ref. No. 3031/46-4851
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں آپ ڈاکٹر کے ملازم ہیں ، اور آپ کی ذمہ داری یہ ہے کہ آپ مریض کی معلومات اور اس کے اخراجات کی تفصیل کمپیوٹر پر لکھ کر داکٹر کے متعلقہ انشورنس کمپنی کو ارسال کریں تاکہ مریض کے اخراجات انشورنس کمپنی ڈاکٹر کو اداکردے۔ ان سارے معاملات میں آپ براہِ راست انشورنس کمپنی کے ملازم نہیں ہیں ، اس لئے آپ کے لئے یہ نوکری درست ہے، اور اس کی جو آمدنی آپ کو مل رہی ہے وہ ڈاکٹر کی طرف سے مل رہی ہے، اور وہ حلال ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 3015/46-4812
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب بچے بالغ ہوجائیں اور بیوی کا خرچہ اٹھانے کی استطاعت رکھتے ہوں تو ان کی جلد ازجلد شادی کردینا چاہیے، جو لوگ اپنی اولاد کی شادی میں بلاعذرتاخیر کریں تو گناہ میں مبتلاہونے کی صورت میں والدین پر بھی اس کا وبال آئے گا جیساکہ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ جو بچے اپنی شادی کے لئے والدین سے کہہ رہے ہیں اور پھر بھی والدین توجہ نہیں دیتے تو ایسی بچے بچیاں اپنی مرضی سے مناسب رشتہ دیکھ کر خود نکاح کرسکتے ہیں، تاہم بہتر ہے کہ والدین کو پہلے مطلع کردیں کہ اگر آپ نے ایک دو ماہ میں شادی نہیں کی تو ہم خود اپنا رشتہ کرلیں گے ، شاید اس طرح کہنے سے وہ تیار ہوجائیں ، ورنہ آپ اپنا نکاح خود کرسکتے ہیں اگر بیوی کا مہر اور خرچ دینے کی استطاعت ہے۔ جب والدین خود حکم شرعی کی خلاف ورزی کررہے ہوں تو اولاداس سلسلہ میں نافرمان شمار نہیں ہوگی۔ اس سلسلہ میں خاندان کے دیگر بزرگوں کے ذریعہ بھی والدین پر دباؤ بنایاجاسکتاہے۔
"و عن أبي سعيد و ابن عباس قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من ولد له ولد فليحسن اسمه و أدبه فإذا بلغ فليزوّجه، فإن بلغ و لم يزوّجه فأصاب إثماً فإنما إثمه على أبيه»." (مشكاة المصابيح (2/ 939)"و عن عمر بن الخطاب و أنس بن مالك رضي الله عنهما عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " في التوراة مكتوب: من بلغت ابنته اثنتي عشرة سنةً و لم يزوّجها فأصابت إثماً فإثم ذلك عليه. رواهما البيهقي في شعب الإيمان." (مشكاة المصابيح (2/ 939) "(و يكون واجبًا عند التوقان) فإن تيقن الزنا إلا به فرض نهاية، و هذا إن ملك المهر و النفقة و إلا فلا إثم بتركه بدائع ... و يندب إعلانه و تقديم خطبة و كونه في مسجد يوم جمعة بعاقد رشيد و شهود عدول و الاستدانة له." (کتاب النکاح ،ج:3، ص:8، ط:دارالفکر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3030/46-4843
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آب رواں یا آب کثیر چونکہ طاہر و مطہر ہے یعنی پاک ہے اور پاک کرنے والا بھی ، اس لئے مطلقاً آب کثیر خواب میں دیکھنا صاحب خواب کے لئے زندگی کے ہر شعبہ (اخلاقیات، معاملات و معاشرت) میں پاکیزگی، اور خیر و منفعت کثیر حاصل ہونے اور امراض و اسقام سے شفایابی کی جانب اشارہ ہے۔
اور نانا نے جو خالہ کو پانی چکھنے کے لئے کہایا ان کو چکھایا اس میں اس بات کی جانب واضح اشارہ ملتاہے کہ ان کے ذریعہ سے خالہ کو مال کثیر یا روحانی فیض حاصل ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند