بدعات و منکرات

Ref. No. 3163/46-6092

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کسی مسلم معمار کے لئے شراب خانہ میں   تعمیر ی کام کرنا مناسب نہیں ہے تاہم اس کی اجرت اس کے لئے   حلال ہے ۔ اگر آپ اپنے  فن تعمیر میں ماہر ہیں توآپ کے لئے دوسری جگہ کام ملنا مشکل نہیں ہوگا۔ اس لئے دوسری جگہ کی تلاش بھی کرتے رہیں۔

الأجرة إنما تکون فی مقابلة العمل.(شامی، باب المہر / مطلب فیما أنفق علی معتدة الغیر 4/307 زکریا)ولو استأجر الذمی مسلمًا لیبنیٰ لہ بیعة أو کنیسةً جاز ویطیب لہ الأجر. (الفتاویٰ الہندیة،الإجارة / الباب الخامس عشر، الفصل الرابع 4/250 زکریا)ولو استأجر الذمی مسلمًا لیبنی لہ بیعةً،أو صومعةً، أو کنیسةً جاز، ویطیب لہ الأجر.(الفتاویٰ التاتارخانیة ۱۳۱/۱۵زکریا)

و) جاز تعمير كنيسة و (حمل خمر ذمي) بنفسه أو دابته (بأجر) لا عصرها لقيام المعصية بعينه۔ (قوله لا عصرها لقيام المعصية بعينه) فيه منافاة ظاهرة لقوله سابقا لأن المعصية لا تقوم بعينه ط وهو مناف أيضا لما قدمناه عن الزيلعي من جواز استئجاره لعصر العنب أو قطعه، ولعل المراد هنا عصر العنب على قصد الخمرية فإن عين هذا الفعل معصية بهذا القصد، ولذا أعاد الضمير على الخمر مع أن العصر للعنب حقيقة فلا ينافي ما مر من جواز بيع العصير واستئجاره على عصر العنب هذا ما ظهر لي فتأمل." (شامی، کتاب الحظر و الاباحہ ج نمبر ۶ ص نمبر ۳۹۱،ایچ ایم سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 3162/46-6053

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   بینک اسٹیٹمنٹ کے ذریعہ اس رقم کو جانا جاسکتاہے۔ یا جب سود کی رقم بینک میں آئے اور اس کا میسیج آپ کو ملے تو اتنی رقم کسی لفافہ میں رکھ دیاکریں یا اسی وقت اتنی رقم کسی غریب کو دیدیاکریں۔ انٹرسٹ کی رقم کو اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے، بلکہ اس کو بلانیت ثواب کسی غریب کو مالک بنادینا ضروری ہے۔ کسی رفاہی کام میں بھی اس کو استعمال نہیں کیاجاسکتاہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

خوردونوش

Ref. No. 3161/46-6054

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   صرف شک کی بناء پر کوئی حکم نہیں لگایا جاسکتاہے اور نہ ہی کسی حلال کو حرام کہاجاسکتاہے۔ البتہ اگر آپ کو مذکورہ شک واقع ہوا تو ایسی جگہوں پر جانے سے پرہیز کریں اور استغفار بھی کریں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Innovations

Ref. No. 3160/46-6055

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

One does not own his or her parts of the body like eyes, kidney etc; therefore he cannot gift it to anyone. It is unlawful to take out cornea from a donated eye and transplant in the eye of other person.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

Innovations

Ref. No. 3159/46-6068

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   اسلام میں سالگرہ منانے کی اجازت نہیں ہے۔ اس لئے کہ سالگرہ غیروں کا تہذیبی عمل ہے، اگرچہ آپ سالگرہ کے موقع پر اچھے کام کرتے ہیں لیکن یہ امور بھی سالگرہ کے عنوان سے کرنا در حقیقت سالگرہ منانا ہے اس لیے ان امور کو انجام دے کر سالگرہ منانا بھی نامناسب ہے۔

ولاترکنوا الی الذین ظلموا فتمسکم النار (الآیۃ ) ۔ البتہ تقریب کے بغیر ہی تلاوت ، ادائیگئ شکر کی کوئی اور صورت ہو تو حرج نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 3154/46-6050

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں تقسیم سے پہلے جو والد کے پیسے  تجارت میں لگادئے گئے وہ تمام ورثہ کی رضامندی سے لگائے گئے تھے، اور اب   اس پلاٹ کو نفع کے ساتھ  بیچاگیا اور رقم کو تمام ورثہ میں  تقسیم  کیاگیا۔ تو اب ہر شخص اپنے حصہ کے بقدر گذشتہ سالوں کی زکوۃ ادا کرے گا۔ اور جس وقت پیسے لگائے گئے تھے اس وقت سے ہر سال جو اس پلاٹ کی قیمت  بڑھتی یا گھٹتی رہی اسی کے حساب سے زکوۃ ادا کی جائے گی۔

 ‌تقسيم ‌حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابهم بنسبة حصصهم. فلذلك إذا شرط لأحد الشركاء حصة أكثر من حصته من لبن الحيوان المشترك أو نتاجه لا يصح." (مجلۃ الاحکام العدلیہ،"المادة ١٠٧٣  ص 206 ط:نور محمد )

فأما شركة الأملاك فحكمها في النوعين جميعا واحد، وهو أن كل واحد من الشريكين كأنه أجنبي في نصيب صاحبه، لا يجوز له التصرف فيه بغير إذنه لأن المطلق للتصرف الملك أو الولاية ولا لكل واحد منهما في نصيب صاحبه ولاية بالوكالة أو القرابة؛ ولم يوجد شيء من ذلك وسواء كانت الشركة في العين أو الدين لما قلنا" (بدائع الصنائع، کتاب الشرکۃ،فصل فی حکم الشرکۃ،65/6 ط: دار الکتب العلمیۃ

 "(قوله: وملك نصاب حوليّ فارغ عن الدين وحوائجه الأصلية نامٍ ولو تقديراً) لأنّه - عليه الصّلاة والسّلام - قدّر السبب به، وقد جعله المصنف شرطاً للوجوب مع قولهم: إنّ سببها ملك مالٍ مُعدّ ‌مُرصد للنماء والزيادةِ فاضلٍ عن الحاجة كذا في المحيط وغيره" . (البحر الرائق، البحر الرائق،کتاب الزکوۃ، شروط وجوب الزکوۃ، ج:۲،ص:۲۱۸،ط:دار الکتاب الاسلامی)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 3155/46-6051

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   حرام آمدنی والے کو سچی توبہ و استغفار کرنا لازم ہےاور حرام مال کسی غریب کو بلا نیت ثواب صدقہ کردینا لازم ہے۔ البتہ جو رقم آپ کی بہن نے آپ کو بطور ہبہ دے کر مالک بنادیا اس کو آپ بنیت ثواب  صدقہ کرسکتے ہیں ، صدقہ قبول ہوگا اور اس کا ثواب بھی آپ کو ملے گا۔ آپ نے جب حرام سے نکلنے کا ارادہ کرلیا ہے تو اس پر قائم رہیے اور کوشش جاری کھئے ان شاء اللہ اللہ کی مدد آئے گی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 3156/46-6048

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   عورت کی وفات کے بعد شوہر سے  اس کا نکاح ختم ہوجاتاہے، اب شوہر کا اس بیوی پر کوئی حق نہیں ہے، اس لئے تدفین کے معاملہ میں اس کے اولیاء کو اختیار ہوگا۔

والنکاح بعد الموت باقٍ إلی أن تنقضي العدة بخلاف ما إذا ماتت فلا یغسلہا؛ لانتہاء ملک النکاح لعدم المحل فصار أجنبیًا (شامي: 3/91 باب صلاة الجنازة، مطبوعہ زکریا دیوبند)

ویمنع زوجھا من غسلھا ومسھا لا من النظر إلیھا علی الأصح وھي لا تمنع من ذلک أي من تغسیل زوجھا دخل بھا أو لا․ ولو ذمیةً بشرط بقاء الزوجیة (شامي: 3/91 مطبوعہ زکریا دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Fiqh

Ref. No. 3157/46-6067

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔    یہ بھی ہمبستری کے حکم میں ہے، اور اس سے بھی غسل واجب ہوتاہے۔ اس لئے اس صورت مسئولہ میں ایک طلاق واقع ہوگئی ، اور رجعت بھی ہوگئی۔ اب شوہر آئندہ صرف دو طلاقوں کا مالک ہے، آئندہ اس طرح کی بات کرنے سے گریز کرے۔ خیال رہے کہ دُبر (پیچھے کے راستہ ) میں وطی کرنا حرام اور ناجائز ہے۔ اب مردوعورت دونوں پر لازم ہے کہ اپنے اس فعل حرام پر توبہ و استغفار کریں اور حسب گنجائش صدقہ  بھی کریں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 3158/46-7066

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   عبداللہ اور ان کی اہلیہ کے انتقال کے بعد مرحوم کی کل جائداد کو ان کی تمام اولاد میں شریعت کے مطابق تقسیم کیاجائے گا۔ اور بھائیوں کے ساتھ بہنیں بھی شامل ہوں گی۔ لہذا جو بٹوارا پہلے ہوا تھا  جس میں بہنوں کوشامل نہیں کیاگیا وہ شرعی بٹوارا نہیں ہواتھا، اس لئے اس کو ختم کرکے دوبارہ دونوں مکانوں کو شرعی طریقہ پرتقسیم  کرنا ضروری ہے۔ بھائیوں نے رفیق صاحب کو جو مکان اس وقت دیاتھا تو اس وقت مکان کی جو حالت تھی اس کی قیمت لگائی جائے گی، اور رفیق کی اولاد نے جو اضافی رقم خرچ کی  وہ ان کو دیدی جائے گی۔  مرحوم عبداللہ کی کل جائداد کو سب سے پہلے چودہ (14) حصوں میں تقسیم کریں گے، جن میں سے ہر بیٹے کو دو دو حصے اور ہر ایک بیٹی کو ایک ایک حصہ ملے گا۔ جوان میں سے  فوت ہوچکے ہیں ان کا حصہ ان کی اولاد میں تقسیم کیاجائے گا، جس کا طریقہ یہ ہوگا کہ بیوی کو آٹھواں حصہ دینے کے بعد مابقیہ کو اولاد میں للذکر مثل حظ الانثیین کے حساب سے تقسیم کیاجائے گا اور جس بہن کی کوئی اولاد نہیں ہے اس کا حصہ اس کے انتقال کے وقت   جو بھائی اور بہنیں موجود تھیں ان میں للذکر مثل حظ الانثیین کے حساب سے تقسیم کرلیا جائے گا۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند