Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
Ref. No. 3067/46-4931
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
In this regard, you had better refer to Hafiz Ibne Hazm's book Ismat e Anbiyya translated by Hidayatullah Nadwi, and Risala Bayyinat by Allama Syed Muhammad Yusuf Banuri, as well as Darul Uloom's online Fatwa No. 40922. And also you can show it to your brother. Everyone should refrain from discussing the disputes of the Prophets and Companions. This is the tact of Ahle Sunnat wal Jamaat.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
Fiqh
Ref. No. 3061/46-4896
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فضائل اعمال ایک معتبر کتاب ہے، اور پانچ منٹ کا مدرسہ بھی معتبر ہے، دونوں کتابیں اپنی جگہ ٹھیک ہیں اور عام مسلمانوں کے فائدے کے لئے ہی لکھی گئی ہیں، دونوں میں قرآن و حدیث ہی کی باتیں شامل ہیں۔ اس لئے دونوں کتابوں میں سے کوئی بھی تعلیم کے لئے منتخب کی جاسکتی ہے، اور کونسی کتاب زیر تعلیم ہو اس سلسلہ میں امام صاحب کو اختیار دیدینا چاہئے ورنہ ہر شخص اپنے حساب سے کتابیں لائے گا اور امام کو اپنی مطلوبہ کتاب پڑھنے کا مکلف کرے گا اور اس طرح مسجدکا نظم و نسق ایک مذا ق بن جائے گا۔ مقتدیوں پر لازم ہے کہ وہ کتاب کی باتوں پر توجہ دیں اور اس پر کماحقہ عمل کرنے کی کوشش کریں اور دوسروں کو عمل پر لانے کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھیں، اوراختلافی چیزوں میں ہرگز نہ پڑھیں۔ مسجد میں مختلف مزاج و مذاق کے لوگ آتے ہیں اور ہر ایک کی رعایت کرنا امام صاحب کے بس میں نہیں ہے، اس لئے کتاب کا انتخاب امام کے سپرد کردیا جائے، شاید اسی میں خیرہو۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبندDivorce & Separation
Ref. No. 3063/46-4895
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
The wife demanded khula from her husband and husband accepted it, so the khula with one Talaq e Bain did happen. It is not necessary to have a witness for Khula, just as it is not necessary to have a witness for divorce, and just as divorce takes place over the phone, Khula is also valid over the phone.
"أما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول۔"
(بدائع الصنائع ، ج:۳،ص:۱۴۵ ،فصل فی شرائط رکن الطلاق،ط:سعید)
"وأما كون الخلع بائنًا فلما روى الدارقطني في كتاب "غريب الحديث" الذي صنفه عن عبد الرزاق عن معمر عن المغيرة عن إبراهيم النخعي أنه قال: الخلع تطليقة بائنة، وإبراهيم قد أدرك الصحابة وزاحمهم في الفتوى، فيجوز تقليده، أو يحمل على أنه شيء رواه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم؛ لأنه من قرن العدول فيحمل أمره على الصلاح صيانة عن الجزاف والكذب، انتهى." (البناية شرح الهداية:٥/٥٠٩)
"إذا كان الطالق بائنًا دون الثالث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها." (الفتاوى الهندية، ج:۱، ص:۴۷۲ ط: ماجدیة)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
Ijmaa & Qiyas
Ref. No. 3060/46-4982
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حضرات ائمہ کے نزدیک ادلہ شرع چار ہیں ان میں سے ایک اجماع امت بھی ہے اور اجماع کی حجیت قرآن و حدیث سے ثابت ہے، حضور ﷺ نے فرمایا " لن تجتمع امتی علی الضلالۃ (حدیث) اسی طرح حدیث ہے "مارآہ المسلمون حسنا فھو عنداللہ حسن "، اسی طرح قرآن کریم کی آیت ہے " ومن یشاقق الرسول من بعد ماتبین لہ الھدی و یتبع غیر سبیل المؤمنین نولہ ماتولی ونصلہ جھنم وساءت مصیرا"، ۔ اجماع امت حجت شرعیہ ہے البتہ یہ دلیل قطعی ہے یا نہیں، یعنی اس کے منکر کو کافر کہا جاسکتاہے یا نہیں، اس میں اختلاف ہے، قاضی ابوزید دبوسی وغیرہ اس کے قائل ہیں کہ اجماع دلیل قطعی ہے اور اس کا منکر کافر ہے ، دوسرا قول رازی اور آمدی کا ہے کہ اجماع دلیل ظنی ہے اور تیسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ جن صورتوں میں اجماع ہونے پر اہل علم کا اتفاق ہے وہ قطعی ہے اور جس کے اجماع ہونے میں اختلاف ہے وہ دلیل ظنی ہے ۔ امام غزالی نے لکھا ہے کہ اگر کوئی اجماع کسی دلیل قطعی جیسے قرآن یا خبر متواتر پر مبنی ہے تو اس کے منکر کو کافر کہاجاسکتاہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر اجماعی مسئلہ کے منکر کو کافر نہیں کہا جاسکتاہے۔ (ماخوز قاموس الفقہ 1/530)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 3058/46-4893
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔آپ کا اپنی جائداد کووقف علی الاولاد کرنا شرعا معتبر ہے ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے ،اس طرح وقف کرنا جائز ہے ،اور اِس سلسلے میں کوئی تحدید نہیں ہے کہ ایک شخص کتنی جائداد وقف کر سکتا ہے ۔ اور اس سلسلہ میں آپ کا اپنی اولاد کو اپنے اعتماد میں لینا اور ان کا اس وقف پر راضی ہوجانا بھی شرعا پسندیدہ عمل ہے۔
متی وقف علی اولادہ حال صحتہ وقال علی الفریضۃ الشرعیۃ قسم علی ذکورھم واناثھم بالسویۃ وفی صحیح مسلم من حدیث النعمان بن بشیر : اتقو اللہ واعدلوا فی اولادکم ۔۔۔۔۔لانھم فسروا العدل فی الاولاد بالتسویۃ فی العطایا حال الحیاۃ ( ج: ۴، ص: ۴۴۴)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Marriage (Nikah)
Ref. No. 3059/46-4894
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پسندیدہ نکاح یہی ہے کہ والدین کی رضامندی سے کیاجائے تاہم اگر بالغ لڑکا و لڑکی دوگواہوں کی موجودگی میں نکاح کرلیں تو نکاح فقہ حنفی کے اعتبار سے درست ہوجاتاہے، نکاح کے بعد میاں بیوی کا اپنے گھروالوں کو نکاح کے بارے میں بتانا شرعا لازم نہیں ہے۔ البتہ اگر نکاح میں ایک متعینہ مدت کی شرط لگائی گئی تو اس کا اعتبار نہیں ہوگا اور یہ نکاح دائمی ہی ہوگا۔ جب نکاح ہوگیا تو میاں بیوی کا آپس میں ملنا، بوس و کنار ہونا سب کچھ جائز ہوگیا اب شرعا کوئی ممانعت نہیں رہی۔تاہم سب کے سامنے بوس و کنار ہونا بے حیائی ہے اورناجائز ہے۔ اپنی بیوی سے بھی تنہائی میں ہی ملنے کی اجازت ہوتی ہے۔ شادی کے بعد اگر میاں بیوی تنہائی میں نہیں ہوتے ہیں تو عورت پر عدت واجب نہیں ہوگی۔ لہذااگر میاں بیوی کے درمیان تھوڑی دیر کے لیے بھی خلوت (تنہائی) ہوگئی اور پھر طلاق ہوئی تو بیوی پر عدت واجب ہے اور اگر خلوت بالکل نہیں ہوئی تو عدت واجب نہ ہوگی۔ خفیہ نکاح کرنے کے بعد جب والدین راضی ہوجائیں تو سب کے سامنے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور اس کو پہلا نکاح لکھوانے میں کوئی حرج نہیں ، نکاح پر نکاح کرنا پہلے نکاح کو ختم نہیں کرتاہے۔
قال في الدر وسبب وجوبہا عقد النکاح التأکد بالتسلیم وما جری مجراہ من موت أو خلوة أي صحیحة قال الشامي إن المذہب وجوب العدة للخلوة صحیحة أو فاسدةً (الدر مع الرد: ۲م۶۵۱)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبندطلاق و تفریق
Ref. No. 3051/46-4879
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اسلام میں نکاح ایک پاکیزہ رشتے کا نام ہے،اسلام نے اس کی پائداری پر زور دیا ہے، اور اس کے لیے باہمی الفت ومحبت اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی ہونے لگے تو پہلے دونوں خاندان کے بزرگ کو صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوںکہ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ فعل ہے اور بلا ضرورت اسکا استعمال درست نہیں ہے۔ پھر بھی اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو ایک طلاق صریح دے کر دونوں کو الگ ہو جانے کا حکم ہے۔ ایک طلاق کے بعد اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو عدت میں رجوع کے ذریعہ اور عدت کے بعد نکاح کے ذریعہ دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔ ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعاً گناہ ہے اور ملکی قانون کے مطابق قابل مواخذہ جرم ہے۔
بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں شخص مذکور کی بیوی پر شرط کے پائے جانے کی وجہ سے طلاق واقع ہوگئی۔ طلاق مغلظہ کے واقع ہونے کے بعد عورت عدت گزار کر کسی دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔
"وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق."
(الھندیۃ، كتاب الطلاق، الباب الرابع في الطلاق بالشرط، الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة إن وإذا وغيرهما، ١ / ٤٢٠)
"والأصل في جنس هذه المسائل أنه إذا عقد اليمين على عين موصوفة بصفة فإن كانت الصفة داعية إلى اليمين تقيد اليمين ببقائها وإلا فلا كذا في شرح الجامع الصغير لقاضي خان." (الھندیۃ، كتاب الأيمان، الباب الخامس في اليمين على الأكل والشرب وغيرهما، ٢ / ٨٢)
"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة." (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ، كتاب الطلاق، فصل في حكم الطلاق البائن، ٣ / ١٨٧، ، ط: دار الكتب العلمية بيروت)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Prayer / Friday & Eidain prayers
Ref. No. 3054/46-4882
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر مسجد کا نظام عمومی چندہ سے چلتاہے تو متولی کی ذمہ داری ہے کہ اہل محلہ کو حساب وکتاب سے مطلع کرے، تاکہ مسجد کا نظام صاف و شفاف طریقہ پر جاری رہ سکے، تاہم اگر اتفاق سے امام نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے نماز پڑھادی تو نماز ہوجائے گی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 3055/46-4883
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔دارالعلوم اور دارالعلوم وقف دونوں کے فتاوی میں کوئی تعارض نہیں ہے، دارالعلوم کے جس فتوی کا آپ نے حوالہ دیا ہے اس میں حکم قضاء مذکورہے، جبکہ دارالعلوم وقف دیوبند کے فتوی میں جو حکم بیان کیاگیا ہے وہ دیانتا ہے، چنانچہ مذکورہ فتوی میں بھی یہ عبارت مذکور ہے، اما بینہ وبین اللہ تعالی ان کان کاذبا فیما امر لم تثبت الحرمۃ (ردالمحتار) دارالافتاء سے عموما دیانت پر ہی فتوی دیاجاتاہے، اگرچہ بعض حضرات طلاق جیسے مسائل میں قضاء پر بھی فتوی دیتے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Masajid & Madaris
Ref. No. 3056/46-4877
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سرکاری زمین کو سرکار کی اجازت کے بغیر غصب کرکے اورناجائز قبضہ کرکے اس کو بیچنا جائز نہیں، اس کو جس نے خریدا وہ بھی مالک نہیں ہوا، پھر اس پر پر مکتب یا مدرسہ بنانا بھی جائز نہیں ہے۔ جب تک سرکار اجازت نہ دے اس کی زمین پر کسی کی ملکیت قائم نہیں ہوسکتی اور اس کو بیچا نہیں جاسکتاہے۔ جن لوگوں نے سرکاری زمین کو بیچا ان پر لازم ہے کہ خریدار کو پیسے واپس کریں، اور مدرسہ بنانے والوں کے لئے اس کو آگے بیچنا جائز نہیں ہے۔
"عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين". (مشکاۃ المصابیح، باب الغصب والعارية، ج:1، ص:254، ط:قديمي)
"وذکر فی الواقعات: رجل بنی مسجدًا علی سور المدینة لا ینبغي أن یصلي فیه لأنه حق العامة فلم یخلص للہ تعالی کالمبني في أرض مغصوبة ولو فعله بإذن الإمام ینبغي أن یجوز فیما لا ضرر فیه یعني: في مسجد السور لأنه نائبهم." (غنیۃ المستملی، کتاب الوقف ،ص:615،ط: مکتبه اشرفیه)
"جعل شيء أي: جعل الباني شیئًا من الطریق مسجدًا لضیقه ولم یضر بالمارین جاز لأنهما للمسلمین۔۔ قولہ: ”لضیقہ ولم یضر بالمارین“ أفاد أن الجواز مقید بهذین الشرطین." (فتاوی شامی، كتاب الوقف،مطلب في الوقف إذا خرب ولم يمكن عمارته،ج:4،ص:377 ،ط:سعيد)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند