قرآن کریم اور تفسیر
Ref. No. 2873/45-4559 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ختم قرآن کے موقع پر صحیح سند سے کوئی مخصوص دعا حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول ہونا نظر سے نہیں گزری ، اس لئے اپنے طور پر کوئی بھی دعا عربی میں یا اپنی مادری زبان میں کی جاسکتی ہے۔ کسی مخصوص دعا کو ضروری یا مسنون سمجھنا درست نہیں ہے۔ اس لئے ختم قرآن والی دعا پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، تاہم لازم نہ سمجھاجائے۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

قرآن کریم اور تفسیر
Ref. No. 2910/45-4552 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید ترتیل سے یعنی آہستہ اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے تھے تاکہ امت کے لئے سمجھنے میں آسانی ہو: جیسا کہ قرآن میں اللہ تعالی نے حکم فرمایا: “وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا” (سورہ مزمل)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت واضح ہوتی تھی، آپ تلاوت فرماتے تو ہر حرف کوجدا جدا ادا فرماتے تھے ، پڑھنے میں عجلت نہیں فرماتےتھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر آیت پر وقف فرماتے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آواز کو کھینچ کر تلاوت فرماتے تھے: حضرت قتادہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت انس سے پوچھا : “نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کس طریقے سے تلاوت قرآن فرمایا کرتے تھے؟ تو انھوں نے جواب میں فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم آواز کو کھینچ کر تلاوت فرمایا کرتے تھے۔” ( رواہ النسائی (1014) آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوبصورت آواز میں تلاوت فرماتےتھےاور اسی کا لوگوں کو حکم فرمایاکرتے تھے۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عشاء (کی نماز) میں سورۃ التین ) وَالتِّيْنِ وَالزَّيْتُونِ ( پڑھتے ہوئے سنا، اور میں نے کسی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اچھی آواز اور قرات والا نہیں سنا۔ (رواہ الدارمی(3501)، واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق
Ref. No. 2909/45-4551 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اسلام میں نکاح ایک پاکیزہ رشتے کا نام ہے،اسلام نے اس کی پائداری پر زور دیا ہے، اور اس کے لیے باہمی الفت ومحبت اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی ہونے لگے تو پہلے دونوں خاندان کے بزرگ کو صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوںکہ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ فعل ہے اور بلا ضرورت اسکا استعمال درست نہیں ہے۔ پھر بھی اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو ایک طلاق صریح دے کر دونوں کو الگ ہو جانے کا حکم ہے۔ ایک طلاق کے بعد اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو عدت میں رجوع کے ذریعہ اور عدت کے بعد نکاح کے ذریعہ دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔ ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعاً گناہ ہے اور ملکی قانون کے مطابق قابل مواخذہ جرم ہے۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں۔ اب رجعت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ تین طلاق کے بعد بیوی شوہر پر حرام ہوجاتی ہے اور بیوی پر پردہ لازم ہوجاتاہے۔ یہ عورت عدت گزارنے کے بعد کسی دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔ ﴿ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ﴾ [البقرة: 229]﴿ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾ [البقرة: 230] '' أن رجلاً طلق امرأته ثلاثاً، فتزوجت فطلق، فسئل النبي ﷺ: أتحل للأول؟ قال: «لا، حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول»'' (بخاری، 2/791) (قَالَ الشَّافِعِيُّ) : وَالْقُرْآنُ يَدُلُّ وَاَللَّهُ أَعْلَمُ عَلَى أَنَّ مَنْ طَلَّقَ زَوْجَةً لَهُ دَخَلَ بِهَا أَوْ لَمْ يَدْخُلْ بِهَا ثَلَاثًا لَمْ تَحِلَّ لَهُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِامْرَأَتِهِ الَّتِي لَمْ يَدْخُلْ بِهَا أَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثًا فَقَدْ حُرِّمَتْ عَلَيْهِ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا. (الأم للشافعي (5 / 196، دار المعرفة – بيروت) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق
Ref. No. 2908/45-4550 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔اگر دیوار پر طلاق کے الفاظ شوہر نے نہیں لکھے تو محض اس طرح تصویر پر لفظ طلاق تحریر ونے سے بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ طلاق کے واقع ہونے کے لئے شوہر کا اپنی بیوی کی طرف نسبت کرکے طلاق دینا ضروری ہے، جبکہ صورت مسئولہ میں شوہرنے طلاق نہیں دی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات
Ref. No. 2907/45-4549 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تراویح کی نماز میں آخری دس سورتیں ہی پڑھنا لازم نہیں ، قرآن کریم میں سے کہیں سے بھی تین چھوٹی آیات یا کوئی ایک بڑی آیت یا کوئی سورت پڑھی جاسکتی ہے۔ عام نمازوں کی جو شرطیں ہیں وہی شرطیں نماز تراویح کے لئے بھی ہیں۔ لہذا قرآن کریم میں سے قرات کرنا واجب ہے چاہے کہیں سے بھی قرات کرے۔ "(وضم) أقصر (سورة) كالكوثر أو ما قام مقامها، هو ثلاث آيات قصار، نحو {ثم نظر} [المدثر: 21] {ثم عبس وبسر} [المدثر: 22] {ثم أدبر واستكبر} [المدثر: 23] وكذا لو كانت الآية أو الآيتان تعدل ثلاثاً قصاراً، ذكره الحلبي (في الأوليين من الفرض) وهل يكره في الأخريين؟ المختار لا (و) في (جميع) ركعات (النفل) لأن كل شفع منه صلاة (و) كل (الوتر) احتياطاً. (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 458) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

روزہ و رمضان
Ref. No. 2906/45-4548 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سحری اور افطار کے وقت روزہ دار جہاں موجود ہوگا وہیں کے منتہائے وقت کا اعتبار ہوگا، اس لئے سعودی میں سحری کرنے والا اگر افطار کے وقت انڈیا میں ہے تو انڈیا کے وقت کے مطابق افطار کرے گا۔ اسی طرح انڈیا میں سحری کے بعد سعودی جانے والا افطار سعودی وقت کے مطابق کرے گا۔ "حدثنا ‌الحميدي : حدثنا ‌سفيان : حدثنا ‌هشام بن عروة قال: سمعت ‌أبي يقول: سمعت ‌عاصم بن عمر بن الخطاب ، عن ‌أبيه رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا أقبل الليل من هاهنا، وأدبر النهار من هاهنا، وغربت الشمس، فقد أفطر الصائم". (صحیح البخاری ، كتاب الصوم، باب: متى يحل فطر الصائم، 3/ 36 ط: المطبعة الكبرى الأميرية) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق
Ref. No. 2905/45-4547 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں شوہر کے 'میں تمہیں طلاق احسن دے رہاہوں' کہنے سے بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی۔ شوہر اپنی بیوی سے عدت کے اندر اندر رجعت کرسکتاہے۔ اور عدت گزرنے کے بعد دونوں کی رضامندی سے جدید مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا جائز ہے۔ البتہ شوہر آئندہ صرف دو طلاقوں کا مالک ہوگا۔ اس لئے سخت مجبوری میں ہی طلاق کا استعمال کرنا چاہئے۔ "(هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) ... (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة (بكل ما يوجب حرمة المصاهرة) كمس. (قوله: بنحو راجعتك) الأولى أن يقول بالقول نحو راجعتك ليعطف عليه قوله الآتي وبالفعل ط، وهذا بيان لركنها وهو قول، أو فعل... (قوله: مع الكراهة) الظاهر أنها تنزيه كما يشير إليه كلام البحر في شرح قوله والطلاق الرجعي لا يحرم الوطء رملي، ويؤيده قوله في الفتح - عند الكلام على قول الشافعي بحرمة الوطء -: إنه عندنا يحل لقيام ملك النكاح من كل وجه، وإنما يزول عند انقضاء العدة فيكون الحل قائماً قبل انقضائها. اهـ. ... (قوله: كمس) أي بشهوة، كما في المنح". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 397) "(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع) ومنع غيره فيها لاشتباه النسب".( الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 409) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2904/45-4546 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں مرحوم کی کل جائداد کو اس کی ایک بیوی اور چار بہنوں میں تقسیم کیاجائے گا۔ جو بہنیں مرحوم کی زندگی میں وفات پاگئیں ان کی اولاد کا اس وراثت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ وراثت کی تقسیم اس طرح ہوگی کہ کل جائداد کو 16 حصوں میں تقسیم کرکے چار حصے بیوی کو اور تین تین حصے ہر ایک بہن کو ملیں گے۔ تخریج حسب ذیل ہے: مرحوم ---12----تصحیح بعد الرد 16 --------------------------------------- بیوی1 اخت اخت اخت اخت 3 2 2 2 2 4 3 3 3 3 واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس
Ref. No. 2914/45-4531 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد اللہ کا گھر ہے، جس نے مسجد بنائی اس نے وہ زمین اور مکان اللہ کو دے دیا، اس میں مالک زمین کا کوئی حق اب باقی نہیں رہا، اس لئے اس شخص کا یہ کہنا کہ یہ میری مسجد ہے اور پھر مسجد سے لوگوں کو روکنا حرام ہے، قرآن میں واضح طور پر اس کو بیان کیاگیا ہے۔ اہل محلہ کو چاہئے کہ اس مسجد کی باقاعدہ طور پر رجسٹری کرائیں اور اسی میں نماز ادا کریں۔ بانی شخص کا اس مسجد کے اندر اب کوئی دخل نہیں ہے، اس لئے اس کا روکنا بھی معتبر نہیں ہے۔ اہل محلہ مسجد میں ہی نماز ادا کریں گے اور بانی کے روکنے سے اہل محلہ کا رک جانا جائز نہیں ہے۔ وَمَن أَظلَمُ مِمَّن مَنَعَ مَسَاجِدَ اللَّہِ أَن یُذکَرَ فِیہَا اسمُہُ۔۔۔۔الخ القرآن الکریم: (البقرۃ، الآیۃ: 114) عام لکل من خرّب مسجداً أو سعی فی تعطیل مکان مرشح للصلاۃ۔ (تفسیر البیضاوی: (البقرۃ، الآیۃ: 104) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی
Ref. No. 2913/45-4531 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب عورت نے اس نکاح کو قبول کرلیا تھا تو نکاح مذکورصحیح ہوگیا تھا، دباؤ میں ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اس لئے عورت کا اس طرح اپنے میکہ میں جاکر بیٹھ جانا انتہائی بے حیائی کی بات ہے، یہ عورت کی نافرمانی شمار ہوگی جس پر اللہ کی لعنت آئی ہے۔ اور عورت کی اس طرح کی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا، نکاح اب بھی باقی ہے۔ اس کے گھروالوں کو چاہئے کہ لڑکی کو سمجھاکر اس کے شوہرکے پاس بھیج دیں، تاکہ یہ ازدواجی زندگی عام معمول کے مطابق آگے بڑھ سکے۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند