Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: قیدیوں پر جمعہ وعیدین واجب نہیں ہیں؛ لیکن اگر وہ جیل شہر یا فناء شہر میں واقع ہے اور اس جیل میں موجود تمام مسلمانوں کو خواہ قیدی ہوں تو قیدیوں کے لیے جیل میں جمعہ وعیدین کی نماز باجماعت پڑھنا جائز ہوگا انتظامی مصلحت کی وجہ سے باہر کے لوگوں کا داخلہ ممنوع ہونا مانع نہ ہوگا۔’’وشرط لافتراضہا إقامۃ بمصر … وصحۃ … وحریۃ … وذکرۃ … وعدم حبس‘‘(۱)’’وقال أیضاً قدر تہ علی المشي وعدم حبس وعدم خوف‘‘(۲)(۱) الحصکفی، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۲۶ تا ۲۹۔(۲) اأیضاً: ج ۳، ص: ۲۹۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 225
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر واقعی طور پر وہاں نمازعید ادا کرنے کی جگہ ہے، تو وہاں پر نماز عید ادا کرنا درست ہے، بشرطیکہ وہاں پر گاؤں میں نماز جمعہ اور عیدین کی شرطیں پائی جاتی ہوں یعنی وہ گاؤں شرعاً بڑا گاؤں شمار ہوتا ہو۔(۱)(۱) (ویشترط لصحتہا) سبعۃ أشیاء: الأول: (المصر وہو ما لا یسع أکبر مساجدہ أہلہ المکلفین بہا) وعلیہ فتویٰ أکثر الفقہاء مجتبی لظہور التواني في الأحکام، وظاہر المذہب أنہ کل موضع لہ أمیر وقاض یقدر علی إقامۃ الحدود کما حررناہ فیما علقناہ علی الملتقی۔ وفي القہستاني: إذن الحاکم ببناء الجامع في الرستاق إذن بالجمعۃ اتفاقاً علی ماقالہ السرخسي وإذا اتصل بہ الحکم۔ صار مجمعا علیہ فلیحفظ۔قولہ: (ویشترط الخ)، قال في النہر: ولہا شرائط وجوبا وأداء منہا: ما ہو في المصلیٰ۔ ومنہا ماہو في غیرہ والفرق أن الأداء، لا یصح بانتفاء شروطہ، ویصح بانتفاء شروط الوجوب ونظمہا بعضہم فقال: وحر صحیح بالبلوغ مذکر … مقیم وذو عقل لشرط وجوبہا، ومصر وسلطان ووقت وخطبۃ … وإذن کذا جمع لشرط أدائہا۔ (الحصکفی، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۵ تا ۷)شرط أدائہا المصر وہو کل موضع لہ أمیر وقاض ینفذ الأحکام ویقیم الحدود أو … مصلاہ، قولہ: (أو مصلاہ) أي مصلي المصر؛ لأنہ من توابعہ، فکان في حکمہ، والحکم غیر مقصور علی المصلي بل یجوز في جمیع أفنیۃ المصر؛ لأنہا بمنزلۃ المصر في حوائج أہلہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۵ تا ۲۴۹)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 224
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: عیدین میں امت مسلمہ کے تہوار اور دینی جشن ہونے کا تقاضا اور اس کی شان یہ ہی ہے کہ نماز کا اجتماع کسی کھلے میدان میں ہو اس لیے عام معمول آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ہی تھا کہ نمازِ عید عیدگاہ میں ہی ہوتی تھی؛ تاہم اگر بارش وغیرہ کوئی عذر ہو، تو مسجد میں ادا کرنا جائز اور درست ہوگا، جیسے حالات ہوں اور ضرورت ہو اس کے مطابق گنجائش اور درست ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش کی وجہ سے مسجد میں عید کی نماز پڑھائی ہے۔(۱)
(۱) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أنہ أصابہ مطر في یوم عید فصلی بہم النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم صلاۃ العید في المسجد۔ (أخرجہ أبو داؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب یصلي بالناس في المسجد إذا کان یوم مطر‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۴، رقم: ۱۱۶۰)عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: أصاب الناس مطر في یوم عید علی عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فصلی بہم في المسجد۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما جاء في صلاۃ العید في المسجد إذا کان مطر‘‘: ج ۱، ص: ۹۳، رقم: ۱۳۱۳)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 223
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: عذر اور مجبوری کی وجہ سے ایسا کرنا جائز ہے۔(۱)(۱) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أنہ أصابہم مطر في یوم عید فصلی بہم النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم صلاۃ العید في المسجد۔ (أخرجہ أبوداؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب یصلي بالناس في المسجد إذا کان یوم مطر‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۴، رقم: ۱۱۶۰)عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: أصاب الناس مطر في یوم عید علی عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فصلی بہم في المسجد۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما جاء في صلاۃ العید في المسجد إذا کان مطر‘‘، دار الاشاعت، دیوبند: ج ۱، ص: ۹۳، رقم: ۱۳۱۳)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 223
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 3320/46-9134
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس کو اپنے بالغ ہونے کی عمر یاد نہ ہو اس کو 15 سال کی عمر سے بالغ سمجھاجائے گا۔ اس لئے اسلامی کیلنڈر کے حساب سے 15 سال کی عمر سے جو نمازیں چھوٹ گئی ہیں ان کی قضا لازم ہے۔ اگر نمازیں کبھی پڑھ لیتا ہو اور کبھی چھوڑ دیتاہو تو اس کی ادائیگی کا طریقہ یہ ہے کہ ان نمازوں کی قضا کرتارہے تاآنکہ یقین ہوجائے کہ فوت شدہ تمام نمازیں ادا ہوگئی ہیں۔ اور تاریخ بتاریخ تمام نمازوں کی قضا کرلے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ گزشتہ ایام کی قضا نمازیں محض توبہ کرنے یا نماز کا پابندہونے سے ذمہ سے ساقط نہیں ہوں گی، ان کو ادا کرنا لازم ہے۔ اور جو اب تک کوتاہی ہوئی اس پر توبہ واستغفار کرنا بھی لازم ہے۔ اور نماز وں کا حساب کرنے میں اسلامی کیلنڈر کو معیار بنایاجائے ۔
"كثرت الفوائت نوى أول ظهر عليه أو آخره.۔ ۔ ۔ (قوله: كثرت الفوائت إلخ) مثاله: لو فاته صلاة الخميس والجمعة والسبت فإذا قضاها لا بد من التعيين؛ لأن فجر الخميس مثلاً غير فجر الجمعة، فإن أراد تسهيل الأمر، يقول: أول فجر مثلاً، فإنه إذا صلاه يصير ما يليه أولاً، أو يقول: آخر فجر، فإن ما قبله يصير آخراً، ولايضره عكس الترتيب؛ لسقوطه بكثرة الفوائت". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 76)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 3328/46-9138
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر بلوغت کی علامت ظاہر نہ ہو تو قمری اعتبار سے پندرہ سال کی عمر مکمل ہونے کے بعد بالغ شمار ہوتاہے، اگر آپ بارہ سال کی عمر میں بالغ ہوئے تو آپ مذکورہ طریقہ پر روزوں کی قضا کرسکتے ہیں۔لیکن جب حساب کے اعتبار سے قضا کے روزے مکمل ہوجائیں تو قضا کی نیت سے روزے نہ رکھیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: کسی عذر کی بناء پر اگر ایسا ہو جائے تو کوئی گناہ نہیں ہے البتہ استخفاف اور سستی کے طور پر اگر ترک کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے قلب پر مہر ثبت کر دیتے ہیں اور آدمی خیر کثیر سے محروم ہو جاتا ہے یہ بات حدیث میں ہے۔(۱)گناہ کبیرہ کے بارے میں ایک حدیث شریف میں موجود ہے کہ جب انسان ایک گناہ کرتا ہے، توایک سیاہ نقطہ اس کے دل پر لگ جاتا ہے، جب دوسرا کرتا ہے، تو دوسرا نقطہ لگ جاتا ہے حتی کی سیاہ نقطوں سے اس کا دل بھر جاتا ہے؛ تاہم جب گناہ سے توبہ کرلے تو ہر کبیرہ گناہ سچی اور پکی توبہ سے معاف ہو جاتا ہے۔’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ‘‘(۲)(۱) وروي عن ابن عمر عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ قال: من ترک ثلاث جمع تہاونا، طبع اللّٰہ علی قلبہ، ومثل ہذا الوعید لا یلحق إلا بترک الفرض، وعلیہ إجماع الأمۃ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب الصلاۃ: صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۶)(۲) المبسوط، السرخسي، ’’کتاب الصلاۃ: شروط الجمعۃ‘‘: دار الکتب العلمیہ، بیروت، ج ۲، ص: ۲۵۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 181
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: نماز جمعہ کے بعد دعائے ثانی کے لیے مصلیوں کو روکنا اور دعاء ثانی کرنا اور اس کے بعد سلام پڑھنا یہ عمل جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آپ کے صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین سے اور ائمہ محدثین و فقہاء سے ثابت نہیں ہے، جب کہ یہ حضرات سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور احکام خدا وندی پر عمل کرنے میں پوری امت میں پیش پیش رہے ہیں، یہ عمل خلاف سنت ہونے کے ساتھ بدعت اور گمراہی ہوگا جس سے مسلمان کو پرہیز کرنا ضروری ہے اور بدعت وگمراہی کا خاصہ ہے کہ اس سے ایمان والوں میں تفریق پیدا ہوتی ہے۔(۲)(۲) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد، متفق علیہ۔ (الملا علي القاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۰، رقم: ۱۴۰)ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي: ج ۱، ص: ۲۳۱)من تعبد اللّٰہ تعالیٰ بشيء من ہذہ العبادات الواقعۃ في غیر أزمانہا فقد تعبد ببدعۃ حقیقیۃ، لا إضافیہ فدجہۃ لہا إلی المشروع؛ بل غلبت علیہا جہۃ الإتبداع فلا ثواب فیہا۔ (أبو اسحاق الشاطبي، الاعتصام: ج ۲، ص: ۲۶)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 181
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: بلا ضرورت تعدد جمعہ کی اجازت نہیں؛ لیکن اگر دوکانداروں کو ان مساجد تک جانے میں جن میں جمعہ ہوتا ہے دشواری ہوتی ہو اور یہ فائدہ بھی پیش نظر ہو کہ دیہات سے خریداری کے لیے آنے والے لوگوں کو بھی جمعہ پڑھنے کی سہولت ہوجائے گی تو بازار کی مذکورہ مسجد میں جمعہ قائم کیا جاسکتا ہے۔’’(وتؤدی في مصر واحد بمواضع کثیرۃ) مطلقاً، قولہ: (مطلقاً) أي سواء کان المصر کبیراً أولا … و سواء کان التعدد في مسجدین أو أکثر‘‘(۱)(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 180
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: یہ اجتماع فناء شہر میں ہے، لہٰذا پنڈال میں نماز جمعہ صحیح ہے۔ صحت جمعہ کے لیے مسجد شرط نہیں ہے۔ شہر یا فناء شہر میں کہیں بھی جہاں پر نماز پڑھنے کی عام اجازت ہو نماز جمعہ ادا کی جاسکتی ہے مگر مسجد میں پڑھنے کا ثواب نہیں ملے گا۔’’(أو فناؤہ) … (وہو ما) حولہ (اتصل بہ) أو لا کما حررہ ابن الکمال وغیرہ (لأجل مصالحہ) کدفن الموتی، ورکض الخیل‘‘(۱)فنائے شہر یعنی شہر کے اردگرد کار آمد میدان، جو شہر کے مفاد اور مصالح کے لئے ہوتا ہے جیسے مردوں کی تدفین گھوڑ دوڑ اور فوجی اجتماع وغیرہ۔(۱) الحصکفی، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۷۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 179