Frequently Asked Questions
Divorce & Separation
Ref. No. 3190/46-7032
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ طلاق کے لئے کنائی الفاظ استعمال کرتے وقت متصلاً اگر طلاق کی نیت نہیں تھی تو طلاق واقع نہیں ہوئی، بعد میں نیت کا اعتبار نہیں ہوگا، پھر شوہر نے اپنی بیوی کو صریح دو طلاقیں دیں۔ اور پھر نکاح وغیرہ کر کے دونوں میاں بیوی کے طور پر رہنے لگے تو معاملہ بھی درست ہو گیا، اس لئے بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں زید کا نکاح درست ہو گیا اور بچے اسی کی جانب منسوب ہوں گے۔ اور دونوں کا نکاح اب بھی باقی ہے، دونوں کو چاہئے کہ میاں بیوی کے طور پر دونوں ایک ساتھ رہیں اور ذہن کو تمام شکوک وشبہات سے پاک رکھیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Usury / Insurance
Ref. No. 3189/46-7030
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
The proper method of halal investment is to invest money in a legitimate, halal trade / business and earn profits in a way where both profit and loss are shared. The profit should not be predetermined or fixed, and the risk of loss should be borne by both parties according to their share of the investment. If the profit is fixed in advance, or if the risk of loss is placed solely on the working party, or if the person receiving the money does not actually invest it in the business but simply provides the money in exchange for a return, all of these situations are impermissible.
This effectively resembles a loan with interest, and as is well-established, charging or earning interest (riba) is strictly forbidden in Islam. Engaging in riba—whether by lending, borrowing, or facilitating it—is unlawful and considered a major sin according to Quran and hadith. Therefore, the transaction your cousin is involved in is a violation of Islamic principles and is haram. It is not permissible to invest in or profit from such a transaction.
"عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه» ، وقال: «هم سواء»". (الصحیح لمسلم، 3/1219، باب لعن آكل الربا ومؤكله، ط:، دار احیاء التراث ، بیروت)(مشکاۃ المصابیح، باب الربوا، ص: 243)
"كل قرض جر منفعةً فهو رباً". (الجامع الصغیر للسیوطی، ص:395، برقم :9728، ط: دارالکتب العلمیہ، بیروت)
"(ومنها) : أن يكون الربح جزءًا شائعًا في الجملة، لا معينًا، فإن عينا عشرةً، أو مائةً، أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدةً؛ لأن العقد يقتضي تحقق الشركة في الربح والتعيين يقطع الشركة لجواز أن لايحصل من الربح إلا القدر المعين لأحدهما، فلايتحقق الشركة في الربح". (بدائع الصنائع، 6/ 59، کتاب الشرکة، فصل في بيان شرائط جواز أنواع الشركة، ط: سعید)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
Fiqh
Ref. No. 3187/46-7020
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کرنسی کے بدلے سونے کی خرید و فروخت "بیعِ صرف" کہلاتی ہ۔ اگر آپ نے بینک کو پیسے دئے اور اس نے اس رقم کے بدلے سونے کی مقدار متعین کرکے آپ کے اکاونٹ میں سونا لکھ دیا اور آپ کو اس کااختیار دیا کہ جب چاہیں آپ اس سونے کو بھی سکتے ہیں اور بیچ کر اس کی مقدار کو بھی لے سکتے ہیں تو یہ صورت جائز ہے۔ کیونکہ آپ نے بینک سے سونا خریدا اور اس کو بینک کے پاس ہی رکھ دیا اورسونا بینک میں موجود ہے کہ جب آپ چاہیں اس کو لے سکتے ہیں، تو یہ آپ کا قبضہ شمار ہوگا جو بیع صر ف میں ضروری ہے۔
شیئرمارکیٹ میں جو سونے کی خریدوفروخت ہے اس میں سونا حقیقتا موجود نہیں ہوتاہے بلکہ صرف ڈیجیٹل طور پر نظر آتاہے، اور اگر آپ اس سونے کو لینا چاہیں تو وہ آپ کو سونا فراہم نہیں کریں گے، بلکہ آپ کو ہر حال میں اس کو بیچنا ہی ہوگا تاکہ ڈیجیٹل طریقہ پر اس کا نفع یا نقصان آپ کو بتایاجاسکے۔ اس لئے جب اس میں سونے پر قبضہ نہیں ہے کیونکہ آپ کو سونا نہیں مل سکتاہے تو یہ بیع قبل القبض والی شکل ہوگئی جو ناجائز ہے۔ اس لئے آن لائن سونے کا کاروبار درست نہیں ہے۔
هو بيع بعض الأثمان ببعض) كالذهب والفضة إذا بيع أحدهما بالآخر أي بيع ما من جنس الأثمان بعضها ببعض وإنما فسرناه به ولم نبقه على ظاهره ليدخل فيه بيع المصوغ بالمصوغ أو بالنقد فإن المصوغ بسبب ما اتصل به من الصنعة لم يبق ثمنا صريحا ولهذا يتعين في العقد ومع ذلك بيعه صرف ...شرائطه فأربعة، الأول قبض البدلين قبل الافتراق بالأبدان.
قوله: فلو تجانسا شرط التماثل والتقابض) أي النقدان بأن بيع أحدهما بجنس الآخر فلا بد لصحته من التساوي وزنا ومن قبض البدلين قبل الافتراق." (البحر الرائق، باب الصرف، ج:6، ص:209، ط:دارالكتب الاسلامى)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 3185/46-7028
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر بیوی کا مقصد داڑھی کی سنت کا مذاق اڑانا نہیں تھا بلکہ داڑھی اچھی نہ لگنےپر اپنے غصہ کا اظہار تھا تو سخت گنہگار ہوئی مگر ایمان باقی ہے۔ اور اگر داڑھی کا مذاق اڑانا ہی مقصود تھا توپھر تجدید ایمان وتجدید نکاح لازم ہوگا۔ إن کان تہاوٴنا بالسنة یکفر (الھندیۃ 2/265)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 3186/46-7027
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دو طلاق رجعی دینےکے بعد جب شوہر نے رجعت کرلی تو عدت ختم ہو گئی اور عورت اس کی پورے طور پر بیوی بن گئی۔ اب وہ عدت دوبارہ شروع نہیں ہو سکتی، اب تیسری طلاق کے ذریعہ ہی دونوں الگ ہو سکتے ہیں، لیکن شوہر کو چاہئے کہ تیسری طلاق نہ دے اور نباہ کرنے کی کوشش کرے اور اگر کوئی صورت نہ ہو تو تیسری طلاق دیدے تاکہ عورت، بعد عدت دوسری جگہ نکاح کرسکے، ارشاد ربانی ہے: الطلاق مرتان فامساك بمعروف او تسريح باحسان۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 3184/46-7022
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ والد صاحب کے اکاؤنٹ کی اسٹیٹمنٹ بینک سے نکلوا لیں اس میں اکاؤنٹ بننے سے لے کر اب تک جتنی رقم انٹرسٹ کی ہو اس کو صدقہ کردیں، سودی بینک میں اپنی جمع شدہ رقم اپنے استعمال میں لاءیں اور سود کی رقم نکال کر فقراء پر بلا نیت ثواب صدقہ کردیں۔
قال شيخنا: ويستفاد من كتب فقهائنا " كالهداية" وغيرها أن : من ملك بملك خبيث ولم يمكنه الرد إلى المالك فسبيله التصدق على الفقراء." )معارف السنن، أبواب الطهارۃ، ج:1، ص:95، ط:مجلس الدعوۃ والتحقیق الإ سلامي(
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Marriage (Nikah)
Ref. No. 3183/46-7021
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ والد صاحب نے اپنے بالغ بیٹوں کے مہر کی ذمہ داری تبرعا لی تھی، مہر اصلا تو بیٹوں پر ہی لازم ہے۔ لہذا اگر والد نے اپنی زندگی میں ادائیگی نہیں کی تو اب ان کے ترکہ سے اس کو منہا نہیں کیاجائے گا۔ بلکہ کل ترکہ تمام ورثہ میں تقسیم ہوگا، اور بیٹے اپنا حصہ لینے کے بعد اپنی بیویوں کا مہر خود اپنے پیسوں سے ادا کریں گے۔
ولو کان الابن کبیرا فھو متبرع لانہ لایملک الاداء بلاامرہ (رالمحتار 4/289 زکریادیوبند)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 3182/46-7019
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اللہ تعالیٰ کی ذات، اسماء و صفات قدیم ہیں اور مخلوق کی ذات و صفات حادث ہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ کا کوئی مشابہ نہ موجود ہے اور نہ ہی کوئی ہوسکتاہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ "لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ." یعنی اس کی طرح کا کوئی بھی نہیں ہے۔ اللہ تعالی کے لئے قرآن و حدیث میں جن اعضاء کا ثبوت ملتاہے ان سے مراد اللہ تعالی کی ذاتی صفات ہیں جن کے لئے نہ کسی عضو کی ضرورت ہے اور نہ کسی جسم کی۔ اللہ تعالی کا دیکھنا یا سننا وغیرہ امور ہماری طرح عضو ِکان اور عضوِ ناک وغیرہ کے محتاج نہیں ہیں۔ اس لئے ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کے لئے دونوں ہاتھوں سے پکڑنا یا دونوں آنکھوں سے دیکھنا یا دونوں کانوں سے سننا وغیرہ صفات سے وہ متصف ہے مگر اس کی حقیقت کا علم نہیں کہ وہ کس طرح دیکھتا، سنتا اور پکڑتاہے۔ اس لئے یہ کہنا کہ اللہ تعالی اپنی دونوں آنکھوں سے دیکھ رہاہے جیسا کہ اس کی شان ہے کوئی گناہ یا گمراہی کی بات نہیں ہوگی ۔ جمہور اہل سنت والجماعت کا یہی مذہب ہے کہ نصوص میں وارد صفات اللہ تعالی کے لیے بلاکیف ثابت ہیں، اور متشابہات کے باب میں بہت زیادہ غور خوض کرنے سے منع کیاگیاہے۔
قولہ تعالی: ید اللہ فوقَ أیدِیہم، قولہ تعالی: ما منعک أن تسجد لما خلقتُ بیديَّ اور مثلاً نفس کما فی قولہ تعالی حکایة عن عیسی -علیہ السلام- تعلم ما في نفسي ولا أعلم ما في نفسک․ وفي الحدیث، وفي الحدیث الشریف: أنت کما أثنیتَ علی نفسک․ اور مثلاً لفظ عین (آنکھ) کما في قولہ تعالی: ولتصنع علی عیني وغیرہ۔ (القرآن)
والواجب أن ینظر في ہذا الباب أعني في باب الصفات فما أثبتہ اللہ ورسولہ أثبتناہ وما نفاہ اللہ ورسولہ نفیناہ (شرح الطحاویة: ۱۶۸، ط: سعودی) والمشہور عند الجمہور من أہل السنة وا لجماعة أنہم لا یریدون بنفي التشبیہ نفي الصفات بل یریدون أنہ سبحانہ لا یشبہ المخلوق في أسمائہ وصفاتہ وأفعالہ (شرح الفقہ الاکبر ص:۱۷ ط: اشرفی)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Fiqh
Ref. No. 3176/46-8029
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر چار رکعت والی نماز میں غلطی سے دو رکعت پر سلام پھیر دے تو اس کے لئے حکم یہ ہے کہ جب تک کوئی منافی نماز عمل نہ کیا ہو اور اس کا رخ قبلہ سے نہ ہٹاہو تو وہ کھڑے ہوکر اسی حالت میں باقی رکعت نماز پڑھ لے، اور سجدہ سہو کرلے، اس کی نماز ہوجائے گی۔ جہاں تک مولانا رفعت صاحب کی کتاب کا مسئلہ ہے مجھے مذکورہ مسئلہ نہیں ملا۔
مصل رباعیۃ فریضۃ او ثلاثیۃ و لو وترا انہ اتمھا ثم علم قبل اتیانہ بمناف انہ صلی رکعتین او علم انہ ترک سجدۃ صلبیۃ او تلاویۃ اتمھا بفعل ما ترکہ وسجد للسھو لبقاء حرمۃ الصلوۃ ۔ حاصل المسئلۃ انہ سلم ساھیا علی الرکعتین مثلا وھو فی مکانہ ولم یصرف وجھہ عن القبلۃ ولم یات بمناف عاد الی الصلوۃ من غیر تحریمۃ وبنی علی ما مضی واتم ما علیہ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Fiqh
Ref. No. 3176/46-8029
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر چار رکعت والی نماز میں غلطی سے دو رکعت پر سلام پھیر دے تو اس کے لئے حکم یہ ہے کہ جب تک کوئی منافی نماز عمل نہ کیا ہو اور اس کا رخ قبلہ سے نہ ہٹاہو تو وہ کھڑے ہوکر اسی حالت میں باقی رکعت نماز پڑھ لے، اور سجدہ سہو کرلے، اس کی نماز ہوجائے گی۔ جہاں تک مولانا رفعت صاحب کی کتاب کا مسئلہ ہے مجھے مذکورہ مسئلہ نہیں ملا۔
مصل رباعیۃ فریضۃ او ثلاثیۃ و لو وترا انہ اتمھا ثم علم قبل اتیانہ بمناف انہ صلی رکعتین او علم انہ ترک سجدۃ صلبیۃ او تلاویۃ اتمھا بفعل ما ترکہ وسجد للسھو لبقاء حرمۃ الصلوۃ ۔ حاصل المسئلۃ انہ سلم ساھیا علی الرکعتین مثلا وھو فی مکانہ ولم یصرف وجھہ عن القبلۃ ولم یات بمناف عاد الی الصلوۃ من غیر تحریمۃ وبنی علی ما مضی واتم ما علیہ۔ )حاشیۃ الطحطاوی ص 473)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند